donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sarwar Alam Raz
Title :
   Al Maqukat Fi Sahful Samawat

 

 

المَعقُولات فی صُحفُ السَماوات  


مصنف :  نقشبند قمرؔ نقوی بھوپالی

ناشر: تحریک اَدب، وارانسی، ہندوستان

تبصرہ نگار:  سرور عالم راز سرورـؔ

۱۲۲۰۔انڈین رَن ڈرائیو، نمبر۔۱۱۶، کیرلٹن، ٹیکساس، امریکہ

 

    یہ دَور کمپیوٹر کا دَور ہے ۔ جہاں زندگی کے اور بہت سے کام کمپیوٹر کی وجہ سے آسان ہو گئے ہیں وہیں کتاب چھپوانا بھی ہر شخص کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن کر رہ گیا ہے۔ پچھلے زمانے میں کتاب شائع کرانا ایک مہم سے کم نہیںہوتا تھا۔ کاتبوں کی تلاش، ان کے نخروں اور غلطیوں اور مسودہ کی تصحیح وترویج کے مراحل سے کسی طرح گزربھی گئے تو ناشر کی ناز برداریاں اور وعدہ فراموشیاں برداشت کرنی پڑتی تھیں۔ کتاب شائع ہو جاتی توپھر قارئین کا سامنا کرنا پڑتاتھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب بیشتر قارئین ذمہ دار اور اچھے خاصے باعلم ہوتے تھے چنانچہ ان کو اپنی علمیت سے مرعوب کرناآسان نہیں تھا۔اکثر مشاعروں میں سامعین میںسے کچھ لوگ غزل سن کر اسی وقت شعر کی تقطیع کر کے شاعر غریب کے ڈھول کاپول سر محفل کھول دیتے تھے۔ اب یہ منظر نامہ کمپیوٹر کے طفیل بدل چکا ہے۔جس کاجی چاہتا ہے اور جس موضوع پر چاہتا ہے کتاب لکھ دیتا ہے۔ کاتب کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہر شخص اپنی کتاب کی کمپیوٹر کتابت خود کر سکتا ہے۔ اس کے بعد ناشر کو طباعت کی قیمت ادا کر تے ہی کتاب آنا ً فاناً طباعت کے تمام مرحلے طے کر لیتی ہے۔نتیجہ یہ ہے اب ہر شخص کتاب چھپوانے کا خواہاں ہے چاہے وہ اس قابل ہویا نہیں۔ آئے دن طرح طرح کی کتابیں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ مصنف کواب تنقید و تبصرہ کا بھی خوف نہیں ہے کیونکہ کتاب پڑھنے والے بہت کم ہیں اور سمجھنے والے اس سے بھی کم ،چنانچہ’’ من ترا حاجی بگویم ، تو مرا ملا بگو‘‘ کا بول بالا ہے۔جو لوگ موزوں طبع تک نہیں ہیں ان کا کلام چھپ بھی رہا ہے اور’’تحسین نا شناس‘‘ سے متصف بھی ہو رہاہے۔ جو لوگ علم عروض کی معمولی سی شدبد رکھتے ہیںیا نہیں بھی رکھتے ،وہ عروض پر غلط سلط کتابیں لکھ رہے ہیں اورنئے شاعروں کوگمراہ کر رہے ہیں۔انٹرنیٹ  پردن رات مشاعرے ہورہے ہیں اور شاعروں ، متشاعروں اور تک بندوں کوداد وتحسین سے نہال کیاجا رہا ہے۔ مرزا غالبؔ نے شاید ایسے ہی حالات کی پیش بینی کر کے اپنا مشہور زمانہ شعر کہا تھا    ؎

ہر  بوالہوس  نے  حسن  پرستی   شعار   کی
اب   آبروئے    شیوہ  ٔ     اہل نظر  گئی

    حال ہی میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے ’’المعقولات فی صحف السماوات‘‘۔  نام سے گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ عربی زبان کی کتاب ہے لیکن در اصل یہ کتاب اُردو میں لکھی گئی ہے۔مصنف امریکہ میں مقیم نقشبند قمرؔ ؔبھوپالی صاحب ہیں۔معقولات‘‘کے لغوی معنی وہ باتیں یا حادثات و معاملات ہیں جو انسانی عقل میں آسکیںیا جو مناسب اور قابل فہم و قبول ہوں۔’’صحف السماوات‘‘ سے مراد آسمانی یا الہامی کتابیںہے۔ گویا اِس کتاب میں ایسی معقولات پر بحث و گفتگو اور تجزیہ و تنقید کی توقع کی جاسکتی ہے جن کا ذکر کسی آسمانی کتاب میں آیا ہے۔

    ’’ آسمانی کتاب‘‘ بہت وسیع المعانی لفظ ہے اور اس سے ہر وہ کتاب مراد لی جا سکتی ہے جس کو الہامی کہا جا سکے یعنی ایسی کتاب جو دُنیا میں کسی بھی قوم پراس کے عقائد کے مطابق اللہ کی جانب سے کسی پیغمبر کے توسط سے نازل کی گئی ہو، گویا کسی کتاب کو ’’آسمانی کتاب‘‘ کا لقب دینے کے لئے صرف یہ ضروری ہے کہ کسی مذہب کے پیر و عقیدتاً اُس کو الہامی کتاب مانیں۔اس عقیدہ کے علاوہ اس کتاب کے اثبات میں کسی عقلی ، نقلی یا منطقی ثبوت کی مطلق ضرورت نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے وسیع معنی میں لی جانے والی دُنیا کی تمام ممکنہ ’’صحف السماوات‘‘ کا احاطہ ایک کتاب میں اگر نا ممکن نہیں تو بے حد مشکل تو ضرور ہے۔اس سے خیال ہوتا ہے کہ زیر نظرکتاب کا موضوع سخن ساری آسمانی کتابوں پر محیط نہیںہوگا۔ اسلامی عقائد کے لحاظ سے صرف وہ کتابیں آسمانی کتابوں میں شمار کی جاسکتی ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہے یعنی حضرت دائود کی زبور، حضرت موسیٰ کو دی ہوئی تورات ، حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی انجیل اور رسول اللہ  ﷺ پر نازل ہونے والا قرآن مجید۔ حضرت ابرہیم کے صحیفہ کا ذکر بھی قرآن میں ہے لیکن اس کتاب کی کوئی تفصیل معلوم نہیں ہے چہ جائیکہ خود یہ کتاب یااس کا کوئی نشان کہیں موجود ہو۔تاریخ و آثار صحیفۂ ابراہیم کے بارے میں بالکل خاموش ہیں چنانچہ اس کتاب پر کسی قسم کی گفتگو ممکن نہیں ہے۔


    زیر نظر کتاب کے موضوع کے ساتھ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ہرفرقے کے نزدیک اُس کی اپنی آسمانی کتاب کے علاوہ دوسری ساری کتابیں’’ غیر الہامی‘‘ ہیں کیونکہ ان کے عقیدے میںاُن کا مذہب الہامی مذاہب میں حرفِ آخر کی حیثیت رکھتا ہے، چنانچہ یہودیوں کے نزدیک عیسائیو ںکی انجیل اور مسلمانوں کا قرآن اور عیسائیوں کے نزدیک مسلمانوں کا قرآن الہامی کتابیں نہیں ہیں۔ یہ بات لائق شکر ہے کہ زیر نظر کتاب کے مصنف ایک مسلمان ہیں چنانچہ ان سے مذکورۂ بالا چاروں کتابوں پر گفتگو کی امید کی جاسکتی ہے۔ویسے دیکھا جائے تو دَرحقیقت  اِس کتاب کا نام’’المعقولات فی صحف السماوات‘‘ بہت مبہم ہے کیونکہ اس سے موضوع گفتگو کی کوئی واضح اور مستحکم صورت نہیں ظاہر ہوتی ہے بلکہ ذہن میں کئی سوال ابھرتے ہیں :


    (۱)  ’’معقولات‘‘کی کیا تعریف ہے اور ان سے کس قسم کے واقعات یا باتیں مراد ہیں؟ اگر ان سے انسانی عقل میں آنے والی معقول و مناسب باتیں مقصود ہیں تو کس کی عقل اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ کون سی بات معقول ہے اور کون سی غیرمعقول؟مثال کے طور پرحضرت عیسیٰ کوانجیل (موجودہ بائبل)اللہ کا بیٹا مانتی ہے جبکہ قرآن مجید اس کی تردید کرتا ہے اور انہیں صرف پیغمبر کہتا ہے۔اس صورت میں کون سا موقف معقول مانا جائے گا ، کیوں مانا جائے گااور اس پر بات کس نہج سے کی جائے گی؟ کیا عیسائی مذہب کے موقف کو غیر معقول قراردے کر اس موضوع پر بحث وتمحیص کا دروازہ بند کر دیاجائے گا؟ یہ ظاہر ہے کہ اگر آخر الذکرصورت اختیار کی جائے تو کتاب لکھنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے کیونکہ اس طرح کے ہر مسئلہ پر اسلام اوردوسرے مذاہب میں بنیادی اختلافات ہیں اور ان کی موجودگی میں مسائل کا حل نکالنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ 


     یہاں ایک ضمنی سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا آسمانی کتابوں کی’’ معقول‘‘ باتوں کو موضوع ِسخن بنانے سے یہ اشارہ نہیں ملتا ہے کہ ان کتابوں کی کچھ باتیں ’’غیر معقول‘‘ بھی ہو سکتی ہیں؟اگر اس امکان کو تسلیم کر لیا جائے تو ہر مذہب کی آسمانی کتاب بڑی مشکل کا شکار ہو جائے گی اور اس کا اعتقادی شیرازہ بکھرنے لگے گا۔ دوسرے مذاہب کی آسمانی کتابوں میں کسی مصنف کو ایسی ’’غیر معقول‘‘ باتوں اور معاملات کا نظر آنا ممکن ہی نہیں بلکہ یقینی ہے کیونکہ اپنے مذہب کی عینک لگا کر دیکھنے سے ہرایک کو دوسروں کا مذہب غیر معتبر دکھائی دیتا ہے لیکن کیا مصنفِ کتاب قرآن کریم میں بھی (العیاذاً باللہ )  ایسی ’’غیر معقول ‘‘ باتوں اور معاملات کی موجودگی کے امکان کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟ ظاہر ہے کہ وہ اس کے لئے مطلق راضی اور تیار نہیں ہوں گے ۔ اس صورت میں وہ ادبی بد دیانتی اور اخلاقی بد عنوانی کے مرتکب ہوں گے کیونکہ وہ ہر مذہب کو ایک ہی پیمانہ اور کسوٹی سے ناپنے کے لئے راضی نہیں ہیں۔اگر یہ طریق کار اختیار کیا جائے تو  کتاب لکھنے سے کیا حاصل ہو سکتا ہے ؟


    (۲)  ’’صحف السماوات‘‘ سے کون سی آسمانی کتابیں مقصود ہیں؟ وہ کون سی تنقیحات او ر شرائط ہیں جو کسی کتاب کو ’’آسمانی کتاب‘‘ کے لقب سے متصف کرتی ہیں؟ ایسی شرائط اور تنقیحات کون قائم کرے گا؟کیا اس تعریف میں صرف وہ کتابیں آئیں گی جن کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے یعنی زبور، تورات،انجیل اور قرآن مجید یا ان کے علاوہ اور بھی کتابیں ’’آسمانی کتاب‘‘ کہی جا سکتی ہیں؟ اگر کوئی اور کتاب اس تعریف کی مستحق ہے تو وہ کون سی کتاب ہے اور کیوں ہے؟ مذکورہ ٔ بالا چارکتابوں کے علاوہ دُنیا کے دیگر مذاہب اور مسالک کی کتابوں کو آسمانی کتاب نہ ماننے کا کیا جواز ہے؟ اگر قرآن مجید کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے تو ایسا فیصلہ یک طرفہ کہلائے گا۔ اس صورت میں زیر تبصرہ کتاب کا نام بد ل کر کچھ اور رکھنا زیادہ مناسب ہوگا۔
    مذہبی بحث کبھی خطرے سے خالی نہیں ہوتی ہے کیونکہ مذہب کا تعلق جذبات سے ہے۔ ہر مذہب چند عقائد کی بنیاد پر قائم ہے اور اپنی فطر ت میں عقلی دلائل اور منطقی جرح برداشت نہیں کر سکتاہے۔ عقیدہ وہ سب کچھ ہے جس کو کوئی شخص مانتا ہے۔اس ماننے میں کسی عقلی اور منطقی دلیل کا مطلق دخل نہیں ہے۔ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی بحث سے احتراز کیا جائے ۔اکبرؔ الہ آبادی نے اسی لئے کہا تھا کہ   ؎

مذہبی  بحث  میں  نے  کی  ہی  نہیں
فالتو  عقل  مجھ  میں  تھی  ہی  نہیں

    ’’المعقولات فی صحف السماوات‘‘ کے مصنف شایدیہ بھول گئے کہ اس کتاب کا دیانتداری سے لکھنا خود اپنے مذہب کی آسمانی کتاب (قرآن مجید)اور دوسرے مذاہب کی آسمانی کتابوں میں دئے گئے ’’معقولات‘‘ پر نقادانہ اور بعض اوقات جارحانہ نظرڈالنے کے مترادف ہے۔یہ مہم ہمیشہ انسان کی طاقت و اہلیت سے باہر رہی ہے اور ہمیشہ باہر ہی رہے گی۔ کسی مصنف کے لئے بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے مذہب کے معتقدات کویکسرپس ِپشت ڈال دے اور خالی الذہن ہو کرمکمل فراخ دلی اور وسیع ا لدماغی کے ساتھ ہر قسم کے تعصب سے دامن بچاتے ہوئے دوسرے مذاہب کی آسمانی کتابوں کو اپنی آسمانی کتاب کے شانہ بہ شانہ رکھے اور پھر سب کتابوں کا منصفانہ طور پرعقلی اور منطقی تجزیہ کرے۔اِس کتاب کے مصنف بھی اس امتحان میںبری طرح ناکام رہے ہیں ۔
     ’’المعقولات فی صحف السماوات‘‘ کامطالعہ جوئے شیر لانے سے کسی طرح کم نہیںہے۔ اول تو اس میں کتابت کی غلطیاں بے تحاشہ نظر آتی ہیں۔ کوئی صفحہ ایسا نہیں ہے جس میں دس پانچ غلطیاں نہ ہوں۔ان سے چشم پوشی کے بغیر کتاب کا مطالعہ ممکن نہیں ہے۔یہ کتاب چندبے معنی خاکوں اور تصویروں سے شروع ہوتی ہے جن سے مصنف تخلیق انسان و کائنات سے متعلق مفروضات و معلومات پیش کرنا چاہتے ہیں لیکن چونکہ وہ اس علم سے قطعاً بے بہرہ ہیں اس لئے چند طفلانہ اور بے مصرف باتوں کے بعد وہ پینترہ بدل کر قرآنی نظریۂ تخلیق کی جانب مائل ہوتے ہیں ۔ مشکل یہ ہے کہ ان کو خود یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ لا تعداد آیات قرآنی اوردماغ سوزو نام نہاد دلائل پیش کرنے کے بعد بھی وہ اپنا موقف قاری پر واضح کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ بلا مبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کتاب کے تقریبا ً  ایک سو صفحات پڑھنے کے بعد بھی قاری یہ سمجھنے میں ناکام رہتا ہے کہ فاضل مصنف آخر کہنا کیاچاہتے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے بے سروپا باتوں کے درمیان جا بجا آیات قرآنی بیان کرنا اُن کے نزدیک مدلل و منطقی بحث اور علمی گفتگو کے برابر ہے۔

     تحریر کی اس پراگندگی اور کم سوادی سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ موصوف قرآن مجید کو دوسری آسمانی کتابوں کے مقابلے میں برتر، معتبر اور صحیح ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔یہ ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک دوسرے سارے مذاہب کی آسمانی کتابیں لغو، مہمل،مطلق غیر معتبر اور محض غلط بیانیوں کا پلندہ ہیں۔ چونکہ وہ خود ایک متقی اور پرہیزگار مسلمان ہیں اس لئے ان کے عقائد کی روشنی میں دوسرے مذاہب کی یہ تصویر کشی نہ تو کوئی حیرت کی بات ہے اور نہ ہی قابل اعتراض ہے۔ ہرشخص جواپنی آسمانی کتاب کا مقابلہ دوسروں کی آسمانی کتابوں سے کرے گا لازمی طور پر اپنی کتاب کے حق میں ایسے ہی نتیجوں پر پہنچے گا۔ صاحب کتاب کو صرف یہ دکھانے کے لئے چارسو صفحا ت سیاہ کرنے کی مطلق ضرورت نہیں تھی ۔ 

    اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ’’المعقولات‘‘ کے مصنف کا طریق کار یک طرفہ اور تعصبانہ ہے۔ کتاب کی ابتدا سے انتہا تک وہ حسب توقع اپنے دین (یعنی اسلام ) کی بڑائی،برتری اور فضیلت کے قائل نظر آتے ہیں اور ہر پہلو اور سطح پر دوسرے مذاہب کی اور ان کی کتابوں کی تکذیب اور توہین ان کا نصب العین ہے۔ یہ صورت حال غیر معمولی یا قابل مذمت ہر گزنہیں ہے۔ مذہبی کتابوں پر گفتگو یا بحث لازمی طور پر جذباتی اور اعتقادی ہوتی ہے۔ ہر مذہب کی بنیاد چند چھوٹے یا بڑے، اچھے یا برے عقائد پر قائم ہوتی ہے اور عقیدہ اپنی فطرت میںاندھا ہوتا ہے۔ عقیدہ نام ہی اس چیز یا بات کا ہے جس پر کسی شخص کا ایمان ہو۔ نہ تو وہ کسی عقلی یا منطقی تجزیہ یا امتحان پر مبنی ہوتا ہے اور نہ ہی اس کو غیر متعصب اور غیر جانبدارانہ انداز میں پرکھاجا سکتا ہے ۔ اللہ ہے بھی کہ نہیں ہے؟ اللہ ایک ہے یا ایک سے زیادہ اللہ ہو سکتے ہیں؟ اس کے مطلق العنان ہونے کی کیابنیاد ہے؟ اُس کے بندوں کو کیااختیارات حاصل ہیں اور ان کی حدود کیا ہیں؟ کیا جنت ، دوزخ، قیامت اور جزا و سزا کی کوئی حقیقت ہے یا یہ سب انسا ن کے تصور کی ایجادات ہیں؟ کیااللہ نے انسان اور کائنات کو بنایا ہے یا انسان نے اپنی جذباتی اور نفسیاتی ضروریات کے تحت اللہ کی ہستی ایجاد کر لی ہے؟یہ اور ایسے ہی لا متناہی سوالات ہمیشہ سے اس بحث کا حصہ رہے ہیں اور ہنوز محتاج جواب ہیں۔ اہل مذہب ایک بات کہتے ہیں اوراہل سائنس کچھ اور۔ فریقین کے درمیان مطابقت یا موافقت کی کوئی صورت ممکن نظر نہیں آتی ہے۔ 

     کتاب کے نام کی روشنی میں قابل غور مضامین و موضوعات کے تعین اور ان پرضروری گفتگو کی مندرجہ ذیل صورتیں ممکن تھیں:

    (۱)  سب آسمانی کتابوں میںدقت نظر سے ایسے مضامین و موضوعا ت تلاش کئے جائیں جن پر ’’معقولات ‘‘ کی تعریف کا اطلاق ہو سکتا ہے اور جو اِن کتابوں میں مشترک بھی ہوں ۔ یہ کام نہایت مشکل بلکہ نا ممکن ہے ۔ ایک تو زمان ومکان کے لحاظ سے اور اپنی اُمت کی تاریخ، روایات، تہذیب وغیرہ کے فرق سے مختلف مذاہب کی آسمانی کتابیں ایک دوسرے سے ہر سطح پر نہ صرف مختلف ہیںبلکہ اکثر باہم نبرد آزما ہیں۔دوسرے یہ کہ کچھ کتابوں کو تاریخ کی دھول نے اتنا دھندلا دیا ہے کہ ان کی ابتدا و انتہا اور جزویات و کلیات مشکل سے ہی نظر آتے ہیں اور ان کی روایات و تفصیلات دوسرے مذاہب والوں کے لئے نا قابل قبول ہو کر رہ گئی ہیں۔ یہودی اور عیسائی اسلام کو اور اس کی کتاب کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیںہیں۔ اسی طرح یہودی عیسائیت کی کئی جزویات اور تفصیلات غیر معتبر یا ناقابل قبول گردانتے ہیں۔ایک اسلام ہی وہ  مذہب ہے جو یہودیت اور عیسائیت دونوں کو الہامی مذہب مانتا ہے اور ان کی کتابوں کو آسمانی کتابیں تسلیم کرتا ہے ۔البتہ وہ ان کتابوں کی موجودہ صورت کو اصل کتابوں کی تحریف شدہ شکلیں کہتا ہے گویا وہ ان کتابوں کی اصل شکلوں کو ہی الہامی کتابیں تسلیم کرنے پر راضی ہے جب کہ اب اُن کا وجود بھی نہیںہے۔اس صورت حال کے پیش نظر ’’المعقولات فی صحف السماوات‘‘ کا مقصد اور مصرف ہی کچھ نہیں رہ جاتا ہے۔     بالفرض اگر ایسے مشترک مضامین و موضوعات مل بھی جائیں تو پھر ضروری ہوگا کہ ان کاعلمی، عقلی اورمنطقی جائزہ لیا جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کس کتاب میں زیادہ معتبر اور قابل قبول روایات موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب میں ایسی کوئی بات نہیں پائی جاتی ہے۔  

    (۲)  آسمانی کتابوں میں وہ مضامین و موضوعات تلاش کئے جائیں جن کو ’’معقولات‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے چاہے وہ اِن  کتابوں میں مشترک ہوں یا نہ ہوں۔ اس کے بعد ایسے مضامین و موضوعات کا فرداً فرداً عقلی اورمنطقی تجزیہ کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کون سے ’’معقولات‘‘ کس کتاب میں زیادہ معتبر اور قابل قبول طریقے سے بیان کئے گئے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں یہ طریقہ بھی نہیں اپنایا گیا ہے۔


    جیسا کہ اوپر کہا جا چکاہے آسمانی کتابوں پر وہ کام ہو ہی نہیں سکتا جس کا اس کتاب کو دعوہ ہے۔ چنانچہ مصنف کتاب نے شروع میں ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اپنی مقصد برآری کے لئے ہر صورت سے دوسرے مذاہب کی کتابوںپر قرآن کی برتری ثابت کرنا کافی ہے۔  ہر مسلمان کے نزدیک یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب مصنف کا یہی عقیدہ تھا تو پھر دوسری آسمانی کتابوں کو پرکھنے اور ان پر احتساب و تنقید کی کیا ضرورت تھی؟کتاب لکھتے وقت انہوں نے ہر ُاس شرط ،اصول اور تقاضے کوپامال کیا ہے جو ان سے دیانت داری اور منصفانہ طرز عمل پر چلنے کی توقع کر سکتا تھااوراپنے موقف کی تائید میں انہوں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا ہے جس سے پرہیز ایک ایماندار اور محتاط مصنف کا فرض ہوتا ہے۔ یہ اجمال کچھ تفصیل چاہتا ہے چنانچہ چند باتیں اس حوالے سے پیش کی جاتی ہیں۔   


    (الف)  مصنف نے کتاب میںقرآن میں مبینہ آسمانی کتابوں( زبور، تورات، انجیل اور قرآن مجید) کے علاو ہ اہل ہنود اور اہل پارس کی مذہبی کتابوں کو بھی شامل گفتگو کر لیا ہے لیکن اس طرز عمل کا جواز کہیں نہیں پیش کیا ہے ۔آخر ہندوئوں اور پارسیوں کی مذہبی کتابوں کو کس بنیاد پر آسمانی کتاب مان کر ان پر اظہار خیال کیا گیا ہے جب کہ قرآن میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے؟ قرآن میں یہ تو کہا گیا ہے کہ اللہ نے دنیا کی ہر قوم میں پیام الٰہی کے ساتھ پیغمبر مبعوث کئے ہیں لیکن ان ہستیوں کی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی ان کی کتابوں کا کوئی ذکر ہے۔ لہٰذہ صرف ہندوئوں اور پارسیوں کی کتابوں کی شمولیت کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔ اگر اہل ہنود اور اہل پارس کی کتابیں ’’المعقولات‘‘ میں شمولیت کی مستحق ہیں تو پھر بودھ مت، سکھ مذہب، بہائی، تائو، شنٹو  اور دیگر  مذاہب کا ذکر کیوں نہیں کیا گیاہے ؟ موصوف کی نگاہ سے شاید یہ نکتہ پوشیدہ رہا کہ اہل ہنود او راہل پارس کی مذہبی کتابوں کا قرآن، انجیل، تورات اور زبور کے شانہ بہ شانہ ذکرو بیان کرنا اس بات کے اعتراف کے مترادف ہے کہ وہ انہیں بھی چارقرآنی کتابوں کے مرتبہ کی آسمانی کتابیں تسلیم کرتے ہیں۔ 

چہ  راہ  می  زند  اے مطربِ  مقام شناس

کہ  درمیانِ   غزل   قول  آشنا  آورد
(حافظؔشیرازی)

    ایک جانب تو موصوف لکھتے ہیں کہ ’’اہل ہنود کے بارے میں بیان واظہارکی سب سے پہلی دشواری یہ ہے کہ ان کے اعتقادت او ر رسومات پر لفظ :مذہب: کا اطلاق نہیں ہوتا اس لئے کہ :ہندو مت: متضاد اورغیر منطقی عقائد و رسوم کے ایک مجموعہ کا لقب ہے۔ ان اعتقادات کی حدود کا تعین ممکن نہیں‘‘  اور اس طرح وہ ہندوئوں کے اعتقادات کو مذہب کا نام تک دینے سے یکسر انکار کرتے ہیں اور دوسری جانب وہ اُن کی مقدس کتابوں کو ’’صحف السماوات‘‘  میں شامل گفتگوبھی کرتے ہیں۔ایں چہ بوالعجبی است؟ اگر اس سے ان کا مقصد کتاب کی ضخامت میں اضافہ کرنا ہے تو اَور بات ہے ورنہ ہندوئوں اور پارسیوں کی مذہبی کتابوں کا ذکر غیر ضروری بھی ہے اور تحصیل لا حاصل بھی۔ 

    (ب)  تقریبا چارسو صفحات کی اس کتاب میںمختلف مذاہب کے لئے مختص کئے گئے صفحات کی تعداد صاحب کتاب کی انتہائی یک طرفہ اور متعصب فکر پرمبنی ہے۔انہوں نے اپنے مذہب یعنی اسلام کے ذکرپر بلا مبالغہ سیکڑوں صفحات سیاہ کر دئے ہیں جب کہ دوسرے مذاہب کو لائق اعتنا ہی نہیں سمجھا ہے۔اسلام کے مقابلہ میں اِن پر پیش کیا ہوا مواد مقداراور معیار دونوں میں بہت کم ہے یہاں تک کہ کچھ مذاہب پر تو ’’بقدر بادام ‘‘ ہی توجہ دی گئی ہے۔ یہ طریق کار کسی ایسے شخص کو زیب نہیں دیتا جواسلام کا پابند ہو، اس کے مشہورموقف ’’لکم دینکم ولی دین‘‘  کا قائل ہو اوربقول خود ’’المعقولات فی صحف السماوات‘‘جیسی علمی کتاب لکھنے کا دعویدار بھی ہو۔ چاہئے تو یہ تھا کہ صاحب کتاب دوسرے مذاہب پر بھی تقریباً اتنی ہی تحقیق کرتے جتنی انہوں نے اسلام پر کی ہے اور دوسری آسمانی کتابوں پر بھی کم و بیش ایسی ہی تفصیل سے لکھتے جیسے انہوں نے قرآن مجید پر لکھا ہے ۔لیکن ان کے تعصب نے ان کو یہ منصفانہ طریق کار اپنانے کی اجازت نہیں دی، چنانچہ اسلام کے مقابلہ میں وہ دوسرے مذاہب سے منافقانہ اور معاندانہ سلوک کے علاوہ اور کچھ نہ کر سکے۔


     کتاب میں اسلام، یہودیت، عیسائیت، ہندو مت اور پارسی مذہب پر گفتگو کی گئی ہے ۔ ان مذاہب کے لئے کتاب کے چار سو صفحات میں سے جتنے صفحے مختص کئے گئے ہیں ان کی تقسیم کا افسوسناک گوشوارہ درج ذیل ہے  :

(۱)  اسلام اور اسلامیات  :  تقریباً  ۲۸۴۔ صفحات  (کتاب کا تقریبا ً  ۷۱۔فی صدحصہ)    
(۲)  یہودیت  :  تقریباً  ۲۰ ۔ صفحات  (کتاب کا تقریباً  ۵۔ فی صدحصہ)
(۳)  عیسائیت  :  تقریباً  ۶۸ ۔صفحات  ( کتاب کا تقریباً  ۱۷۔فی صدحصہ)
(۴)  ہندو مت  :  تقریباً  ۱۲ ۔ صفحات  ( کتاب کا تقریباً  ۳ ۔ فی صدحصہ) 
(۵)  پارسی مذہب  :  تقریباً  ۲ ۔ صفحات  (کتاب کا تقریباً  آدھا فی صد حصہ)
(۶)  متفرقات  :  تقریباً  ۱۴ ۔ صفحات  (کتاب کا تقریباً  ۵ئ۳۔ فی صدحصہ)

    اوپر صرف ’’اسلام‘‘ کے بجائے ’’اسلام اور اسلامیات‘‘ اس لئے لکھا گیا ہے کہ صاحب کتاب نے اسلام پر گفتگو کرتے وقت صرف وہ موضوعات ہی ملحوظ خاطر نہیں رکھے ہیں جو کسی نہ کسی صورت سے ’’آسمانی کتاب‘‘ سے متعلق ہو سکتے تھے بلکہ انہوں نے ایک بہت بڑی تعداد میں ایسے مضامین اور موضوعات بھی شامل کتاب کر لئے ہیں جن کا تعلق اسلامیات سے تو ہے لیکن ’’آسمانی کتاب‘‘ سے جنہیں مطلق کوئی علاقہ نہیں ہے ۔ در حقیقت ایسے مضامین کا اِس کتاب میں شمولیت کا کوئی منطقی جواز نہیں ہے اور مصنف کو غیر جانبداری اور دیانتداری کے تقاضوں کے تحت ایسے مضامین سے احتراز لازم تھا ۔


    (پ)  اوپر اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ کتاب میں مصنف نے ایسے مضامین اور موضوعات شامل کرنے میں تکلف محسوس نہیں کیا ہے جن کا ’’ آسمانی کتابوں ‘‘ سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔ اس بدعت کے اسباب پر قیاس کے گھوڑے دوڑائے جا سکتے ہیں لیکن اس سے کچھ حاصل ہونے کی توقع نہیں ہے۔ کاش کہ مصنف نے خود ہی یہ وجوہ بتا کر قاری کی مشکل آسان کر دی ہوتی۔ ایسے مضامین کتاب میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں ۔ نہ صرف یہ ایک کثیر تعداد میںموجود ہیں بلکہ ان صفحات کی تعداد بھی ایک سو (۱۰۰) سے زیادہ ہے جو اِن کے بیان میں صرف کئے گئے ہیں:
    (۱)  خصائص رسول اللہ  ﷺ(ص۔۸۲)  :  اس عنوان کے تحت رسول اللہ  ﷺ کی وہ صفات بیان کی گئی ہیں جو ان کو عام انسانوں سے ہی نہیں بلکہ بقول مصنف دوسرے انبیا سے بھی ممتاز کرتی تھیں مثلاً اُن کا شخصی رعب و دَبدبہ، شفاعت، آپ کا سارے عالم کے لئے رحمت الٰہی بن کر مبعوث ہونا وغیرہ۔ اس عقیدہ کا حرف آخر کتاب کا یہ جملہ ہے کہ ’’اللہ نے تخلیق کائنات کے ساتھ ہی جس شے کو سب سے پہلے تخلیق فرمایا وہ  رسول اللہ  ﷺکا نور تھا۔‘‘ موصوف کے عقیدہ کے مطابق یہ سب صحیح سہی لیکن ان باتوں کا نفس کتاب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کو شامل کرنا بے معنی اور بے مصرف ہے۔

    (۲) فن کتابت  (ص۔ ۹۳)  :  بھلا فن کتابت اور اس کی تفصیلات کا آسمانی کتابوں کے معقولات سے کیا واسطہ ہو سکتا ہے؟ بایں ہمہ ’’المعقولات ‘‘  میں فن کتابت ، مختلف طرح کے خطوط، عربی زبان کی کتابت، کاتبان وحی وغیرہ پر اٹھارہ صفحات سیاہ کئے گئے ہیں     ؎ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟  

    (۳)  نزول قرآن (ص۔۱۴۵)، حفظ قرآن (ص۔۱۴۸)، ترتیب نزول (ص۔۱۵۷)  اور ایسے ہی دوسرے موضوعات پر کتاب میں نہایت تفصیل سے اظہار خیال کیا گیا ہے ۔ اس قسم کی باتیں نہ صرف کتاب کے موضوع سے قطعی غیر متعلق ہیں بلکہ یہ قاری کی الجھن اور پریشانی میں بھی اضافہ کرتی ہیںاور نفس کتاب اس بھول بھلیاں میں جا بجا کھو جاتا ہے۔ 

    (۴)  مصحف عثمانی کی نقول ، رسم الخط ، اعراب (ص۔ ۱۹۴)،  علم تجویدو قرات (ص۔ ۲۰۱) وغیرہ کتاب میں شامل کر کے معلوم نہیں موصوف کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کو مختلف کتابوں میں جہاں کہیں جوکچھ بھی مواد نظر آ گیا ہے اسے بے سوچے سمجھے اپنی کتاب میں شامل کرنا موجب ثواب فرض کر لیا ہے۔ ایسی فضول باتوں کا اور کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ 

    (۵)  صوفیا اور اولیائے کرام (ص۔ ۲۰۳)، رسول اللہ  ﷺ کی پیدائش کی نشانیاں ( ص۔ ۲۷۹)، معرفت اور تصوف (ص۔۲۸۰)، صحابہ ٔ  کرام کے مصاحف (ص۔ ۳۵۱)، قرآن کے تراجم (ص۔ ۳۷۳)  وغیرہ کی قبیل کے غیر ضروری اور بے مقصد مضامین سے یہ کتاب بھری پڑی ہے۔  

    شاید ان مضامین کی شمولیت سے مصنف کتاب اپنی علمیت ظاہر کرنا چاہتے ہیں لیکن نتیجہ اس کے برعکس ہوا ہے اور اس قسم کی فضولیات سے ان کی علمی کم مائیگی اور بھی نمایاں ہو گئی ہے۔ اس طرح کتاب کی ضخامت میں تو ضرور اضافہ ہواہے لیکن ان کی اس عادتِ بد نے کتاب کی قدر وقیمت اور معیار کو(جو یوں بھی بہت کم ہے) نہایت بری طرح مجروح کیا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر ایسی تمام باتیں کتاب سے نکال دی جائیں جن کا نفس کتاب( یعنی آسمانی کتابوں کے معقولات) سے کوئی تعلق نہیں ہے تو کتاب کی ضخامت کم ہو کر صرف ایک تہائی رہ جائے گی۔ 

    (ت)  فاضل مصنف نے ایک ہی موضوع کوکتاب میں متعدد بار تقریبا ً ایک ہی انداز میں بیان کر کے اپنی ذہنی پراگندگی کا مزید ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ مثال کے طور پر نزول قرآن پر کم از کم چار مقامات پرغیرضروری گفتگو کی گئی ہے (صفحات ۔۱۰۳، ۱۴۵، ۲۰۴،۲۷۶)، انجیل کاتقریباً ایک سا ذکر تین جگہ کیا گیاہے(صفحات۔۲۴۳، ۲۵۸، ۲۸۴) اور مصاحف کا بیان چار مقامات پر دہرایا گیا ہے (صفحات۔۱۸۶، ۱۹۴، ۳۴۹ سے ۳۷۱تک)۔ جوش تصنیف میں ان کو یہ خیال نہیں رہا کہ ایک موضوع سخن کو جامع ومانع طور پر ایک ہی جگہ پیش کرنا جامعیت ،دانشمندی اور پیش بینی کی علامت ہے۔

    کتاب کے مطالعہ سے صاف ظاہر ہے کہ صاحب کتاب نے شروع ہی میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اسلام دوسرے سب مذہبوں سے ہر طرح برتر و افضل ہے ،اس پر کسی قسم کی کوئی تنقید قابل قبول نہیں ہے اوراس کا ہر عقیدہ اور تصور نا قابل تسخیر ہے۔ ساتھ ہی ان کے عقیدے کے مطابق اسلام کے علاوہ دوسرے سارے آسمانی مذاہب یا تو جھوٹے ہیں یا وقت کے ساتھ تحریف اور تبدیلیوں کا شکار ہو کر

 نا کارہ ہو چکے ہیں ۔ چونکہ قرآن ہی ایک ایسی آسمانی کتاب ہے جو اپنی اصل حالت میں آج بھی موجود ہے اس لئے اسلا م کے علاوہ کسی اور طرف دیکھنے کی مطلق ضرورت نہیں ہے ۔ اس طریق استدلال اور طرز فکر میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے ۔ ہر مذہب کا ماننے والا اپنے مذہب کو دوسرے مذاہب سے برتر ثابت کرنے کے لئے اپنے دلائل رکھتا ہے اور اس کے نزدیک اس کااپنا مذہب ہی صحیح ہوتا   ہے اور باقی سارے مذاہب نا مکمل ، غیر معتبر اور بیکارہوتے ہیں۔ ہرمذہبی گفتگو کا ہمیشہ یہی حشر ہوتا ہے لہٰذہ  مذہب پر بحث کرنا تحصیل لا حاصل سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔ صاحب کتاب اپنے دینی جوش میں اس حقیقت کو بھول گئے ۔ اس غفلت کا نتیجہ جو ہونا تھا وہی ہوا یعنی یہ کہ ’’المعقولات فی صحف السماوات‘‘ اسلام کا بے معنی پروپیگنڈا ہو کر رہ گئی ہے اور اپنے مقصد کو (اگر یہ فرض کیا جائے کہ ایسی بے فیض کوشش کا کوئی مقصد بھی ہوسکتاہے)  پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔جس بے ربط اور بے معنی انداز میں یہ کتاب شروع کی گئی تھی اسی بے ربطی اور پراگندہ خیالی سے یہ اپنے اختتام کو پہنچتی ہے اور قاری کو کف افسوس ملتے ہوئے چھوڑ جاتی ہے ۔ اگر ’’کوہ کندن و کاہ بر آوردن‘‘ کی کتابی تفسیر کسی کو دیکھنی ہے تو اس کتاب سے بہتر شاید کہیں نہیں مل سکے گی۔’’المعقولات فی صحف السماوات‘‘ کو خریدنا  اور پڑھنااپنے پیسے، وقت اور ذہنی سکون کے مکمل اور اذیت ناک ضیاع سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔ فاعتبرو یا اولی الابصار۔ 
 

طے کر چکا  ہوں  راہِ محبت کے  مرحلے
اس سے زیادہ حاجت شرح و  بیاں نہیں
(رازؔ چاندپوری)

٭٭٭٭٭٭٭

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 770