donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nadeem Siddiqui
Title :
   Shams Kanwal Ke Majale Gagan Ke Tareekhi Shumare Ki Ishaat Sani

 شمس کنول کے مجلے ’گگن ‘ کے تاریخی شمارے کی اشاعتِ ثانی


۳۹ برس بعد بھی ۴۰۰ صفحات کے

 ’ ہندستانی مسلمان نمبر ‘کے مشمولات تازہ ہیں


٭ ندیم صدیقی


 ممبئی کا وہ دَور اُردو کے حق میں کیا سنہرا زمانہ تھا جب یہاں سے ایک نہیں کئی باوقار قسم کے علمی و ادبی جریدے شائع ہوتے تھے۔ اُس دور میں اُردو کے جو صحافی تھے آج ان کا کہیں کوئی جواب نہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ گزرے ہوئے اکابر صحافیوں کی مالی حالت ناقابل بیان تھی۔
 آج کے ہمارے ہم پیشہ حضرات اپنے اسلاف کے مقابلے میں اچھی حالت میں ضرو رہےں مگر اُن کے علمی اور ادبی وقارسے عصر حاضر 
کے صحافیوں کا کوئی تقابل ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ ا فسوس اس موضوع پر کوئی قابلِ ذکر تحقیقی کام اب تک نہیں ہوا ، آج جس طرح کے لوگ تحقیق کے میدان میں آرہے ہیں ان سے اس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی ۔

 آج یہ باتیں ممبئی ہی کے ایک سینئر صحافی اور ادیب شمس کنول کے جریدے’ گگن‘ کا ’ہندستانی مسلمان نمبر‘ دیکھ کر ذہن میں آئیں۔ شمس کنول بہر لحاظ ایک ممتاز ہی نہیں حقیقی معنوں میں منفرد صحافی اور ادیب تھے وہ اپنے اُردو اِملے اور بعض دیگر نظریات کے سبب اُردو والوں میں’ اختلافی ‘ بھی تھے۔ 

 گگن، کے تعلق سے آج کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس جریدے کی بنیاد نواح ممبئی ،اُلہاس نگر میں رکھی گئی اور پھر کلیان اس کا مرکز بنا ۔ گگن ایک کلچرل میگزین تھا۔ شمس کنول کے بارے میں جب ہم سوچتے ہیں تو وہ اپنے فکر و عمل کے پس منظر میں اپنے زمانے ہی میں نہیں آج بھی ایک امتیازی درجے کے صحافی وادیب نظر آتے ہیں۔ گگن کے دو خاص شمارے اُردو زبان میںیادگار ہیں ایک تویہی ’ہندوستانی مسلمان نمبر‘ ہے اور دوسرا ’ مذاہب عالم نمبر۔
  ’گگن‘ کا ہندوستانی مسلمان نمبر‘ اسی ممبئی سے۱۹۷۵ءمیں شائع ہوا تھا۔ جو اپنے موضوع کے لحاظ سے بر وقت اور اچھوتا ثابت ہوا۔ 

     اس خاص نمبر کی اشاعت کو کوئی چالیس برس ہونے والے ہیں۔ آج ہماری صحافت بظاہر ترقی کے کئی مدارج طے کر چکی ہے ۔ کمپیوٹر ایج میں وہ، معیارِ علم اور اصول و نظریے کے علاوہ تمام نت نئے ذرائع ابلاغ میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے ۔مگر اس دور میں نہ تو معین الدین حارث اور نہ ہی مولانا حامد الانصاری غازی اور نہ عبدالحمید بوبیرے جیسے لوگ ہیں اور نہ ہی شمس کنول جیسے صاحبِ علم و ادب اور رُجحان ساز صحافی و ادیب۔

 ہمارا خیال ہے کہ اس دور کے لوگوں کو علم و نظر ہی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ایسے میں شمس کنول جیسے لوگ کل بھی اپنی مثال آپ تھے اور آج بھی وہ بلندی پر نظر آرہے ہیں۔

     ہمارے پیش نظر گگن کا جو ’ ہندستانی مسلمان نمبر‘ ہے، ہر چند کہ اپنی اشاعت ِ اول کے لحاظ سے۳۹ سال پرانا شمارہ ہے مگر اپنے موضوع اور اپنے متن کے حوالے سے آج بھی اتنا ہی تازہ ہے جتنا ۱۹۷۵ءمیں تھا۔ علم دوست اور قوم دوست طبقے میں اس کی طلب بھی ابھی پائی جاتی ہے ۔ ہمارے علم میں ہے کہ جن لوگوں کو اس نمبر کے بارے میں پتہ تھا وہ اسے تلاش کرتے پائے گئے مگر یہ نمبر کہیں دستیاب نہیں تھا۔ شمس کنول کے ایک مداح اور معنوی شاگرد اسیم کاویانی نے ’ ہندستانی مسلمان نمبر‘ کی اشاعتِ ثانی کا بیڑا اُٹھایا اور جدید اشاعتی تکنیک کو بروئے کار لاتے ہوئے اُنہوں نے یہ خاص نمبر اُردو والوں کے سامنے پیش کر دِیا۔ کمپیوٹرائزڈ کتابت اور فوٹو آفسیٹ کی ر وشن طباعت کے ساتھ یہ نمبر اشاعتِ اوّل کے مقابلے میں اب زیادہ دیدہ زیب ہو گیا ہے اور اس کا متن تو ہے ہی علم و ادب کی روشنی لئے ہوئے۔

     اِس نمبر میں اُس دور کے اکثر اہل ِ علم اپنے مضامین کے ساتھ یادگار بنے ہوئے ہیں بلکہ اپنے قلم کی روشنائی سے وہ آج بھی اس کے موضوع کو مجلاّکر رہے ہیں۔

     ہمیں یاد آتا ہے کہ اس نمبر سے ماضی میں اختلا ف بھی کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود اس نمبر کو اُس دَور کے اکثر باذوق اور علم دوستوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔ 

    ہم یہاں اُردو کے ایک ممتاز اہل ادب شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی یہ رائے پیش کرتے ہیں: ” ہندستانی مسلمان نمبر‘ پڑھنے کے بعد صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں اس دور میں آپ(شمس کنول) نے جو محنت کی، اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ واقعی یہ آپ ہی کی ہمت ہے کہ اتنے صفحات کا نمبر نکال ڈالا۔ میں نہیں جانتا کہ اس سے آپ کو کچھ مالی فائدہ ہوگا یا نہیں، لیکن اُردو رِسائل کی تاریخ میں آپ کا یہ کارنامہ ہمیشہ یادرکھے جانے کے قابل ضرور ہے۔دراصل یہ نمبر خود ایک تاریخ ہے۔“

 مولانا سعید احمد اکبر آبادی جیسے عالم نے تواس نمبر کو اپنے موضوع کا ایک انسائیکلو پیڈیا کہا تھا۔ ہم نے جب اس نمبر کو دیکھا تویہ بات بر حق محسوس ہوئی اور ہمارا خیال ہے کہ وقت جیسے جیسے گزرتا جائے گا اس کی قدر و قیمت دو چند ہوتی جائے گی۔

 اس نمبر میں لکھنے والوں کے چند نمایاںنام اس طرح ہیں، بلکہ یہی وہ لوگ ہیں جو اس کی قدروقیمت بھی متعین کرتے ہیں۔

 عامر عثمانی، (شیر کشمیر)شیخ محمد عبد اللہ، مولانا محمد مسلم، شمیم احمد شمیم، غلام محمود بنات والا، آلِ احمد سرور، ڈاکٹر ظ ا نصاری، گوپال متل، خواجہ حسن ثانی نظامی، خواجہ احمد عباس، ، انور علی دہلوی،شریفہ طیب جی،سعید احمد اکبر آبادی، نشتر خانقاہی، سی ایل کاوش، خلش جعفری، سید انیس الرحمان ،ڈاکٹر زرینہ ثانی، حسین شاہین، ڈاکٹر اسحاق جیمخانہ والا، ایم آر بیگ، ہاجرہ بیگم، اصغر علی انجینئر، شہاب الدین دسنوی، پروفیسر ڈبلیو سی اسمتھ،وِدیاپرکاش سَروَر تونسوی (مدیر: شان ہند۔ دہلی)،ڈاکٹر شانتی رنجن بھٹا چاریہ، بسنت کمار چٹر جی، ضیا ہانی، کرشن چندر،ڈاکٹر ایشور ٹوپیا (ترجمہ: اسیم کاویانی) کے علاوہ بھی ایک خاصی تعداد ایسے اہل قلم و دانشوروں کی بھی ہے کہ جن کے نام سے ہماری نئی نسل نا واقف ہو گی۔

 نئے لوگوں میں شاید گنتی کے وہ لوگ ہونگے جو کشمیر کے مشہور زمانہ صحافی اور ممتاز لیڈرشمیم احمد شمیم کے بارے میں جانتے ہوں، جو ممبر آف پارلی منٹ بھی تھے اور ’آئینہ‘ جیسے اخبار کے مدیر بھی۔ ہندستانی مسلمانوں کے حوالے سے اس نمبر میںمرحوم کا ایک انٹر وِیو بڑا وقیع ہے جس میں اُنہوں نے تین دہے قبل کہاتھا کہ ” کئی سر سیدوں کی ضرورت ہے۔“

     یہی شمیم احمد شمیم ’تقسیم ملک کے ما بعد اثرات‘ کے زیرِ عنوان اپنے مضمون کو یوں تمام کر رہے ہیں:”ہندستان کی سیاسی قیادت، اقتصادی محاذ پر اس ملک سے بھوک، غربت، افلاس اور لاچاری مٹانے میں کامیاب نہیں ہوئی تو۵۵کروڑ ہندوو ¿ں کے ساتھ چھ سات کروڑ مسلمان بھی ڈوب جائیں گے، اسی لئے ہندستانی مسلمانوں کا مستقبل گہرے طور پر اس ملک کے مستقبل سے وابستہ ہے انھیں کیا کرنا چاہئے،یہ مَیں نہیں کہہ سکتا،لیکن اُنھیں کیا نہیں کرنا چاہئے یہ مَیں کہہ سکتا ہوں کہ اُنھیں کسی قیمت پر بھی کسی مسلم فرقہ پرست جماعت کا آلہ ¿ کار نہیں بننا چاہئے۔ ہندستانی مسلمانوں کےلئے فرقہ پرست سیاست خود کشی کے مترادف ہے اور اسلام میں خود کشی گناہ عظیم ہے۔“

     اب ہم اس کا بھی ذکر کر دیں کہ اس نمبر میں بعض مشمولات کڑوی دوا کے مصداق ہیں اور دوا،دواہی ہوتی ہے، کلّو حلوائی کی مٹھائی 

نہیں۔ حقیقتوں کو نہ ماننے سے حقیقتیںبدلتی نہیںہیں، جیسے بیماری کو تسلیم نہ کرنے والے آخر موت کی سچائی کو قبول کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہم یہاں صرف اِتنا کہنا چاہتے ہیں کہ کسی حقیقت کو فوراً ہر گز نہ قبول کیجئے مگر اُس پر غورو فکر ضرور کیجئے، کیونکہ غور وفکر کرنے والے ہی صداقت کو پاتے ہیں۔ البتہ اختلاف و اتفاق کا حق اپنی جگہ باقی ہے۔

 اسی نمبر میں عزیز الرحمان جامعی لدھیانوی کا مرتب کردہ’مسلمانانِ ہند کی۳۶۲ سالہ قربانیوں کا تاریخی جائزہ‘ بھی ریکارڈ بنا ہوا ہے۔

اسی نمبرسے ہماری نئی نسل کو یہ بھی پتہ چلے گا کہ مسلمانانِ ہند کے محسن سرسید احمد خاں کا جب انتقال ہوا تو ان کی تدفین کےلئے روپیہ نہیں تھا تو نواب محسن الملک نے یہ کہہ کر پچاس روپے دِیے تھے: 

”یہ سید صاحب کا آخری چندہ ہے، پھر کب چندہ مانگنے آویں گے۔ “

 اسی نمبر میں آپ سرسید کا باعثِ عبرت اور افسوسناک یہ جملہ بھی پڑھیں گے:

 ” ہائے افسوس ہم کو کیا معلوم تھا کہ سید محمود(سرسید کے فرزند) آخر عمر میں ہم کو گھر سے نکال دیں گے، ورنہ کیا ہم اس قابل نہ تھے کہ اپنے لئے ایک جھونپڑا بنالیتے۔“

 ۴۰۰ صفحات کے اس نمبر کا آخری حصہ معلومات کا ایک مخزن ہے جس میں اخبارات، مسلم ممالک، اُردو کے ۸۰۰ برس، مسلم قیادت،بزرگانِ قوم کے علاوہ بعض سوال و جواب کے پیرائے میں تاریخ کے اہم دَر کھول دِیے گئے ہیں اور یہ سب تنِ تنہا مدیر گگن شمس کنول ہی کے قلم نے کیا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ شمس کنول اپنے زمانے میں فلم کے ایک غیر معمولی مبصر کے طور پر بھی مشہور تھے۔ کئی فلموں پراُن کے تبصرے لوگوں کو یادہیں، اس نمبر میں مشہورِ زمانہ فلم ’ گرم ہوا‘ پر ان کا تبصرہ بھی اس کی رونق میں اضافہ ہے۔ اسیم کاویانی جو اس سے پہلے ’ گگن‘ کے جملہ شماروں کا دو جِلدوں میں ایک جامع اِنتخاب اُردو دُنیا کو دے چکے ہیں اب ان کی یہ کاوش بھی موصوف کی جرا ¿ت رندانہ اور اُردو زبان و ادب سے محبت کی ایک مثال بنی ہوئی ہے،جس کےلئے وہ بہر لحاظ قابلِ مبارکباد ہیں۔ 

 اس نمبر کے عوامی ایڈیشن کی قیمت پانچ سو روپے درج ہے مگر شمس کنول نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ اسی شہر میں گزارا تھا نیز اُنھیں اس شہر سے ایک نسبتِ خاص بھی تھی اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کاویانی نے ممبئی عظمیٰ کے عام اُردو والوں کو اسے صرف تین سو روپے میں دینے کا اعلان کیا ہے ۔(تفصیلات فون پر معلوم کی جاسکتی ہیں) ظاہرہے کہ کاویانی پبلشرز کا مقصد تجارت نہیں بلکہ اس نمبر کو بآسانی اہلِ ذوق تک پہنچانا ہے۔ اُمید ہے کہ ’ہندستانی مسلمان نمبر‘ اُردو والے ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ واضح رہے کہ بعض معاملات میں عجلت وقت کا تقاضا ہوتی ہے تاخیر سے پہنچنے والے ممکن ہے کہ مایوس ہوں۔٭


پتہ: کاویانی پبلیشرز،فلیٹ نمبر۷۰۲،
کیتن اپارٹمنٹ،بیلویڈر روڈ، مجگاو ¿ں، ممبئی۔۱۰
 رابطہ:09322154702


*******************

Comments


Login

You are Visitor Number : 546