donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Razia Kazmi
Title :
   Brij Narain Chakbast


 

  برج نرائن چکبست

 


رضیہ کاظمی

نو جرسی، امریکہ

 

    چکبست اردوشاعری کے اس دور کی پیداوار ہیں جب پرانےبتوں کو توڑ کر نۓ دور کا سنگ بنیاد ڈالا جارہا تھا ۱۸۵۷ کے ناکام انقلاب اور ملک میں انگریزوں کے زبردست بڑھتے ہوۓ اقتدار کے احساس کی وقتی ضرورت نے ادب کی دنیا میں ایک زبردست انقلاب پیدا کرنا شروع کردیا تھا. غالب کے اس شعر:

بقدر شوق نہیں ظرف تنگناۓ غزل
کچھ اور چاہیۓ وسعت مرے بیاں کے لیۓ

      کی تشریح اب عملی طور پر کی جانے لگی تھی . حالی اور آزاد کی ملی جلی کوششوں نے ایک ایسی صنف شاعری کی داغ بیل ڈال دی تھی جس میں خیالات جامعیت کے ساتھ ادا ہوسکیں . اس صنف سخن یعنی نظم کے باقاعدہ ادب میں آتے ہی انتہا پسندوں نےتو غزل سے اظہار بیزاری ہی شروع کردیا. لیکن اسی درمیان شاعروں کا ایک ایسا گروہ بھی وجود میں آگیا جو غزل سے ہی نظم کا کام لینے لگا. چکبست کا شمار بھی اسی دوسرے گروہ میں کیا جاسکتا ہے. جہاں مسلسل واقعات بیان کرنے ہوۓ وہاں انھوں نے نظم کو آلۂ کار بنایا اور جس جگہ اشاروں کی ضرورت محسوس ہوئ گل و بلبل، صیّاد و آشیاں اور قفس و چمن کے پردوں میں ماحول کی جبریت کو بے نقاب کیاہے. بلبل ، قفس،جمن ،باغ ، باغباں،گلچیں ، صیّاد،زنداں صحراآور زنجیر کے اشارے ان یہاں تاثپر ہیں ان کی شاعری ایک مخصوص محور پر گھومتی رہتی ہے اور وہ ہےحب قوم ووطن .  چکبست خاص طور سےنظم کے شاعرہیں . ان کا ایک خاص نصب العین ہےاور وہ ہےملک و قوم کی اصلاح جسکی کار فرمائ اکثر ان کی غزلوں میں بھی نظر آتی ہے.


      کچھ ناقدین کا ان کی شاعری پر یہ اعتراض ہے کہ غزل کہنا تو وہ جانتے ہی نہیں تھےاور ان کی شاعری میں تغزّل کی کمی ہے. یہ سچ ہے کہ ان کی غزلوں میں ہجرمحبوب ميں سوکھ کر تنکا ہوجانے اور باوجود تلاش بسیار کے بستر پر نظر نہ آنے والی کیفیت کہیں نظر نہ آۓ گی اس لیۓ ان خیالات کے ڈھونڈنے والےحضرات کے ذوق کی تسکین بھلا چکبست کی شاعری سے کیسے ممکن ہو سکتی ہے. ان کا محبوب ملک وقوم اور انکا وصال آزادی و اصلاح ہے. جس کا سکون قلب ملک وقوم کے سکون کے ساتھ وابستہ ہواسے خیالی محبوب اپنی طرف کیا لبھا سکتے ہیں:

انتشارقوم سے جاتی رہی تسکین قلب
 نیند رخصت ہوگئ خواب پریشاں دیکھکر


قوم کا غم مول لےکر دل کا یہ عالم ہوا
یاد بھی آتی نہیں اپنی پریشانی مجھے

      چکبست کواپنے ملک وقوم سے والہانہ لگاؤ تھا. انھوں نے جو بھی کہا اس میں نہ تو انعام و صلہ کی تمنّا تھی اورنہ شہرت وناموری کی خواہش :

  منزل عیش مجھے گوشۂ گمنامی ہے
دل وہ یوسف ہے کہ جسکا کہ خریدار نہیں

  چکبست کی شاعری کا پس منظربیسویں صدی شروع کی دو دہائیوں کی سیاسی شورشیں ہیں . کانگریس نئ آرزؤں اور امنگوں کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی . فدائیان ملک اس کے لیڈرتھے. ان کا حب قومی ان سےجیل کی سختیاں برداشت کرواتا رہامگریہ برابراپنے حقوق کے لیۓ برابر لڑتے رہے.اسوقت کے اکثرکانگریسی انگریزوں دشمن نہیں بلکہ ان کے شاکی تھے آنھیں ملک سے باہرنکالنے کے خواہاں نہیں تھے لیکن ان سے کچھ رعایتوں کے خواہاں ضرور تھے. دوسری قسم کے لوگ تھے جو ان سے ذرا بھی ہمدردی کے خواستگارنہیں تھے. اس طرح دو پارٹیاں ظہور میں آگئ تھیں ایک انتہا پسند اور دوسری اعتدال پسند۰ چکبست اسی دوسرے گروہ سے تعلّق رکھتے تھے.وہ انگریزوں کے نہیں ان کے طرز حکومت کے خلاف تھے. ہوم رول بھی چاہتے تھےاور برطانیہ کا سایہ بھی برقرار رکھنا چاہتے تھے:


برطانیہ کاسایہ سر پر قبول ہوگا
  ہم ہونگے عیش ہوگا اورہوم رول ہوگا

    دبی زبان سےمصلحت کوشانہ انداز میں مطالبہ بھی کرتےہیں :

چاہیۓ مجھ کو چہکنے کےلیۓ شاخ مری
کون کہتا ہے کہ گلشن میں نہ صیّادرہے

  ان کو یہ بھی احساس ہے کہ:

زباں ہے بند قلم کو پنہائ ہے زنجیر

    لیکن وہ اس کے ذمّہ دار ہندوستان کے انگریز حکّام کو ٹھیراتے ہیں. ایک نظم آوازۂ قوم میں فرماتے ہیں :

جواپنے حال پہ یہ بیکسی برستی ہے    
یہ نائبان حکومت کی خود پرستی ہے
  یہاں سے دور جو برطانیہ کی بستی ہے    
وہاں سنا ہے محبّت کی جنس سستی ہے
جو اس پہ حال وطن آشکار ہوجاۓ
یہ دیکھتے رہیں بیڑا ہی پار ہوجاۓ

            بیسویں صدی کی دوسری دہائ کا زمانہ تھا. ہندوستان کی طرح آئرلینڈ بھی انگریزوں کا غلام تھا اور وہاں بھی آزادی کی جد وجہد چل رہی تھی . وہاں سے مسز اینی بسنٹ آزادی کے مچلتے ہوۓ حوصلے لۓ ہوۓ ہندوستان آئیں اورباقاعدہ یہاں کی تحریکوں میں شریک ہونے لگیں۱۹۱۷ میں حکومت نےانھیں نظر بند کر دیا. اس کی وجہ سےشورشوں میں اضافہ ہونے لگا . چکبست نے اس موقع پر ایک نظم کہی جس سے اس زمانہ کی قومی ہلچل کا حال ظاہر ہوتا ہے:


قوم غافل نہیں ماتا تری غمخواری سے        
زلزلہ ملک میں ہے تیری گرفتاری سے
آگ برڑکی ہے ترے آہ کی چنگاری سے        
خاک حاصل نہ ہوا تیری دل آزاری سے
  دل ترا قوم کے دامن میں دیۓ جاتے ہیں
ہڈّیوں کو تی زنداں میں لیۓ جاتے ہیں


  گو وہ ایک بوڑھی عورت کی فرض شناسی اور ہمّت دیکھ کر جوش میں بھر جاتے ہیں لیکن نہ تووہ جوش ک طرح انقلاب کے نعرے لگاتے ہیں اور نہ حسرت کی طرح چکّی کی مشقّت ہی اٹھاتے ہیں . ہاں وہ ہنگامی تحریکوں کے  لیۓ روح کا کام کر رہے تھے.وہ باقاعدہ طور پر کسی پارٹی سے منسلک نہیں تھے لیکن انکا ایک علاحدہ فرض تھا اور وہ تھا قوم کو کبھی پھسلاکر،کبھی اسلاف کے کانامے بیان کرکے، کبھی طنز کے دفتر کھول کے، کبھی ہونے والےواقعات کو دہراکراور کبھی وطن کی عظمت کا احساس دلاکرآزادی کے لۓ نئ امنگ اور نیا جوش دینا.


  افریقہ میں کالے گوروں کی تفریق شدت سے سر اٹھا رہی تھی. وہاں ہندوستانی باشندے بہت ہی ذلّت آمیز زندگی گزار رہے تھے. جب ۱۹۱۴ میں گاندھی جی ان کی پیروی کے لیۓ گۓ تو چکبست نے ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا„بخدمت فداۓ قوم مسٹر کرم چند گاندھی “ گاندھی جی سے ان کا تخاطب ہے:

نثار ہے دل شاعرترے قرینے پر
کیا ہے نام ترا نقش اس نگینے پر

        ہندوستانی ستم رسیدوں کی حالت اس طرح دکھاتے ہیں:

لٹے ہیں یوں کہ کسی کی گرہ میں دام نہیں
نصیب رات کو پڑ رہنے کا مقام نہیں
یتیم بچّوں کے کھانے کا انتظام نہیں
جو صبح خیر سے گزری امید شام نہیں
 اگر جیۓ بھی تو کپڑا نہیں بدن کے لیۓ
  مرے تو لاش پڑی رہ گئ کفن کےلیۓ

    آگے چل کر کہتےہیں:

جو چپ رہیں تو ہوا قوم کی بگڑتی ہے
جو سر اٹھا ئیں تو کوڑوں کی مار پڑتی ہے

  انتہاۓ اعتدال پسندی ہے کہ ان حالات میں بھی حکّام کی شکایت کے بجاۓ ہندوستان کے باشندوں کو ان کی امداد کے لیۓ غیرت دلا تے ہیں :

اگر نہ قوم کے اس وقت بھی تم آۓ کام
نصیب ہوگا نہ مرنے پہ بھی تمہیں آرام
یہی کہے گا زمانہ کہ تھا براۓ نام
وہ دھرم ہندوؤں کا وہ حمیّت اسلام
ذرا اثر نہ ہوا قوم کے حبیبوں پر
وطن سے دور چھری چل گئ غریبوں پر

        پہلی جنگ عظیم میں ہندوستان کی فوجیں بھی انگریزوں کی طرف سےقیصر جر منی کو شکست دینے کے لیۓ روانہ کی گئ تھیں .اس طرح ہندوستانیوں کا جنگ میں بھیجا جانا انتہا پسندوں کے خیال میں ان پر جبر تھا لیکن اعتدال پسندوں کو اس کے صلہ میں حکومت برطانیہ سے مراعات کی توقّع تھی. اس موقع پر چکبست نے ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا„قوم کے سورماؤں کو الوداع“ . کہتے ہیں:

  ہاں دلیران وطن دھاک بٹھاکر آنا
  طنطنہ جرمن خود بیں کا مٹا کر آنا
  قیصری تخت کی بنیاد ہلاکر آنا
  ندّیاں خون کی برلن میں بہاکرآنا
یہی گنگا ہےپاہی کے نہانے کے لیۓ
ناؤ تلوار کی ہے پار لگانے کے لیۓ

      نظموں کے علاوہ ان کی غزلوں میں بھی ان نعروں کی آواز سنائ دیتی ہے جو اس وقت کے ماحول میں گونج رہے تھے. اگرچہ انکا پورا کلام انھیں خیالات کا مرقّع ہے مگر مضمون کی طوالت کے خوف سےچند اشعارپر اکتفا کی جاتی ہے :

  کچھ ایسا پاس غیرت اٹھ گیا اس عہد پرفن میں
  کہ زیور ہو گیا طوق غلامی اپنی گردن میں

یہ انقلاب ہوا عالم اسیری میں  

قفس میں رہ کے ہم اپنی صدا کو بھول گیۓ
یہ بے کسی بھی عجب بیکسی ہے دنیا میں

کوئ ستاۓ ہمیں ہم ستا نہیں سکتے

جذبۂ قوم سے غافل نہ ہو سوداۓ شباب
وہ جوانی ہے جو اس شوق میں برباد رہے

یاد رہ جاۓ گا ارمان اسیری میرا  
میں نے اس باغ میں صیّا د کو صیّاد کیا

  بشر کادل وہ نہیں سنگ و خشت ہےلاریب 
کہ جس میں درد محبّت نہ ہو وطن کے لیۓ

    شاد ہیں ناشاد ہیں یا خانماں برباد ہیں 
ہم سےاچّھےہیں کہ یہ وحش وطیورآزاد ہیں

  رہتی ہیں امنگیں کہیں زنجیر کی پابند
ہم قید ہیں زنداں میں بیاباں ہیں نظر میں

  زباں کو بند کریں یا مجھے اسیر کریں 
مرے خیال کو بیڑی پنہا نہیں سکتے

        تاریخ گواہ ہے کہ انگریزی حکومت سے آزادی حاصل ہندو ومسلمان دونوں ہی بنا تفریق دین دونوں ہی کوشاں تھے۔ چکبست کی زبانی سنیۓ :

  پرانی کاوشیں دیر و حرم کی مٹتی جاتی ہیں
 نئ تہذیب کے جھگڑے ہیں اب شیخ و برہمن میں

  نفاق گبر ومسلماں کا یوں مٹا آخر
یہ بت کو بھول گیۓ وہ خدا کو بھول گیۓ

    چکبست نہ توتنگ نظر تھے اور نہ متعصّب وہ مللک کی دونوں بڑی قوموں کو ایک نظر سے دیکھتے تھےاور ملک کی آزادی کے حصول کے لیۓ دونوں کو یکساں کوشاں دیکھنا چاہتے تھے . ابتدا میں جب ان کے خیا لات میں بالغ النظری نہیں آئ تھی اس وقت وہ صرف اپنے کشمیری قوم کےترقّی و اصلاح کی ہی باتیں کرتے رہے۰ان کی نظموں میں شروع ہی سے یہ اصلاحی انداز جلوہ گر ہے۰ اپنے قوم کی بے راہ روی پر ان کا دل بہت کڑھتا ہےان کی ایک نظم „ مرقّع عبرت“ کا ایک حصّہ „نوجوانوں کی حالت“ ان خیالات سے پر ہے۔ زر پرستی کی لعنت کو انھوں نے نظم „ دولت“میں واضح کیا ہے. ان کی نظر میں انمول دولت خلق و مروت، رحم دلی، بنی نوع انسان سےہمدردی اور کبر و غرور سےبعد ہے:

دولت وہ ہے مجبوروں کی جو عقدہ شا ہو
اکسیر ہو درد دل بے کس کی دوا ہو

 آئینۂ اخلاق و مروّت کی جلا ہو.......

 ظلمات ہلا کت کے لیۓ آب بقا ہو
 یوں فیض کے چشمے ہوں رواں باغ وطن میں

  جیسے کرم ابر گہر بار چمن میں...............
      آگے چل کر کہتے ہیں:

  زر آپ نہیں دشمن اخلاق و ادب ہے

جوحد سے گزر جاۓ یہ وہ اس کی طلب ہے


    چکبست نے آنکھیں کھولیں تو قوم کو مغرب کی نقّالی میں سرگرم عمل دیکھا. وہ اکبر کی طرح تنگ نظر نہ تھے کہ انھیں انگریزوں کی کوئ خوبی ہی نہ دکھائ دے وہ انکے اوصاف باطنی کے قائل تھے ۰ اپنے ہم قوم کو جب وہ صرف انکے ظاہری اوصاف کی نقّالی کرتے دیکھتے ہیں تو ایک نظم , آزادی و اصلاح، میں فرماتے ہیں:

  آزادی واصلاح کے جب آتے ہیں اذکار
  تقلید ہو یورپ کی یہی رہتی ہے گفتار
  موجود مگران میں وہ جوہر نہیں زنہار
  مغرب میں جوتہذیب و ترقّی کےہیں اسرار
وہ حب وطن خون میں شامل نہیں رکھتے
گو ولولے رکھتے ہیں مگر دل نہیں رکھتے

    دنیا کے سب ہی مذاہب اخلاقیات کادرس دیتےہیں مگر پیروکاران مذہب ان مذہبی اصولوں کو توڑ مروڑ کر اپنے حسب حال بنا لیتے ہیں . چکبست نمود و نمائش سے پر اور اخلاق سے بعید مذہب کو نہیں سراہتے:

  مذہب بجز اخلاق رواں ہونہیں سکتا
معنی سے کبھی لفظ جدا ہونہیں سکتا

    انکی مذہب سے یہ بیزاری اشتراکی خیالات کی وجہ سے نہیں جسے ہم جنگ عظیم سے بعد کے ناولوں، افسانوں اور نظموں میں باقاعدہ رجحان کی شکل میں دیکھتے ہیں بلکہ مذہب کی آڑ میں عقیدت مندوں کی آنکھ میں دھول جھونکنے والوں کے سبب ہے ۰ انھوں نے ان رنگے سیاروں کا خوب کچّا چٹّھا کھولا ہے :

  عالم کے دکھانے کے لیۓ خاک نشیں ہیں 
دعوی' ہے کہ ہم مالک فردوس بریں ہیں
    دنیا کی ترقّی پہ سدا چیں بجبیں ہیں
گویا کہ یہی راز ال'ہی کے مبیں ہیں
جو اور ہیں وہ معرفت حق سے جداہیں
بس ایک یہی بندۂ مقبول خدا ہیں......
    انساں کی محبّت کو سمجھتے ہیں یہ آزار
ہمدردئ قومی سے انھیں آۓ نہ کیوں عار
    رہتے ہیں سدا فکر میں عقبی' کی گرفتار  
دنیا کے فرائض سے نہیں اک کو سرو کار
یوں جادۂ تسلیم و رضا مل نہیں سکتا.....
ان میں وہ خودی ہے کہ خدا مل نہیں سکتا

    صبح وطن کے دوسرے حصّہ میں زیادہ تر اصلاحی نظمیں ہیں.

, پھول مالا، میں لڑکیوں سے مخاطب ہیں :

  روش عام پہ مردوں کے نہ جانا ہرگز
  داغ تعلیم میں اپنی نہ لگانا ہرگز
  اپنے بچوں کی خبر قوم کے مردوں کو نہیں
  یہ ہیں معصوم انھیں تم نہ بھلانا ہر گز

  آب انگور، میں قوم کے مردوں کو شراب کی برائیاں بتاکر انھیں اس سے دور رہنے کی نصیحت کرتے ہیں.

  بس اس کی ہجو کا یارا نہیں سخن کے لیۓ
  جگر کو نیش ہے یہ نوش ہےدہن کے لیۓ
    مضر ہے اس کی ہوس حفظ جان وتن کے لیۓ
    خزاں ہے اس کی ہوا دین کے چمن کے لیۓ
  چمن وہ کون کی گراک کلی بھی جھڑ جاۓ
بہار گلشن ایماں پہ اوس پڑ جاۓ۰۰۰۰۰۰۰

      نظم , درد دل، میں قم کو اپنی حالت کا احساس دلا کر ان پر طنز کرتےہیں :

    ان کو تہذیب سےیورپ کے نہیں کچھ سروکار
    ظاہری شان و نمائش پہ د وجاں ہے نثار
    ہیں وہ سینے میں کہاں غیرت قومی کے شرار
    جن سے مغرب میں ہوۓ خاک کےپتلے بیدار
 سیر یورپ سے یہ اخلاق ادب سیکھا ہے
ناچنا سیکھا ہے اور لہو لعب سیکھا ہے

    لیکن انھیں سر سید اور مدن موہن مالویہ کی طرح ان برائیوں کا سدّباب تعلیم ہی میں نظر آرہا تھا . اس خیال کا اظہار انھوں نےاپنی نظم , قومی مسدّس میں کیا ہے:

  گھٹائیں جہل کی چھائ ہوئ ہیں تیرہ وتار
یہ آرزو ہے کہ تعلیم سے ہو بیڑا پار
مگر جو خواب سے اب بھی نہ تم ہوۓبیدا
تو جان لو کہ ہے ا س قوم کی چتا تیّار
  مٹے گا دین بھی اور آبرو بھی جاۓ گی
تمہارے نام سے دنیا کو شرم آۓگی


    ورڈس ورتھ نے جب فرانس کےانقلاب کے بعد لیڈروں کی ریا کاری و عیّاری دیکھی تو اس کا دل دنیا والون سے بری طرح پھر گیا. اسے فطرت انسان دوست معلوم ہوئ. اس کی شاعری نیچر کے لیۓ وقف ہوگئ اور اسے اس سے بہت سکون ملا. چکبست بھی قوم کی زبوں حالی کا مرثیہ کہتے کہتے جب تھک جاتے ہیں تو ,کشمیر، اور „دہرہ دون“ کے مناظر میں سکون تلاش کرتے ہیں  . ورڈس ورتھ ہی کی طرح ان کی فطی شاعری میں بھی درخت ، پہاڑ،پرندے ، ہوا ، بارش اور آبشارسب انسان سے ہم آہنگ دکھائ دیتے ہیں. ان سب میں ایک ہی ہستی جلوہ گر ہےاور سب ایک ہی جیسے عناصرسے مرتّب ہوتے ہیں. کہتے ہیں:

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب    
موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشاں ہونا
    سیر دہرہ دون کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
  درخت و کوہ ہیں کیا ذات پاک انساں کیا
  طیور کیا ہیں ہوا کیا ہےابر و باراں کیا
  یہ موج ہستئ بیدار کے عناصر ہیں
سب ایک قافلۂ شوق کے مناظر ہیں
  یہ دل کےٹکڑے ہیں قدرت کےکوئ غیرنہیں
  سب ایک گود کے پالے ہیں ا ن میں بیرنہیں
  جدا کسی سے بھی ہستی کا اپنے راز نہیں
  کچھ آبشار میں اور ہم میں امتیاز نہیں
  ہے جسم خاک یہاں اس کا جسم پانی ہے
  جو روح ہم میں ہے اس میں وہی روانی ہے

  فرق یہ ہے کہ جس سے ورڈسورتھ کچھ لینا چاہتے ہیں چکبست اس میں اپنے کو گم کر دینا چاہتے ہیں. وہاں تسکین پانے کی ہوس ہے اوریہاں صرف شۓ لطیف کےذوق کی تشکیل مقصود ہے :

اجل جو آے اسی کوہسار کے نیچے
بنے مزار کسی آبشار کے نیچے

  کشمیر کی منظرکشی کرتے وقت وہ میر انیس کے ہمرنگ ہوجاتےہیں.

    اردو ادب کے قدرتی مناظرکے بیان کی کمی کو سب سے زیادہ نظیر اکبر آبادی نے ، پھر انیس نےاور پھرکسی حد تک چکبست نےپوراکیا.

        چکبست کو اپنےرنگ میں انفرادیت حاصل تھی. غالبا" یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ جس طرح ہم محمّد حسین آزاد کی عبارت کا ایک پارہ بھی دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ انکی عبارت ہے اسی طرح چکبست کی نظم کا ایک بند کر کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ انھیں کی تخلیق ہے.


    اکبر کی طرح چکبست طنز وظرافت کی آمیزش نہ کرسکے. ان کی نظموں میں جہاں طنز ہے وہاں ظرافت غائب اور جس جگہ ظرافت ہے وہاں طنز مفقود. حالانکہ طنز کے لئے ظرافت لازمی خیال کی جاتی ہے. „ لارڈ کرزن سے جھپٹ“ ان کی خالص ظریفانہ اداز کی نظم ہے. چکبست کی جن نظموں میں اصلاحی انداز آگیا ہےان میں طنز کی بھرمار ہے. ایسے موقعوں پر وہ بہت زیادہ جذباتی ہو جاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خیالات محدود ہوتے جارہے ہیں . جیسے کہ وہ کہنا بہت کچھ چاہ رہے ہوں اور کہہ نہ پارہے ہوں۔

          مذہبی عقیدہ کی بنا پر چکبست نے , گاۓ ، اور , کرشن کنہیّا، جیسی نظمیں بھی لکھی ہیں .
      صبح وطن کے تیسرے حصّے میں مرثیے ہیں جن میں سے صرف دو تین جو ذاتی دوستوں کے لیۓ لکھے گۓ ہیں زیا دہ تر سیاسی لیڈروں کی وفات پر لکھے گۓ ہیں . یہ مرثیوں سے زیادہ ان کی شان میں کہے ہوۓ قصیدے ہیں لیکن مبالغہ آمیزی سے معرّا ہیں. احباب پر لکھے ہوۓ مرثیے البتّہ پر خلوص رنج وغم کی داستانیں ہیں.

        چکبست فیض آباد میں پیدا ہوۓ تھے اور ان کی نشو ونما لکھنؤ میں ہوئ تھی . شاہان اودھ کے زوال کے بعد مرثیوں کا ماحول پر اثر کم ضرور ہوا تھا مگر بالکل زائل نہیں ہوا تھا  . انیس ودبیر بھی نہیں رہ گۓ تھے مگر مرثیت کی لے ابھی تک گونج رہی تھی. چکبست کا اس سے لاشعوری طورپر متاثّر ہونا لازمی تھا. , رامائن کا ایک سین، کے ایک بند کے پہلے دو مصرعے ملاحظہ ہوں :

رخصت ہوا وہ باپ سے لیکے خدا نام
راہ وفا کی منزل اوّل ہوئ تمام

      یا ایک دوسرے بند کے درج ذیل چارمصرعوں میں انیس کے کلام سے مماثلت ملاحظہ ہو :

  ہاں نور ازل جلوۂ گفتار دکھادے
ہاں شمع زباں مطلع انوار دکھادے
ہاں طبع رواں قلزم ذخّار دکھا دے
ہاں رنگ چمن گلشن بے خاردکھادے

  یہ یا اس طرح کے اشعار پر عام طورسے میر انیس کے کلام کا مغالطہ ہو سکتا ہے
    چکبست کے یہاں ہنگامی مسائل اور واقعات زیادہ ہیں . وہ زندگی کی بنیادی صداقتوں پراقبال کی طرح کچھ نہ لکھ سکے . دونوں ہی محب وطن ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ پہلے محب وطن ہ اور پھر محب قوم لیکن چکبست کے یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے .  وہ ابتدا میں اپنی قوم کےمفاد کے بارے میں ہی سوچتے رہےلیکن پھر ان کے دل میں اپنے وطن کی عالمگیر محبّت عطا ہوئ اور آخر تک اسی میں ڈوے رہے. ابال کی طرح ان کا کوئ فلسفانہ نصب العین بھی نہیں تھا. وہ ایک سیدھے سادے انسان کے مانندجو کچھ بھی سوچتے اسےنظم کے قالب مں ڈھال دیا کرتے تھے.

        آج چکبست کی شاعری ہمیں بے وقت کی شہنائ معلوم ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے ہمارے ادبی مورّخین انھیں فراموش کر چکے ہیں لیکن شاید ہم یہ بھول رہے ہیں کہ ان کی شاعری میں بر صغیرمیں آزادی کے جد وجہد کی بیسویں صدی کی ابتدائ تاریخ پنہاں ہے . اس کے علاوہ ان کے کچہ اشعارزمان و مکاں ورسم ورواج کی قید سے آزاد ہوکرآفاقی خصوصیات کے حامل  ہیں اور عالمگیر شہرت کا درجہ حاصل کر سکتے ہیں .


رضیہ کاظمی
    نو جرسی، امریکہ
    ۵ جنوری ۲۰۱۴


******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 843