donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Satyapal Anand
Title :
   Katha Char Janmo.n Ki

 

کتھا چار جنموں کی

مصنف: ستیہ پال آنند

ناشر: بزم تخلیق ادب، پاکستان۔ پوسٹ بکس نمبر 17667، کراچی 75300

صفحات: 552، قیمت: 500 روپے

ہندی کا تو مجھے علم نہیں لیکن دنیا بھر میں  اردو  ادب پڑھنے لکھنے والا شاید ہی کوئی ہو گا جو ستیہ پال آنند کو نہ جانتا ہو۔  میری  ان سے کئی ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں۔ وہ کراچی آرٹس کونسل کی چھٹی سالانہ کانفرنس میں شریک ہونے آئے ہوئے تھے۔ اس لیے کئی جگہ نہ صرف ان کے بارے میں بہت کچھ انتظار حسین سے  اور فاطمہ حسن تک کی زبانی سننے کا موقع ملا بل کہ خود ان سے بھی۔  ان کی یہ کتاب ان کے یہاں آنے سے پہلے ہی آ گئی تھی  لیکن میں پڑھ نہیں سکا تھا۔ تبصروں کے لیے آنے والے کتابوں کو میں اُن کی آمد کی  ترتیب سے پڑھتا ہوں  لیکن ان کی آمد کے بعد جو ملاقاتیں اور تقریبیں ہوئیں ان میں  خودانھوں نے اور دوسروں نے کتاب کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا۔ لیکن جب کتاب پڑھی تو اندازہ ہوا کہ اکثر لوگوں نے اس کتاب کو یا تو پڑھا نہیں یا سرسری پڑھا ہے۔  اس کتاب کے اعتبار سے  آنند صاحب  بیاسی کے ہو چکے ہیں۔ وہ پاکستان کے علاقے چکوال میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم بھی انھی علاقوں میں حاصل کی ، پھرنقل مکانی پر مجبور ہوئے ، ہندوستان گئے اور وہاں سے کٹھن کاٹتے امریکہ چلے گئے اب وہیں رہتے ہیں۔ عملی زندگی صحافت سے شروع کی اور آخر تدریس پر کی۔ اس کتاب میں جن لوگوں کا ذکر آیا ہے وہ صرف اردو ادب  ہی کے لیے اہم نہیں ہیں بل کہ برِ صغیر کے ادب کے لیے بھی اہم ہیں۔ آنند  صاحب کی ان سے قریبی ملاقاتیں رہی ہیں۔ اس لیے ان کی اس کتاب میں صرف آنند صاحب ہی کی زندگی نہیں ہے ، بہتوں کی زندگیوں کے ٹکڑے اور چہرے ہیں۔ آنند صاحب نے اکثر باتیں اشاروں میں کہی ہیں لیکن  یہ  اشارے ایسے بھی نہیں کہ پڑھنے والے انھیں سمجھ ہی نہ سکیں۔ وہ لڑکیوں اور خواتین کی تعریف کرتے ہوئے ، فرخ دل، کم عمر اور  ایسے آزادی  پسند ہو جاتے ہیں جس سے ہماری ثقافت ابھی تک مانوس نہیں ہو پائی۔ وہ اپنی زندگی کو بدھا کی زندگی پر قیاس کرتے ہیں اگر وہ اسے اپنی زندگی کا بقلم خود لیکھا جو کھا نہ کہیں تو  یہ ایک ناول بھی  ہے۔ وہ تو کہتے ہیں کہ یہ فرضی معاشقوں کی حکایت نہیں ہے، رومان نگاری یا قصہ گوئی  بھی نہیں ہے بل کہ آٹھ دہائیوں پر مشتمل کوائف ، تجربات اور واقعات  ہیں جنھیں ایک زاویے سے دیکھ کر لڑی وار پرو دیا گیا۔  وہ کہتے ہیں  یہ  وہ تفصیل ہے کہ انھوں نے کن ادبی شخصیتوں سے کس زمرے میں، کب ، کہاں اور کیا سیکھااور اسے خود میں جذب کر کے کیسے اپنے ادبی تشخص کی تکمیل کی۔  پہلے جنم کی کتھاسولہ برس کی تک کی عمر تک جاتی ہے۔ دوسرا جنم ہندوستان کو ہجرت ، محنت مزدوری سے پیٹ پالنے ، تعلیم حاصل کرنے اور ادب کی دنیا میں داخل ہونے کا عرصہ ہے۔ تیسرا جنم یونیورسٹی  کی تعلیم اور ادبی ریاضت کا دور ہے جب کہ چوتھا اور جاری دور ہندوستا ن سے مغرب  کو ہجرت ہے۔  ان کی یہ زندگی بہت ٹیڑھی نہیں ہے لیکن بالکل سیدھی بھی نہیں ہے۔  اس میں ناموں کی بھر مار ہے اور لگتا ہے کہ  انھیں واقعات سے  کچھ منتقل کرنے سے زیادہ  لوگوں کے دل رکھنے کا خیال ہے۔ یہ ان کی شخصیت کا انداز بھی ہے، انھیں ہر بات دوسرے کے حوالے سے اپنے بارے میں فطری انداز سے یاد آتی ہے۔  کتاب ہر انداز سے پڑھنے کی ہے اور پڑھنے پر اکساتی ہے۔ اس سے  سیکھنے کا شوق رکھنے والے ادیب بہت کچھ پا سکتے ہیں ۔  اس میں کیوں کہ سن و سال کا اہتمام نہیں ہے اس لیے مجھے نہیں علم کہ بیان کیے گئے واقعات سے  دوسرے واقعات کی تصدیق اور انھیں سمجھنے میں کیا مدد مل سکتی ہے۔ اس میں کچھ ادیبوں کی کمزوریوں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے لیکن یہ ایسی بھی نہیں جن سے ان کے شعر و ادب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہو لیکن یہ ضرور خیال آتا ہے کہ ادیب بھی ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے عام لوگ یا کچھ ان سے بھی گئے گذرے۔ شاید آنند صاحب کی یہ منشا بھی ہو لیکن وہ تو بات اس پر ختم کرتے ہیں: چار جنموں کی اس کتھا کو مہاتما بدھ کے حوالہ جاتی چوکھٹے میں رکھ کر پیش کرنے سے مجھے اس کتاب کی ہر سطر میں اپنی ہی شبیہ نظر آتی ہے۔  تو ملیے چکوال میں پیدا ہونے والے مہاتما بدھ سے۔  لیکن یہ نہ بھولیے کہ وہ اپنے بارے میں یہ بھی کہتے ہیں: ہندوام، کافرم، گنہ گارم!

 

دوستو: میں آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر روزنامہ "جنگ" کراچی میں آج کی تاریخ میں مطبوعہ محترم انور سن رائے (بی بی سی، کراچی کاریسپانڈنٹ) کا تحریر کردہ تبصرہ پوسٹ کر رہا ہوں۔ 
ستیہ پالہ آنند


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 499