donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Aawaz Ke Saye Ki Haqiqat


آواز کے سائے کی حقیقت


شمیم قاسمی


کہتے ہیںکہ صنف نازک اپنی عمر کی ایک خاص منزل پر اپنے جسم کے اس خوشنما ابھار کو چاہ کربھی نہیں چھپاسکتی جس کاGrowthایک فطری پروسس ہے اور اگریہ Growthنہ ہو تو پھر وہ نہ صرف بھونڈی نظر آتی ہے بلکہ غیر جاذب نظربھی۔ اردو شاعری بھی صنف غزل کے بغیر ایسی ہی تصورکی جائیگی۔ دراصل میں صرف اتنا کہنا چاہ رہاہوں کہ غزل کے بغیر اردو شاعری آدھی ادھوری ہے۔ شاعری کی اصل شان اورجان تو غزل ہے۔ غالب کا عہد رہا ہو کہ ظفراقبال کاصنف غزل کوایک نمایاں اورمرکزی مقام حاصل رہاہے۔ غزل کی زلف گرہ گیر کے ہم سبھی اسیر رہے ہیں۔ اب یہ الگ بات کہ ہم میں سے بیشتر لکیر کے فقیرثابت ہوئے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ غزل کا دامن نت نئی خوشبوئوں سے بتدریج معطر ہوتارہاہے۔ اور بقول شاعر   ؎

 کوئی سمندر ناپے کوئی چاندکی دھرتی چھوآئے
 اپنا تو بس کام یہی ہے کرتے رہوایجاد غزل

سچ ہے کہ جدید اردو شاعری یا پھرنئی شاعری کا پورامنظر نامہ صنف غزل کے بغیر نامکمل ہے ۔ ہمارے عہد کے تقاضوں، روزمرہ زندگی بسر کرنے کے انگنت بنیادی مسائل اور پھر اعلیٰ اقدار کی شکست و ریخت اورایک طرح کے روحانی انتشار نے ہمارے تخلیقی اذہان کو بری طرح جھنجھوڑ ا ہے جس کابامعنی اورموثر اظہا رہمارے عہد کے غزل گو شعرانے اپنی غزلوںمیں بخوبی کیاہے۔

ہرچند کہ اچھے ادب کومیں کسی دہائی چوتھائی میں باندھنا نہیں چاہتا پھر بھی سہولت کے لئے کہاجاسکتاہے کہ1980کے بعد اردوشاعری کے منظرنامہ پر اپنی پہچان کی جلی لکیریں کھینچنے والے غزل گویوں کے غول میں’’آوازکے سائے‘‘ کاخالق عبید الرحمن کانام ایک غزل گو کی حیثیت سے قارئین شعر وادب کے لئے ناآشنا نہیں رہا۔ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر عبیدالرحمن وزارت زراعت حکومت ہند میں ایک باوقار اورکامیاب سائنٹسٹ ہیں اور بہ حیثیت سائنٹسٹ بہت ممکن ہے کہ انہوںنے تجربہ گاہ میں حیرت انگیز تجربے بھی کئے ہوںلیکن شاعری وائری بطور خاص غزل کے فارم میں ’’نیا کچھ‘‘ کردکھانا جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یوں یہ صنف سخن اتنی تنگ داماںبھی نہیں کہ غالب کی عظمت  تواسی’’ تنگنائے غزل‘‘ میںچھپی ہے۔ غزل کی زندہ روایات سے ایک ذرا انحراف کرتے ہوئے غیر روایتی غیر مروجہ شعری لفظیات و اسلوب کی اختراع اورنئی نئی شعری تراکیب وضع کرنا بھی کوئی آسان نہیں چنانچہ سائنٹسٹ ڈاکٹرعبیدالرحمن نے بھی بہ حیثیت شاعر اس فیلڈ میں کسی طرح کا رسک لینا قبول نہیں کیا ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اپنے احساس حسن وجمال اورمعاملات رو زمرہ کو شعری جامہ پہنانے کیلئے اپنے انگنت ہم عصر شعرا کی طرح انہوںنے بھی صنف غزل کواپنے لئے ایک مضبوط وسیلہ اظہار مانالیکن اس اعتراف کے ساتھ   ؎

کچھ لوگ خوش ہیں یوں کہ نئی راہ نکال لی
ہم لوگ خوش ہیں یوں کہ پرانی سنبھال لی

مجھ پہ روشن ہوئے جاتے ہیں ادرا ک کے در
تری آواز کے سائے کا ہے یہ حسن اثر

یوں ظاہر ہواکہ عبیدالرحمن بیک وقت کلاسیکی روایات اورعصری شعری تقاضوں کے نمائندہ شاعر ہیں۔ دراصل پیش رو شعری رویوں اورلب و لہجہ کے زیراثر رہتے ہوئے شاعراپنے شعری سفر کو ایک واضح سمت وجہت دینے کیلئے مختلف آوازوں کے شورمیں بھی اپنی شناخت قائم رکھنے کاجواز ڈھونڈ رہاہے اور اس میںبہت حد تک کامیاب بھی ہوا ہے   ؎

جستجو اورہے کچھ اہل جنوںکی ورنہ
کون کرتا ہے سفر جائے اماں سے پہلے

اردو شاعری کی زندہ روایت ووراثت کو سنبھالے رکھناہم میں سے کتنوں کوآتاہے۔ اردو شاعری کے بیشترکارخانۂ غزل میں’’تر۔ ترین‘‘ نسل کے چند مخصوص شعرانے مختلف مکتبۂ فکر والیTradesکی خود کارمشینوں کے ذریعہ خود کو ’’علاحدہ‘‘ ثابت کرنے کے زعم میں جو ماڈل تیار کئے ہیں اس پر پیش رو شعرا ؍ شاعری کی بازگشت صاف سنائی دیتی ہے۔ یوں۱۹۸۰ء کے بعد کی شاعری کے نام پر چراغ سے چراغ جلانے کے اس عمل کو کیا صنف غزل کے باب میں کوئی بڑااضافہ تسلیم کرلیاجائے؟ شکر ہے کہ ’’آواز کے سائے‘‘ کے خالق نے اپنا پہلا شعری مجموعہ پیش کرتے ہوئے کسی طرح کاکوئی بلند آہنگ دعویٰ پیش نہیں کیا ہے۔ بقول ان کے (عبید) ’’شاعری کسی منصوبہ بندی کانام ہے اورنہ ہی کسی ادارہ کا‘‘ سچ تویہ ہے کہ ان کی غزل میں جوفنی رکھ رکھائو اورفکری توازن ہے اوربطور خاص ان کے شعری اورشخصی رویوں کے اظہا رمیں جوایک طرح کی بے نیازی اورانکساری ہے دراصل وہی ان کے تخلیقی سفرکے درمیان ڈوبتی ابھرتی آواز کے سائے کی ہم سائیگی کاسبب بنی ہے۔ ان کے بیشتر اشعار میں جہاں کلاسیکی روایت کا احترام ملتا ہے وہیں عصری شاعری کا کیف بھی ۔ یوں کہئے کہ ان کی غزلوں میں ہمعصر زندگی کی گہری چھاپ ہے   ؎

ہم دوسروں کے غم میں جو نم دیدہ ہوگئے
دنیا کے واسطے بڑے پیچیدہ ہوگئے

واحسرتا بدلتی ہوائوں کے ساتھ ساتھ
واعظ کے سارے وعظ بی بوسیدہ ہوگئے

اگرچہ رکھتے ہیں دل میں یقین کی دولت
قتیل خنجر وہم وگمان بھی ہم ہیں

 اگرسمیٹ لیں خود کو تو دائرہ بن جائیں
جوپھیل جائیں توپھر اک جہان بھی ہم ہیں

جب سامنے مراحل دشوار آئے ہیں
کام اپنے آشنا ہیں اغیار آئے ہیں

اے جان حق ہمارا تجسس تو دیکھنا
ہم تیری جستجو میں سردار آئے ہیں

نئی ہوائوں نے پامال کردیں سب قدریں
بشر کی بھیڑ میں اب کیجئے بشر کی تلاش

عبید کچھ نہ ملے گا بجز خس وخاشاک
نہ سطح آب پہ کیجئے کسی گہر کی تلاش

جب پوچھنے کا وقت تھا پوچھا نہ کسی نے
اچھے ہیں عبید آج توسب پوچھ رہے ہیں

 ایسا نہیں ہے کہ عبید سائنسی اور مادی عہد کے درپیش مسائل کی پروا کئے بغیراپنے اطراف رینگتے شعری آوازکے سائے کے اسیر ہوگئے ہیں۔ ان کے خیمۂ سخن کی طنابیں بڑی چست و سخت ہیں۔ اورجن کا سرازمین سے جڑاہوا ہے۔ اورجب کسی شے یا خیال کا رشتہ زمین سے ہموار ہوجائے توپھر اسے مخالف ہوائیں آسانی سے اکھاڑ نہیں سکتیں  ؎

ہمیں کوفیصلہ کرنا ہے اپنے بارے میں
نتیجہ بھی ہیںہمیں امتحان بھی ہم ہیں

شوخی کسی میں ہے نہ شرارت ہے اب عبید
بچے ہمارے دورکے سنجیدہ ہوگئے

کب تلک دیر وحرم کی یہ حدیث بے سود
مسئلے اور ہیں ناقوس و اذاں سے آگے

کیا کریں یہ زرو گوہر ہم تم
دل غنی ہے تو تونگر ہم تم

کون رکھتاہے ہمیں گردش میں
کس کی محفل کے ہیں ساغر ہم تم

میرا تو ایسا ماننا ہے کہ عبیدا لرحمن بنیادی طور پر غزل پرست شاعر ہیں۔ پیش نظر مجموعہ کلام میں چند قطعات ورباعیات کوچھوڑ کر باقی جو کچھ ڈھیر سارابچتا ہے وہ سرمایہ غزل ہے۔ جو اردو شاعری کی زندہ روایت سے استفادہ کرتاہوا عصری شعری رویوں سے حد درجہ مربوط بھی ہے۔ ان کا شعری ڈکشن اچھوتا تو نہیں لیکن یہ سچ ہے کہ نہ صرف زبان و بیان بلکہ فکر وفن کی سطح پربھی وہ کسی طرح کے انتشار کے شکارنہیں۔ دراصل شخصی طورپربھی وہ کھلے ذہن ودل والے ہیں ان کے ملنے جلنے میں ایک والہانہ پن ہے۔ اوریہی والہانہ پن ان کی شاعری کابھی وصف خاص ہے۔ میں نے انہیں مختلف رسائل و جرائد کے حوالے سے پڑھاجانا لیکن جب انہیں قریب سے دیکھا توجانا کہ ان کاظاہر وباطن ایک جیسا ہے۔ ان کی نگاہ میں بزرگ شعراء اوران کی تہذیبی و شعری وراثت بھی بڑی محبوب ومحترم ہے انہوں نے اپنے چند دوسرے ہم عصر شعرا کی طرح کبھی اس کادعوی نہیں کیا کہ میری الگ سے پہچان ہو اوریہ بھی کہ میری شاعری  پیش رو شعرا سے مختلف ہے۔ اصل میں عبید اپنے بزرگوں کی دستار روند کراپنی منزل مقصود کو پانابھی نہیں چاہتے۔ مندرجہ ذیل شعر میں ان کا اعترافی لہجہ ان کی نیک طبیعت اورایک سچے فن کار؍ انسان ہونے کی گواہی دے رہاہے   ؎

 استاد شاعروں کی زمینوں کافیض ہے
افکار میرے پست تھے بالیدہ ہوگئے

مجھ پہ روشن ہوئے جاتے ہیں جو ادراک کے در
تری آواز کے سائے کا ہے حسن اثر

ذہن شاعرمیں ادراک کے در بس یوں ہی روشن یا وا نہیں ہوتے اس کے لئے گہری ریاضت اورزانوے ادب تہہ کرنا ہوتا ہے۔ ’’کاتالے دوڑی‘‘ والے فارمولے پرعمل کرنے والے ؍والیوں کا حشر سامنے ہے۔ عبید کو اپنے ہم عصر دوستوں اور نئی نسل سے جوشکایت ہے وہ بے جانہیں   ؎

 اپناجہاں بسانے کے بے جا جنون میں
دستار اپنی آپ ہی ہم نے اچھال دی

ایسی تہذیب سے حاصل کیا ہے
جو بھرے شہر کو جنگل کردے

سیاسی بازیگری ،مہاجنی نظام ، اقدارحیات کی شکست وریخت اورسائنسی عہد کے درپیش Challenegesسے نبردآزما رہتے ہوئے بھی عبید نے اپنی  بزم سخن سجارکھی ہے اس کی نیو بڑی پختہ ہے۔ حق گوئی، راست بیانی اور انسان دوستی ان کی شاعری کے غالب عناصرہیں  ؎

کیا شعرکسی کے لب  ورخسار پہ لکھئے
دل کہتا ہے اب دیدۂ خوں بار پہ لکھئے

محراب حرم پر توبہت آپ نے لکھا
حق بات فصیل رسن ودارپہ لکھئے

ہم حقائق کی بات کرتے رہے
فیصلہ ہوگیا دلیلوں پر!

شہر میں رقص ہے فسادوں کا
امن کی فوج ہے فصیلوں پر

بات کل کی ہے ہم عروج پہ تھے
آگئے آج کیوں زوال تلک

مشینی دورمیں کیا صاحب ہنر کی تلاش
دیار سنگ میں بے سود شیشہ گر کی تلاش

نیند آنکھوں سے اڑی خواب سہانے بھی گئے
لوریاں ختم ہوئیں قصے ، فسانے بھی گئے

زندگی جب سے عیاںمجھ پہ ہوئی ہے لوگو!
عکس رنگین بھی گئے آئینہ خانے بھی گئے

اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں عبید اپنی شاعری کولیکر کسی خاص طرح کی خوش فہمی کے شکارنہیں ان کا شعری سفر دراصل پیش رفت کا سفر ہے جو ہمیشہ رواں دواںرہتاہے۔ انہیں خوب معلوم ہے   ؎

قیام کی کوئی صورت نظرنہیں آتی
رہ وفا میں مسلسل سفر کاقبضہ ہے

کوئی اندھیرا مرادل بجھا نہیں سکتا
تمہاری یادبنی ہے مرے سفرکا چراغ

گھر کے باہر تو بڑی رونق ہے
آئو جھانکیں ذرا اندرہم تم

آج کچھ بھی نہیں جز گرد سفر
تھے کبھی میل کا پتھر ہم تم

میرا ایسا ماننا ہے، میرا ایسا تجربہ  ہے کہ قبل سے تسلیم شدہ آوازوں کے زیر اثر رہ کر بھی اپنی ایک آواز نکالی جاسکتی ہے۔ معاصر اردو غزل کے اطراف لہراتے مختلف رنگ اور آواز کے سایوں کے ازدحام میں بھی عبید الرحمن کے زیر مطالعہ مجموعۂ غزل آوازکے سائے کوڈھونڈ نکالنا مشکل نہیں کہ بہرحال ان کی شعری آواز کے سائے کوتاہ قدنہیں۔ یوںبھی ان کا شعری نقطہ نظربہت واضح ہے۔’’ شاعری کسی منصوبہ بند ی کانام نہیں اورنہ ہی کسی ادارے کا۔ یہ محض اپنے گرد و پیش کے حالات سے غیر ارادی طو رپر متاثر ہوجانے کی کیفیت اور واردات قلبی کوجامہ شعر پہنانے کی کوشش کا دوسرانام ہے۔‘‘----- اور اس میں شک بھی نہیں کہ اپنی سی اس کوشش میں وہ ایک حد تک کامیاب وکامران بھی نظر آتے ہیں۔ انہیں حیات عصر کا گہرا ادراک ہے او روہ یہ بخوبی جانتے ہیں    ؎

 ہے  بہت  دور  منزل مقصود
کیاکریں راہ میں قیام ابھی



(بزم سہارا:۲۰۱۳ئ)


**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 640