donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Sahre Mobeen Ka Takhliqi Moraqba


سحر مبین کا تخلیقی مراقبہ


شمیم قاسمی


’’سحر مبین‘‘ بلاشبہ اردوفکشن کے باب میں ایک تجربہ پسند تخلیقی اظہاریہ ہے۔ جس کی جڑیں بیک وقت ہمارے ماضی، حال اور مستقبل سے پیوستہ ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس کاخالق مبین صدیقی بذات خود ایک تفکرپسند تخلیق کار ہے۔’’سحر مبین‘‘ میں موجود سے ناموجود تک کے تمام مناظر و مظاہر اس خوبصورت کائنات کے ہونے نہ ہونے کے جواز کو نہایت دور رس ، باریک بیں اور بامعنی بناتے ہیں۔ سحر مبین کے مختلف ابواب کا مطالعہ کرنے کے بعد اسلوبیاتی سطح پر قاری کوایک حیرت انگیز اور ناقابل بیان ذہنی آسودگی ضرورملتی ہے۔ حالانکہ فکر انگیز اورخوبصورت جملوں کے سحر میں وقتی طورپر قاری کچھ یوں الجھ کررہ جاتا ہے کہ اسے اپنے مطالعہ کانچوڑ(Result) فوراً حاصل نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ ہمارے ذہن تروتازہ ہوجاتے ہیں اور دل کی لکیریں دماغ پرحاوی ہونے لگتی ہیں۔ صنفی اعتبار سے مبین صدیقی کے حالیوں میں دوسری تمثیلی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایک خاص قسم کی ڈرامائی خودکلامی کے عناصر بڑی اہمیت رکھتے ہیں ۔ مبین صدیقی کاماننا ہے کہ’’ تصورکے اسکرین سے بڑا اورکامل پوری کائنات میں کہیں کوئی اسکرین واسٹیج نہیں ہے۔‘‘ اور یہ بھی کہ’’ لوگوں کو بصیرت، عقل ودانش اوردماغ کواسٹیج تسلیم کیاجائے اوسب موقع و محل پوری کائنات کواسٹیج اورکائنات کی ہر شے کو’’کردار‘‘ تسلیم کیاجائے۔ عاجز نے اسی کائناتی ڈراما کو تصوراتی ڈراما؍’’ حالیہ‘‘ کانام دیا ہے۔

(حالیہ کی شعریات مطبوعہ اکسیر)

مصنف کے ایسے انکشاف سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ’’سحرمبین‘‘ صنفی اعتبار سے ڈراما اورفکشن کے درمیان کی ایک اہم اختراعی کڑی ہے ارد و ادب میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی ایجاد و اختراع کے جواز پر اس کے خالق نے اس قدر طویل ترین نظری مقدمہ اورمفروضہ قائم کیاہو۔ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ سحر مبین میں شامل کل تیس( ۳۰) فن پاروں( حالیوں) کیلئے مبین صدیقی نے باضابطہ قاعدہ سازی کی ہے۔ پلاٹ، کردار، مکالمہ، منظر کشی، تصادم، ابتدا وانتہا، نقطہ عروج اوراختتام جیسے عناصر پر سات حصوں میں’’اجزائے ترکیبی‘‘ کوعکس کیا ہے۔ میرے خیال سے اپنی نوعیت کایہ ایک حیرت انگیز نظری مقالہ ہے جو نظریہ اصل کے پانچ نکات، نظریہ تصوراتی ڈراما کے سات نکات اور نظریہ حالیہ کے ہنوز پانچ نکات کی یاد گار تشکیل پرمحیط ہے۔
 بات یوں ہے کہ مبین صدیقی اپنے تخلیقی سفر کے ابتدائی دنوں سے ہی بے حد دقت پسند اورقدرے تیڑھ قسم کے فن کار واقع ہوئے ہیں۔ اس میں شبہ بھی نہیں کہ مبین بے حد متحرک اوراختراعی ذہن کے مالک ہیں۔ لہٰذا ’’سحر مبین‘‘ میں ذات سے کہیں زیادہ کائنات سے براہ راست مکالمہ دراصل ان کی غیر معمولی ذہانت اورخلاقی کا ثبوت ہے۔ مزاج فطرت ، تصور کا ئنات اور واردات ذہن و دل کوانہوںنے جس کیف و کم سے محسوسا ہے اس کا بہترین اظہاریہ سحرمبین کے اوراق پر خالق کی آبشار تخلیقی فکر کے ایک ’’چپ سادھنا‘‘ والے سوانگ کا روشن اسٹیج بنے ہیں، جہاں سارے کردار اپنی فطری اداکاری پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ کردارمرئی اور غیرمرئی دونوں قسم کے ہیں۔ انہیں آپ عجیب و غریب بھی کہہ سکتے ہیں۔ تسخیر کائنات کاجذبہ روز ازل سے رب کائنات نے ہمارے سینوںمیں نسل در نسل منتقل کررکھاہے تو پھر’’سحر مبین‘‘ میں فطرت (Nature) کے سربرستہ راز اورکرشمۂ قدرت کوایک نئی تخلیقی جہت، ایک نیاوژن دینے میں مبین صدیقی کو کس قدرچیلنج سے گزرنا پڑاہوگا اندازہ کیاجاسکتاہے۔ چنانچہ ڈرامے کی بابت یاڈراموں کی شعر یات میں سحر مبین کے حوالے سے جو ایک نیا اضافہ ہورہاہے  یقینا خوش آئند ہے۔ ہرچند کہ صنفی اعتبار سے زیر مطالعہ کتاب ڈرامہ اورفکشن کے درمیان کی ایک Invisibleکڑی ہے اور جس کے خدوخال مروجہ اصناف ادب کے حوالے سے ہنوز وضاحت طلب ہیں۔ زیر مطالعہ کتاب نے عالمی شہرت یافتہ، عہد ساز ناقد’’ پدم شری‘‘ شمس الرحمن فاروقی کوبھی ڈسٹرب کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں ’’فی الحال تو یہ مسئلہ میرے لئے زیادہ دلچسپی کا موجب ہے کہ اس کتاب کی تحریریں ایک نئی صنف کی آمد کا مژدہ سناتی ہیں لیکن یہاں ایک انتباہ بھی ضروری ہے۔ ان دنوں ہر ایراغیرا کوئی نیابندایجاد کرکے یا کسی پرانی ہیئت میں کچھ تبدیلی کرکے ایک نئی صنف یا ہیئت کا موجد ہونے کادعویدار بن گیاہے۔ مبین صدیقی کے بارے میں ایسا کوئی شبہ ہمیںنہیں ہوسکتا کیونکہ انہوں نے غیر اسٹیجی ڈرامہ(Non Stage Drama)یا حالیہ کی شعریات پربہت کچھ لکھابھی ہے اور حالیہ کے جواز اور ضرورت پر بھی کلام کیاہے۔’’ خالص ادبی اقدار کی روشنی میں دیکھاجائے تومبین صدیقی کی یہ تحریر یں ارتکاز اوربصری تخیل کے اچھے نمونے پیش کرتی ہیں۔!‘‘

( تقریظ: سحر مبین)

عام طور پر ہمارے فن کار بہت سامنے کے یوںسمجھئے کہ روز مرہ کے مسائل کو مختلف انداز اور زاویہ نظر سے اپنی تخلیق کا محرک بناتے ہیں،Inspireہوتے ہیں لیکن مبین نے مسائل حیات روز و شب پر تو بظاہر سرسری نظر ڈالی ہے مگر جڑوں کی تلاش پر پورا تخلیقی فوکس(Focus) ڈال دیا ہے، جس میں انکی تخلیقی خلوت پسندی کابھی بڑادخل ہے ۔ میرے خیال سے وہ اس مقام پر لاشعوری طور پر ہی سہی مشرقی شعر ادب میں( اردو) مابعدجدید فکر کے اہم شارح اور معتبر ناقد پروفیسر وہاب اشرفی کے اس خیال کوتقویت پہنچارہے ہیں کہ’’اردو مابعدجدیدیت میں کسی بھی نظریے کو حتمی تصور کرنا درست نہیں ہوگا۔ یعنی جوفضا بنتی ہے وہ بہت نمایاں ہے ، فن کار آزاد ہے کہ وہ اپنے طورپر چیزوں کودیکھے سمجھے اور پیش کرے، یہاں جبرکی کوئی صورت نہیں۔ اسے اپنی روش اختیا رکرنے کی پوری آزادی ہے۔ زندگی کی کشادگی اسے موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ از خود ردو انتخاب کے مرحلے سے گزرے۔ظاہر ہے یہ ردو وانتخاب اس کی اپنی سوسائٹی کے مزاج کے مطابق ہی ہوگا۔ نتیجے میں تخلیقیت اور آزادی میں مابعدجدیدیت کوئی اختلاف پیداکرنانہیں چاہتی۔ ظاہر ہے یہ صورت اردو مابعدجدیدیت کیلئے انتہائی سودمند ہے۔‘‘

جہاں تک جدیدیت پسند مفسرین؍ناقدین کے نقطۂ نظر کی بات ہے تومیں سمجھتاہوں کہ آزادی اظہا رکیلئے یہاں بھی کوئی مارشل لانہیں۔ اورجہاں تک مبین صدیقی کے فکری رویے اور ذہنی تحفظات کاسوال ہے تو ان کا اب تک کا ادبی سفر بنیادی طور پر جدیدیت پسند عناصر اور عہد ساز جدید رجحانات کے گرد ہی چکر کاٹتا نظر آتاہے۔

’سحر مبین‘‘ کاخالق یقینا آزادی اظہار کاقائل ہے۔ ہرچند کہ شعر وادب کی دنیا میں تخلیقی اظہار کی آزادی کے کچھ مروجہ اصول و ضوابط ہیں۔ ہیئت و اسلوب کی سطح پربھی ’’کچھ الگ‘‘ سے پیش کرنا خاصے دل گردے کاکا م ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ مبین صدیقی اپنے ہم عصروں کی بھیڑ بھاڑ میں رہ کر بھی اپنی ایک الگ پہچان کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ ہرچندکہ اس کے پیش نظر جو راستہ ہے وہ ابھی کافی حد تک ناہموار اور دشوار گذار ہے۔ مبین کا یہ حوصلہ ہے کہ اپنے ’’حالیہ‘‘ کے ساتھ انہیں غیر موافق راستوں کے درمیان اپنے تخلیقی سفر کی ابتداکرچکے ہیں۔ شاید انہیں اپنا انجام نہیںمعلوم۔ ویسے بھی کسی بڑے کام کابیڑہ اٹھانے والے انجام کی پرواہ ہی کب کرتے ہیں۔ دبستان ادب و شعر میں Proposesاور Disposes کاسلسلہ تو چلتاہی رہتاہے۔

’’سحر مبین‘‘ اپنے سیاق وسباق میں دراصل ایکComplete Creative Fantacyہے جہاں الفاظ مروجہ معنوں سے ہٹ کر جہان معنی کی ایک الگ ہی د نیا خلق کرتے نظر آتے ہیں۔ مبین کامطالعہ مشاہدہ بڑاغضب کا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مبین صدیقی کے خیمہ فکر کی جڑیں بیک وقت ماضی و حال اورمستقل سے پیوستہ ہیں۔ اوریہی سبب ہے کہ اس کا’’حالیہ‘‘( سحرمبین) ہوائوں میں معلق نہیں۔ سحر مبین کی طویل تصوراتی کائنات کے طول  وعرض کی سیر بڑی خوابناک ہے۔ ہمیں یہاں پر یہ یاد رکھنا ہوگا کہ مبین کے حالیہ کا سرچشمہ تصور ہی ہے۔ دراصل یہ ایک طلسمی سفر ہے جہاں ابوالہول کا چہار جانب رقص جاری ہے۔ ساتھ ہی آتش نمرود کو گل و گلزار بنانے کا عمل بھی ۔ اس تخلیقی طلسماتی فضا کو مزید سمجھنے کیلئے مندرجہ ذیل اقتباس پربس ایک نظرڈالنے کی ضرورت ہے۔

’’میلوں لمبے اونچے تصور کے ایک گوشے میںننھی کرنیں
 جھلملاتی ہیں اورجب روشن ہوکر متحد ہوتی ہیں۔
ایک گوشے میں شفاف نہر بہہ رہی ہے ۔ رواں موجوں کا ہلکاہلکا شور
سرسبز وشفاف نہر ، سبز زار کنارے/چمن زار کی خوشنما ئی، صبا کے سرسراتے جھونکے
اور تازہ تازہ راحت کا احساس
تصور کے دوسرے گوشے میں یہ اضافہ کہ سبز زار شفاف رواں
نہر کی لہروں پرایک حورلیٹی ہے۔ لیٹے لیٹے رواں نہر پر
نگاہ ناز کوجنبش دیتی ہے
رفتہ رفتہ کھلتی نرگسی آنکھیں/مدہوش نگاہی ایسی کہ
نگار خانۂ چشم ناز میں رقصان میناکاریاں
حتیٰ کہ پھیلتی رنگ آمیزی…… ‘‘

(ص۔۹۴)

٭

’’لذت وصال سخت جانی کی اصلوںکوپگھلانے ہی کیلئے ہے۔
احمق مرد کوعیار عورت عطا کرو، عیار مرد کو احمق عورت۔
حالانکہ عیار مرد کو عیار عورت اور احمق مرد کو احمق عورت بھی
بطریق احسن فیضیاب کرسکتے ہیں
اورسنو کہ مسجدوں سے بتخانوں تک/سواریوں سے حواریوں تک
انسانوں سے حیوانوں تک ہی نہیں
ندیوں، پہاڑوں سمندروں، خلائوں اورسیاروں سے شمس وقمر کی شعاعوں تک
ہم نے سب کوسحر مبین کے حوالے کررکھاہے۔
سب کی اصلوںمیں سحر آفریں اختلاط کا غلبہ دیکھ لو/ اور خوب دیکھ لوکہ
 یہ کس طرح برکتوں کی دلیلیں ثابت ہوچکی ہیں۔‘‘

(سحر مبین۔ ۹۷۔۶۹)

یہ تو طے ہے کہ سحرمبین FictionاورAnti- Fictionکے درمیان معلق ہے۔ یوں توپوری کتاب کامطالعہ لطف سخن سے خالی نہیں۔ جابہ جا تخلیقی جمالیاتی حظ اٹھانے کے کیاکیا اچھوتے اندازہیں۔ متذکرہ اقتباس میں مبین کی فنکارانہ برہنہ گفتاری بھی اپنے شباب پردیکھی جاسکتی ہے۔ ان تحریروںمیں جوایک طرح کی ماورائی طاقت کاہیجان نمایاں ہے جو ان کے تخلیقی مراقبہ کا حاصل ہے اوران میں جو ایک طرحErotic attitudeہے اس کے زیر اثر ذہن و دل کو Aesthetic Pleasureکی فرحت بخش پھوار سے شرابور محسوس کیاجاسکتاہے۔ اورپھر باغ بہشت کی سیر میں جوروحانی نشاط ہے اس سے کون حظ اٹھانانہیں چاہتابس ذراغرفۂ ذہن کو کھولنے کی دیر ہے۔

غرفۂ ذہن و دل کے کھلتے ہی
شعرکیا لاجواب نکلاہے

تمام کرۂ ارض پر خیر و شر کی جنگ جاری ہے ۔ ہماری خوبصورت کائنات پروٹون  اور دوسرے ایٹمی دھماکوں کے تجربوں سے گزرتی ہوئی آتش فشاں کے دہانے تک آپہنچی ہے۔ سحرمبین کا مطالعہ کرنے کے بعد ذات و کائنات کایہ تصوربڑا سیالی ہوگیا ہے۔ سحر مبین پڑھ کر کم از کم میں خوداحتسابی کے کمزور لمحوں میں اورایک طرح سے تخلیقی تجسس(Creative Curiosity) بھرے ماحول میں آنکھیں جھپکنے پرمجبورہوں۔ یہاں آنکھیں جھپکنے کا عمل دراصل نشاط آگہی سے بھرپور ایک طرح کا تخلیقی مراقبہ ہی ہے۔ ایٹمی عہد کا آدم زاد اس تجربہ گاہ( دانش گاہ) میں بے دست و پاکھڑاہوکر غوروفکر کرنے کے سوا کچھ کر بھی کیا سکتاہے۔ ریموٹ کس کے ہاتھ میں ہے؟ اس سوال کا بہتر جواب آپ ہی دے سکتے ہیںیا پھر…؟…؟

میں مبین صدیقی کواپنے اسٹائل کی اختراعی تصنیف اورایسے غیرمعمولی تخلیقی تجربے   ( جسے انہوںنے’’حالیہ‘‘ کانام دیاہے) کی شعوری پیش کش پرمبارک باد دیتے ہوئے اسعد بدایونی کے اس شعر کے ساتھ’’سحر مبین‘‘ کے تخلیقی مراقبہ کے حصار سے آزاد ہواچاہتاہوں    ؎

کبھی یقیں کبھی پیک گماںبلاتاہے
تجھے چراغ، مجھے خاکداں بلاتا ہے

(تحریک ادب۔ شمارہ ۔۶  )

*********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 604