donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Abdul Samad : Aks Dar Aks Ki Raushni Me


عبد الصمد: عکس درعکس کی روشنی میں


شمیم قاسمی

                  
میری پسندیدہ کتابیں کبھی بُک شیلف کی زینت نہیں بنتی ہیں بلکہ میری رائٹنگ ٹیبل پریاپھر میرے سرہانے پائینتانے اس خیال سے دھری رہتی ہیںکہ فرصت کے اوقات میں میں ان کا مطالعہ کروں ہر چند کہ عدیم الفرصت ہوگیاہوں۔

 ’’عبدالصمد: عکس در عکس‘‘( ترتیب وتہذیب: ڈاکٹر ہمایوں اشرف) میرے پیش نظر ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ کسی بھی ادبی فن پارے کاتجزیاتی مطالعہ پیش کرتے وقت ہمایوں اشرف نہایت سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ وہ جس متوازن انداز میں اپنا تنقیدی نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں اس سے صاف عیاںہوتاہے کہ موصوف فن اور فنکارکے درمیان اپنے ناقد ہونے کا ٹھپہ لگانانہیں چاہتے۔خودنمائی انہیں آتی بھی نہیں۔مغربی ناقدوں کے سکہ رائج الوقت ’’فرمان‘‘ یا اقتباسات سے پوری طرح اجتناب برتتے ہیں ہرچند کہ بڑے سائنٹفک ڈھنگ سے اپنے مطالعہ کانتیجہ اخذ کرتے ہیں لیکن اس درمیان ان کی پوری کوشش رہتی ہے کہ ادب کے باذوق قارئین ان کے تنقیدی سفر میں اپنے پائوں پر بہت دور تک ان کے ساتھ چلیں اورانہیں بھی آزادیٔ اظہار حاصل ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں بحیثیت قاری پیش نظر کتاب کامطالعہ کررہاہوں یہ سوچ کربھی کہ مجھے اپنے تاثرات لکھنے ہیں ناکہ تبصرہ۔مبصرانہ صلاحیت یا گرُ مجھ میںنہیں۔ ہمایوںنے متعدد بار اس کتاب پر کچھ لکھنے کیلئے بڑی اپنائیت سے زور ڈالا میں نے وقت کی کمی کے باعث اسے بارہا ٹالنے کی کوشش کی لیکن ان کی خواہش تھی کہ بس…… اب یہ خواہش شموئل احمد کی’’ مصری کی ڈلی‘‘ والی عورت سے ہم بستر ہونے کی توتھی نہیں کہ اسے جرم قرار دوں… اورٹالتارہوں۔

زیر مطالعہ کتاب میں اردو فکشن کے Tall figureعبدالصمد کی سدا بہار ادبی ونجی زندگی کے تاریک و روشن پہلوئوںکو ہمایوںاشرف نے اپنی سائنٹفک طرز کی تنقید کے کینوس پر حسب روایت بڑی فنکارانہ ہنر مندی کے ساتھ عکس درعکس کئی حصوںمیں اجال دیا ہے جس کی عصری معنویت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ صمد کی فکشن نگاری اور ان کے ادبی گراف کو مزید وسعت اورمعنوی جہت دینے کے لئے فاضل مرتب نے مختلف عنوانات کے تابع جو مخصوص ابواب وقف کررکھے ہیںان کے سنجیدہ مطالعہ کی روشنی میںاپنے بعض تحفظات کے ساتھ میںیہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ حیات انسانی کے اجتماعی مسائل بطور خاص ملک کی سب سے بڑی اقلیت کی دوہری زندگی کے جان لیوا عذاب اورروز مرّہ کی بنیادی ضرورتوں کے حصول کے لئے عصری چیلنجز قبول کرتی ہوئی سی ایک پوری نسل کی اذیتوں کو رزمیہ لب و لہجہ اور’’بے تکلف اندازِ بیان‘‘(بقول پروفیسر وہاب اشرفی جس طرح ناول کاکوئی مخصوص فارم نہیں اسی طرح اس کے اظہار کے لئے متعین زبان نہیں) عطا کرنے والے یعنی خوابوں کا سویرا، مہاساگر، مہاتما، دھمک اور دوگز زمین جیسے شہرت یافتہ ناولوں اورچند حساس سماجی شعور کے حامل افسانوں کے خالق عبدالصمد کو اردوفکشن کی تاریخ نظر انداز نہیںکرسکتی۔ تاریخ اور وقت کے جبر یا بہائو میں رونماں ہونے والے ناقابل فراموش حادثوں، جاں سوز یادوں اور وقوعوں( مع اسناد) کی موثر عکاسی موصوف کی فکشن نگاری کاخاصہ ہے۔

صاحب طرزافسانہ نگار شموئل احمد نے صمدکاجوزائچہ تیار کیا ہے اس کی روشنی میںانہوںنے صمد کوعطارد کاآدمی گردانا ہے ۔ اسی زائچہ کی آٹھویں کٹیا (خانہ) میں بیک وقت منگل اورکیتو کے درمیان معاصر اردوفکشن کے پرم ہنس عبدالصمد اپنی مخصوص مسکراہٹوں کے ساتھ ہنوز دھونی رچائے بیٹھے ہیں۔ موٹاموٹی کہناچاہئے کہ وقت کی دھند میں گمشدہ تہذیبی وراثتوں اور اعلیٰ اقدار کی بازیافت کاتخلیقی عمل دراصل موصوف کی فکشن نگاری کااہم عنصر ہے۔ اس میں اپنے احتجاجی رویّہ کے ساتھ بہرحال فکشن کے پرم ہنس کاتخلیقی مون برت بھی شامل ہے۔

ڈاکٹر ہمایوں میدان تحقیق وتنقید کے سبک رفتار شہسوار یعنی نئی نسل کے ممتاز ترین اوربیدار ذہن قلم کارہیں- ان کی مرتب کردہ کئی کتابیں اردو بازار میں اپنی انفرادی پیش کش اور مشمولات کی عصری معنویت کی وجہ کر خاصی تعداد میں فروخت ہوتی رہی ہیں۔ ان کی اس قسم کی ادبی کارکردگی کاایک زمانہ معترف ہے۔ زیر مطالعہ کتاب تنقیدی اظہار کی پرتاثیر پیش کش اور طباعتی خوش سلیقگی کی وجہ کر ہی برسوں یاد کی جائے گی۔ فاضل مرتب کتاب نے عبدالصمد کے فکر و فن اوران کی باوقار ہمہ جہت شخصیت کو مرکزی حیثیت دینے کے لئے کل سات ابواب مخصوص کئے ہیں۔ اس کا ہر باب ایک دوسرے سے اس طرح منسلک ومنضبط ہے کہ ایک کے بغیر دوسرا ادھوراہوگا۔ ان ابواب کاسنجیدہ مطالعہ ہی ہمیںبتائے گاکہ اس نوعیت کا کام کس قدر ذہنی یکسوئی کے ساتھ علمی لیاقت اور وقت چاہتاہے۔ ہمایوں کی اس سے قبل کئی کتابیں منظر عام پر آکر مقبولیت حاصل کرچکی ہیں۔یہاںپر ان کی چند کتابوں کاذکر میں غیر ضروری نہیں سمجھتا۔ اس میں مبالغہ نہیں کہ علمی و تحقیقی نوعیت کی کتابوں کی سائنٹفک ڈھنگ سے ترتیب و تدوین اورفکر انگیز  مقدمہ کے لئے موصوف اپنی علاحدہ پہچان رکھتے ہیں۔ فکشن کی شعریات پر بطور خاص ان کی قابل لحاظ پکڑ ہے ۔اس سلسلے میں ’’جائزے اور افسانے‘‘ ( ذکی انور) ’’فن اورفن کار‘‘ ( غیاث احمد گدی) ’’منظرکاظمی کی شخصیت اورفن، منظرنامہ وغیرہ سے ہمایوں کی تنقیدی و تدوینی صلاحیت از خود عیاں ہوجاتی ہے۔ منٹو شناسی کے باب میں بھی ہمایوں کی کارکردگی محتاج تعارف نہیں ۔ کلیات منٹو کے نام سے ضخیم جلدوںمیں ان کا پروجیکٹ کوئی معمولی کارنامہ نہیں۔ اورجو ان کی خداداد صلاحیت پر دال ہے۔ خالص ادبی حلقوں میں اس پروجیکٹ کی کافی پذیرائی ہوئی ہے۔ پبلشر کو اس کاMarket Valueخوب معلوم ہے۔ دراصل کلیات منٹو کی مقبولیت میں ہی بحیثیت مرتب و ناقد ہمایوں کی مقبولیت چھپی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ منٹو شناسی کے لئے یہ پروجیکٹ ناگزیر ہوگیاہے- اب ان کی تازہ کتاب’’عبدالصمد عکس در عکس‘‘ بھی زبان و ادب کے تئیں ان کی ادبی لگن اورDevotionکی عمدہ مثال ہے۔ اور یہی لگن اورمثال مجھے حیرت زدہ کررہی ہے ۔ وہ یوں کہ آخر موصوف اتنا وقت کہاں سے نکال لیتے ہیں۔ جب کبھی فون پر باتیں ہوتی ہیں یا تو وہ پلاٹ فارم پر رہتے ہیں یا پھر ہزاری باغ کوآتی جاتی ہوئی بس میں ہچکولے کھاتے رہتے ہیں۔ ایک قدم ان کا پٹنہ میں رہتاہے کہ ان کے بال بچے یہیں رہتے ہیں۔ دوسرا ہزاری باغ میں ،جہاں وہ ونوبابھاوے یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہیں کہ یہاں ان کی روزی روٹی کا معاملہ بنتا ہے اورمجھے پتہ ہے کہ ان کے شعبہ میں ’’پھانکی‘‘ نہیں چلتی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کو یہاں لو گ تیار بیٹھے ہیں۔ ذرا سی غفلت ہوئی کہ کان بھرے جانے لگے۔ ہمایوں یوںبھی اپنی کلاسیں لینے کے معاملہ میں پابند وقت ہیں۔ اس کے باوجود ان کے پیچھے بھی دوست نما دشمن لگے رہتے ہیں کہ ان کے پیٹ میںبھی مروڑ ہوتارہتاہے۔ بہرحال شیطان کاکام ہے پریشان کرنا وہ جان تھوڑے ہی مارتاہے۔ ایسے ہی شیطانوں سے صمد کا بھی واسطہ پڑتارہتاہے۔ (دیکھئے عطارد کاآدمی: شموئل احمد) مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمایوں کے شیطان نے جب جب پریشان کیا انہیں ایک ہی جگہ نجات ملی اوروہ ہے ادب کی پراسرار کٹیا۔ جس میں داخل ہوکر انہیں کافی سکون ملتاہے… مطالعہ در مطالعہ… کتابیں… اورکتابیں… عکس در عکس… اور پھر جب کوئی وسیع المطالعہ ہوجائے تو پھر اس پر لازم ہے کہ وہ اس مطالعہ کوتشنگان ادب کے درمیان Shareکرے۔ ڈاکٹر ہمایوں کے اس ادبی انہماک و استغراق کو مزید سمجھنے کے لئے نئی نسل کے مربیّ بے حد محترم بزرگ اورعہد ساز ناقد پروفیسر وہاب اشرفی کی مندرجہ ذیل رائے کسی سند سے کم نہیں۔

’’ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ادبی حلقوںمیں ان کا( ہمایوں اشرف) کا نام اب محتاج تعارف نہیںہے۔ انہوںنے کم وقت میںنہایت وقیع ادبی کارنامہ انجام دیا… کلیات سعادت حسن منٹو مرتب کیاہے۔ متعدد جلدوں میں منٹو کا سارا سرمایہ سمٹ آیا ہے۔ پھر منٹو پر لکھے گئے مضامین کی ایک الگ قاموسی کتاب مرتب کرچکے ہیں۔ میرے سلسلے میں نہ معلوم کتنے مضامین ادیبوں سے لکھوائے اورتقریباً نو سوصفحات کی کتاب مرتب کی۔ ان کی رات دن کی محنت سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیسی لگن کے نوجوان ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے بس کتابوں سے شغف ہے۔ ان کی دوسری کوئی ہابی نہیں۔‘‘

(قِصّہ بے سمت زندگی کا)        

بہرحال زیر مطالعہ جاذب نظر کتاب کی علمی وتحقیقی نوعیت اور افادیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ اس کتاب کی ترتیب وپیش کش میں ہمایوں اشرف نے وہی رول انجام دیا ہے جس کی توقع ایک سلیقہ شعار، سُگھڑ عورت کی اس کی گھر گرہستی کی نفاست سے کی جاسکتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک تجربہ کار ، وفاشعار عورت اپنی گھر گرہستی کوپرسکون اورجاذب نظر بنانے کے لئے بیک وقت اپنی جسمانی توانائی اوراپنے دل ودماغ کابہترین استعمال کرتی ہے تب کہیں جاکر گھر ’’جنّت‘‘ کہلاتاہے اورتب اس گھر کے درودیوار بول اٹھتے ہیں ۔ گویا اس سگھڑ عورت کی نفاست پسند طبیعت کی گواہی دے رہے ہوں۔ زیر مطالعہ کتاب بھی کئی معنوں میں اس کے فاضل مرتب کی غیر معمولی نفاست و ذہانت کی منھ بولتی تصویر معلوم ہوتی ہے۔

                     

مختلف رنگوں سے مزین کتاب کے سرورق پر عبدالصمد کی حسب روایت ہونٹوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ لئے بہشتی رو تصویر میں دانشوری کی علامت بنے بڑے فریم کے چشمہ کے پیچھے کچھ نہ کچھ کہتی ہوئی سی ذہین آنکھوں کے Retinaمیں انسانی جبلت کی لہو رنگ تاریخ لئے زندگی کے خیر و شر کی ایک عبرتناک نہ ختم ہونے والی کہانی کاابلیسی رقص جاری ہے۔ ہرچند کہ فتح یابی کاجھنڈا خیر کے ہی ہاتھ لگتاہے ۔ حق و باطل کی اس جنگ میں صمد اکیلے نہیں ہیں۔

عبدالصمد کی افسانوی اورنجی زندگی کے کئیShades ہیں جنہیں آپ ’’دھنک رنگ‘‘ کانام دے سکتے ہیں۔ بہرحال فاضل مرتب نے زیرمطالعہ کتاب میں ادبی طور پرصمد کے بھاری بھرکم قد وقامت کو عکس درعکس دیکھنے اور اپنا آئیڈیل بنانے کے خیال سے کئی خانوں میں بانٹا ہے۔ اس کے مختلف اور معنی خیز عنوانات تجویز کئے ہیں جیسے یوسف سربازار، عمررواں کے نقش قدم، روبرو اور اس افسوں میں نہیں ہے کوئی نجات وغیرہ۔ طوالت کے خیال سے ان میں شامل کئی متنوع اورفکر انگیز مضامین اوران کے معتبر ناقدین کا حوالہ دینے سے دانستہ طورپر یہاں پرہیز کررہاہوں ۔ ہاں ، اتنا ضرور ہے کہ ’’روبرو‘‘ کے تحت فاضل مرتب کتاب نے صمد کی شخصی زندگی اوران کے تخلیقی محرکات کو موضوع سخن بناکر بطریق احسن بعض اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ صمد نے بھی اپنے ادبی کمٹمنٹ کے تناظر میں سیر حاصل جواب دیا ہے۔ عصری حقائق کے سیاق و سباق میں اپنے ناول اور فکر وفن کے تعلق سے اہم باتیں کی ہیں جن سے ان کی وسیع النظری عیاںہے۔ تقریباً ۳۲ صفحات پرمشتمل اپنے وقیع مقدمہ بعنوان’’ کچھ اس کتاب کے بارے میں‘‘ کے تحت ہمایوں اشرف نے ’’حقِ مرتب‘‘ واجب طور سے ادا کردیا ہے۔ علمی نوعیت کے اس مقدمہ کے ذریعہ صمد کی خوب صورت اور خوب سیرت شخصیت کی جادوئی بلند پروازی کے بیک گرائونڈ کو سمجھا اورسمجھایاجاسکتاہے۔ اور پھر’’یوسف سر بازار‘‘ کے تحت صمد کے چند ہم عصر دوستوں افسانہ نگاروں نے ان کی ادبی و نجی اور سیاسی گلیاروں کی سرگرمیوں کے حوالے سے اپنے دلی جذبات کا جس والہانہ پن اور قدرے شوخی سے اظہار کیا ہے ان سب کامطالعہ قارئین ادب کے لئے دلچسپی سے خالی نہیں ۔ بطور خاص عبدالصمد: ذرا سی دھند میںگھرا ہوا شخص ( حسین الحق) عطارد کا آدمی( شموئل احمد) اپنے نام کی طرح بے نیاز: عبدالصمد ( مشتاق احمد نوری) وغیرہ کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ یہاں پر صمد کی شریک حیات محترمہ افسانہ خاتون(سناہے کہ وہ بھی صاحب کتاب ہوگئیں؟) کی بے تکلف تحریر’’میں اس کونام سے دوں صدا‘‘ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق زبان و بیان کی سطح پر اپنا نسوانی کردار بڑی شگفتگی سے اداکرتی نظر آرہی ہے۔’’پورے صمد‘‘ کوسمجھنا ہوتو محترمہ کی اس تحریر کا مطالعہ از بس ضروری ہے۔

 میںیہاں پر اس بات کا اعتراف کرنے میں ذرا سا بھی سنکوچ یا تردد نہیں محسوس کررہاہوں کہ ایک زمانے میں جب عبدالصمد کے شہرت یافتہ ناول’’ دوگز زمین‘‘ کو ساہتیہ اکاڈمی سے سرفراز کیاگیاتھا تو عظیم آباد کے چند کائیاں قسم کے شاعر ادیب بطور خاص صمد کی قربت حاصل کرنے والے ان کے چند معاصرین یا دوست نما دشمنوں نے انہیں’’سیاسی توڑ جوڑ والا افسانہ نگار‘‘ کہہ کر نہایت غیر شائستہ لب و لہجہ میں دل کی بھڑاس نکالی تھی۔ وہ جو کہتے ہیں نا’’ انگورکھٹّے ہیں‘‘والی مثال تو یہ ان پر صحیح ڈھنگ سے چسپاںہوتی ہے۔ اپنی شان میں اپنے ہی لوگوں کے ذریعہ اڑنگ بڑنگ لکھنے اوربولنے سے صمد ان دنوںکافی دل برداشتہ رہے تھے۔ یہ انہیں دنوں کی بات ہے جب تازی کوخَر ثابت کرنے کے لئے ایک مخصوص حلقہ چیپوں چیپوں کررہاتھا،سبزی باغ کے اطراف میں ٹم ٹم پڑائو کے نزدیک ایک گوشے میں مجھے صمد کامسکراتاہوا چہرہ نظر آیا اور جب انہوںنے مجھے اشارہ کیا تو میں ان کی جانب لپکا اورپہلی فرصت میں انہیں ساہتیہ اکاڈمی کے اس باوقار ایوارڈ کے لئے خلوص نیتی سے مبارک باد دی اور صرف زبانی ہی خرچ نہیں کیا بلکہ بڑی مشکل سے ان کی ایک عدد تصویر لے کر( ہر چند کہ وہ نہیں… نہیں کرتے رہے) پٹنہ کے ہردلعزیز اخبارقومی تنظیم میں ایوارڈ یافتہ ناول ’’دوگز زمین‘‘ کے حوالے سے اپنے ذاتی تاثرات اور دلی مسرت کااظہار کیا اور یہ بھی بیان دیا کہ بہار میں ساہتیہ اکاڈمی کاکھاتاکھولنے میں پہل کرنے والے ہماری نسل کے فکشن رائٹر کو ہماری ذمہ داری ہوتی ہے کہ پرخلوص مبارک باد دیں۔ صمد کے معاصرین کو تاہ قلبی سے کام نہ لیں وغیرہ… اخبار میںمیر ا بیان آتے ہی یاروں کی مخبوط الحواسی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔

دراصل صمد نام کی یہ برکت ہی ہے کہ دوگززمین کے بعدکئی ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ بہار والوں کی جھولی میں گرے جن میں مظہر امام، الیاس احمد گدی، ڈاکٹروہاب اشرفی، جابر حسین اورپھرابوالکلام قاسمی  یہ سارے باوقار نام ابھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ جن کی علمی صلاحیت اور ادبی سرگرمیاں ڈھکی چھپی نہیں ۔ حق بہ حق دار رسید کے طور پر ساہتیہ اکاڈمی کے ذمہ داران کبھی کوتاہ نظری سے کام نہیں لیتے جس علاقائی تعصب کا ماضی میں ہم رونا روتے رہے ہیں ان کی کوئی سچائی نہیں ہے۔ اب مطلع صاف ہے۔ بہرحال ’’دو گز زمین‘‘ پر ملنے والے ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ کے حوالے سے میں صمد کے معاصر دوستوں کاذکرکررہاتھا جن کے بارے میں بہت پہلے مظہرامام نے ایک شعر میں کچھ یوں فرمایاتھا   ؎

دوستوں سے ملاقات کی شام ہے
یہ سزا کاٹ کر اپنے گھر جائوں گا

 صمد کی خاکساری اپنی جگہ لیکن ان کی برد باری ان کے یوں کام آئی کہ اسی زمانہ سے انہوںنے ’’شام والی ملاقات‘‘ کا دوستوںکو موقع ہی نہیں دیا توپھر سزا کاٹنے کا سوال کہاں رہا۔ اب صمد ملنے جلنے میں کافی محتاط نظر آتے ہیں۔ ۳۶۵ دنوںمیں شاید دو چار دن اچانک اردو بازار یاپھر پیر بہور تھانہ کے اطراف میں میری ملاقات ہوجاتی ہے۔ علیک سلیک کے بعد چند رسمی باتیں ہوتی ہیں لیکن ہر ملاقات میں وہ بڑی اپنائیت سے اپنے گھر آنے کی دعوت  دیتے ہیںلیکن افسوس کہ میری کلر کی والی زندگی مجھے اتنی مہلت نہیںدیتی۔ دفتری زندگی کے جھمیلوں کے بعد جو اوقات بچتے ہیں وہ بال بچوں اور پھر رات گئے لکھنے پڑھنے میں ختم ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ صمد میرے دل ،میری رہائش گاہ سے کوسوں دورنہیں اورپھر ان کا بسیرا پٹنہ کی سب سے بلند عمارت بسکومان میں بھی نہیں کہ میںسیڑھیاں چڑھتے وقت ہانپنے لگوں۔ وہ تو صداقت آشرم کے پاس رجنی گندھا اپارٹمنٹ کی دوسری منزل پر رہتے ہیں۔ وہ خلائوں میں نہیںجیتے۔ ان کی رہائش گاہ سے زمین کا فاصلہ محض دو قدم کا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے تخلیقی سفرمیں زمینی حقائق ومسائل کوکبھی نظر اندازنہیںکرتے۔ صمد کو بے وقت بانگ دینا کبھی پسند نہیں ۔جنسی کیف و کم کو افسانوی موضوع بنانے والے مرد افسانہ نگار کے ’’سنگھار دان‘‘ کی وہ تانک جھانک بھی پسند نہیںکرتے ۔ بس اپنی بہشتی زیور والی عورت سے کام چلالیتے ہیں۔ بہت ہمت ہوئی تو بدن کے التہابی ’’لمس‘‘ کو ذر افاصلے سے محسوس کیا لیکن فوراً ’’جی آیا میم صاحب‘‘ کہہ کر حکم بجالائے۔ ’’بولو مت چپ رہو‘‘ پرانہیں کوئی دوست دشمن اکساتا بھی ہے تو وہ بڑی بے نیازی سے اپنے مخصوص انداز میں ٹال جاتے ہیں۔ ’’ارے بھائی، دیکھتے جائیے…

اور آج اردوفکشن کے پرم ہنس عبدالصمد کے تمام دوست احباب( ان میں ادبی حریف بھی شامل ہیں) اور متعلقین آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے ہیں کہ بارہ رنگوں والے کمرہ (کٹیا)میں دھونی رچائے بیٹھے صمد کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ یہ کوئی حیرت کی بات بھی نہیں بقول شموئل احمد’’صمد کے زائچے میں منگل اورکیتو ایک ساتھ آٹھویں خانہ میں براجمان ہیں۔ ایسا شخص قوت ارادی کا مضبوط ہوتا ہے اورجوچاہتاہے کر بیٹھتاہے۔‘‘ اتنی ڈھیر ساری خوبیاں، کامرانیاں اور ادبی معرکے جوزیر مطالعہ کتاب میں مختلف عنوانات کے تحت مرکزنگاہ ہیں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سارے اوصاف اورAchievementsکسی ایک انسان میں ممکن نہیں۔ سچ پوچھئے تو کبھی کبھی عبدالصمد کی شخصیت کسی افسانوی کردار سے کم نہیں لگتی لیکن یقین کرناپڑتا ہے کہ ان کی بشری نیکیوں اوربے لوث سماجی وملی خدمات کو اللہ میاںسے بہتر کون جانتا ہے۔ ویسے ہم سب اتنا توضرور جانتے ہیںکہ صمد صوم وصلوۃ کے بے حد پابندہیں اورخاموش طبع بھی اور پھر یہ مصرع ہمیں از بر ہے  ع

 خدا کی دین ہے انسان کا مشہور ہوجانا

 صمد دوستوں کی خطائیں معاف کرنے میںبخل سے کام نہیں لیتے ہر چند کہ حساب دوستاں در دل والے فارمولے پر عمل کرتے ہیںلیکن سندرہے کہ عملی زندگی میںوہ بڑے اصول پسند، دیندار اور حساب دار بھی واقع ہوئے ہیں۔ کسی زمانے میں ان کے ایک خاص ادبی دوست’’ لال بتی‘‘ والا افسانہ نگار‘‘بتاکر ان کے ادبی گراف کوجھکانا چاہتے تھے… انہیں ادب کا شاطر سیاست داں وغیرہ کاخطاب دیاکرتے تھے۔ مجھے پتہ نہیں اس قبیل اورقماش کے لوگوں کوانہوںنے کس مصلحت کے تحت اپنے قریب کررکھاتھا۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ انہوںنے اس طرح کے نااہل لوگوں کوبھی موقع بہ موقع نوازا۔ ان دنوں مجھے کبھی کبھی یہ احساس ہوتا تھا کہ صمد کو دوست اور دشمن کے درمیان کوئی واضح فرق نظرنہیںآتا۔  پھریوںبھی محسوس ہوتا کہ شاید وہ اس معاملے میں دانستہ بے نیازی برتنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں ناکہ سیاست میں سب جائز ہے۔ ان کے ایک شوبھ چنتک اورمخلص دوست نے ایک بار کسی موقع پر انہیں’’لال بتی والی‘‘ سیاست سے دوررہنے کی تلقین کی تو معلوم ہے صمد نے کیا    جواب دیا۔

’’ابھی آپ میری سیاست کونہیں سمجھ سکیںگے۔ آپ کو پچاس سال لگے گا اس کو سمجھنے میں۔‘‘
’’پچاس سال زندہ رہنے کی گارنٹی تو ہے نہیں اس لئے میں نے بہتر یہی سمجھا کہ ان کی سیاست سے دوررہوں کہ کبھی کبھی دور کا جلوہ بھی سہانا لگتا ہے۔‘‘

(مشتاق احمد نوری)

سچ پوچھئے تو صمد کے بیشتر افسانوں بالخصوص ناولوںمیں ان کا سیاسی شعور حد درجہ بالیدہ نظر آتاہے۔ ان میں جو فنی بالیدگی ہے وہ الگ موضوع ہے۔ معاصر اردو تنقید کے ممتاز ناقد ڈاکٹراعجاز علی ارشد نے صمد کے مختلف ناولوں کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’’ عبدالصمد اپنے ناولوں میں چھوٹے سے چھوٹے کردار کے ذریعہ بھی سیاست کے ڈھول کی پول کھولتے رہے ہیں۔ وہ اپنے کرداروں کو بتدریج اور فطری ارتقا کا موقع دیتے ہیں۔ اس لئے انہیں کسی کردار کی گردن دبوچ کر اس کی زبان سے سیاسی احوال و کوائف یا اپنے نظریات بیان کرنے کی زحمت نہیںاٹھانی پڑتی بلکہ سیاست کے نشیب و فراز خودبخود واضح ہوتے چلے جاتے ہیں… میںنہیں سمجھتا کہ عہد حاضر کے ذہین قاری کویہ نکتے سمجھانے کی ضرورت ہے۔ مگر بات دراصل یہ ہے کہ عبدالصمد یہاں( بہار) کی سیاست کے راز داں ہوںیا نہ ہوں مگر سیاست دانوں کے قریب رہے ہیں اور اس قربت نے انہیں جن تجربات سے آشنا کیا ہے اس کاکچھ نہ کچھ اظہار ناول میں لازمی ٹھہرا۔‘‘ سیاست اور صرف سیاست اور شاید یہی سیاست ہمیں کہیں لاشعوری طورپر ارضیت نگاری کی طرف تونہیں لے جاتی ہے؟ بہرحال کبھی کبھی اندیشہ ہوتا ہے کہ اپنی تخلیقات کے حوالے سے کہیںصمدAnti romantic hero کے طورپر خود کو پروجیکٹ کرنا تونہیںچاہ رہے ہیں۔ لیکن شاید ایسا نہیں ہے۔ موضوعاتی سطح پربھی ان کے یہاں نمایاں تبدیلی محسوس کی جاسکتی ہے خاص طورپر اس طرف جو ان کی چند دل گداز کہانیاں منظر عام پر آئی ہیں مثال کے طورپر’’لمس‘‘ اور ’’عجیب رشتہ‘‘ وغیرہ۔ ہر چند کہ کہانیوں کی بنت میں ان کا Documentaryذہن کام کرتا رہتاہے ۔ اب دیکھئے کہ خوابوں کا سویرا کے حوالے سے ڈاکٹر علیم اللہ حالی کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔وہ صا ف طور پر کہتے ہیں کہ ’’خوابوں کاسویرا‘‘ مسائل سے گراں بارہے۔ اس کی پوری فضا میںTensions رچے بسے ہیں۔ عبدالصمد سماجی زندگی میں عشق ورومان سے پید اہونے والے انقلاب وتغیر کے قائل نہیں۔ تمام کردارHigh seriousnessکے اسیر ہیں۔‘‘ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ عبدالصمد کے یہاںیہHigh seriousness آیا کہاںسے ؟ اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کی روشنی میں اور یہ تسلیم کرتے ہوئے بھی کہ ایوان سیاست میں کامیابی حاصل کرنے کا دارومدار فریب کاری اور دروغ بیانی پر ہے، صمد اس بات کا اعتراف کرنے میں ہچکچاتے نہیں کہ’’ آج کی زندگی میں سیاسی عوامل کاگہرا اثر ہے۔ سیاست انسان کو بہت عزیز ہے اور سیاست سے وہ نفرت بھی کرتا ہے۔ سیاست نے آج ہم کو چاروں طرف سے یوںحصارمیںلے لیاہے کہ ہم اس سے بھاگنا چاہیں بھی تونہیںبھاگ سکتے ۔‘‘ شاید اسے ہی خود سپردگی یاComplete Political involvementکہتے ہیں۔ بہرحال آپ جو بھی نام دے لیں۔ نظام جمہور میں سیاست سے فرار شاید ممکن نہیں۔ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے…؟؟

صمد کی ناول نگاری کے مداح اورجدید تر ادب کے جواں سال ناقد صغیر افراہیم نے بجا طورپر یہ اعتراف کیا ہے کہ’’صمد کے سبھی ناولوںمیں تاریخ وتہذیب ، معاشرت اورسیاست مل کر اپنے اپنے عہد کے آشوب کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ موصوف کا یہ بھی ماننا ہے کہ مہاتما، خوابوں کاسویرا، مہاساگر اوردھمک کے واقعات ملتے جلتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ناول نگار تہذیبی ارضیت نگارہے اوروہ جس خطے (بہار) کی عکاسی کررہاہے وہاں کے پیش کردہ واقعات میں یکسانیت تو آئے گی ہی… موصوف مزید انکشاف کرتے نظر آتے ہیں کہ مصنف (صمد) نے اپنے کسی ناول کے تعلق سے یہ دعوی بھی نہیں کیا ہے کہ وہ کوئی بالکل نیا یا اچھوتا موضوع پیش کررہاہے۔‘‘

دیکھا آپ نے افراہیم نے کس حسن اسلوبی سے صمدکے تمام ضخیم ناولوںکو اپنے اڑھائی اکچھر میںسمیٹ لیا۔ اسے کہتے ہیں فن کاری یا پھر دانشوری۔ متذکرہ ناولوں کولے کرصمد نے کبھی کسی طرح کی خوش فہمی نہیںپالی نہ ہی اپنے ناولوں کی’’بے تکلف‘‘ زبان کے انوکھے چٹپٹے ذائقے اورموضوعی اچھوتے پن پر اپنے منفرد ہونے کا ٹھپہ لگایا۔ البتہ ملک گیر اور صوبائی سطح پر مختلف ادبی و ثقافتی اداروں کے ذمہ داران کی اصابت آرا کی روشنی میں باوقار توصیفی اسناد و ایوارڈ حاصل ہوئے۔ سچ ہے کہ پہلے پہل ’’دوگززمین‘‘ پر انہیں ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ سے نوازاگیا۔ اس ایوارڈ کی ہی بدولت صمد کا ادبی گراف نہ صرف بلند ہوابلکہ بہ حیثیت ایک ناول نگار؍ فکشن رائٹر ایوان ادب میں انہیں جو اعتبار حاصل ہوا دراصل وہی ان کے معاصرین کے درمیان ان کی قدآوری کاسبب بھی بنا۔ ساہتیہ اکاڈمی نے ان کے نام کا کھاتاکیا کھولا کہ پھر تو یکے بعد دیگرے ان کے فکشن کی جھولی میں کئی اہم انعامات بڑے میکانکی انداز میں آگرے۔ چہار جانب سے تعریف و توصیف کی بارش ہونے لگی۔ کئی اہم سرکاری و غیر سرکاری عہدے اور لال بتی بھی ملی۔ پبلک ڈیلنگ بھی بڑھی۔ اثر ورسوخ کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا۔ یوں فکر وفن کی سطح اورشخصی طورپربھی ان کے یہاں کشادگی آتی گئی۔ شہرت یافتہ ناول ’’دوگز زمین‘‘ پر سیریل بنانے کی فضا ہموار ہوئی۔ دور درشن کی منظوری ملی۔راکیش چودھری ڈائرکٹر ہوئے اور ہندی کے مشہور کہانی کار سریندر پرکاش نے مکالمہ لکھا۔ اسی ناول پر ۱۹۹۸ء میں بھارتیہ بھاشا ایوارڈ بھی ملا۔ ان کے ایک مشہور افسانہ’’ جانی انجانی راہوںکے مسافر‘‘ پر دور درشن بمبئی نے سیریل بنایا۔

امریکی یونی ورسٹی کی نصابی کتاب میں ان کاایک افسانہ بعنوان نوشتۂ دیوار (انگریزی ترجمہ The writings on the wall) کے نام سے شامل ہوا۔ عالمی سطح کے خالص ادبی میگزین Journal of literature and aestheticsمیںان کی ایک کہانی کاترجمہ وانتخاب شائع ہو ا جو غیر اردوداں حضرات کے درمیان ان کی بے پناہ مقبولیت کاسبب بنا۔ صمد پرکئی اہم ادبی رسائل و جرائد نے خصوصی گوشے شائع کئے… وغیرہ … وغیرہ… یہاں تک کہ ملک کی اہم درس گاہوں کے ذریعہ ان کی ہمہ جہت شخصیت، فکر وفن بطور خاص ان کی ناول نگاری پر کئی ذہین طلبا کو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں تفویض کی جاچکی ہیں۔ گاہے بہ گاہے مختلف ادبی مراکز میں ان کی پذیرائی ہوتی رہتی ہے۔ع  ستاروں سے آگے جہاں اوربھی ہیں۔

 ان ڈھیر ساری ادبی فتوحات، سرگرمیوں اورAchievements کے باوجود خاکسار بنے رہناکوئی صمد سے سیکھے ۔ ہر ملاقات پر جیسے کہہ رہے ہوں   ؎

آپ سے جھک کے جو ملتا ہوگا
اس کا قد آپ سے اونچا ہوگا

 (وکیل اختر)

مختصر یہ کہ عبدالصمد کے طلسماتی یاد گار ادبی معرکوں کے ثمر آور نتائج، ان کی تہہ دار شخصی کامرانیوں کے نشیب و فراز، سیاست سے ان کی گہری ذہنی وابستگی کے اسباب وعلل اور ان کے ذاتی اوصاف کے منصفانہ اظہار کے لئے ایک دفتر چاہئے۔ مزید  تفصیلات کے لئے زیر مطالعہ کتاب ’’عبدالصمد: عکس درعکس‘‘ میں شامل سوانحی اشارے سے رجوع کیاجاسکتاہے جسے کتاب ہذا کے فاضل مرتب ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے ذہنی یکسوئی کے ساتھ بڑی دیدہ ریزی سے تیار کیا ہے۔ کہاجاسکتاہے کہ ادبی فن پاروں کی منفرد، دیدہ زیب ترتیب و تہذیب کے لئے موصوف کافی الحال کوئی ثانی نہیں۔ میں انہیں اس قبیل کی قاموسی کتاب اوردیگر غیر معمولی ادبی کام کے لیےThe great fittest manکاخطاب دیناچاہ رہاہوں۔ انہیں مبارک باد تو میں پہلے ہی دے چکاہوں۔

 (بزم سہارا۔جنوری:۲۰۱۱ئ)

*************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1051