donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Aankh Jo Sonchti Hai Ka Sach


آنکھ جو سوچتی ہے کا سچ


شمیم قاسمی


تقسیم ہندکے تاریخی تناظرمیں زندگی کی پرانی اوراعلیٰ قدروں کازوال جس تیز رفتاری سے ہوا ہے اس کاگہرا انعکاس عصری ادب پربھی پڑا ہے۔

ملک کے مختلف شہروں، قصبوں اورعلاقوںمیں فرقہ پرست تنظیموں کی پشت پناہی میں اکثرجو فسادات برپاہوتے رہے ہیں اس کا تخلیقی اظہار الگ الگ پیرائے میں اورموثرطریقے سے اردو شعر وادب میں ہوتارہاہے۔ لیکن ہمیں اس کابجا طور پر اعتراف کرناچاہئے کہ فسادات کے پس منظرمیں زندگی کی تلخیوں ، جان ومال کی تباہ کاریوں بالخصوص مسلم معاشرہ کے تہذیبی، اقتصادی اورسیاسی زوال کا فکر انگیز اوربھرپور منظر نامہ بہت حد تک اردو فکشن میںہی دیکھنے کوملتاہے۔

’’آنکھ جو سوچتی ہے‘‘--- (ناول: ۲۰۰۰ئ) اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو کوثر مظہری کی تازہ کاوش ہے۔ناول نگار نے ابتدامیں ہی بڑی سادہ لوحی سے اس ناول کے عدم سے وجودمیں آنے کے اسباب وواجبات پر تاریخی تسلسل وشواہد کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ اس مقام پر یہ چھوٹی سی بات ذہن نشیں رہے کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتاہے۔ بہرحال ناول نگار کے تخلیقی محرک کے سیاسی پس منظر بطور خاص صوبۂ بہار کی سیاسی بازیگری کو سمجھنے میں ’’ناول سے پہلے‘‘ عنوان کے تحت لکھاگیا ایک ورق نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔ جو یقینا ناول نگار کی ذہنی کیفیت کو سمجھنے میں سود مند ثابت ہوگا ساتھ ہی بہ حیثیت قاری اس کے مطالعہ سے ہماری سوچ کو بھی ایک سمت ملے گی۔ ناول نگارکابیان ہے کہ

’’ اس ناول کا خاکہ ۶؍دسمبر ۹۲ء کے بعد بننا شروع ہوا اور کچھ چیزیں اسی وقت ضبط تحریر میں آگئیں۔ میںنے سیتامڑھی کے دوتین گائوں کا دورہ بھی کیا۔ کچھ حقائق جمع کئے۔ جنوری ۱۹۹۳ء تک اس کے پچاس صفحات لکھ لئے گئے۔ اس کے بعد نامساعد حالات نے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچنے نہیں دیا۔ مگر اس کا پلاٹ، اس کے کردار اور واقعات مستقل سات برسوں تک میرے دل ودماغ پر چھائے رہے۔ جب ذہن کو فراغت نصیب ہوئی تو پرانے پولی بیگ میں سینت کر رکھے ہوئے کاغذات کو باہر نکالا اورجھاڑ پونچھ کر صاف کیا ۔ مسودے کوپڑھا اور سوچا۔ اس طرح پڑھ کر سمجھنے اور سمجھ کر پڑھنے کے بعد سوچ کو ایک سمت ملی۔ اب تمام واقعات ، کردار اور تلازمات کو ذہن میں حاضر کرنے کی کوشش کی۔ جب میںنے محسوس کیا کہ اب قلم اٹھایاجاسکتاہے تولکھنا شروع کیا۔ جس طرح زندگی اچانک ختم ہوجاتی ہے اسی طرح ناول بھی ختم ہوسکتاہے کہ یہ بھی زندگی کاآئینہ ہوتا ہے بلکہ زندگی ہوتا ہے۔‘‘

در ج بالا سطور کے بعدآپ اسے پلان اینڈپروجیکٹ کے تحت لکھا ہوا ناول بھی کہہ سکتے ہیں یا دوقوموں کے آپسی ونظریاتی ٹکرائو سے شروع ہونے والی ایک ازلی کہانی کاہلکے رنگوں کے برش سے تیار کیا ہوا پوٹریٹ یاپھر مزید واضح طورپر ہندو مسلم فساد سے برپا ہونے والی ہولناکیوں ، معصوم جانوں کی ہلاکتوں، شرپسند اور سیاسی بازیگروں کی ملی بھگت سے پید اشدہ دھماکہ خیز صورت حال کا ۱۵۸ صفحات اور ۲۰ ابواب پرمشتمل statement of factsبھی کہہ سکتے ہیں جسے قوت قلم کا تخلیقی جامہ پہنانے کی مظہری نے ہرچند کہ پوری کوشش کی ہے۔ یہ اوربات ہے کہ بیشتر مقامات پر وہ لڑکھڑا سے گئے ہیں کہ ایسا ہونا فطری بات ہے کہ جس حساس اور برننگ موضوع پر انہوں نے قلم اٹھایا ہے اس میں توازن قائم رکھنا اس وقت اوربھی دشوار گزارہوتا ہے جب اس کا خالق مذہبی و ملی مسئلہ میں حد درجہ جذباتی ہو۔ اور پھراس کا تعلق متصادم فرقوں میں کسی ایک مخصوص فرقہ سے ہو۔ یہی وہ پل صراط ہے جسے ہم ’دھرم سنکٹ‘ کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال! مظہری نے اپنی تازہ کاوش کو ناول کانام دیاہے۔ ناول کے عنوان میں جو دانشوری چھپی ہے اس کا پرتواندرون ناول پر بھی پڑا ہے ہمیںیہ دیکھنا ہوگا۔ اس بحث سے قطعی لاتعلق ہوکر کہ زیر مطالعہ تخلیق فن ناول کی کسوٹی پر اتری بھی ہے یانہیں؟ اس مختصر سے جائزہ میں ’’آنکھ جو سوچتی ہے‘‘ پر تفصیلی گفتگو ممکن بھی نہیں ہاں اس پرایک سرسری نظرتوضرور ڈالی جاسکتی ہے۔

ریاست بہار کے زرخیز ضلع سیتامڑھی میں برپاہوئے فساد کے تناظرمیں لکھی گئی اس طویل کہانی کامرکزی کردار اس اطراف کا باشندہ،فکر معاش سے نڈھال ۔یوجی سی کی فیلو شپ سے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے اورگزارا کرنے والا،صوم وصلوۃ کا پابند نوجوان شاعر وادیب رضوان احمد ہے۔ جو ایک درد مند انسان کا دل رکھتے ہوئے بھی مذہبی وملی مسئلہ کو لے کر حد درجہ جذباتی ہے۔ وہ خالی پیٹ رہ کر بھی قرآن کے مفاہیم و مطالب میں سر کھپاتاہے اور خوف و ہراس کے ماحول میں اللہ پر توکل کرکے جاڑے کی ٹھٹھڑادینے والی برفیلی شب میں دینی ودنیاوی تعلیم سے آراستہ اپنے گائوں چندن باڑہ جاتے وقت ندی پار کرنے کی دعا پڑھنا نہیںبھولتا ۔ دراصل اس کی فکری کائنات اس کا نظریہ حیات بلاشبہ اس کے ہم جماعتوں، دوستوں اور متعلقین سے جداگانہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اخبار کی ایک چھوٹی سی سرخی ؍ریڈیو نیوز اس کی روز مرہ کی زندگی میںبھونچال لے آتی ہے۔

Communal clash in sitamarhi(.) six died (.) twenty injured(.)

اس خبر کو پڑھتے اورسنتے ہی رضوان چہرے مہرے سے ہونق دکھائی دینے لگتا ہے ۔ اس پرہیجانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ اس کے ملنے جلنے والوں، بزرگوں یہاںتک کہ حلقہ احباب میںبھی یہ سرخی کوئی وقعت نہیں رکھتی کہ ۱۹۴۷ء کے بعد پیدا ہونے والی نسل تو بطور خاص موسم فساد کے سرد و گرم کو سہنے کی عادی ہوگئی ہے۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ایسے میں بے حد حساس طبیعت رکھنے والے رضوان کی دلی کیفیت  سمجھنے والا کوئی ہم نوا ،کوئی غم گسارہے؟

مندرجہ ذیل اقتباسات؍ مکالمہ نے سب کچھ عیاں کردیا ہے۔

’’یہ نیوز تم نے پڑھی ہے؟‘‘

ہاں پڑھی ہے مگر تم اتنے پریشان کیوںہو‘‘

 فساد ہوگیا ہے… لوگ مررہے ہیں… اورتم اتنی سردمہری سے کہہ رہی ہو کہ ’’ہاںپڑھی توہے ۔
ری لیکس… یہ کون سی نئی نیوز ہے۔ لوگ تودنیا میں مرتے ہی رہتے ہیں اوریہ Communal Roitsکاہونا تو اس دیش میں عام سی بات ہے۔ گویا روز مرہ میں شامل ہے اور جیسا کہ معلوم ہے روزمرہ کے واقعات نیوز نہیں کہلاتے  

( زیبا)
۔
سیتامڑھی کے بارے میں کوئی نیوز پڑھی تم نے؟

ہاں، پڑھی مگر کیوں؟ خیریت؟

ارے وہاں فساد ہوگیا ہے اور تم پوچھتے ہو کیوں؟

ایسا تو لائف میں ہوتاہی رہتاہے۔

۔
’’زیبا تم آسمان پر چمکتے ان ستاروں کو دیکھ رہی ہو؟ ‘‘

’’ہاں میں دیکھ رہی ہوں مگرکیوں؟‘‘

’’کتنی خوبصورت ہے ان ستاروں کی دنیا اور کتنی بد صورت ہے ہماری دنیا کاش ہم بھی ستارے ہوتے ؟‘‘

’’دراصل تم ابھی کسی طرح کے جاب سے نہیں لگے ہو اس لئے ذہن میں ایسی باتیں پید اہوتی رہتی ہیں۔‘‘

۔
انکل! سیتامڑھی میں کل فساد ہوگیا ہے۔ مسلمانوں کے بہت سے گھر جلائے گئے ہیں۔ ایسالگتاہے کہ ان کاکوئی پرسان حال نہیں۔

تب پروفیسر صابر علی جن کے چہرے پر سنجیدگی اورتجربات کی لکیریں جھریوں کی شکل میں نمایاں تھیں نے بڑی متانت سے فرمایا۔

’’بیٹے یہ فساد تو ہندستان کا مقدر بن گیا ہے۔ انسانوں کا خون دیکھ دیکھ کرطبیعت اکتاگئی ہے… آج کا مسلمان صرف نام کا مسلمان ہے۔ آج کی تباہی کی صرف ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے بقول اقبال    ؎

تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر

’’مسلمانوں کے انحطاط کا جب یہ عالم ہے تو ہمیں اس کاخمیازہ بھگتنا پڑے گا۔‘‘
بے روز گاری اورمعاشی تنگی کے باوجود وزیٹنگ کارڈ استعمال کرنے والا ناول کا ہیرورضوان اپنے ہم جماعت دوستوں خالد امام، نسیم ، عظیم ، زیبا،کلیم یہاں تک کہ اپنے بزرگوں ، عالموں اور اپنے آئیڈیل پروفیسر صابر علی سے بھی فکری سطح پر مختلف نظرآتاہے۔ وہ ان سبھوں کی طرحIsolatedیا بے عمل، فلسفیانہ زندگی جینا نہیں چاہتا ہے۔یہی سبب ہے کہ سیتامڑھی کے فساد کی ایک چھوٹی سی خبر اس کے قلب مضطر پر قیامت خیز گزری ہے اوروہ سراپا لہولہان ہوگیاہے۔ اس کی روح بے چین ہے یہاں تک کہ بوقت نماز عشا دوران سجدہ اس نے محسوس کیا کہ اس کی پیشانی اللہ کے حضور میں نہ جاکر آگ کی بھٹی میںچلی گئی ہے۔ اس کی آنکھوں کے کینوس پر ہرلمحہ فساد کا نقشہ گھوم رہاہے۔ سارے واقعات و حادثات گڈمڈ ہوتے جارہے ہیں۔

شہر سیتامڑھی … گنیش پور… سرکٹی لاشیں… روتے بلکتے شیر خوار بچے… بے پناہی کے عالم میں بھاگتے ہوئے نہتے لوگ… خون میں لت پت چنڈیہا… پنچھو، ہتیا، خوف وہراس کے ماحول میں سانس لیتا ہوا چندن باڑہ… ظلم و بربریت کا ننگا رقص، لہو روتی آنکھیں، مسجد کے امام کا بہیمانہ قتل… بے یار ومددگار نوازی… معصوم انگوری کی لاش… چہار جانب فساد کے شعلوں میں گھرے خاکستر ہوتے ہوئے اقلیتی فرقے کے لوگ…بہ عصمت عورتوں کی چیخیں اورمال واسباب اورتمام مظاہر ومناظر--- گویا موت کے عفریت کا یہ گھنائونا کھیل سب نے دیکھا محسوس کیا لیکن حد درجہ حساس دل کا مالک رضوان دس بیس کٹرمسلم نوجوانوں کے ساتھ جسمانی طور پر توشوگرمل کے علاقے میں رہ کر فلاحی ٹیم کے ساتھ اپنے ملی فرض کی ادائیگی میں لگاہواتھا لیکن ذہنی اور روحانی طور پر وہ فساد کے انہیں شعلوںمیں جھلس رہاہے جس کی زد میںآکر اسکے بے شمار مسلم بھائی بہن اپنے مالک حقیقی سے جاملے تھے---اور جب دورکہیں گنے کے کھیتوںمیں جے شری رام کا فلک شگاف نعرہ گونج رہاتھا ٹھیک اسی لمحہ ایک مورخ نے اپنی نامکمل تحریر میں ایک جملہ کااضافہ کیا۔

"And after frerquent bloodshed, the golden age came into existence"

کہتے ہیں کہ روز ازل سے قتل و غارت گری توانسانی جبلت کاحصہ ہے۔ فساد ہمارے ملک کی تاریخ کاایک بڑاعظیم المیہ ہے۔ ملک میں بدلتے ہوئے سیاسی حالات کے خونی پنجوں کے جبر سے نکلنا آسا ن نہیں۔ منافرت، بے رحمی ، قتل و غارت گری اور ان سب پر حاوی ہوتی ہوئی شطرنجی سیاست کی شطرنجی چال پر کئی قابل ذکر ناول لکھے گئے۔ جن میں تقسیم ہندکے تاریخی المیہ کا ہنر مند اظہار ملتاہے۔ ساتھ ہی ملک کے بدلتے ہوئے سیاسی نظام میں شرپسند عناصر کی بالادستی اوردوقومی نظریوں کے متصادم ہونے کی فکر انگیز تاریخی جبر کے بہائو کی موثر تخلیقی عکاسی بھی ملتی ہے۔ اب ان ناولوں کی فہرست سازی یہاں ممکن نہیں لیکن عبدالصمد کے ناول دو گززمین اورخوابوں کا سویرا کاذکر میں اس لئے کرنا چاہوں گاکہ ان ناولوں میں مہاجرت کے بے پناہ دکھ درد، اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے ناقابل برداشت ظلم و ستم کی جو حقائق آشنا عکاسی کی گئی ہے  اور عفریت کے جس گھنائونے مادرجات رقص کا منظرنامہ پیش کیاگیا ہے ا س کا دائرہ عمل بطورخاص صوبہ بہارہے۔ متذکرہ ناولوں میں انسانی زندگی کی جبلت کا جو گہرا مشاہدہ ملتا ہے اور جو سماجی وسیاسی شعور کی بالیدگی کارفرما ہے زیر مطالعہ ناول اس کے برعکس ہے۔یہاں میرا مقصد کوئی تقابلی مطالعہ پیش کرنا قطعی نہیں بلکہ لاشعوری طو ر پر یہ تحریر قلم بند ہوگئی ہے اس کی وجہ صرف یہ ہوسکتی ہے کہ عبدالصمد اورکوثرمظہری دونوں کی تخلیق کا  مرکز ومحور بہار کی دھرتی ……عدل وانصاف کے علمبردار سلطان شیر شاہ  اورگوتم بودھ کامسکن ہے۔
آنکھ جو سوچتی ہے میں ناول نگار کانصب العین غیر واضح ہے اور ہندو مسلم فساد کی کوئی غیر معمولی تصویر ابھر کر سامنے نہیںآتی۔ عام طریقے سے فلاحی کیمپوں میں فساد زدہ پناہ گزیں ہوتے ہیں لیکن اسے ریلیف کمیٹی والے اپنے تحفظ کیلئے استعمال کرتے نظر آتے ہیں ظفر راجیش، درگاہی نوازی،سہیل ،خالد امام وغیرہ بے شمار کردار ناول کا جزو بننے سے رہ گئے ہیں کہ یہ سب عمومی کردار ہیں ان کی اپنی کوئی انفرادی حیثیت نہیں شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی جذباتی کیفیات کاکوئی پیکرنہیں ابھرتا۔ واقعات و حادثات کے تانے بانے بننے میں وہ تخلیقی ہنر مندی نہیںجھلکتی جو ایک پختہ ذہن ناول نگار کا خاصہ ہے بلکہ جابہ جا ایک جھول سا پیدا ہوگیا ہے۔تفصیل میں جانے کی یہاں گنجائش نہیں کہ میر ارائٹنگ ٹیبل بہرحال کوئی پوسٹ مارٹم گھر نہیں۔زیر مطالعہ ناول میں ڈرامائی عنصر ، نظم وضبط اوربطورخاص جمالیاتی عناصر کا گہر افقدان ہے۔

مذہبی شدت پسندی کا غلبہ ہوجانے کی وجہ کرتخلیقی ذہانت مدھم پڑ گئی ہے۔ فساد کو قریب سے دیکھنے کے بعد اس کاگہراObservationہوناچاہئے تھا ناول نگار کوقلبی سکون شاید نصیب نہیں اس وجہ سے ناول نگار بیشتر مقامات پر حقیقت سے دور اور گمان سے قریب تر نظر آتاہے۔ عالمانہ گفتگو کرنے والا ناول کا مرکزی کردار رضوان بڑا بزدل نظر آتا ہے۔ بیشتر کردار احساس کمتری کے شکار نظر آتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ناول میں کوئی تہہ دارپہلو ابھرکر سامنے نہیں آسکا جو قاری کوتادیر اپنے ساتھ باندھے رکھے۔

تقسیم ملک کے بعدفساد ہمارے یہاں ایک بھیانک شکل لے کرابھرا ہے۔ جو بلاشبہ انسانی تاریخ کاایک بڑاعظیم المیہ ہے۔ زیر مطالعہ ناول میں فساد رضوان کا ایک بڑامسئلہ ہے لیکن زندگی کے بعض حقائق سے چشم پوشی کی گئی ہے اور شاید یہی بنیادی وجہ ہے کہ ناول نگار کا نقطۂ نظر غیر واضح ہے۔ بعض بعض جگہ ایک حساس قاری جھنجھلاہٹ محسوس کرتا ہے۔ اس ناول میں بنیادی مسائل ایک دوسرے سے اس طرح گڈ مڈ ہوگئے ہیں کہ تمام کردار غیر متحرک معلو م پڑتے ہیں۔شاعر مشرق نے کیا خوب کہاہے  ؎

بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا

زیب داستان کے لئے اس ناول کا اکلوتا نسوانی کردار یعنی ایک ضدی لڑکی زیبا البتہ قاری کے ذہن میںاپنے حقیقت پسندانہ رویہ کی وجہ کر اپنا نقش چھوڑنے میں کامیاب نظر آتی ہے جبکہ ناول کامرکزی کردار رضوان حد درجہ جذباتی اور قنوطیت پسند نظر آتاہے۔ ایک کردار ظفر بھی ہے جو دوران فساد اور انتشار زدہ ماحول میں بھی موسیقی کے ابتدائی رموز سیکھنے کاخواہاں نظر آتا ہے۔ جو یہاں ایک غیر فطری عمل ہے۔ سچ پوچھئے توزیبا( ناول کی ہیروئن) کی نگاہ میںبھی رضوان(ہیرو) کایہ فسادی بھوت  پاگل پن کے سوا کچھ نہیں۔اسی طرح سرسبز گائوں کے ایک کھپریل مکان کے ایک رہائشی کمرہ کا منظر نامہ بھی بڑامضحکہ خیز ہے جو قاری کو حیرت میں ڈال دیتاہے کہ کہیں وہ کسی مہانگرمیں تونہیں جی رہاہے۔

’’رضوان کے اس گھر میں چار طرح کی پریشانیاں تھیں ۔ روشنی کا فقدان، ہواکانہ آنا، چوہوں کی بہتات اوربرسات کے موسم میں چھت کا برسنے کی طرح ٹپکنا … روشنی کیلئے دن میں بھی لالٹین یا چراغ مستقل جلتارہتاتھا کہ بغیر اس کے اس گھر میں کوئی سامان دکھتا بھی نہیں تھا… گویا دونوں میاں بیوی دن رات خوشی خوشی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ Inhaleکرنے کے عادی ہوگئے تھے۔ … ہوا آنے کا یہ حال تھا کہ باہر جب خوب تیز آندھی چلتی تو کمرے کے اندر تھوڑی سی ہوا دھوکے سے کسی چھید سے آجاتی۔ گویا یہ کمرہ اس آدمی کی طرح تھا کہ دنیا اور اطراف میں تو ہنگامہ برپا ہے اورقیامت خیز مناظر ہیں مگر اس کے اندر ایک سمندر کا ساسکوت ہے۔‘‘

(صفحہ۔۱۰۲)

ناول میں قلم بند کئے گئے حادثات و واقعات کی کوئی معتبر سند نہیں۔ سابق وزیر بہار رگھوناتھ جھا کے استقبالیہ کے وقت اور جیل کے مناظر کی عکاسی میں بے ربط مکالموں کی ادائیگی نے ناول کے اس باب کو غیر فطری بنادیاہے۔ناول کے آخری حصہ میںکسی کمرشیل فلم کی طرح بے موت مرجانے والا مولوی نما رضوان اس وقت تو اوربھی بزدل اوربونا قد نظر آتا ہے۔ جب سیتامڑھی کے حوالات کی سلاخوں سے رشوت خوری اورسیاسی پیروی کے بل بوتے پر آزادہوتے وقت معصوم نوازی کوایک جھٹکے میں بے یا رو مدد گار چھوڑ دیتاہے تب ملی جذبوں کو لے کر حد درجہ حساس نظر آنے والا رضوان کتنا مفاد پرست دکھائی دیتا ہے وہ د و گزمین کا چامو بن ہی نہیںسکتا ۔ سند رہے کہ رضوان ان فرقہ پرست کھدر دھاریوں کی خوشنودی کے لئے کئی بار استقبالیہ گیت لکھ چکا ہے جو سیتامڑھی میں فساد کی جڑرہے ہیں۔اس کے برعکس حسین الحق کے فرات کی شبل بننے کے جراثیم ناول کی ہیروئن زیبا کلیم میںکسی حد تک پائے جاتے ہیں۔ حالانکہ ناول نگارنے اسے محض زیب داستاں کیلئے تخلیق کیا ہے۔ دراصل اس ناول کی پوری فضا پرمذہبی شدت پسندی کاغلبہ طاری رہاہے۔ ناول نگار کی نظرمیں فساد اس ملک کا سب سے بڑامسئلہ ہے۔ لیکن اس نے زندگی کے بعض اہم مسائل وحقائق سے چشم پوشی کی ہے۔ جس کی وجہ سے ایک حساس قاری اس کامطالعہ کرتے وقت بعض جگہ یقینا جھنجھلاہٹ محسوس کرے گا۔ ایسے میںناول کی ہیروئن (رضوان کی نہیں) زیبا کلیم ہی ایک ایسا متحرک کردار ہے جو قاری کوقدرے ذہنی تقویت پہنچانے میں کامیاب نظر آتا ہے۔ ناول نگار کاکمال یہ ہے کہ اس نے لاشعوری طورپر ہی سہی ایک ایسے کردار کی تخلیق کی ہے جوجیتی جاگتی اورہمارے عہد کی نمائندہ معلوم دیتی ہے۔ کہ وہ نہ صرف حقیقت پسند ہے بلکہ ملک کی سیاسی صورت حال اورزندگی کے تاریک روشن پہلوئوں پر اس کی گہری نظر اور effective observationہے  ہرچند کہ زندگی کے دیگرمعاملات اس ناول میں گڈمڈ ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ ناول کے مرکزی کردار کے ساتھ ساتھ بیشتر کردار غیر متحرک نظرآتے ہیں۔ ناول کے بعض جملے اقوال زریں کے تحت لکھے جانے کے لائق ہیں۔ لیکن بیشتر مقامات پرپٹے پٹائے فقروں؍ جملوںکے بے ترتیب سلسلے ہیں۔

جہاں تک زبان و بیان کی غلطیوں کاتعلق ہے تویہ اہل زبان ہی جانیں ہاں میں اتنا ضرور کہہ سکتاہوں کہ تمام اغلاط سے پاک اورشبہات سے مبرا تو صرف اللہ کا کلام ہے۔

مندرجہ بالا حقائق اورزیر مطالعہ ناول کا حصہ بنے غیر سند یافتہ واقعات وحادثات کی روشنی میں ’’آنکھ جوسوچتی ہے‘‘ کاکوئی سچانتیجہ اخذ نہیںہوتا۔ البتہ کوثر مظہری اس بات کیلئے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوںنے لاشعوری طورپر زیبا کلیم جیسے بولڈ نسوانی کردار سے ہمیں متعارف کرایا۔ اس حوالے سے بھی کوثر مظہری یادکئے جائیںگے کہ دہلی ارد واکادمی کے اردو ناول پر ہونے والے ایک سیمینار میں ماہر لسانیات اوردیدہ ور نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اردو کے جن اہم ناولوں کا ذکر کیاتھا ان میں زیر مطالعہ ناول بھی شامل ہے۔

(آمد،شمارہ ۔ ۱،پٹنہ/سمستی پور)

^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^

Comments


Login

You are Visitor Number : 596