donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Ishq Ne Khar Ko Gulab Likha


عشق نے خار کو گلاب لکھا


شمیم قاسمی


خورشید اکرم معاصر اردو ادب وشعر کا ایک سنجیدہ نام ہے  --- اب یہ الگ بات کہ وہ آج تک کسی’’ سنجیدہ ‘‘کے نہیں ہوسکے۔ یہاں تک کہ اس کے بھی نہیں زیر مطالعہ نثری نظمیں جس کا طواف کرتی نظر آرہی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان نطموں کا خالق تخلیقی اضطراب کے بھنور جال میں اب تک ہچکولے کھا رہاہے۔ ان نثری نظموں کے خیال افروز بین السطور میں جس فتنہ سامان محبوب کی ست رنگی شبیہ ابھر رہی ہے اسے ایک واضح خدوخال دینے کے تخلیقی عمل میں اس کے خالق کا دل بہر حال اس کے دماغ پر صاف حاوی ہوتا ہوا دکھائی دے رہاہے۔کہیں کہیں دل اور دماغ باہم متصادم ہوتے نظر آتے ضرور ہیں لیکن دل کے ہاتھوںدماغ اپنی ہار تسلیم کرہی لیتاہے۔ صحن محبوب میں لہلہاتے کروندے کے درخت کی نوکیلی جھاڑیوں کے درمیان من موہک گلاب کی قربت حاصل کرنے کے لئے جب دل عاشق بے قرار ہوجائے تو عقل گھاس چرتی دکھائی دیتی ہے۔ اب ایسے عشق کا حاصل ایک سراب گمشدگی ہی تو ہے:

عقل بڑی بے رحم تھی اس نے
دل کو اس کے دکھ کی گھڑی میں
تنہا چھوڑدیا
جسم نے لیکن ساتھ دیا
دکھ کے گہرے ساگر میں
دل کو چھاتی سے لپٹائے
جسم کی کشتی
ہول رہی ہے ڈول رہی ہے
عقل کنارے پر بیھی
میٹھا میٹھا بول رہی ہے
دنیا کے ہنگاموں میں
الٹی جست لگانے کو
بازو اپنے تول رہی ہے
(عقل بڑی بے رحم)


عشق واقعی ایک لاعلاج روگ ہے۔ خورشید اکرم کی مملکتِ عشق میں داخل معشوق کاتعلق بھی خطۂ بنگال سے ہے۔بنگال کے ایک جادو کانام میرا سین بھی تھا۔ وہ بھی ایک حسینہ بنگال ہی تو تھی جس کی تیرانگیز نگاہوں کی تاب نہ لا سکا تھاغالب جیسا سخت جان شاعر بھی ۔ عشقیہ جذبوں کی صداقت ، بیتابیٔ دل کی کراہ اور بلبلاہٹ محض ایک مصرعہ میںعیاں ہے   ؎ ؎  وہ تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے۔ غالب کی اس بلبلاہٹ میں Luscious tone لئے جو یاس انگیز شعری اظہار کی شائستگی ہے اس کاپرچھاواں بہر حال زیر مطالعہ عشقیہ نظموں کی کتاب’’ پچھلی پیت کے کارنے‘‘پربھی پڑا ہے۔کسی نامعلوم شاعر کا یہ دوہا بھی ان نظموں کے سیاق وسباق اور Tempramentکو سمجھنے میں اہم رول ادا کرتاہے۔اب اس دوہا کا اصل خالق کون ہے؟ محققین /ناقدین ادب اس پر توجہ دیں۔ زیر مطالعہ کتاب عشق کے ابتدائی صفحہ پر خورشید نے یہ شعر کچھ یوں ہی نہیں چسپاں کیاہے۔ دراصلقفل نازک کی کلید درمستی ہے یہ   ؎

تال سوکھ پتھر بھیو ، ہنس کہیں نا جائے
پچھلی پیت کے کارنے کنکر چن چن کھائے

ذات کے بحران اور تنہائی کی ناقابل فراموش اذیتوں سے ہم آشنا، مادی دنیا کو سبوتاژ کرتی ان نظموں کا خالق بڑا سخت جان اور اکھڑ (Rusty) قسم کا عاشق ٹھہرا۔ تیس برسوں تک عشق کی پینگیں بڑھانے کے باوجود اندازہ ہوتاہے کہ عاشق کو ایک بوسے کی بھی بوہنی نہیں ہوئی۔    

تمہارے لئے سنبھال رکھا تھا
زمین کی کشش سے باہر ایک آسمان
ایک گھوڑے کی پیٹھ  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم نے چنا سونے کا سندور
چاندی کی چنگیری
پلنگ نقشین
پختہ چھت/پکی دیواریں
پکاگھڑا
اتھلا کنواں

پانی جیسا ٹھہر گئیں تم
ہوا کے جیسابکھر گیا میں
(نظم: تمہارے لئے)

سچ ہے کہ عشق بن یہ ادب نہیں آتا۔ عشق کی اپنی روایتیں اپنی حکایتیں رہی ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ داستان عشق عہد بہ عہد سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی ہے۔ سائنس وٹکنالوجی کے عہد اور کنڈوم کلچر میں بھی حسن وعشق نے دلوں کو مسخر کیاہے۔ عشق کا آزاد پرندہ صحرائے عشق کی خاک چھانتا، بازار مصر سے ہوتا ہوا مال اورWall Mart کے ہیجان ا نگیز ماحول اور عطر بیز سیکسی فضائوں میںڈانسنگ فلور پہ رقص کرتا، جمال بدن کو نہارتا چہچہاتا ہوانظر آنے لگا ہے۔گلوبلائزیشن کے عہد میں مغربی طرز زندگی کے زیر اثر Consumer Goods   میں تبدیل ہوتے ہوئے ایسے خلائی عشق کا انجام کسے نہیں معلوم :

ابھی دیر ہی کتنی ہوئی ہے مری جان!
کہ تم نے یوں اتار پھینکی محبت
جیسے زخم سے کھرنڈ اتار تے ہیں
ایسے تم پتھر ہوئے میرے لیے
جیتے جی فاسل ہوئے میرے لیے
ایسے؟ کیسے؟!!!
(نظم :ایسے کیسے)

اب یہ الگ بات کہ عاشق نے اپنی جبلی خواہشوں کی تکمیل کے لئے خوبصورت مواقع ڈھونڈے لیکن عیار معشوق عاشق کو خوابوں اور تمنائوں کی دنیا میں اکیلا چھوڑکر مادی آسائشوں کی دنیا میں کھوگیا ----کیا کبھی انجانے میں آپ نے غلط سائز کا جوتا (بغیر موزے کے) پہن کر لمبا سفر طے کیا ہے ؟ اگر ہاں ، تو یقینا آپ آج تک بھلانہیں پائے ہوں گے جوتے کے کاٹ کھانے سے اُبھر آئے نیم پکے زخم کی ٹیس کو ۔۔۔۔ایسی ہی ناقابل برداشت ٹیس اور لذت آمیز بلبلاہٹ ان نظموں کی تخلیق کا جواز ہے۔

    مانا کہ نامراد عاشق نے تاحد نظرپھیلی گھاس کو گلاب اور خاردار جھاڑیوں کو کپاس کیا لیکن چھوئی موئی سی خواب رنگ تتلی ہتھیلیوں کے حصار میں کب آنے والی تھی۔ لہورنگ ہتھیلیوں پر اپنے پروں کے رنگ برنگے نشانات چھوڑتی کسی تناور شجر کی ثمر دار شاخ پر جا بیٹھی۔ ایسے میں عاشق بلبلا ہی تو ہو اٹھا:

بے ہنگم آوازوں سے بوجھل وقت نے
ہماری آنکھوں کے تکلم کے لیے
چھوڑ رکھا تھا
ایک پرسکوت حاشیہ
ہماری ہم آغوشی کے لیے
بھیڑبھرے میلے میں
خالی رہا ایک گوشہ
سب کچھ تو ہمارے ساتھ تھا
پھر کون تھا وہ
جس نے میرا دست دعا اتار لیا
کون تھا وہ
تم کس کے خوف سے
دامن جھٹک کے بھاگیں!!

(نظم :ہونی نہ ہونی)

 ایسا محسوس ہوتا ہے کہ معشوق کی طویل جدائی نے عاشق کی بھری جوانی میں آگ لگانے کا کام کیاہے۔اب ایسے ماحول میںعاشق نزار، نامراد کروندے کے کٹیلے درخت کو گوشۂ عافیت سمجھ کر جوگ سادھنا میں لپت ہونے پر مجبور نظر آتا ہے تو کوئی تعجب نہیں۔ ایک لمسی ارتباط خود فراموشی کے سوا اسے ملاہی کیا۔اب کیا کیجئے کہ شاعر /عاشق ملکوتی حسن کے بھرّے میں آگیاہے۔ ماننا پڑے گا کہ خورشید کی سخن سجنی بڑی چھلبلی ہے۔ عشق کی جراحتیں بڑی گھاتک ہوتی ہیں ۔راہ عشق کی کلفتوں اور ایک بے نام سی لذت بھری اذیتوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرناایک سچے عاشق کا مقدر ہے۔اب جبکہ شاعر /عاشق نے اوکھلی میں سر دے ہی دیا ہے تو انجام جو بھی ہو اور بقول غالب   ؎

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
مری وحشت تری شہرت ہی سہی

    خورشید کے یہاں بھی عشق کی اپنی نفسیات ہے۔ جسے سمجھنے کے لئے کسی فرائڈ کے نقطۂ نظر کی نہیں بلکہ ایک صادق دل عاشق کی ضرورت ہے۔ان نظموں کا خالق بلا شبہ آداب ِ عشق سے بخوبی آشنا ہے۔ہرچند کہ دیارِ دل کا طواف کرتے ہوئے سراب اور گمرہی کے دوراہے پر کھڑا ہوا محسوس ہوتاہے۔ ایسے میں شہواں شہواں رقص کرتی ہوئی ایک شبیہ اپنی نیم باز آنکھوں کا فسوں جگا رہی ہے اسی فسوں کے حصار میں ہے ایک عاشق نامراد ، ایک ناتواں شاعر، جس کے گیتوں کی پوٹلی میں ایک زہریلی ناگن کیچل مارے بیٹھی ہے۔ جو ہر لمحہ ہر پل اس کے خالق کو ڈستی رہتی ہے۔ یہ مقام حیرت ہے کہ خود کو ایک زہریلی ناگن سے ڈسوانے کے باوجود وہ اپنی رسوائی اور پسپائی پر نادم نہیں۔ اسے اپنے عشق پر کامل یقین ہے۔خوابوں کی خاردار جھاڑیوں میں پسری تاریکیوں سے روشنی کشید کرتا ہوا شاعر اپنے افلاطونی تصورِعشق کو جاوداں بنارہاہے اسے کہتے ہیں عشق کا بائولاپن۔

ایک دن ایسا آئے گا
یار گلے لگ جائے گا
خواب کی تعبیر ہوگی
خواب کے گلزار میں

یار ایک دن
پیار کی خاطر آئے گا
فراموشی کے آنچل سے بندھے
مرے گیتوں کو
اپنی سانسوں میں گوندھ کے لائے گا
خود پہ ہووئے گا اک دن مہربان
اپنے آپ کو اپنے پروں پہ اُڑا کے لائے گا
چھاگل میں لئے حوا کی امانت
اور میری پسلیوں میں
اپنی جگہ پانے کے لئے
میرے اندر سما جائے گا

(نظم:یاراک دن آئے گا)

    خورشید اکرم عہد بے خواب کا ایک ایساشاعر ہے جس کی آنکھیں نشۂ خواب سے کبھی بوجھل نہیں ہوتیں کہ یہ آنکھیں بار خواب اٹھانے کا گُر جانتی ہیں۔اب ایسے خواب کی تعبیر جو بھی ہو۔ ہجر میں وصال کا مزا چکھنا ہوتو ان نظموں کا مطالعہ کریں۔دراصل یہ ایکLove Story Platonic  ہے جس کے Back Ground   سے Crying for the moon کی دلدوز صدائے بازگشت سنی جاسکتی ہے، ان نظموں کے خالق کی ذات کے کہرام کو محسوس کیا جاسکتاہے۔ یہ ایسی عشقیہ کہانی ہے  جہاں خاردار جھاڑیوں میں گلاب کھلتے ہیں۔ نوکیلے کانٹے جہاں عاشق کی پا بوسی کرتے ہیں۔ان نظموں کا شاعر دل کے ہاتھوں حد درجہ مجبور اور بے بس ہے۔ ایک نظم دیکھئے:

برسوں پہلے/میرے اندر رنگ برنگ کا جادو تھا
تب میں نے /چھلے میں دھوئیں کے
چانداتارا تھا
ناخن سے پاتال کھود کر
بونوں کومحکوم کیا تھا
ٹھٹھری ہوئی ہوائوں کو
اپنے ہاتھ کی حدت سے گرم خرام کیا تھا

برسو ںپہلے/اپنے جادو سے میں نے
ایک پتھر لڑھکایاتھاہوا میں
جس کو روک دیا تھا
تم نے نفی کی انگلی سے

ناجادو/ناانگلی
اب دونوں کہیں نہیں!!

    (نظم: ناجادو)

     ایک سرکش رومانی افسردگی لئے زیر مطالعہ نظمیں شاعر کی ذاتی زندگی کی نا آسودگی کے درد کو فوکس کرتے ہوئے بڑے موثر ڈھنگ سے خوابوں اور خیالوں کی ایک حسین اور ا ن دیکھی بستی کی سیر کراتی نظر آتی ہیں۔ایک ایسی بستی جس کی تشکیل وتعمیر میں بیک وقت مجنونانہ اور دانشو رانہ ہاتھوں کا ہنر کمال فن کی معراج کو چھوتا ہوا محسوس ہوتاہے۔ انفرادی طورپر خوابوں کی بستی میں جینا انسان کی سائیکی میں شامل ہے۔ لیکن عملاً خوابوں کی بستی میں رہنا ایک بڑی آزمائش ہے۔ ہماری جدید شاعری کے عاشق زادہ جوگی صفت شاعر جون ایلیا نے ایسی ہی کسی خواب کی بستی کا تجربہ بیان کیاہے ۔ کیاآپ ایسی بستی میں قیام کرنا پسند کریں گے؟

جوبستی خواب بن جائے کسی کا/ایس بستی میں
حصارِذات ِمستی میں /کوی آسان نہیں رہنا
کہ ہم خوابوں میں رہ سکتے ہیں/لیکن خواب کی بستی میں رہنا
ایک سزاہے/ایک کا ہش ہے
اذیت ناک کاہش ہے/بلا کی آزمائش ہے۔

(خواب کی بستی،جون ایلیا)

    خورشید اکرم بھی اپنی ان خواب آور نظموں کے حوالے سے ایک جلتے ہوئے خواب کی بستی میں دورانِ قیام ایک بلاخیز آزمائشوں سے گزرتے نظرآرہے ہیں۔ مزید خوابناک تخلیقی اظہارات سے لطف سخن اٹھائیے۔

(طوالت کے خیال سے مکمل نظم دینے سے پرہیز کررہا ہوں۔)


روز اک خیال/دل کے پاس سے گزرتا ہے
کلکِ گہر بار سے اس کی تکریم کرتاہوں
دست ہنر بار سے اس کی تجسیم کرتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی کمی رہ جاتی ہے
روز۔۔۔۔۔۔۔
بے خوابی جس کی تکمیل کرتی ہے
(روز ایک خیال)

کھلی آنکھ کی دنیا سے گھبرایا ہوا/محبت کی پناہ چاہتا ہے
نیند کی عدیم دنیا میں

(نظم :یا چھڑایا تھا ہاتھ)

    زیر مطالعہ نظمیں بنیاد ی طورپر شاعر کی ذاتی زندگی اور اس کی داخلی تنہائی کی گاتھا ہے۔ یہ نظمیںخالص رومان انگیز نہیں کہ ان میں تفکر بھی ہے اور عصری معنویت بھی۔ دراصل التہاب دل سے پھوٹتی ان نظموں کا محور ومرکز ایک آتش کی پرکالہ ہے کہنے کو اس کا نام صبیحہ ہے لیکن میرا جی کی میراسین ، مجاز کی نورا، اخترشیرانی کی سلمیٰ ، جمیل مظہری کی عذرا، ساحر کی امریتا پریتم ،پریم وار برٹنی کی نینا جوگن(اب مناظر عاشق ہرگانوی کی) اور اشہرہاشمی کی نیراؔ۔۔۔۔۔کسی بھی نام سے اسے یادکیا جاسکتاہے۔ صبیحہ محض ایک نام نہیں ایک پاور فل استعارہ ہے۔ عشق کے سردوگرم لمحوں کی بازیافت کا ، آدم کی گمشدہ جنت کو پانے کا --- بہر حال یہ ایک تخلیقی طریقۂ اظہار عشق کو دوام بخشتاہے   ؎

یہ جو میں تمہاری یاد کی
تجسیم کرتا رہتا ہوں
تو یہ اتنا بھی نہیں
جتنا ڈھلتی دھوپ میں تمہاری پرچھائیں ہے
یہ جو میں تمہاری خوش ادائیوں کی
تشریح کرتا رہتا ہوں
تو یہ اتنا بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔
یہ جو میں
تمہارے نام اپنی نوامنسوب کرتاہوں
تو یہ اتنا بھی نہیں
جتنا روٹی پر تمہاری انگلی کے نشان ہیں
یہ جو میں تمہارے خواب کی خاطر
اپنی نیند سے الجھتا ہوں
تو یہ اتنا بھی نہیں
جتنا تمہاری تیوری پہ بل پڑتاہے

(نظم :تو یہ اتنا بھی نہیں)

    گوئٹے کا یہ قول زیر مطالعہ کتاب ِ عشق کی سائیکی کو سمجھنے میں قدرِ معاون ثابت ہورہاہے کہ’’انسان کو باغ بہشت سے نکال دیا گیا تھاکہ اس نے علم کا پھل کھا لیا تھا۔اب وہ باغ بہشت میں فن کے دروازے سے دوبارہ داخل ہوگیا ہے اور اب اپنے ازلی اور اصلی منصب پر فائز ہے۔‘‘ زیر مطالعہ کتاب میں شامل تقریباً تمام نظمیں گوئٹے کے اس قول کو تقویت پہنچا رہی ہیں۔ حسن سے آدم کی ازلی دلچسپی نے تسخیر کائنات کے بشری جذبوں کو زیر مطالعہ نظم میں بڑا معنی خیز بنا دیاہے۔ بلاشبہ یہ نظمیں/ سطریں زمین کی کشش سے باہر احساس وفکر کی ایک نئی دنیا کی متلاشی نیز شریعت عشق کے المناک عناصر کی غماز ہیں:

اس سے پہلے کہ ہم
ایک غمناک کہانی کے کردار ہوجائیں
آئو اپنے حصے کی دھوپ لے کر
ہوا ہوجائیں
کسی اور سیارے میں جا بسیں
آدم اور حوا ہوجائیں
پھر خطا کریں خدائی سے گھبراکر
اور اس جرم محبت کی سزا پائیں
اک نئی دنیا کا سبب بن جائیں!

(نظم: ایک نئی دنیا کا سبب)

جب شفق پھولے/اور اس پہ لکھا ہومحبت
جب چاندنکلے اور تمہارے بچپن کی بڑھیا
محبت کا تتی نظر آئے
سب دشائوں سے تم تک پہنچنے والی ہوا
محبت بن کے تمہاری سانسوں میں بھر جائے
۔۔۔۔تو تب یقین کرلینا
محبت پہنچ گئی ہے سب سے اونچی چوٹی پر
۔۔۔۔۔تو تب تسلیم کرلینا
محبت سے بھرے دل کی جراحت!!!

(نظم :خدا کی آنکھ خالی ہے)

    دراصل روایتی منہاج ومفہوم کے حصار کوقدرے توڑتی ہوئی یہ افلاطونی قسم کی نظمیں ہیں،انہیں عشق کی لاحاصلی کا نوحہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ جن کے بطون سے اٹھنے والی لہریں بڑی گھاتک اور جان لیوا ہیں۔ ان نظموں سے ذہنی وابستگی کئے بغیر تخلیق کی داخلیت میں اترنا آسان نہیں۔ سنگ ریزوں پہ ننگے پائوں چلنا ہوگاتبھی ہم ان نظموں کو Justifyکرسکیں گے۔ کھرنڈ ، اتھلا کنواں، گھڑا،موم باتی، درد کا جوا، چنڈال، سندور کی سڑک، چاند کی براقہ، چاندی کی چنگیری،دھرتی کی جھانجھن، تکیہ، محبت، دھوئیں کا چھلہ اور تن کا کھکھیڑا وغیرہ جیسی متروک، سپاٹ اور غیر شاعرانہ لفظیات وتراکیب میں نئی روح پھونکنے کے لئے ہمیں فکر وفن کی سطح پر ایک ذرا آزاد ہونا پڑے گا۔شاعرانہ مطالب کی ادائیگی میں ان لفظوں کا جدلیاتی نظام حسن تخلیق کو معنی خیز اور دوآتشہ بناتاہے۔ جدیدیت کے عقب سے جھانکتی یہ نثری نظمیں بلاشبہ ایک آزاد تخلیقی فضا کی جویا ہیں۔ ویسے بھی پرپیچ، اوبڑکھابڑ اور خاردار راستوں سے گزرے بغیر منزلِ مقصود تک پہنچا نہیں جاسکتا۔میرے اس خیال کو ظفر اقبال نے یوں وسعت دی ہے   ؎

معمول کے مطابق ہوتا نہیں ہے سب کچھ
موج بہار آئی بنجر کے راستے سے

    کھردرے ،سپاٹ لیکن دل سوز ،دل گدازشبدوں سے خورشید اکرم نے ایسا فسوں ساز ماحول تیار کیا ہے کہ قاری ان نظموں کی آڑی ترچھی سطروں ، لکیروں میں بہت دیر تک کھو جاتاہے۔حواس باختہ ہوجاتاہے۔۔۔۔۔۔۔یہاں تک کہ ان شرربار شبدوں سے اپنے بھیتر سلگن محسوس کرتاہے۔الم خیز اور نیم باز زخموں کے ان انکھوئوں کا تصور کرکے قاری کا آبدیدہ ہوجانا بڑافطری ہے۔    یہ نظمیں الفاظ کا گورکھ دھندا قطعی نہیں ۔لغوی معنی سے ماورا ان کی اپنی سائیکی ہے۔ اب یہ الگ بات کہ یہ نظمیں کثیر المفہومی نہیں۔موضوعی سطح پر یکسانیت کے باوجود ان نظموں کا بیانیہ خوش کن ہے اور قابل تفہیم بھی ۔کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس زمانے کی عشقیہ کہانی  ہے جب کہ آتش جواں تھا۔ وقت کے وائرس سے جان لیوایادوں کےInboxکو ذہن کے کمپیوٹر میں برسوں محفو ظ رکھناہنروری ہے  -----یوں تو نثری نظمیں لکھنے والے شعراء کی تعداد بہت کم ہے۔ لیکن اس صنف میں تجربہ کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ پاکستان کے مخدوم منورکا ماننا ہے کہ ’’نثری نظم جدید ترحسیت کی شاعری ہے۔یہ ایک ایسی صنف ہے جسے آج کا شاعر جذبے اور تخیئل کی فطری آرزو کو آزادی سے پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتاہے ‘‘--- ہندوستان کے ممتازناقد وشاعر اور دانشور لطف الرحمن نے بڑی کشادہ نظری سے نثری نظموں پراپنے تاثرات لکھتے ہوئے یہ واضح کردیا ہے کہ:’’میں نثری نظم کوعصری حسیت کامعروضی ہیئتی اظہار سمجھتا ہوں۔اور اس حقیقت کا معترف ہوں کہ نثری نظم آزاد نظم سے آگے کا سفرہے اور تحریک جدید کی ہیئتی اور اسلوبی ترجمانی کے لئے سب سے زیادہ موزوں صنف شاعری ہے۔‘‘

    میراتو ایسا ماننا ہے کہ تخلیقی فن پارہ میں ہیئت زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ محض بحرو اوزان کے تابع رہ کر شاعری صرف کسی موضوع کو موزونیت سے ہمکنار کرنے کا نام نہیں۔ تک بندی اور شاعری میں بڑا فرق ہے۔ شاعری شیشہ گری ہے خواہ اسے نثری نظم کا ہی کیوں نہ نام دیا جائے ۔ان نظموں کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے جانا کہ نثری نظم میں بھی موسیقیت ہوتی ہے ترنم ہوتا ہے  ---- یوں بھی تخلیقی اظہارات کے مختلف وسیلے ہیں ۔ کسی تخلیق کی نفسیاتی معنویت وجہت کے لئے کسی مخصوص صنف کی قید نہیں کم وبیش تمام تخلیقی فنکار اپنے ادبی ،ذوق وشوق اور ذہنی وابستگی کے تحت مختلف اصناف سخن پر طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔

     صنف یا میڈیم کوئی بھی ہو اگر بات سلیقے سے نہ کہی گئی ہوتو پھر سارے کئے کرائے پر پانی پھر جاتاہے۔ الفاظ لاکھ نا مانوس کھردرے یا کسیلے کروندے کے پھل جیسے ہوں ان کا فنکارانہ استعمال ہی اصل جوہر ہے۔ فنی تقاضے اپنی جگہ ۔یہ میرا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ وادیٔ تخیئلات میں اڑنے والا تخلیقی پرندہ بہر حال کھلا آسمان چاہتاہے۔ تخلیقی جذبوں کی کشتی میں جب فطری بہائو ہو تو بسااوقات درمیان میں حائل فنی ضرورتوں کے بادبان بے معنی سے لگتے ہیں۔ طوالت کے خیال سے چند نظموں کے ٹکڑے یہاں پیش کرنے پر اکتفا کررہا ہوں۔

جب میں رستے پر تمہارے نام کے
 پھول بکھیرتا جاتا تھا
کہ اچانک تم نے میری روح سے
اپنے نام کا پودا اُکھاڑلیا

(نظم: میری ہار کاچہرہ تم)

کال کے کھوہ میں کھویا
معمولی سا ایک منظر جانم!
جاودانی لگ رہاہے
نظم کے کینوس پر!!!

(نظم :نظم کے کینوس پر)
محبت کی تتلی
اپنے کوئے سے نکلتی ہے باہر
۔۔۔۔۔وہاں اس کی غمگساری کرتی ہے فقط نظم
اور کون جان سکتاہے
شاعر کے سوا
کہ نظم کی خودروگھاس مدفن ہے
کتنے اڑتے پروں کا
کتنی پروازوں کا!!!

(نظم: آنر کلنگ)

    ان نظموں کے خالق کی ذاتی زندگی کی ناآسودگی کے درد کو کوئی دل والا ہی محسوس کرسکتاہے۔ اس طوروطرزکی خواب آگیں نظمیں لکھ کر خورشید نے بلا شبہ نثری نظم کو وقار بخشا ہے۔ Loss اورProfit سے ماورا مشرقی کلچر کی پروردہ ان نظموں میں محبوب کی تعظیم وتکریم کاجذبہ بام عروج پر ہے۔خورشید کے صحرائے عشق کی بیکراں وسعتوں میں زرنگار نقشین وکٹوریہ پر سوار صبیحہ نام کی ایک پرچھائیں ، ایک چھلاوہ کا تعاقب کرتے عاشق کا آبلۂ دل پھوٹ پڑاہو جیسے۔ ان آبلوں سے لہو کے رسنے کا تصور کرکے قاری کی آنکھیں نم ہوا چاہتی ہیں۔ ایسے میں نہ جانے کیوں جون ایلیا کا یہ شعر یاد آجاتاہے   ؎    

زخمہا زخم ہوں پر کوئی نہیں خوں کا نشاں
کون ہے وہ جو مرے خون میں تر ہے مجھ میں؟

بلاشبہ یہ عشقیہ شاعری زمانے کے مہلک ہتھیاروں ، دھماکہ خیزمادوں سے محفوظ رہنے والی ہے۔عشق میں اتنی خوبصورتی سے برباد ہونا اورپھرتخلیق کے اگنی کنڈ میں اپنی بربادی کا شاندار جشن منانادل گردے کا کام ہے۔خورشید  نے ان نظموں پر دو صفحہ کا فکرانگیز دیباچہ بھی قلم بند کیاہے جس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ دیباچہ نگار/تخلیق کار کو حقیقت کے ادراک کا فن آتاہے۔ ان نظموں کے حوالے سے اس کا ایسا ماننا ہے کہ۔۔۔۔۔۔’’۔ جیسے کسی معصوم بچے کو جب اس کی پسندیدہ چیز مل جاتی ہے تو وہ اپنی اس یافت کی رفاقت میں زیادہ دیر رہنا اور سب کچھ کو بھلا رکھنا چاہتاہے۔ میرے یہاں نظم اسی طرح وارد ہوئی اس لئے میں نے اسے ہمیشہ سینے سے لگا کر رکھا، صرف اپنی تنہائی کا شریک بنا کر۔۔۔۔۔۔۔مجنوں صحرا  میں بھٹکتاہے ، شاعر کورے کاغذ پر۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ سو ان ان لفظوں کی لپٹ کے پار اگر آپ کو دنیا کا چہرہ نظر آئے تو سمجھئے عاشق یہاں شیوہ پیغمبری کا خوشہ چین ہوا ہے جو اپنے اوپر کیچڑ پھینکنے والے سے اس کی خیریت پوچھنے آگیاہے۔‘‘۔۔۔۔۔۔سچ کہوں تو یہ اپنے دکھ اور خواری کو دنیا کے سامنے مزید خوار کرنے کی ایک طفلانہ کوشش سے زیادہ کچھ نہیں‘‘  ------- یہ سطریں مجھ سے پوچھئے توSelf degrading   کی ایک اچھوتی مثال ہے۔دراصل ناموس کی دہائی دیتی یہ سطریں ایک کمال انکساری ، عاشقانہ بے نیازی، فکری طہارت اور روح پرور اضطراری کیفیات کی غمازہیں۔ محبوب کی بے التفافی کا شکار ہوکر ہمارے عہد کا شاعر /عاشق صحراوں کی خاک نہیں چھانتا۔ آپ بیتی کو جگ بیتی بنا کر کورے کاغذپر موثرڈھنگ سے پیش کرنافن کاری ہے۔ شبدوں کی شکتی کا عرفان حاصل کئے بغیر ایسی نظمو ں کی تخلیق ممکن نہیں۔ روایتی لفظیات کے جمود کو سیال بناتی ، تخلیق کے فطری مراحل طے کرتی۔ان نظموں کے Trans سے کیا آپ باہر آسکتے ہیں؟

 ویرانے سے کاشانے تک
بس ایک قدم کی دوری ہے

ایک قدم
ہوسکتا ہے ایک ساعت کا
ایک حیوانی عمر کا
یا ایک نوری سال کا

ویران راستے کی پیمائش کے لئے
خدانے
فرشتہ مقرر نہیں کیا!!!
(نظم:ویران راستے کی پیمائش)

تیس برس سے لکھ رہا ہوں
دن اور رات ، بے تکان
سدا سبز درد کا احوال
تیس برس میں کتنے پل ہوتے
ایک پل سے بندھا ہوتا ہے کتنا درد
ایک لہر سے پھوٹتاہے کتنے زخموں کا انکھوا
ایک آنسو میں نہا ں ہوتی ہے کتنی اداسی
ایک اداسی ہوتی ہے کتنے خواب کا مدفن
تیس برس سے
میرا شفاگر
ٹٹول رہاہے لفظ
مجھے لکھنا آتا
بریل میں اے کاش۔۔۔۔!!!

(نظم:بریلBrailleمیں اے کاش!)

    فکر واحساس کی اچھوتی ڈگر کے تشکیلی لمحوں میں گذشت ورفت کی تفہیم کرتے ایک نئے Horizonمیں داخل ہوتی ہوئی اس قبیل کی دوسری نظموں میں ’’روح کی نجات،معصوم آنکھوں والی ‘‘پینٹ ہائوس، تو یہ اتنا بھی نہیں، بے یقین دنیا میں، بچھڑنے کی ساعت کی آخری نظم ، آنا ہے تو ایسے آئو وغیرہ۔ بیک وقت دل اور دماغ دونوں کو جھنجھوڑکر رکھ دیتی ہیں۔ ایسی عشقیہ کہانی کا کوئی خوشگوار اختتام نہیں ہوتا۔ عشقیہ اظہار میں ہر چند کہ شاعر چاک گریباں نہ سہی لیکن محض ۔۔۔۔۔۔۱۲۰ صفحات سیاہ کرکے کیا عشق نے اپنا وظیفہ واقعی مکمل کرلیاہے؟۔۔۔۔۔ کہا جاسکتاہے کہ ۳۰ برسوں کے اس تخلیقی بن باس کا نثری نظموں پر مشتمل یہ مجموعہ تلافیٔ مافات نہیں ہوسکتا۔دراصل یہ ایک Endless Love storyہے جس میں خورشید کے پسندیدہ جدید غزل گوشاعر عرفان صدیقی کے بقول   ؎

چلتا رہتا ہے وہی سلسلۂ ہجر ووصال
اک سفر ختم ہوا، ایک مسافت نکل آئی

    ایسا محسوں ہوتا ہے کہ خورشید اکرم کے اس صعو بت بھرے تخلیقی سفر میں کروندے کا منحنی سا پیڑ کلیدی رول ادا کرتاہے۔ ماننا پڑے گا کہ کسی چنبیلی کے منڈوے تلے نہیں بلکہ کروندے کے پیڑ کے زیر سایہ پروان چڑھنے والا یہ عشق واقعی بڑا ہی افلاطونی قسم کا ہے۔
کروندے کے منحنی پیڑ کی چھایا میں بیٹھا ہوں

زرہ بکتر پہنے
وہاں جہاں میرے بازو کی مچھلی پر
 ہوا کا خالی پن ہے
آئو اور اپنے ہونٹ رکھ دو
 عرصۂ جنگ میرا منتظر ہے
۔۔۔ میں تمہارا!!!

(نظم: ایک ٹھہری ہوئی دنیا)

    خود تراشیدہ محبت کی بستی میں ایک منحنی سے کروندے کے پیڑ کو گوشۂ عافیت یا شجر سایہ دار سمجھنے والا شاعر عشق میں بائولا گیاہے۔  زمین عشق پر اُگے کروندے کے پیڑ کی منحنی شاخوں پر پُرفریب دعوت نظارہ دیتے ہوئے پراسرار شگوفوں کی تازگی اور لالی میں شاعر کا لہوشامل ہے کہ کروندے کے یہ پیڑ جونک بن کر جسم کا سارا لہو چوس جاتے ہیں۔اب یہ الگ بات کہ کروندے کے پیڑ بڑے من موہک اور دل چور ہوتے ہیں۔نوکیلے اورچور کانٹوں کو چھپائے ان کی ہری پتیوں کا لمس بظاہر ہتھیلیوں میںگدگدی پیدا کردیتاہے۔ لیکن ان کا پھل توڑتے وقت انگلیوں کی پوریں لہولہان ہوجاتی ہیں۔ ان کانٹوں کی چبھن دیر پا ہوتی ہے۔ ببول کے پیڑ کی کنٹیلی جھاڑیاں ہمیں دور ہی سے ہوشیار کردیتی ہیں کہ ادھر خطرہ ہے جبکہ دور ہی سے لُبھاتے اور ہر دم سبز وشاداب نظر آنے والے یہ کروندے کے بونسائی بنتے ہوئے سے پیڑ اپنی جانب پیار سے بڑھی ہوئی ہتھیلیوں پر چپکے سے خراش لگانے میں ماہر ہوتے ہیں۔ ویسے ببول ہویا کروندے کا پیڑ ان کے پاس جانے کا تصور ہی میرے لئے بڑاہی سنسنی خیز ہے۔ اب دیکھئے کہ اوگھڑ قسم کے شاعر /عاشق کو کروندے کی جھاڑیوں کے بیچ زرہ بکتر پہنا پڑاہے۔ لیکن اپنے عشق میں اس طرح مست الست ہے کہ سرپر خود پہننا بھول گیاہے۔ ایسی بھول عشق کا خاصہ رہی ہے جس کا خوبصورت انجام سرکالہولہان ہونا ہے۔ سر یعنی دماغ کے اس مضبوط کوج کو جو کاری ضرب پہنچی ہے اس کا بہترین تخلیقی اظہاریہ ہے پیش نظر نثری نظموں کا مجموعہ ’’پچھلی پیت کے کارنے ‘‘---  دل سے نکلی ہوئی شاعری چاہے وہ جس فارم میں ہو محبت ہے ، عبادت ہے ۔عہد ساز ناقد وشاعر شمس الرحمن فاروقی کا یہ خوبصورت شعر خورشید اکرم کی عشقیہ کہانی کو نقطۂ عروج تک پہنچاتا ہوا محسوس ہوتاہے ۔ زیر مطالعہ کتاب عشق کا لب لباب بھی یہی ہے شاید   ؎

ہے تجھ سے جنتا سکھ مجھے اتنا ہی دکھ بھی ہے
پھولوں میں توگلاب ہے کانٹوں میں تو ببول

    ان نثری نظموں کا خالق تخلیقی اضطراب کی جن سرکش لہروں سے کھیل رہاہے وہ بچوں کا کھیل ہرگز نہیں کہ جہاں جسم کی یگانت ہی روح کی نجات ہے۔ اب اگر ایسے میں فنکار کی روح پیاسی رہ جائے تو ؟ --- تو سفید کاغد پر بوند بوند روشنائی سے قلم اپنے جوہر دکھلاتاہے اور یوں کسی فن پارکے کا وجودعمل میں آتاہے۔ اب کسی فن پارے کو ’’شاہکار‘‘ کا درجہ دن مہینوں میں تو نہیں ملتا  ------  کہتے ہیں کہ کسی چنچل پہاڑی ندی کے پانی کو سنگلاخ چٹانوں کے سینے چھیدکراپنی راہ بناتے ہوئے سمندر سے ہم آغوش ہونے میں برسوں لگ جاتے ہیں تو ظاہر ہواکہ کچھ ایسی ہی ریاضت تپسیا اور پروسیس کسی فن پارہ کو شاہکار بناتاہے۔ کیا حسن کی کوئی ٹھوس اور حتمی تعریف ممکن ہے؟  ---میرے خیال سے ایک نظر میں حسن کا بھا جانا ہی اس کی بڑی تعریف ہے؟؟----اگر ہاں، تو زیر مطالعہ نثری نظموں کی پہلی ہی قرأت نے مجھے اپنا اسیر بنا لیاہے۔ اب ان نظموں کی لپٹ کے پارمجھے عرفان صدیقی کا یہ شعر بڑا معنی خیز نظر آرہاہے۔

یہ آگ تیرے ہی افسوں کی ہے لگائی ہوئی
تری سزا ہے کہ اب آگ ہی میں پھول کھلا

    خورشید اکرم کی نظموں نے مجھے ذاتی طورپر کریدا ہے۔دوران مطالعہ ایک نئی لذت خواب سے آشنا ہوا ہوں جس کا سرور میری رگوں میں دوڑ رہاہے۔ ایک عالم سوگ ، ایک بے خودی اور ایک طرح کی خودفراموشی کا شکار ہوں ۔تخلیقی مطالعہ کی آسودگی سے واقعی سرشار ہوں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ   ؎

ہے ان کہے بہت سے سخن ہائے گفتنی
افسانۂ حیات سدا ناتمام ہے

 (منیب الرحمن)
عشق زندہ باد!
(اذکار : شمارہ۔ ۲۹)

************************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 980