donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Rajaiyat Aashna Sheri Lahje Ka Khaliq


رجائیت آشنا شعری لہجے کاخالق


شمیم قاسمی

 

    تازہ کار غزل گوشعرا کے ہجوم میں احمداشفاق  (سابق اشفاق قلقؔ)کا نام اب اتنا کوتاہ قد یا نیا بھی نہیں کہ انہیں آسانی سے نظر انداز کر دیا جائے۔ گذشتہ چند برسوں سے انکی غزلیں ملک کے ادبی و نیم ادبی رسائل و جرائد کے تو سط سے قارئینِ اُردو  تک پہنچتی رہی ہیں۔ میں نے بھی انہیں جستہ جستہ پڑھا ہے۔’’ شعرائے سمستی پور‘‘ (مرتب بسمل عارفی) میں بھی ان کا کلام مع تعارف نظر سے گذرا ہے۔ریاست بہار کے ادب نواز شہر سمستی پور کے ایک دور افتادہ گائوں رائے پور، گوہی سے تعلق رکھنے والے مثبت فکر کے حامل نوجوان شاعر احمداشفاق حلال رِزق کی تلاش میں ایک مدت تک اپنے وطن میںہاتھ پائوں مارتے رہے آخر کار انکی زندگی کی کشتی کو دیار ِ غیر میں کنارہ مل گیا اور پھر وہ نیک ساعت بھی آئی کہ روز مرّہ کی زندگی کے مسائل سے نبردازمائی یعنی غم دوراں سے دو دو ہاتھ کرنے کے درمیان ہی غم جاناں نے اس شاعر ناتواں کو دھر دبوچا   ؎

دیوانگئی عشق کا عالم نہ پوچھئے
اہل جنوں ہیں ہاتھ میں خنجر لئے ہوئے

    یہ بھی سچ ہے کہ ہوش و خرد اور اہل جنون کی انگلی تھامتے اور زندگی کے بعض ارضی حقائق سے سابقہ پڑتے ہی دیوانگئی عشق کا بھوت رفوچکر ہو جاتا ہے۔میرے خیال میں احمداشفاق کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ پھر یوں ہوا کہ دھیرے دھیرے مہاجنی نظام حیات نے انکے کومل شاعرانہ دل پر کچوکے، تازیانے لگانے شروع کردیئے۔ اس مقام پر شاعر جیسے تلملاکر ہی تو رہ گیا۔ مندرجہ ذیل اشعار دیکھیں اور محسوس کریں کہ شاعر کے اس شعری اعترافیہ میں ارضی حقائق لئے ذاتی مشاہدوں اورتجربوں کی شیرنی وتلخیاں شعر کے قالب میں ڈھلنے کو کس قدر بیتاب ہیں۔ ہر چند کہ اس قبیل کے اشعار میں تخلیقی اظہار کی بلند آہنگی صاف محسوس کی جاسکتی ہے۔

اک طرف گھر کی ضرورت ہے ہمالہ کی طرح
اک طرف کہتے ہیں کب آئو گے گھر آخر کار

قلقؔ پردیس واپس جارہے ہو
جو لائے خرچ سارا کر لیا کیا

بہت اخبار میں آنے لگے ہو
کسی سرحد پہ قبضہ کر لیا کیا

صلہ بس یہ ملا ترک وطن کا
ہماری گھر میں وقعت ہو رہی ہے

بدگمانی کا احتمال تو ہے
شمعِ امید پھر بھی جل رہی ہے

    وطن سے دور اردو شعروادب کی نئی بستی یعنی دوحہ، قطر میں اپنی پوری ذہنی یکسوئی کے ساتھ مخالف ہوائوں کی پروا کئے بغیر چراغ سخن جلانے کا حوصلہ رب العالمین نے جو شاعر کو بخشا ہے اس کے پس پردہ شاعر کا اپنا ایمان وایقان بھی ہے ۔نامساعد حالات میں بھی شاعر نے صبرو رضا کا کبھی دامن نہیں چھوڑا جبھی تو وہ اپنے اس تخلیقی سفر میں بھی سر بسجود نظر آتا ہے  ؎

خدا کی مجھ پہ نصرت ہورہی ہے
غزل کہنے پہ قدرت ہو رہی ہے

گل و گلزار شعلے ہو رہے ہیں!
حقیقت محوِ حیرت ہو رہی ہے

دعا دے کر گیا تھا ایک سائل!
مری روٹی میں برکت ہو رہی ہے

    کائنات انسان اور خدا کے باہمی رشتوں کے تناظر میں احمداشفاق کا یہ تخلیقی سفر دراصل مثبت فکر اور صالح شعری جذبوں کا ایک ایسا بامعنی سفر ہے جو انکے باطنی طہارت کا آئینہ بھی ہے ۔ہر چند کہ یہ سفر اپنوں سے بچھٹرنے، کچھ پانے اور بہت کچھ کھونے کے احساس کی شدت سے بوجھل پن کا شکار ہوگیا ہے لیکن شاعر ہے کہ خداوند قدوس کی بارگاہ میں اظہار تشکر کے لئے ہرپل ، ہر گام دست بہ دعا نظر آتا ہے  ؎

یہ تو احسان خدا وندی ہے

دیکھ سکتا ہوں جہاں آنکھوں سے

    صاف ظاہر ہے کہ احمداشفاق  کی شعری کائنات میں قنوطیت پسندی یا یاس و محرومی کو کوئی جگہ نہیں…دراصل احمداشفاق بنیادی طور پر Optimistic approachکے شاعر ہیں۔ انکے بیشتر اشعارکی زریںلہروں میں رجائیت پسندانہ عناصر متحرک نظر آتے ہیں۔ انکے شعری اظہار و افکار میں صرف تخیلاتی ہی نہیں روحانی تو انائی بھی ہے۔ وہ ایک نئے حوصلے، نئے جوش و عزائیم سے زندگی کے بے رنگ شب وروز کو خوش رنگ ، بامعنی اور تابناک بناناجانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا شعری لب و لہجہ نمایا ں طور پر رجائیت آشنا ہے اور شاید یہی وہ لہجہ ہے جو انکے معاصرین کے درمیان ان کا شعری تشخص بحال کرنے میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔

مرے خدا مجھے توفیق دے محبت کی
کہ میرا نام بھی شامل ہو نیک ناموں میں

    شاعر جب خلوص نیتی سے ایسی دعا کا طالب ہو تو ماننا چاہئے کہ اس کا یہ شعری سفر لا سمتیت کی زد میں نہیں ہے اور اس کا شعری سرما یہ بہرحال کوئی کارِزیاں نہیں۔ میرا ایسا ماننا ہے کہ احمداشفاق اردو شاعری کی زندہ روایات سے استفادہ کرنے کے عمل میں اپنی مثبت فکر کو جدید پیرایہ میں موثر ڈھنگ سے بیان کرنے کا گُر جانتے ہیںجبھی تو انہیں اس کا گمان ہے   ؎

آئینہ ہنر نہ سہی ہے مری غزل
لفظوں میں اپنی فکر کا محور لئے ہوئے

    دوحہ (قطر) میں مقیم نوجوان شاعر احمدشفاق کا کوئی باضباطہ شعری مسودہ میری نگاہ کا مرکز نہیں، میرے پیش نظر تو شاعر کی محض چند غزلیں ہیں جنکے مطالعہ کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انکی شاعری کسی بھی زاوئیے سے مہاجرت زدہ نہیں البتہ اس قبیل کی غزلیں عالمی سطح پر غم ہائے روزگار کے شکار بیشتر نوجوانوں بطور خاص انسانی زندگی کو درپیش مسائل کی ترجمان ہیں۔ اس وقت عاشور کاظمی کا ایک شعرا چانک یاد آرہا ہے جس میں بھرپور تخلیقیت کے ساتھ لفظ ہجرت کا احاطہ کرتا ہوا ایک آفاقی نقطہ نظر پیش ہوا ہے جس کی وسیع معنوی کائنات سے انکار ممکن نہیں   ؎

تلاشِ رزق میں ترکِ وطن ہے در بدری
اگر اصول ہوں پیش نظر تو ہجرت ہے

    میری نگاہ میں رجائیت آشنا شعری لہجہ کے نوجوان شاعر احمداشفاق کے یہاں جو چاند کو چھونے کا عزم، بدگمانی کے احتمال کے باوجود شمع امید کی لو تیز کرنے کا حوصلہ ہے اس میں بھرپور زندگی جینے کی للک لئے  قدرے تخلیقی سبک سیری کی تمکنت بھی ہو یدا ہے۔ مندرجہ ذیل اشعاریقینا لطف سخن سے خالی نہیں۔

ریگزاروں میں پل رہا ہوں میں
چاندی سونا اُگل رہا ہوں میں

شکل و صورت بدل رہا ہوں میں
آئینے میں مچل رہا ہوں میں

فاصلے اب بہت ضروری ہیں
تیری قربت سے جل رہا ہوں میں

ہجرتوں میں بڑی تمازت ہے
لمحہ لمحہ پگھل رہا ہوں میں

    ہجر میں وصال کی لذت اور ذائقہ چکھنے، منزل مقصود کو پانے کے لئے بیتاب نظر آنے والا حوصلہ مند شاعر زندگی کی خارزار وادیوںکے نشیب و فراز سے گذرتاہوا تجربوں کی بھٹی میں مانندِ سونا دمک رہا ہے… اب ایسے میں اپنی بدلتی ہیت اور خدوخال کو آئینہ میں دیکھ کر ہر درجہ مچل رہا ہے تو یقینا یہ ایک نفسیاتی عمل ہے اور جو دراصل اسکی ذاتی اور ذہنی آسودگی کا استعارہ بھی ہے ناکہ بچوں کے ہمکنے اور مچلنے کے عمل سے مشابہ جسے آپ ’’بالک ہٹھ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ فاصلے چاہے وقت کے ہوں یا کیلومیٹر کے ، بہرحال فاصلے تو یادوں کو جنم دیتے ہیں اور چونکہ یہ یادیں بڑی دلنشیں اور جاں سوز بھی ہوتی ہیں اس لئے شاعر کا حساس دل انہیں کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کر سکتا۔ یہ کھٹّی میٹھّی، نرم گرم یادیں ہی ہیں جن کی ریشمی ڈور تھامے شاعر ایک انجانی طلسماتی دنیا کی سیر کر لیتا ہے۔ یہ مانتے ہوئے بھی کہ یادِماضی عذاب ہے یارب… کہتے ہیں کہ یادوں سے فرار ممکن نہیں …… یہ یادیں ہی ہیں جو بقینا ً دیار ِ غیر میں شاعر احمداشفاق کو قلبی سکون میسّر کرانے میںایک حد تک سود مند ثابت ہو رہی ہیں۔ تو ظاہر ہو ا کہ اس مقام پر ہجر کاا پنا ایک الگ ہی مزہ ہے۔ اس مزہ کو سمجھنے کے لئے ایک شمع پر ہزار پروانوں کی جاں نثاری کی داستانِ دل گداز کے مناظر کا تصورہی ہمیں ایک عجیب سرور اور لطف دے جاتا ہے۔ ذہنی سرشاری کی اپنی ایک الگ ہی دنیاہے۔ اسے کہتے ہیں ترا ہجر میرا وصال ہے۔یہ محض داستانِ ہجرو صال نہیں بلکہ اس میں شاعر کے ذاتی تجربات سے کشید کی گئی تخلیقی توانائی کی مدھم مدھم آنچ میں لمحہ لمحہ پگھلنے والا احساس جمال بھی ہے جو بہرحال کسی نہ کسی سطح پر شاعر کو تخلیقی رسد پہچا رہا ہے۔۔اس رسد میںزندہ شعری روایت کے لہو کی گردش، مٹی کی سوندھی مہک اور مشینی عہد کی کثافت وتیزابیت بھی ہے ۔ کہا جا سکتا ہے کہ روایت میں جدت کا متلاشی شاعر احمداشفاق کی شعری بساط پر موضوعاتی گوناگونی کی ایک دھنک رنگ کہکشاں تو ہے۔ لیکن ابھی کوئی ایسا واضح نورانی پیکر نہیں ابھر اہے جسے شعری دانشوری کا ایک جھماکہ کہا جا سکے ---میرا ذاتی خیال ہے کہ شاعر ابھی غزل کے عصری مطالبات سے ہم اہنگ ہونے کے پروسس سے دوچار ہے۔ غزل کو نئے ملبوسات پہنانے میں ابھی اسے وقت درکار ہے۔ شاعر کو ایک چھوٹے سے visionسے نکل کر ایک بڑے Horizonمیں ابھی داخل ہونا باقی  ہے اور یہ شاید اسی وقت ممکن  ہوسکے گا جب شاعر اپنے باطنی احساس و آہنگ پہ غالب ہوتے ہوئے شاعری کے ظاہری اوصاف سے ایک زرا باہر نکلنے کی شعوری کوشش کرے۔محسوس کیا جاسکتا ہے کہ احمداشفاق کے یہاں جو شعر سازی کا عمل ہے اس میں وارداتِ قلبی کو اولیت حاصل ہے۔ ۔شاید وسیع ترکائناتی ابعاد پر انکی شاعرانہ نگاہ ابھی ٹھہری نہیںہے۔ غزل کی دلپذیری اور زود اثری نے انہیں غزل پرست شاعر بنا تو دیا ہے لیکن معاصر شاعری میں محض ڈوبنے ابھرنے والی ایک جیسی آوازوں کے اژدہام اور فکری ہجوم سے زیر مطالعہ غزلوں کے خالق کو ایک زرا ابھی باہر نکلنا باقی ہے۔ تبھی وہ اس قبیل کے زندگی بردوش خوبصورت اور فکر انگیز شعر کہنے پر قدرت حاصل کر سکے گا   ؎

زخم تر تیب دے رہا ہوں میں
اور کچھ وقت دے ادھار مجھے

لہو سے تر ہوئی پرخار وادی
سفر سب پا برہنہ کر لیا کیا؟

بہت ممکن ہے کہ احمداشفاق کی بیاض میں اور بھی اس طرح کے فکر انگیز اشعار زینت  اوراق بنے ہوں ۔ غزل کے باذوق قارئین کو انکے مجموعۂ غزل کا انتظارہے اور مجھے بھی   ؎  

انتظارو انتظارو انتظار!

(ادیب بنگلور،شمارہ۔ ۱۲)


**********************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 528