donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Alimullah Hali
Title :
   Iftekhar Raghib : Meri Nazar Me


 

افتخار راغبؔ:  میری نظر میں

 

 پروفیسر علیم اللہ حالیؔ

 

    ’لفظوں میں احساس‘  اور ’خیال چہرہ‘ کے بعد اب افتخار راغبؔ کا تیسرا شعری مجموعہ ’غزل درخت‘ آیا ہے۔ اس کے ذریعہ فن کار کی وسیع تر اور بہتر شناخت قائم ہوتی ہے۔غزلوں کے اس مجموعے کے ابتدائی صفحات پر کلیم احمد عاجزؔ ، پروفیسر احمد سجّاد ، ڈاکٹر فیصل حنیف اور ڈاکٹر مولا بخش کی توصیفی تحریریں مطالعے پر اکساتی ہیں۔ ان تمام اربابِ نقد و نظر نے افتخار راغبؔ کی غزلوں کے محاسن کو اپنے اپنے طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی کوششیں کی ہیں اور اس میں شک نہیں کہ ان تحریروں سے اس خوش گو شاعر کے کئی امتیازی اوصاف سامنے آ جاتے ہیں ۔ در اصل غزل کے اچھے اشعار ہشت پہل خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں ، یہاں ’’صد جلوہ روبرو ہے جو مژگاں اٹھا ئیے‘‘ والی بات  ہوتی ہے ۔ ہر ذہین قاری اشعار کو اپنے زاویۂ نظر سے دیکھتا ہے اور اچھا شعر قرأت کی جتنی جہتوں سے گزرتا ہے اس میں اسی قدر معنوی تہیں نمودار ہوتی ہیں ۔
    افتخار راغبؔ کے لہجے کی سادگی سب سے پہلے ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اکثر شعرا اپنی تخلیقی کمزوری کو چھپانے کے لیے خوب صورت تراکیب اور صناعانہ حربوں کا استعمال کرتے ہیں ، راغبؔ کی شاعری اپنی فطری سادگی کے ساتھ ہمارے سامنے آتی ہے ۔ لیکن اس سلیس اور سادہ اندازِ اظہار میں جوہرِ سخن کچھ اس طرح چمک پیدا کر دیتا ہے کہ قاری چونک جاتا ہے ، ان کے یہاں لفظوں کے استعمال میں کفایت شعاری بھی ہے، کم سے کم لفظوں میں نہایت غیر صناعانہ انداز میں افتخار راغبؔ سہل ممتنع کی خصوصیت پیدا کر دیتے ہیں۔


    افتخار راغبؔغزل کی اس فنّی خصوصیت سے آشنا ہیں جس کے ذریعہ کائنات کو اپنی ذات کی کیفیات میں سمیٹا جاتا ہے ۔ غزل فن کار کی اپنی ذات سے کبھی الگ نہیں ہوتی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ سماجی ، خارجی اور اجتماعی سروکار کی ترجمان بھی ہوتی ہے ۔ یہاں فن کار کا ارتکاز اور استغراق خارجی وقوعوں کا استعارہ بن جاتا ہے۔ راغبؔ کو اس امر کا احساس ہے ۔ ایک جگہ کہتے ہیں   ؎

اُن کے بھی فسانے میں کردار مرا روشن
گم گشتہ نہیں ہوں میں اپنی ہی کہانی میں
ان کا سیاسی شعور یہ واضح کرتا ہے کہ
جو سچ پوچھو تو ساری تیسری دنیا کی سرکاریں
کسی کے ہاتھ کی کٹھ پتلیاں معلوم ہوتی ہیں

    افتخار راغبؔ ایک باشعور فن کار کی طرح عالمی سطح پر ہونے والے واقعات و واردات سے واقف ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ بعض بڑی طاقتیں کمزور جماعتوں کو نقصان پہچانے کی درپے ہیں اور اس طرح امن عالم میں مسلسل خلل پیدا کر رہی ہیں۔ راغبؔ کے اشعار میں یہ محسوسات تمام تر فنّی جمالیات کے ساتھ موجود ہیں ‘ کہتے ہیں   ؎

ہمارے ہاتھوں وہ ہم کو تباہ کرتے ہیں
یہ اور بات کہ اس کی ہمیں خبر بھی نہیں

فسطائی طاقتوں کے خلاف ان کے توانا احتجاج کا ایک نمونہ دیکھیے   ؎

وہ کہتے ہیں کہ ہم ہیں دشمنانِ امن کے دشمن
میں کہتا ہوں کہ ان کے ہاتھ میں شمشیر کس کی ہے

راغبؔ کے فکر و نظر کا کینوس خاصہ وسیع ہے ۔ عہدِ حاضر کی تہذیبی بے راہ روی ، انتظامیہ کی نا اہلی ، اقتدار کا جبر ، تخریب پسندوں کی گروہ سازی ، ماحولیات ، ہجرت ، گلوبل وارمنگ ، طاقتوں کا عدم توازن ، غربت اور ناداری ، استحصال ، فکری انتشار ، حکمت عملی کا فقدان ، انسانی اقدار کا انحطاط … یہ اور اس طرح کے متعدد مسائل و موضوعات افتخار راغبؔ کے فن میں منفرد تخلیقی تیور کے ساتھ ہمارے لیے آگہی اور فرح مندی کا وسیلہ بنتے ہیں ۔ ان تمام موقعوں پر کہیں بھی راغبؔ کے ہاتھوں سے شعری جمالیات کا دامن ہاتھوں سے نہیں چھوٹتا ۔ ان اشعار پر غور کیجیے   ؎

اس لفافے میں بند ہوں راغبؔ
جس پہ نام اور پتہ نہیں موجود
لے جائے جہاں چاہے ہوا ہم کو اُڑا کر
ٹوٹے ہوئے پتّوں کی حکایت ہی الگ ہے

( بیرونِ ملک بے نام و نشان مہاجرت کا احساس)

کیا خوب ہر طرف ہے ترقّی کی دھوم دھام
کشکول تھامے ملک ہے کاسہ بدست لوگ

(ترقیِ معکوس کا منظر نامہ)

کیا حشر اس زمین کا ہوگا نہ پوچھیے
بڑھتی رہی جو یوں ہی تمازت زمین کی

(گلوبل وارمنگ کا خوف)

یک جا تھے سارے فہم و فراست میں پست لوگ
قبلہ بنے ہوئے تھے قبیلہ پرست لوگ

(ذات پات گروہ بندی اور فرقہ پرستی کی ذہنیت)

بڑھ رہا ہے مستقل قحطِ شجر
زہر آلودہ فضا ہے مستقل

آب و ہوا کی آنکھوں میں کیوں اشک آ گئے
شاید کوئی درخت ہرا کاٹنے لگا

(ماحولیات کا احساس)

    افتخار راغبؔ کی شاعری ان کے اپنے مزاج اور طرزِ فکر کی عکاس ہے۔ ان کے کلام میں خاکساری ، بے ریائی ، سادگی ، استغنا ، درویشانہ بے نیازی اور سرمستی کے موضوعات و محسوسات کثرت سے ملتے ہیں ۔ ان موضوعات کے اظہار میں بھی ان کی فن کارانہ ہنر مندی انھیں ممتاز بناتی ہے    ؎

زمین دوز ہوئے کتنے آسمان وجود
ترے غرور کا سورج بھی لازوال نہیں
نہ فرق پائو گے کچھ میری خاکساری میں
زمین بن کے ملو تم کہ آسماں بن کر

کیا پتا عظمتِ انکسار
خود نمائو تمھیں کیا پتا

    افتخار راغبؔ کا ڈکشن بہت سے نوجوانوں اور ہم عصر شعرا سے مختلف اور ممتاز ہے ۔ وہ اپنے قاری کو الفاظ و تراکیب کے خوش رنگ کھلونوں سے بہلاتے نہیں ، اظہار میں اختصار سے کام لیتے ہیں ، کہیں کہیں غزل کے اشعار میں مکالماتی رنگ پیدا کر لیتے ہیں ، مشکل سے مشکل ردیفوں کو خبر و شعر بنا لیتے ہیں، کہیں غزل مسلسل نظم کا روپ دھارتی نظر آتی ہے ، عام طور پر سادہ شعر دوہری معنویت کا حامل ہو جاتا ہے ، بالکل نئے TEXTURE   سے معنی و مفہوم کی نیرنگی پیدا کر لیتے ہیں ۔ مندرجہ ذیل اشعار سے افتخار راغبؔ کے لہجے کی انفرادیت آشکار ہوتی ہے   ؎

کسے ہے خواہشِ آسودگی محبت میں
نواز کر مجھے جینا مرا محال تو کر
وجہِ بے خوابی بتا کر مجھ کو
نیند میری بھی اُڑا دی اُس نے
تیری خوش بو مرے شعروں میں بسا کرتی ہے
شاعری قرض محبت کا ادا کرتی ہے

    موجودہ تخلیقی منظر نامے میں افتخار راغبؔ کا یہ لہجہ جس طرح ’ لفظوں میں احساس ‘ اور ’ خیال چہرہ ‘ سے ہوتے ہوئے ’ غزل درخت ‘ تک پہنچا ہے اس کی بنیاد پر بلا شبہ زیادہ روشن امکانات کی توقع کی جا سکتی ہے۔

****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 691