donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Aik La Ilaj Aashiq


ایک لاعلاج عاشق


شمیم قاسمی


کہتے ہیںکہ جب عاشق کے ہونٹ متبسم ہوتے ہیں تومعشوق خود سپردگی کے لیے بیقرار ہوجاتاہے اور یہیں سے ایک فریب پیہم کا سلسلہ جاری ہوتاہے …  سلسلہ … جو آج بھی جاری ہے… اورکل بھی جاری رہے گا۔

زندگی کے شب وروز میں ’’ملنے ملانے‘‘ کی رسم کے تحت ہمیں ایک دوسرے سے اکثر دوچار ہوناپڑتا ہے لیکن چند شخصیتیں اپنی بے پناہ علمی قابلیت اورانفرادیت کے سبب اتنی اہم اورDimensionalہوجاتی ہیں کہ جنہیں ہم نظر اندازنہیں کرسکتے۔مناظر عاشق ہرگانوی کانام آتے ہی اس پرندہ کی یاد آتی ہے جو کسی ایک منڈیر پرنہیں بیٹھتا اور جو دامن کہسار میں شکاری آنکھوں کی پرواہ کئے بغیر پرمارتا رہتاہے کہ پرندوں کا پرمارنا ان کی آزادانہ زندگی اور صحت یابی کی علامت ہے۔

مناظر عاشق ایک پرندہ صفت نام ہے۔ وادیٔ کہسار میں مناظر فطرت کی نیرنگیاں اوربازار حسن میں عاشق کی رسوائیاں کسی سے پوشیدہ نہیں رہتیں۔ جس طرح پرندے تبدیلی موسم کے امکان کے ساتھ کسی شجر شگفتہ کو اپنے آشیانے کیلئے مخصوص کرلیتے ہیں پھر تغیرات موسم کا احساس جاگتے ہی کسی تناور درخت کی شاخوں پر بسیرا کرلیتے ہیں ۔ کہیں بھی انہیں چین نہیں ملتا اوروہ شاخ گل پر پھدکتے رہتے ہیں۔  پھدکنے کے اس عمل میں گویا ایک سیمابی کیفیت ہوتی ہے ۔ ایسا ہی کچھ مناظر عاشق ہرگانوی کے ساتھ بھی ہے۔

 اردو ادب کے منظرنامے میں مناظر عاشق ہرگانوی کانام اپنی میٹالک توانائی کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ کم و بیش چاردہائی سے مناظر اردو ادب کی بے لوث اورعملاً خدمات انجا م دے رہے ہیں۔ ہندو پاک کے تقریباً تمام اہم رسائل وجرائد کے توسط سے مناظر کی متوازن تحریریں قارئین اردو ادب کے لئے غیر متعارف نہیں رہیں۔

غزل سے آزاد غزل تک۔ افسانے سے افسانچے تک۔انشائیے سے فکاہیے تک ان کے ذہنیApproachکی اہل قلم حضرات قدر کرتے ہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹر وزیرا ٓغا سے احمد ندیم قاسمی تک، ہندستان میں پروفیسر گوپی چند نارنگ اورپروفیسر محمد حسن سے شمس الرحمن فاروقی تک اورعصمت چغتائی سے نینا جوگن تک گویاان کاسلسلۂ تبادلہ خیال دراز ہے۔ ان کا ادبی سفر کسی سرحدسے بلند تر ہے۔ مسدود راہوں کے یہ کبھی مسافر نہیں رہے کہ ان کے تعلقات اردو کے بابا لوگ سے بڑے خوشگوار رہے ہیں۔ یہ ان کے حسن اخلاق کاایک روشن پہلو  ہے۔ عمر کے اس مختصر سفر میں یہ کئی اہم علمی وادبی کتابوں کے خالق ہوچکے ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کااعتراف کرتے وقت کسی پہلو سے بھی انحراف کی گنجائش نہیں نکلتی۔ مناظر کی علمی اور ادبی صلاحیتوں، سرگرمیوںکو کسی مخصوص مکتبۂ فکر سے نہیں جوڑا جاسکتا اورنہ ہی یہ کسی مخصوص خانے میں فٹ آتے ہیں۔ نظم و نثر دونوں پریکساں دسترس رکھتے ہیں۔ چونکہ لڑکپن ہی سے طبیعت قدرے رومان پرور پائی ہے اس لئے آدم وحوادونوں میںیکساں مقبول ہیں۔ غرضیکہ:
ہرایک فیلڈ میں ماہر مرے مناظر ہیں

 مناظر عاشق ہرگانوی اپنے ادبی سفر کے ابتدائی دنوں میں بچوں کا ادب لکھتے رہے ہیں۔ اوربچوں کے محبوب ادیبوں میں ان کا شمار ہونے لگا۔ جن دونوں میں نے بچوں کے رسائل کے لئے لکھنا شروع کیاتھا چند نام بے تحاشہ چھپنے کے معاملے میں میری توجہ کا مرکز بنے جن میں اے ۔ اے۔ منظر، ل،م شاہد، ظہیر نیازی، م۔ع۔ غم اورمناظر عاشق ہرگانوی کے نام سرفہرست آتے ہیں۔ ان میں آخرالذکر کانام ہی اپنی   ہمہ جہت صلاحیتوں کے سبب ادب میںاپنی ایک شناخت بناسکا۔ ماضی میں بچوں کے رسائل ٹافی،غنچہ، کھلونا، کلیاں وغیرہ میں مناظر عاشق بارہا میرے ساتھ چھپے اور اس طرح ان سے میری ذہنی قربت بڑھتی گئی۔ کبھی تبادلۂ خیال کے طور پر خط وکتابت بھی ہوئی اور یوں آدھی ملاقاتیں ہوتی رہیںَ ۱۹۷۵ء میں ہم دونوں رضوان احمد کی موجودگی میں ’’زیور‘‘پٹنہ کے دفتر میں ملے۔ اس سے پہلے کہ رضوان احمد رسمی تعارف کراتے ہم دونوںبڑی گرمجوشی کے ساتھ ایک دوسرے سے  بغلگیر ہوئے اور تب ان کے ہونٹوں پرEver greenمسکراہٹ رقصاں دیکھ کر میں جیسے سحر زدہ ہوگیا۔اورآج ان کی یہ مخصوص مسکراہٹ کا ہی سحر ہے کہ جس کی زد میں آکر میں نے قلم اور کاغذ سنبھال لیاہے۔

مناظر عاشق ہرگانوی کاقیام پٹنہ میں برسوں رہا۔ ہم دونوں قدرے بے تکلف ہوگئے تھے۔ میں ان دنوں حادثات موسم ِغم روز گارکی چپیٹ میں تھا۔ اکثر ہماری شامیں گاندھی میدان کے کسی گوشہ میں مونگ پھلیاں کھاتے اور غزالان دل کا تذکرہ کرتے ، ماضی و حال کے پس منظر میں ایک توانا مستقبل کے تانے بانے بنتے، زندگی کے ان دیکھے راستوںپر تصورات کی دنیا میں گامزن ہوجاتے۔ ان دنوں مناظرآکاشوانی پٹنہ کے اردو سکشن سے جڑے ہوئے تھے اور ارودوپروگرام کو مزید فعال بنانے کے لیے اردو پیکس شمیم فاروقی صاحب کے اچھے معاون تھے۔ تب مجھے وقتی طور پر ایک امریکن کمپنی میںنوکری مل چکی تھی۔ کبھی کبھی میں آکاشوانی میں ٹیلی فون پر ان سے باتیں کرلیاکرتاتھا۔ان دنوں میں قدرے اضطرابی کیفیت سے دوچارتھا۔ میری زندگی کا شبنمی موسم دریچۂ دل پر ’’گمشدہ موسم‘‘ کی تختی لگاکر اجنبی ہم سفر کے ساتھ ہجرت کرچکاتھا:

اڑاکے لے گیا پردیس اجنبی موسم
وہ سرخ پھول جو میری ہی رہ گذرمیں تھا

تومیں عرض کررہاتھا اپنی اضطرابی کیفیت کے سلسلے میں۔ مناظر اس حادثے سے بخوبی واقف تھے۔ اور قدرے فاروقی صاحب بھی۔ ایک بار جب میں نے ٹیلی فون پر مناظر صاحب سے رابطہ کرناچاہاتو ریسیور فاروقی صاحب(جنہیں میں احتراماً’’محترم‘‘کہتا ہوں) نے اٹھالیا۔ فاروقی صاحب کے لب ولہجہ نے مجھے انسپائر کیاتھا اس لئے میں ایک آدھ شعرا نہیں سنانے کی جرأت کرلیتاتھا۔ بہرحال ٹیلی فون پر ہی جب میں اپنی تازہ غزل کے چند اشعار سناہی رہاتھا کہ انہوںنے فرمایا کہ جن کے لئے غزلیں لکھتے ہیں وہ موجود ہیں انہیں سنائیے۔ میں نے جب اپنے دو تازہ شعرسنائے تودوسری جانب سے بالکل خاموشی رہی پھرایک گہری اورٹھنڈی سانس کے درمیان ایک نسوانی نقرئی آواز کے جلترنگ بج اٹھے۔ بعدمیںمحترمہ سے ملاقات بھی ہوئی ۔ مناظرنے مجھے ملوایا ان سے ، تب میںنے اس شرارت کے لئے مناظر کوہی موردالزام ٹھہرایا۔ وہ بڑی باذوق تھیں۔ میرے یہ اشعار پھر توکچھ دنوں تک گونجتے رہے۔ درد دل میںبھی کچھ افاقہ ہوا:

اک حسیں دھوکہ سہی دل وصل کو بیتاب ہے
آپ کا چہرہ بڑانمکین ہے شاداب ہے

شورہے ماضی کی شاخوں پرپرندوںکا بہت
میری آنکھوں میں ابھی روشن ادھوراخواب ہے

مناظر عاشق ہرگانوی بڑے دلنواز واقع ہوئے ہیں۔ دوستوں کا ہی ذکر کیوں اپنے رقیب روسیہ کی بھی انہوں نے کبھی دل آزاری نہیں کی۔ ان کی احباب نوازی ہی کہئے کہ اردو ادب کے اکثر اہم فن کار پٹنہ کی جگہ بھاگل پورکو پریفر کرتے ہیں۔ ’’گلبن‘‘ (احمد آباد) ’’توازن‘‘(مالیگائوں)’’محرک‘‘( آسنسول) ’’زاویہ‘‘ ( سویڈن ) یہ سبھی رسائل مناظر کی ترتیب وتزئین کی صلاحیتوں سے استفاہ کرتے ہیں اور بھی بہت سے رسائل وجرائد ہیں جنہیں یہ انڈرگرائونڈ ترتیب دیتے ہیں۔ آزاد غزل کوبھی پال رکھاہے۔اس کی پرورش پراپنی تنخواہ سے ایک موٹی رقم نکلواکر خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف آزاد غزل کے خاندان کو مختلف ریاستوں میں پھیلارہے ہیں۔امام آزاد غزل نے تواپنے متضاد بیانات سے اسے ’’ناخلف اولاد‘‘ کی فہرست میں شامل کرادیاتھالیکن اڑیسہ کے یوسف جمال اس صالح اولاد کی فلاح و بہبود کے لئے مناظر صاحب کے شانہ بہ شانہ چلنے کوتیا رہیں اورخاکسار بھی جبراً نہیںبلکہ دل کے ہاتھوں مجبورہوکر اکثر ذہنی تھکاوٹ کو دورکرنے کیلئے آزادغزل کی بف کٹ زلفوںمیں سرچھپاتاہے:

ان سے ملنے بچھڑنے کے قصوں کو ہم، موسم رنگ و بو سے سجاتے رہیں

شاعری نذر جذبات ہوتی رہے

مناظر+ عاشق دونوں لازم وملزوم ہیں۔ پس پردہ مناظر قدرت کے بے شمار راز پوشیدہ ہیں اور جس طرح ایک عاشق کے دل کی تہوں تک پہنچ کر یارکا پتہ لگانا کوئی آسان کام نہیں اسی طرح مناظر عاشق ہرگانوی کی شخصیت اوران کے فکر وفن پر قلم اٹھانا کم از کم خاکسار کے لئے اتنا آسان نہیں جس کی لوگ توقع لگائے بیٹھے ہیں۔

جہاں تک مناظر عاشق ہرگانوی کی دل بہار اوراپنی اوریجنل عمر سے کم نظر آنے والی پرسنالٹی کا سوال ہے۔ میں تویہ کہوں گا کہ خدابخش لائبریری میں حکمت سے متعلق جن کتابوں کا وہ مطالعہ کرتے رہے تھے اس دوران اس زمین دوز پھل کا سراغ انہیں ضرورملاہے جسے کھاکھاکر مناظر دن بہ دن جوان ہوتے جارہے ہیں:

 گلوں کے ہونٹ پہ خوشبو ضرور ہوتی ہے
جوان چہرے پر رنگ جمال رہتا ہے

 جہاں تک مناظر کے عادات و اطوار، رنگ وروغن ، قدو قامت کا تذکرہ ہے اس سلسلے میں میر کلو کی گواہی سے استفادہ کیاجاسکتاہے۔ ایک زمانہ میں رات گئے تک اس قدر مطالعہ میں غرق رہے کہ ڈاکٹرنے انہیں خوبصورت فریم والے ایک ایسے چشمہ سے روشناس کرایاجسے لگاتے ہی سات طبق روشن ہوجایا کرتے ہیں۔ سنہری فریم کے پیچھے ان کی بصیرت افروز نگاہی کی ہم آسانی سے تاب نہیں لاسکتے۔ جب’’ایک تارہ بولے ٹن ٹن‘‘ تھے تو رات گئے بے سروپا کتابوں کا مطالعہ کرکے اپنے لئے کام کی باتیں نکال لیتے تھے۔ اب بیگم کے خوف سے رات کے پچھلے پہر تخلیقی کرب کے عمل سے گزرتے ہیں۔ محفل یاراں میں مہ وشوں کاذکر آتے ہی شرما جاتے ہیں۔ لیکن محفل ناز میں عصمت چغتائی کے ’’لحاف‘‘ کے اندرونی معاملات کو بھی طشت از بام کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ طبیعت ایسی سیمابی پائی ہے کہ کبھی کسی ایک ہوٹل میں نہیں ٹھہرتے۔ انکی آنکھوں میںآج بھی ماضی کی اس روئے زیبا کا گہر انقش ہے جس کیلئے یہ دربدری انہیں عزیز ہے۔ وہی وہانوی اورآچاریہ رجنیش کے لٹریچر سے بھی اکثر راتوں کی تنہائیوں کو سیراب کرتے رہے ہیں۔ اس طرح کا لٹریچر بیگم کے خوف سے اپنے سرہانے بستر کے نیچے رکھتے ہیں۔ کھانے پینے کے معاملے میں چندمخصوص ہوٹلوں سے رابطہ قائم کئے ہوئے ہیں۔ چائے نہیں پیتے۔ شاید یہی ان کی شاداب جوانی کاراز ہے۔ شکم سیر ہوکر کبھی کھایا نہیں البتہ لکھنے کے معاملہ میں کافی حد تک شکم سیر ہیں۔

 میں قبل ہی عرض چکاہوںکہ مناظر بڑے مخلص اوردلنواز دوست ثابت ہوئے ہیں۔ تصنع اور بناوٹ کی مکھی کو توانہوںنے کبھی اپنی ناک پربیٹھنے ہی نہیں دیا۔یوں بھی کھڑی ناک والے کی حشرات الارض بھی قدر کرتے ہیں۔ ملنے جلنے کاسلیقہ کوئی مناظرسے سیکھے کہ یہ کبھی ادب کی دہائیوں کے لفڑے میںنہیںپڑتے  اوراپنے جونیئر سے بھی بآسانی گھل مل جاتے ہیں۔ یوں توان کا تخلص عاشق ہے لیکن خودان کے چاہنے والے پشاور تابنگال صف بہ صف دیدار کیلئے بے قراررہتے ہیں۔ خاکسار بھی اسی صف میں ہاتھ باندھے کھڑاہے:

عاشق ہو تومعشوق کی تعظیم کو اٹھّو

 عاشق کے دل کی گہرائیوں میں ڈیرہ جمانا جوئے شیرلانے سے کم نہیں۔  لیکن یہ حماقت بھی ایک دل والے کے ہاتھوں سرزد ہوگئی۔ چنڈی گڑھ کے ایک خوش فکر خوش رنگ شاعراپنے منچلے دل کے تقاضوں کے زیراثرایک زمانہ میں پٹنہ تشریف لائے لیکن اللہ رے عاشق کی ہرجائی۔ بیچارہ شاعر نامراد لوٹ گیا۔ برسوں اسے دیدار یار کی حسرت ہی رہی اورایک دن حسرت ناتمام لئے اللہ کو پیارا ہوگیا اللہ بخشے، بڑے اوصاف تھے مرنے والے میں

مناظر عاشق ہرگانوی نے عہد طفلی سے ہی رومان پر ور مزاج پایاہے ۔کہتے ہیں کہ عاشق کے لئے عمر کوئی قیدنہیں۔ان کے شاعرانہ جذبوں کی شوخی سے بھلا کس کو انکار ہے۔ درج ذیل اشعار میں شدت جذبات کی شوخ کھنکھناہٹ بھی ہے اور جنسی تلذذ کا مخفی اظہاربھی۔ دراصل مناظر اس قبیل کے اشعار کہہ کہہ کر خود کوRecharge کرتے رہتے ہیں   ؎

گھُپ اندھیرے کمرے میں بے لباس جسم اس کا
جیسے کالے ڈائل پر ریڈیم کے سائے ہیں

کچھ تو شرم نے روکا عاشق، کچھ میں بھی گھبرایاتھا
لیکن دھیرے دھیرے آخر مٹ ہی گئی اک روز دوئی

سرد دسمبر کی راتوں میں اُس کے کومل تن کی آنچ
یاد دلاتی ہے میرے بستر کی نرم ملائم روئی

ٹنگی ہیں جس کے دریچے میں دو سیہ آنکھیں
اُسی مکاں سے مجھے شام کا بلاوا ہے

دل والوں کی دولت اعلیٰ تیرے ہونٹ
میٹھے پانی کا سر چشمہ تیرے ہونٹ

 صنف نازک کے لطیف جنسی احساسات اورجمالیاتی حس سے ان کا ذہنی سفر ہمیشہ شاداب رہاہے۔عشق کے اس لاعلاج روگ اوربخارات کو دور کرنے کے چکر میں ہومیوپیتھی کی کتابیں پڑھنے لگے اورپھر تشفی کے لئے ’’ڈاکٹر‘‘ کی ایک سند خرید لی۔ فراق یار میں قبل ہی اپنا تخلص عاشق رکھ چکے تھے اوراب’ڈاکٹرعاشق‘ کہلانے لگے۔برسوں ہجر ووصال کی خندق میں تپ تپ کر کندن بنے۔ عشق کی دھیمی دھیمی ’’آنچ‘‘ کاہی تقاضا تھا کہ ایک دن نہ صرف امتیازی طورپرایم اے کے امتحان میں پٹنہ یونیورسٹی سے کامیاب ہوئے بلکہ ایک کالج میںاردو کے ڈاکٹرکہلائے(اطلاعاً عرض ہے کہ ہومیوپیتھک کی ڈگری کووہ طالب علمی کے زمانہ میں ہی پھاڑچکے تھے) چند سال قبل اردو ادب کا ٹمپریچر ناپنے کیلئے ’’کوہسار‘‘ نکالا تھا اوراب ایک خاص طریقے کاتھرمامیٹر ایجاد کیا ہے جس کانام ’’کوہسارجرنل‘‘رکھاہے۔ ان دنوں اسی تھرمامیٹر سے پاکستان کے احمد ندیم قاسمی کا کچاچٹھا نکال رہے ہیں۔ حسن اتفاق سے میرے نام کی رِنگ میں بھی لفظ قاسمیؔ مانند نگینہ جڑاہے ۔ احمد ندیم قاسمی کے بعد کہیں شمیم قاسمی کی بھی شامت نہ آجائے اسی خوف کے ساتھ اپنی تحریر کویہیں پرفل اسٹاپ لگارہاہوں۔


(مناظرعاشق ہرگانوی:شخصیت۔۲۰۰۵ئ)


*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1028