donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Khwabon Ke Ham Saye Ka Nazm Go


’’خوابوں کے ہمسائے کا نظم گو‘‘


شمیم قاسمی


سب سے پہلے میں اس کااعتراف کرتاچلوں کہ شاہد جمیل میرے ہم عصر شعراء میں اپنی جداگانہ پہچان رکھتاہے کہ اسے عصری شاعری بطور خاص نظم گوئی کا گہرا شعورہے۔

 شاہد جمیل غزلیں اچھی کہتا ہے کہ نظمیں یا پھر دوہے، اس کافیصلہ کوئی آسان نہیں۔ ہاں، اتنا تو ضرور کہہ سکتاہوں کہ نظموںکے حوالے سے اس کی شعری شخصیت زیادہ پر وقار اورسنجیدہ نظر آتی ہے۔

اپنے ادبی سفر کے ابتدائی دنوںمیں اس نے بچوں کی ڈھیر ساری پیاری پیاری اورسبق آموز نظمیں لکھیں جو اس زمانے میں بچوںکے مقبول رسائل کی زینت بنیں جن میں مسرت ،  غنچہ ، ٹافی، پیام تعلیم اور نور وغیرہ میرے حافظے کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ دراصل میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ بنیادی طور پر اردو شاعری میں صنف نظم شاہد کے جذبات ومحسوسات کاایک مضبوط وسیلۂ اظہار رہی ہے۔ گویا وہ اس صنف کے زیادہ قریب رہاہے۔ کیا وہ ایک کامیاب نظم گو بھی ہے؟ سردست میں جواب نہیں دے سکتا کہ اس کا جواب ابھی وقت کے گربھ میں ہے۔ سچائی تو یہ ے کہ اپنے کسی ہم عصر پرلکھنا بیک وقت دل اور دماغ دونوں کا معاملہ بنتا ہے دل ہے کہ مہتاب کی چمک دمک اور اس کی خوبصورتی پر فدا ہے جبکہ دماغ( ذہن) سوچنے سمجھنے اور تجسس کے کرب سے دوچار ہوتا ہے تو اسے بے معنی بنادیتا ہے ۔ پھر دل کوبہلانا آسان نہیںہوتا۔ دروازۂ دل کے وا ہوتے ہی دماغ متحرک اور حد درجہ محتاط ہوجاتاہے ۔ دراصل انسانی جسم میں اس کی حیثیت رنگ ماسٹر کی ہوتی ہے۔ دل اوردماغ کی اس جنگ میں ’’خوابوں کے ہم سائے‘‘ کانظم گو چپی سادھے کھڑاہے۔

نظم نگاری بڑی حدتک فکری، موضوعی اوراظہار وبیان کی سطح پر جس فنی ریاضت اور عبادت کی متقاضی ہوتی ہے اس کا ہمارے عہد کے بیشتر شعراء کے یہاں فقدان ہے شاہد بھی اس سے مستثنیٰ نہیں لیکن اسکے یہاں ایسا کچھ ضرور ہے جو اسے اپنے ہم عصروں کے درمیان انفرادی بناتاہے۔ اوریہ ’’کچھ‘‘ دراصل اس کی نظموں میںلہجے کا فطری بہائو،بیشترنظموں کافکشن جیسا ٹریٹمنٹ ، غیر ہم آہنگ  اورغیر شاعرانہ لفظیات کو شعری پیکر میں ڈھالنے کا شعور، ہنر مندی اورایک طرح کی بے نیازی ہے۔

مندرجہ ذیل نظموں کی یہ چند سطریں ہی اس ’’کچھ‘‘ کے جواز فراہم کرتی ہیں:

میرے کمرے میں
کھڑکی کا پردہ ہٹاکر
 درندہ کوئی گھس رہاہے
کواڑوں میں’کی ہول‘ سے آنکھ عفریت کی جھانک کردیکھتی ہے
قریں، وینٹی لیٹر‘ کے چمگادڑیں جھولتی ہیں
کتابوں کے ٹیبل سے چمٹاہوا سانپ پھن کاڑھتاہے
وہاںہینگر سے لٹکتا ہے بچھو

وہ ٹی وی کے پیچھے سے ہوتی ہے جو سرسراہٹ کسی کا کروچ کی نہیںہے
لحاف او ربستر میں، تکیہ کے نیچے، سرکتے ہوئے کنکھجوروں کا دل ناچتاہے
مری آنکھوں میں رینگتی ساعتوں سے لرزرتی ہے دیوار

(کمرے سے باہر کا خوف)    

میں جانتاہوں کہ تم کو حیرت ضرور ہوگی
تمہیں بتائوں کہ تم کو چھونے کا ہر تجسس بھی ایک سچ ہے
پھر اس پہ پانے کی ہر تمنا میں دوسرا سچ
اور اس طرح کے ہزاروں سچ ہیں
کہ سچ کاخوابوں سے کیا تعلق؟

(خواب زاروں کے سائے سائے)    

کہ میں خدا کو صدائیں دیتاجنوں سے سرگوشیوں میں مشغول
 خودکلامی کے بیکراں عالم فسوں میں نڈھال
بے سمت، بے جہت، بے امان آوارگی میںمقسوم
لمحہ لمحہ بکھررہاہوں؍میںچاہتاہوں
کہ تم میری نامراد آنکھوں سے میرا کوئی بھی
خواب مت لو!
( ایک تنہا اداس موسم)    

ان نظموں کاخالق اگر ناسٹلجیا کا شکارہوجاتاہے اور خودکلامی کے بیکراں فسوںمیں نڈھال دکھائی دیتا ہے تو تعجب کا مقام نہیں کہ وہ عہد بیمار کا مسیحا نہیں بلکہ اس کا جیتا جاگتا کردار ہے۔ اسے خواب بڑے عزیز ہیں اورمتاع جاں بھی۔ وہ خواب کی تعبیر نہیں ڈھونڈتا۔ وہ تو خواب درخواب دیکھتا ہے اس کی آنکھیں ہر لمحہ ہر پل خواب دیکھتی ہیں۔ خواب بنتی ہیں اور خواب جنتی بھی ہیں۔ آنکھوں کی راہ سے دل کی وادی میں اترنے کا ہر عمل خواب ناک ہے۔ خواب دراصل شاعر کی شعری کائنات میں اس کی اپنی شخصی زندگی کی بے اطمینانی ، ناآسودگی اورایک طرح کی تخلیقی آوارگی کاطاقت ور استعارہ ہے:

تم اک حقیقت جہاں بھی محدود ہو، مجھے کیا؟
کہ میری آنکھوں نے خواب کرکے
تمہیں کچھ ایسے سجالیاہے
مراسفر میرا بوجھ اٹھائے
تمہیں نہ چھوکر، تمہیں نہ پاکر بھی
ہر تعلق ہرایک منظر؍ہرایک موسم میں
صرف تم کو ہی چھورہاہے
تمہیں کو ہر سمت پارہاہے!
(خواب زاروں کے سائے سائے)    

 ’’خوابوں کے ہم سائے‘‘ کے خالق کی آنکھوںمیںایک نہ ختم ہونے والے طلسمی خواب زاروں کا دریا ٹھاٹھیں ماررہاہے۔ خوف، اندیشہ اورایک طرح کی حزنیت زدہ خوابناکی کے اس صبر آزما اور ان دیکھے سفر میں ساحل کی تمنا اسے ہر لمحہ، ہرلحظہ ایک ایسے بھنور کی طرف کھینچے لیے جاتی ہے جہاں خود کلامی اورخود احتسابی کے سوا اورکوئی راستہ نظر نہیں آتا:

خدایا!
مجھے کیا ہواہے؟
ہوا کیا ہے آخر مجھے؟
یہ کن وحشتوں میں شب و روز جینا مراہورہاہے؟
مرے قہقہوں میں یہ کیسی اداسی مجھے ڈس رہی ہے؟
مری محفلوں میں یہ کس سونے پن کی صدا چیختی ہے؟
مرے دوستوں میں یہ کس دشمنی کی ہوائوں کے جھکڑ مجھے کھینچ کر
منظر عام پر لارہے ہیں!
(خود احتسابی کی ایک شام)    

جاگتی اور سوئی ہوئی آنکھوں کے خوابوں کی ہم سائیگی اضطرابی کیفیت کے اس نظم گوکے لئے نہ صرف سکون آور ہے بلکہ اس کے شعری سفر کی توانائی اورطمانیت بھی۔ ہرلمحہ ایک بے نام سی اداسی، محرومی اورایک جان لیوا ادھورے پن کے شدید احساس نے ’’خوابوں کے ہمسائے‘‘ کے نظم گو کوinsomniaکامریض بنادیا ہے ۔ وہ کسی سے کوئی گلہ کوئی شکوہ نہیں کرتا۔ حدنظرتک بکھرے ہوئے تمام مظاہر و مناظر اس کی ذات میں گم ہوگئے ہیں اور وہ اظہار لفظ ومعنی کی تلاش میں ایک نئی دنیا کاتمنائی نظر آتاہے:

انتظار
اس آنکھ کا
جوتیسری ہے
انتظار اس خواب کا- جو آگہی ہے
انتظار اس لفظ کا
جوشاعری ہے
انتظار و انتظار وانتظار!
(طویل جمود کے دوران ایک نظم)  
 

 

مذکورہ نظموںمیں ’’خوابوں کے ہمسائے‘‘ کے نظم گوکے لہجے کی ساخت اگر بہت اچھوتی بھی نہیں ہے تو بھی ایک خاص ذائقہ اورفنی رچائو لئے ہوئے ہے۔ اس کی لفظیات کی فکری معنویت میں ایک پراسراریت اورتکنیک کے تجربے شامل ہیں۔ بڑے کینوس کی بعض چھوٹی چھوٹی نظمیں جیسے ’خواب ٹھکرانے کافیصلہ‘، ’درد‘،’ایک گونگا سوال‘،’ ایسی بھی کیا آنکھ مچولی‘ اور ’زندگی ایک بے کار بحث‘ وغیرہ کامطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ شاعر نہ صرف نئی نظم کے فن سے آشنا ہے بلکہ زبان وبیان اور ذات و کائنات کا اسے مٹھی بھرعرفان حاصل ہے۔ محض چار سطروں پرمشتمل زیر نظر نظم میں جوفکری اورموضوعی تجربہ ہے وہ بڑا آفاقی اورفنی پختگی لئے ہواہے:

درد کے انجام سے
 آغاز بہتر تھا
کم از کم تجربہ تو( کچھ عجب ہونے کا)
بالکل نیاتھا!
(درد)        

’’خوابوں کے ہمسائے‘‘ کے نظم گو کی تقریباً تمام نظموں میں ایک بے نام سی اداسی کی دھند چھائی ہوئی ہے، جو جاں سوز بھی ہے اورجاں گداز بھی اور شاعر کی شعری کائنات کا جواز بھی۔ اس دھند میں شاعر کی شعری اور ذاتی شخصیت ایک دوسرے میں مدغم ہوگئی ہے۔ اسے ڈھونڈ نکالنا کوئی آسان نہیں کہ اس کی بیشتر نظموں میں جو معنوی تہہ داری اور آشفتہ سری ہے، وہ قاری کو غیر دانستہ طور پر اپنے حصار میں باندھ لیتی ہے۔ اوروہ ایک ناقابل بیان کشمکش کا شکار ہوجاتاہے کہ ان نظموںمیں ڈرامائی عناصر بھی شامل ہوتے ہیں، جو محض چونکاتے ہی نہیں ہیں، سوچنے پربھی مجبور کرتے ہیں اورمیرے خیال سے’’ خوابوں کے ہمسائے‘‘ کے نظم گو کایہ وصف خاص ہے ۔ اپنے ان تاثرات کو میں شاہد جمیل کی ایک نظم کی مندرجہ ذیل سطروں پرسمیٹنا چاہتاہوں کہ ہر لمحہ بکھرجانے کا احساس شدت پکڑرہاہے:

قلم جوچاہتاہے لکھ رہاہے
میں جو کچھ سوچتاہوں وہ نہ لکھوں؍بہت مجبور ہوں
میرے قلم کو میری سوچوں سے زیادہ اپنی آزادی سے الفت ہے

لہٰذا

یوںنتیجہ کچھ کا کچھ پھرجانکلتا ہے!
            (میں اور میرا قلم)

(ماہنامہ سہیل،۱۹۹۹ئ،گیا)


*****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 597