donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Munfarid Lafziyati Nezam Ka Shayar


منفرد لفظیاتی نظام کا شاعر


شمیم قاسمی


پہلی فرصت میں سہیل اختر کی جدّت پسند شعری کائنات بعنوان ’’کاغذپہ صحرا‘‘ کے طول وعرض کی سیر کررہا ہوں بلکہ یوں کہئے کہ سیراب ہورہا ہوں۔

جدھر کا ہے ہمیں ممنوع اک خیال تلک
نہ جانے خواب سدا کیوں ادھر کے دیکھتے ہیں

لاکھ تاریک ہو شب میری ہے امید مجھے
اک ستارے نے چمکنے کی عنایت کی ہے

پہلے دیوانہ بنایا گیا مجھ کو اخترؔ
پھر یہ الزام کہ گستاخیٔ وحشت کی ہے

توقعات پہ زندہ ہوں گو یہ جانتا ہوں
یہ پیڑ سخت زمینوں میں کب ہے پھلنے کا

الگ ہے منزلِ مقصود اپنی ہم سفرو!
بنے بنائے سے رستوں پہ میں نہ چلنے کا

نقوش پا سے بھی آگے ہے منزلِ مقصود
وہاں ہے جانا جہاں راستہ نہیں جاتا

    منزل کی تلاش وجستجو ، مناظر فطرت سے ہم کلام ہونے کی چاہت تخلیقی فنکاروں کو انجانے راستے کی سیر کرانے پر ہمیشہ اکساتی رہی ہے۔ فنکار فکری وجمالیاتی سطح پر جب بھی بیدار ہوتاہے معیاری اشعار کے موتیوں سے جہانِ تخلیق کو مالامال کردیتاہے۔ سہیل اختر ہرچند کہ سائنس کے طالب علم رہے ہیں لیکن ان کی تخلیقی اُڑان صحرائے بسیط کہ جہاں سراب ہی سراب ہے کا بہ اندازِ جنوں طواف کرتی نظر آرہی ہے۔ ان کے ذہن میں منزل ِمقصود کا ابھی کوئی واضح خاکہ نہیں اُبھراہے۔ صحرائے جنوں کا یہ شعری سفر دراصل خواب اور حقیقت کے درمیان سیماب صفت اُس مخفی روحانیت اور رومان انگیز سنہری دھند سے ہم آہنگ ہونے کا طالب ہے جہاں فطرت کے اسرار وحسن کی ایک الگ ہی دنیا ہے۔ اب یہ الگ بات   ؎

وہ خواب جس کے تعاقب میں عمر ضائع ہوئی
حقیقتوں سے کو ئی اس کا واسطہ بھی نہیں

    اس مقام پر فن کار کبھی آسودگی محسوس کرتاہے تو کبھی تشنہ کامی اس کا مقدر بنتی ہے۔ غزل گو لاکھ غیر موافق حالات میں جی رہا ہو ، بیزار دنیا نظر آتا ہو لیکن کلی طورپر ترک سخن نہیں کرسکتا۔ دراصل شاعری بطورِ خاص صنف غزل ایک ایسی کافر حسینہ ہے کہ ایک بارجسے اس کا چسکا لگ جائے تو پھر مت پوچھئے ۔کہتے ہیں کہ ایک سچا فن کار کبھی حوصلوں کا دامن نہیں چھوڑتا۔ سہیل اختر بھی ایک جواں حوصلہ شاعر ہے،Structural Engineerہے۔یوںعمارتوں کی ڈیزائننگ کے ساتھ ساتھ صنف غزل میں بھی اپنے تکنیکی اور اختراعی ذہن سے کام لیتاہے۔وہ فطرۃً بھی جدت پسند ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ منافقانہ ادبی ماحول اور معاشرانہ چشمکوں کے درمیان اپنے شعری تشخص کو برقرار رکھنے کا اسے گُر معلوم ہے     ؎  

ہم اپنا راستہ خود ڈھونڈ لیں گے
ہمیں آتا نہیں ہے رو میں بہنا

دراصل سہیل کی  شخصیت کے مختلف ڈائی منشنس ہیں۔ فی الحال میرا موضوع تو کاغذ پہ صَحراکا خالق ہے اور جو بنیادی طورپر بہر حال ایک غزل پرست ہے تو ظاہر ہے کہ اس ’’لاعلاج روگ‘‘اورذارت کے بحران سے دامن بچا کر نکل جانا کوئی آسان نہیں۔اپنے تخلیقی سفر کے نشیب وفراز پر روشنی ڈالتے ہوئے سہیل اخترنے ’’پیش گفتار‘‘ کے تحت اس کا واضح طورپر اعتراف کیا ہے کہ  ---- ’میری شاعری کا باقاعدہ آغاز 1990-91میں ہوا ۔حالانکہ اس سے پہلے بھی شعر گوئی ہوتی رہی لیکن تعلیمی مصروفیات اوراپنے نجی حالات کی وجہ سے اس پر پوری توجہ نہ دے سکا۔ سن1990-91کے بعد شاعری کا سلسلہ رک رک کر ہی سہی مگرچلتا رہا۔لیکن 1995سے 2001تک بالکل ہی ٹھپ ہوگیا۔ یہ رکاوٹ مصروفیات کے سبب نہیں ہوئی۔بلکہ میں نے خود ہی دل برداشتہ اور ادب بیزار ہوکر اسے چھوڑدیا تھا۔ اور یہ سوچ کر خوش تھاکہ چلو گلوخلاصی ہوگئی۔ لیکن 6سال بعد آخر کار میری شاعری ایک ضدّی محبوبہ کی طرح دوبارہ مجھے اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ ‘‘ ----دیکھاآپ نے شاعری کا کمال   ؎

ہنر نہ تھا کوئی سوہم بھی شعر کہنے لگے
کہ اس سے بڑھ کے تو کارزیاں نہیں ہے کوئی

اسے کہتے ہیں جادو وہ جو سرچڑھ کے بولے۔ سہیل اختر کی بے ہنری کا یہ ’’ہنر‘‘ کیا داد طلب نہیں ؟ اس میں تخلیقی انہماک بھی ہے ،معنوی تازگی بھی۔ کہنا چاہئے کہ شعروادب کے تئیں مخفی کمٹمنٹ کا حامل یہ شعر نہ صرف عصری حسیت کا ترجمان ہے بلکہ Ironyسے بھرا ہواہے۔ جبکہ اس مقام پر ’’ کارِ زیاں‘‘ (مطبوعہ ۲۰۰۸ئ) کے غزل گو عالم خورشید کا یہ شعر محض ایک فلیٹ فیلنگ ہے    ؎

خدا انھیں بھی ہو توفیق اس عبادت کی
محبتوں کو جو کارِزیاں سمجھتے ہیں

موضوعی اعتبارسے بھی یہ جگالی شدہ ہے۔ محض ایک لفظ ’’کارِ زیاں‘‘ نے ہی لاشعوری طورپر اس شعر کی یادتازہ کردی ہے ورنہ یہاں پر کسی تقابلی مطالعے کی ضرورت بھی نہیں۔ یُگ بیتاکہتے ہیں کہ لیلیٰ اور مجنوں کو پل بھر کے لئے ہی سہی ’’ ایک جان دو قالب ‘‘ بنانے والا وہ ایک عظیم اور درخشندہ لمحہ بھی تو عبادت جیسا ہی تھا۔ وطن کی مٹّی سے محبت ہو کہ غزالی آنکھوں سے یا پھر شعروادب سے یہ محبت ، یہ ہنرقطعی کارِ زیاں نہیں۔ لفظ محبت میں تو خدا کا جلوہ چھپا ہے۔بلا شبہ محبت عبادت کا درجہ رکھتی ہے تو پھر اس روئے زمین پر وہ کون اُلّو کا پٹھہ ہے جو اسے کارِزیاں سمجھتاہے؟ سہیل اختر کی بے ہنری کے اس ’’ہنر ‘‘ میں بڑی معنویت ہے ۔یہ ہوا دورحاضر یاعہد صارفیت کی نمائندگی کرتا ہوا سچا شعر ۔

    شاعر جب غزل کو سوئیٹ لیکن ضدّی محبوبہتصور کرلے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس نے غز ل کی زندہ تہذیب وروایت کا دامن مضبوطی سے تھام رکھاہوا ہے۔سہیل نے عہد ماضی کے تلخ تجربات و مشاہدات کی دھوپ چھائوں اور ادب وشعر کے اگنی کنڈ میں جل کر خود کو جس طرح کندن بنایا ہے اس سے اس کا ظاہر وباطن دھنک رنگ ہوگیاہے۔اس کے بیشتر اشعار میں فکر کی تازگی ، جذبات کی شوخی اور جنسی طہارت بھی ہے    ؎

وہ رات شعلہ فشاں تھی کہ جل رہے تھے ہم
تھا بارشوں میں ہم آغوش ایک شب کوئی

ہم سراپا نگہہ شوق بنے بیٹھے ہیں
اب کہاں جائے گی وہ لذت منظر بچ کر

کیوں تمھیں بھیگنا بارش میں بھلالگتا ہے
میری بات اور ہے مجھ میں تو دہکتاہے کوئی

شامِ تنہائی ہو دھندلائی ہو آنکھ
پھر تصوّر مرا جسمائے تو

    سہیل اختر کی غزلوںمیں سائنسی انکشافات کے زیر اثر اقدار حیات کی شکست وریخت اور ایک مکمل Consumer Culture کے کئی Shades دیکھے جاسکتے ہیں   ؎

نہ نام ہے نہ شکل ہے قریب ہے نہ دور ہے
جہانِ برقیات کے تعلقات بھی عجیب

جانے کیا ٹوٹا تھا جس سے بن گئی یہ کہکشاں
ایسا ہی کچھ میرے اندر دور تک بکھرا ہوا

جب سے جانا اسے کھونے کے فوائد ہیں بہت
بھول جاتا ہوں تو نقصان بھی کم پڑتا ہے

ہر ایک ذہن ہر نظر پر چینلوں کا ہے اثر
اب اختلافِ رائے کی زمین بھی سمٹ گئی

بڑا عجیب تھا اپنا بھی کاروبارِ شوق
ہر ایک نفع تھا اس کا، مرا خسارہ تھا

جان و دل قربان اب کرتا ہے کون
ہم بھی کرتے ہیں محبت دوسری

بہت ہنسا تھا میں ذوق جمال پر جن کے
سنا ہے لوگ ہیں دنیا میں کامیاب وہی

    سہیل اختر نے بعض خارجی واقعات کو اپنی ذات کے حوالے سے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ یہ بھی اس کی تکمیل ذات کا ایک اٹوٹ حصہ بن گیا ہے۔ اپنے گردوپیش کے منافقانہ ماحول یا وقت کے جبر سے کاغذ پہ صحرا کا خالق ہرگزفرارنہیں چاہتا۔ اسے خوب معلوم ہے    ؎

ہیں بہانے یہ زمیں چاند ستارے سورج
اس خرابے میں ہمیں اس نے بسانا تھایونہی

    شاعرہر حال میں اپنی منزلِ مقصود کا متلاشی ہے اس کا ایمان پختہ ہے اور وہ منافقانہ ماحول اور صارفی معاشرت میں بھی راضی بہ رضا ہے۔ ایک بے نام سے فرسٹیشن کا شکار ہوتے ہوئے بھی حوصلے کا دامن نہیں چھوڑتاکہ وہ بہر حال مکمل اثبات اور روشن امکانات کا شاعر ہے   ؎

مشینی عہد کا پرزہ ہوں اختر، پھر بھی رکھتا ہوں
وہ اک پرواز کی خواہش جو غبارے میں رہتی ہے

بنادیا ہے زمانے نے کیکٹس مجھ کو
کوئی طلب نہ کرے لہجۂ گلاب یہاں

    کہا جانا چاہئے کہ سہیل اختر کے بیشتر اشعار دلوں کو چھو لیتے ہیںکہ ان میں نہ صرف تجربے کی تازگی ہے بلکہ تخلیقی حسن بھی۔ یوں بھی ہر اچھا شعر اپنے قاری کو ہر سطح پر متاثر کرنے کی کیفیت رکھتاہے۔ سہیل کو پڑھتے وقت مجھے بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوا۔ دراصل سہیل کی غزلوں میں مختلف النوع عصری موضوعات اس کی وسعت نگاہی پر دال ہیں ہرچند کہ موضوعات کو دوہرانہ شاعر کی مجبوری ہے ۔۔۔۔۔۔۔بہرحال واردات قلبی کا موثر اظہار ہی اس کی شاعری کا وصف خاص ہے۔

    خلاف ِ قیاس تخلیقی متانت لیے، ایک کیفیت بے نام اور ایک خلِش نا تمام کے زیرِ اثر سہیل کی شعری دانش کا پیشِ نظر صحرا بڑا زرخیز ، طلسماتی اورہمہ جہت ہے۔ ایسے میں غالبؔ کا یہ شعر ’’کاغذ پہ صحرا‘‘ کے شاعرانہ سفر کو معنی خیز بنا رہا ہے:

ان آبلوں سے پائوں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر

میرا ایسا ماننا ہے اور میرا ذاتی تجربہ بھی ہے کہ زبان وبیان کی سطح پر ایک ذرا چھیڑچھاڑ ایک مخصوص شعری ڈکشن خلق کرنے میں اس وقت یقینا سود مند ثابت ہوتی ہے جب شاعر رسک لینے کو تیار بیٹھا ہو:

ٹھٹھررہا تھا اپنی ہی دسمبروں میں کب سے وہ
تو میں نے جاکے اپنا سارا خون دے دیا اسے

نہ دے سکا میں اس کے خشک موسموں کو برگ و بار
تو اپنی آنکھ کے وہ مانسون دے دیا اسے

ایسا وردان ملے جس کو وہ پاگل ہو جائے
ہاتھ سونے کو لگاتا ہوں تو پیتل ہو جائے

ٹین کے شِڈ میں مرا خواب گماں رہتا ہے
زنگ آلودہ سا احساسِ زیاں رہتا ہے

وہ چاہتا تو مری شب بھی جگمگا اٹھتی
رُخِ سحر پہ مگر کولتار انڈیلتا ہے

جسم کا میل تو دھو ڈالا ہے صابن سے مگر
ذہن کی چھت سے کبھی صاف یہ جالے تو کرو

اگر کرے وہ حفاظت تو کیا کسی کی مجال
سہیل کافی ہے مکڑی کا ایک جالا بھی

مری طرح کبھی پرواز کر نہیں سکتے
یہ جوڑ توڑ انھیں کا مجھے غلیلتا ہے

تلاش جس کی ہے وہ شئے ملے بھی کیسے سہیل
کہ جستجو کو زمانہ مری نکیلتا ہے

ایک ذرا سی مختلفانے کی دھن تھی
تیری طرح تو کہہ سکتا تھا میں بھی غزل

ٹین کا شیڈ، صابن، وردان، پیتل، نکیلتا، کول تار، غلیلتا، مانسون، چینل اور نندا وغیرہ جیسی غیر شاعرانہ لفظیات یقینا تغزل پسند قارئین پر بارگراں محسوس ہوں گی لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ  ہمارے ملک ہندوستان(جنت نشان؟)کی ایک ہر دلعزیز اور تکثیری زبان کانام ہے اردو۔ علاقائی اور روزمرّہ کی بولیوں سے استفادہ کرنامیںمعیوب نہیںسمجھتا۔ عصر حاضر میںاس قبیل کے الفاظ سے دامن جھٹکنانا گزیر ٹھہرا کہ یہ ’’معاصر غزل کلچر ‘‘کاہی ایک حصہ ہیں۔الفاظ لاکھ غیر زبان ہوں بے وقعت ، بے میل یا کھردرے ہوں انھیں سلیقے سے برتنا ہی فنکاری ہے۔ ہماری شاعری میں لفظ ہی اصل جوہر ہے ، ایک Effective Toolہے۔ گرے پڑے لفظوں میں جان ڈالنا ، معنوی سطح پر ان میں نئی روح پھونکنا تو بہر حال شعوری کوشش کے بغیر ممکن بھی نہیں اور بقول اردو کے عظیم ناقد پروفیسر کلیم ا لدین احمد  --- ’’ میں اس وقت آرٹ اور تحت الشعور کی بحث میں پڑنا نہیں چاہتا۔صرف یہ بتا دینا چاہتاہوں کہ آرٹسٹ (فن کار) جو کچھ کرتاہے شعوری طورپر کرتاہے اور فنی کارنامہ ایک شعوری عمل ہے‘‘۔

طرزاظہارکی یکسانیت سے دامن چھڑانے یعنی خود کو ’’مختلفانے‘‘ کی دھن اور جنون ایک شعوری عمل ہی تو ہے کہ اس کے بغیر زبان کی کرافت سازی مشکل ہے۔ اپنی علاحدہ شناخت کے لیے ’’نیا کچھ ‘‘ کردکھانا آسان بھی نہیں۔ صاحب ذوق قاری خوب جانتا ہے کہ خود پسندی کے زعم میں معاصر اردو غزل کے چند مخصوص نئی نسل کے شعراء کسی طور اپنی علاحدہ شناخت کا جھنڈا گاڑنے کے لئے بے حد اُتاولے دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں’’دل بدلو ‘‘بھی کہا جاسکتا ہے۔ وھیل چیئر پر ان کا یہ شعری سفر کب تک چلتا رہے گا؟ منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے تلوئوں کو لہولہان کرنا پڑتا ہے۔ ایک جیسی آوازوں سے پیچھا چھڑانا کتنا مشکل ہے ؟ آپس میں گڈمڈ ہوتی ہوئی سی آوازوں کے درمیان ’’کاغذ پہ صحرا‘‘ کے خالق کی منفرد آاواز کوپہچاننے کے لئے ہمیں بہت زیادہ مشقت کرنے کی شاید ضرورت نہ پڑے:

ہے آغازِ عروج اپنا تنزل مت سمجھ لینا
کہ میں تعمیر سے پہلے یوں ہی مسمار ہوتا ہوں

دریچے اور دروازے بنانا کام ہے میرا
نہ جانے کیوں خود اپنی راہ کی دیوار ہوتا ہوں

سچ کو تائید کی حاجت نہیں تنہا ہے بہت
جھوٹ تعداد میں جتنے بھی ہوں کم ہوں گے ہی

ہم سے ناکاروں کا مصرف بھی یقینا ہوگا
کب جہاں اس نے یہ بیکار بنا رکھا ہے

بس ایک دھند ہے اور کچھ عجیب سے سائے
ہمارے پاس بھی چہرہ نہیں ہے اب کوئی

ہو چکا خاک اگر سب مرے اندر اندر
کیوں مری سانسوں سے جلنے کی مہک جاتی نہیں

سہیلؔ خوفزدہ کیوں ہیں ماہرین فنون
ہماری بے ہنری بھی کہیں ہنر ہی نہ ہو

’’کاغذ پہ صحرا کی ‘‘ورق گردانی کررہا ہوں اور محسوس ہورہاہے کہ شعر فہمی کے بغیر شعر سے اچھا اور دیر پا مکالمہ قائم نہیں کیا جاسکتایعنی    ؎

جلوۂ صد رنگ ہے پیش نظر
شعر فہمی ہے تو تہہ داری نہ پوچھ

 (شمیم قاسمی)

    غیر موافق حالات ،تلاش رزق کی دربدری اور قدر ے’’ادب بیزاری‘‘ کے باوجود نہایت غیر ادبی لیکن نیچر کے قریب تراڑیائی ماحول میں رہ کر بھی سہیل اختر کی غزلوں کا منفرد لفظیاتی نظام عصر آشنا اور خوش آئند ہے:

ان دنوں جھیل ان آنکھوں کی چھلکتی ہے بہت
جلتا رہتا ہے مرے سینے میں صحرا میرا

میری دعا ہے کہ سہیل اختر کے درون میں یہ تخلیقی آگ ہمیشہ جلتی رہے۔ ’’کاغذ پہ صحرا‘‘ کے بیشتر اشعار نے مجھے مسحور کیاہے۔ یہ بات کم اہم نہیں کہ سہیل کی طرب انگیز صحرانوردی لاسمتیت کا شکار نہیں۔ لکھنا تو بہت چاہتا ہوں لیکن کاغذ کم پڑگیا ہے۔تاخیر سے دفتر پہنچنے کاخوف بھی ہے سو اپنی بات مختصر کرنے کے لئے سہیل اختر کے اس شعر کا سہارا لے رہا ہوں۔

کتنی باتیں ہیں مشترک ہم میں
چھوڑتا ہے مجھے یہ صحرا کب



(مطبوعہ: قرطاس :۲۰۱۰ء نامکمل)

***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 653