donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Shariq Adeel Ka Shayrana Tewar


شارق عدیل کا شاعرانہ تیور


شمیم قاسمی


معاصراُردو شاعری میں شارق عدیل ایک باوقار نام ہے!
وہ عرصۂ دراز سے یعنی مختلف ادبی رسائل وجرائد کے توسط سے باذوق قارئین ادب کی یادداشت کاحصہ بنے ہوئے ہیں۔ زندہ شعری روایات اور بزرگ شعراء سے ان کا فکری سلسلہ قائم ہے۔ اب یہ الگ بات کہ بغیر کسی جدوجہد کے شارق ؔ کے یہاں ایک قسم کے احتجاجی شعری رویّہ کی آہٹ ہمیں صاف سنائی دیتی ہے۔ دراصل وہ ایک پراعتماد شعری لہجہ وضع کرنا جانتے ہیں   ؎

یہ کس کو ہونے لگا میری ہمسری کا فخر
یہ کس کی سوچ مرے مرتبے سے ٹکرائی

بھنور کے کرب کو تحلیل کر بھی سکتی ہے
بپھر کے موج اگر دائرے سے ٹکرائی

ہے فضا تاریک تر کتنے گھروں کے درمیاں
روشنی پھیلی ہے لیکن مقبروں کے درمیاں

سچ ہے کہ ہمارے ایمان وایقان متزلزل ہورہے ہیں۔ ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی ہوڑ اور دنیاوی موہ مایا نے ہمیں ایک پاکھنڈی بنادیاہے۔ چہارجانب’’اپنی ڈفلی اپنا راگ‘‘ کا ماحول گرم ہے۔مردہ پرست یا صارفیت زدہ معاشرہ میں موج ِ حوادث سے کھیلتے اور عصری زندگی کے چیلنجیزکو قبول کرتے ہوئے صدائے احتجاج بلند کرنا آسان ہے کیا؟   ؎

دشت اغیار میں بھی آئے کبھی طوفاں
ہم ہی کیوں اپنے خزاں دیدہ شجر دیکھیں

مغربی کلچر سے بے حد متاثر ہماری روز مرّہ کی زندگی میں مادّیت پرستی در آئی ہے۔ نئی نسل اپنی مادری زبان سے دور ہوتی جارہی ہے۔بیشتر اردو داں حضرات بھی ادب بیزار نظر آنے لگے ہیں۔ اب ہم ان حقائق سے منہ تو نہیں پھیر سکتے ۔۔۔۔ایسے میں کہا جاسکتاہے کہ اپنے گرد وپیش کے غیر موافق حالات، استحصالی قوتوں سے نبردآزما اور  غمِ جاناں سے زیادہ غمِ دوراں کے مارے ہوئے ادباء وشعراء نے اپنا سخن سفر جاری رکھا ہواہے تو یہ بڑی اہم بات ہے۔

زندگی کی تلخ وشیریں یادوں کے بطن سے اپنے خدوخال نکالتی ہوئی ہماری سماعتوں تک پہنچتی ہے ایک ایسی توانا دم اور پُر اعتماد شعری آہٹ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔شارق عدیل کی یہ ایک ایسی تازہ شعری آہٹ ہے جو یکسانیت زدہ اور منجمد ہوتی ہوئی سی ادبی فضا میں ارتعاش پیدا کرنے کاسبب بنی ہے    ؎

موسموں کو جھیلنے کا فن ہمیں سے پوچھئے
عمر گزری ہے ہماری بے گھروں کے درمیاں

جنوں کی کون سی منزل کی جانب ہے قدم اپنا
کہ ہر لمحہ کسی کی ہمرہی معلوم ہوتی ہے

دل کہ محروم ہے خوشبو کی پذیرائی سے
اور نظروں میں گلابوں کا سفر جاری ہے

جو پریشانی بھی آئی زندگی کی راہ میں
حوصلے مضبوط پہلے سے زیادہ کر گئی

زیرمطالعہ شعری مجموعہ’’ آہٹ‘‘ میں شارق عدیل کی شعری شخصیت کا مکمل تعارف تو نہیں لیکن ان کے سخن سفر کا ایک تابناک پہلو ضرورتوجہ طلب ہے اور وہ پہلو ہے سادگی میں پُرکاری۔ وہ اپنے تجربات ومشاہدات کو گھماپھراکر یعنی پیچیدہ اندازو اسلوب اختیار کرکے اپنی شاعری کو چیستاں نہیں بناتے اور بقول کلیم عاجزؔ   ؎

بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیمؔ
بات کرنے کا سلیقہ چاہئے

اور شاید یہی’’سلیقہ‘‘ فکر وفن کو جمالیاتی طورپر آفاقی بناتاہے۔شاعر اور ناشاعر کے درمیان ایک واضحفرق کے لئے بھی یہ’’سلیقہ‘‘ (تخلیقی ہنر) پیرامیٹر کا کام کرتاہے لیکن افسوس ۔۔۔۔ ادب ہو کہ سماج ہر جگہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی عجلت میں ہمارے Performanceکا پھُوہڑ پن عیاں ہے۔اس مقام پر شارق عدیل کے اس شعر کی صداقت افروزی سے کیاانکار کیاجاسکتاہے    ؎

زیست بسر کرنے کا یہاں کوئی بھی معیارنہیں
ڈھونڈ رہے ہیں سب منصب، کیسی صداقت کیسا حق

شارق عدیلمیدان شعروادب میں تھُوہر کی طرح پنپتی’’ ادبی نظریوں ‘‘کی جھوٹی کھیتی میں اپنی فکر کے بیج نہیں بوتے۔ ان کی شعری زمین کی زرخیزی میں ان کا اپنا لہو شامل ہے۔کسی ’’لاتحریک‘‘ نسل سے خود کو جوڑنا ان کی مجبوری بھی ہے شاید کہ معاصر اردو ادب و شعر میں وہ کسی حلقہ بندی یا پھر کسی ’’ازم‘‘ کے اسیر نہیں، کسی نظریاتی بندش کے قائل نہیں۔ادبی نظریوں کی عینک لگا کر وہ ادب کو دیکھنا بھی نہیںچاہتے ۔ وہ اپنے عہد کے رجحان ساز شعری رویوں سے تو استفادہ کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی کنویں کا مینڈک بننا انہیں منظورنہیں ۔اب ’’لاتحریک‘‘ کی اصطلاح وضع کرکے لاشعوری طورپر شارق نے عہد موجود کے ٹھہرے ہوئے دریائے ادب میں ایک سنسنی خیز بلبلاہٹ (Bubbling)ضرور پھیلائی ہے    ؎

یوں ہی وابستہ رہو لوح و قلم سے شارق
فائدہ کچھ بھی نہیں ہے تو زیاں بھی تو نہیں

سچ پوچھئے تو شارق عدیل کا شعری سفر کسی بیساکھی کے بغیر انسان خدا اور لمحہ لمحہ آتش فشاں بنتی ہوئی سی کائنات کے اطراف طواف کرتا نظر آرہا ہے۔ابھی ان کی شاعری میں وہ جھماکا نہیں ہواہے جو ان کے شعری سفر کا سمت نما ثابت ہو۔ شارق کی نگاہ میں شاعری زندگی ہے اور زندگی شاعری ۔ہرچند کہ ان کا کوئی واضح نظریۂ ادب نہیں کہ اس مقام پر وہ ایک ذرا Confussed نظر آتے ہیں لیکن زندگی کے عصری حقائق سے وہ چشم پوشی نہیں کرتے۔ زندگی کے ترجمان اس شاعر کو ایک پل قرار نہیں   ؎

مکاں سے جھانک کے دیکھا تو یہ بھی فکر ہوئی
ہمیں چراغ سر رہگزر بھی رکھنا تھا

اس خیال کو معنوی حسن دیتے ہوئے پروفیسر جگن ناتھ آزاد ؔ نے بہت پہلے  کہا تھا   ؎

دیا جلائو تو دہلیز پر رکھو آزادؔ!
درونِ خانہ بھی ضو ہو بیرون خانہ بھی

شارق عدیل کی فنّی ریاضت یا ان کی شعری وادبی صلاحیت کے تشکیلی پہلوئوں پر اگر ایک ذرا فوکس ڈالا جائے تو ان کے سخن سفر کی توانائی اور تابناکی میں ان کی ذاتی زندگی کی جدوجہداور ان کے سخن سفر کے نشیب وفرازکے ساتھ ساتھ وراثتی علمی ماحول کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ پیش نظر مجموعہ ’’آہٹ‘‘ میں شارق کا یہ اعترافی لہجہ مطالعہ کی دلچسپی سے خالی نہیں ۔‘‘ میرا تعلق عروض وفن سے گہرا شغف رکھنے والے خانوادۂ علمی سے ہے اس لئے اس فن (صنف شاعری ) کی بہت سی باریکیاں اصلاح سخن کی روایت کے حوالے سے میرے فن کا حصّہ بنتی رہی ہیں۔‘‘ اب ان سطروں کو بغور پڑھتا ہوں تو بات ایک ذرا آگے بڑھ کر رک جاتی ہے۔اب عیب میں ہنر تلاش کرنا میری سائیکی کا حصہ ہے ۔ اس مقام پر آکر میں ’’ دھرم سنکٹ‘‘ میں پڑگیا ہوں۔ہرچند کہ اس ’’سنکٹ‘‘ سے نکلنے کی میں نے شعوری طورپر بارہاکوشش کی لیکن پیش نظر مجموعہ’’آہٹ‘‘ کی ابتدامیں ہی شاعرکا یہ شعر مجھے ڈرانے لگا ہے    ؎

فکر و شعور و فن سے ہے اس قدر مزین
دیتی ہے اب حوالہ دنیا مری غزل کا

میں نے شروع میں ہی اس کاذکر کیاہے کہ شارق پُراعتماد شعری لہجہ کے خالق ہیں۔سخن کے اس دعویٰ میں شاعرانہ تعلی تو ہے لیکن خود پسندی یا خودنمائی کاشائبہ لئے وہ ’’ضدی پن ‘‘نہیں بسااوقات جسے ’’بچکانہ پن ‘‘ بھی کہتے ہیں۔بہر حال شاعرانہ تعلی کو میں محض عیب نہیں مانتاکہ اس میں ہنر کا پہلو ڈھونڈ نکالنا کوئی مشکل بھی نہیں۔مثالوں سے اردو شاعری بھری پڑی ہے   ؎ مستند ہے میرافرمایا ہوا!۔۔۔شارق کے مزید دو شعردیکھیں    ؎

 اٹھائو قلم جب بھی ہمارے تغزل پر
لکھو شوق سے کچھ بھی مگر سوچ کر لکھنا

شارقؔ اس احتیاط سے تخلیقِ شعر کر
غالبؔ کی طرز اور نہ رنگِ مجاز ؔہو

شاعرانہ جذبوں اور مضراب دل کی خودپسند آہٹوں کے لئے قوتِ اظہار کی محض بلند آہنگی سے تو بات نہیں بنتی۔کہتے ہیں کہ ادب افشائے حقیقت کے مقابلے میں اخفائے حقیقت کا متقاضی ہوتاہے۔میرا خیال ہے کہ زبان کے تخلیقی استعمال پر زور دے کر شاعرانہ مطالب کی ادائیگی میں معنوی حسن کے ساتھ ایک سبک خرام شعری فضا خلق کی جاسکتی ہے ۔یوںبھی تخلیقی زبان کا تصور تو بہر حال استعاروں، کنائیوں ، علامت سازی اور ایک ذرا ابہام کے بغیر ممکن نہیں۔ شارق عدیل بھی خوب جانتے ہیں   ؎

برہنہ حرف نگفتن کمال گویائی است

شارق عدیل نے اپنے باطنی مشاہدے کو فطرت سے ہم آہنگ کرتے ہوئے عصری زندگی کے کیف وکم اور مختلف النوع واردات ِ روز وشب کی کیفیات کو بہت فن کاری سے شعر کے قالب میں ڈھالا ہے۔ساتھ ہی اپنی ذات کے باطن میں برسوں سے ڈیرا جمائے ان ناآسودہ لمحوں کو بھی جاوداں بنا دیا ہے جو لاشعوری طورپر ایک قسم کے ذہنی انتشار کا سبب رہے ہیں   ؎

 کس لئے تھک کے بکھرنے کا ہے احساس مجھے
میرے کاندھوں پہ کوئی بارِ گراں بھی تو نہیں

ان کی شاعری میں فنّی چابکدستی یعنی داخلی اور عروضی آہنگ کے ساتھ ساتھ اظہار کا والہانہ پن بھی ہے لیکن کہیں کہیں پرغزل کہنے کی دھن یاعجلت پسندی نے انہیں ایک ’’بالک ہٹ‘‘ کے طورپر بھی پروجیکٹ کیاہے۔ اس میں شک نہیںکہ شارق ؔنے قدرے اجتہادی اور خلاق ذہن پایاہے ۔ بحرواوزان پر ان کی اچھی پکڑبھی ہے۔ لیکن ابھی ان کے یہاں وہ مراقباتی عمل یا تخلیقی انہماک نہیںجو فکر وفن کو شعور کی بالیدگی عطا کرتاہے۔ذیل کے اشعار دیکھیں   ؎

میں حدِ ادارک سے آگے نکل جاتا مگر
زندگی کی کربناکی غرقِ بادہ کر گئی

 ذہن ساکت ہے کسی کی علمیت کے سامنے
آج انا میری ہی مجھ کو سنگ زادہ کر گئی

قوتِ ترسیل شارق ہوگئی جب منتشر
میرے فن کی شہرتوں کو جادہ جادہ کر گئی

شارق نے خود کو ’’لاتحریک ‘‘ نسل سے جوڑ کر معاصر شعر وادب میں سنسنی پھیلانے کی کوئی شعوری کوشش تو نہیں کی ہے بلکہ منافقانہ ادبی ماحول اور   Give and Take   والی ایک مخصوص’’ ادبی پالیسی ‘‘کے خلاف پرزور صدائے احتجاج بلند کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے ۔کہنا چاہتا ہوں کہ شارق ہمارے عہد کے جنوئن فن کار ہیں، زندہ دل اور ایک ہمہ جہت شاعر ہیں۔ ادبی مافیائوں سے وہ لوہا لینا خوب جانتے ہیں۔غیر موافق حالات میں بھی ان کے اندرون میں جینے کی للک تخلیقی آگ بن کر دہک رہی ہے۔ وہ ادب کی کسی بے لگام گھوڑی کے شہسوار بھی نہیں ۔ ’’اپنا ہاتھ جگن ناتھ‘‘ کے فارمولے پر عمل کرتے رہے ہیں  ---  آہٹ کے خالق کایہ سخن سفر بڑا زوردار ،تازہ کار اور رُوحِ عصر سے قریب تر ہے۔ لیکن ان کے بعض معاصرین شعراء کی طرح جگالی شدہ نہیں   ؎

یہ کار خیر کروں گا کمال کی حد تک
کرن کرن میں بٹوں گا زوال کی حد تک

طلب کے ساتھ میسّر وصال بھی آئے
پھر اس کے بعد بدن پر زوال بھی آئے

اتر رہا تھا سمندر سراب کے اندر
بچھڑ کے خود سے ملا جب میں خواب کے اندر

عجب جنون مری انگلیوں میں جاگا ہے
کہ خون ڈھونڈ رہی ہیں گلاب کے اندر

کرکے روشن اپنی غزلوں میں معانی کے چراغ
اپنے اک اک لفظ کو وہ معتبر کرتا رہا

لکھ کے تنقیدیں مرے فن کے حسیں احساس پر
مطمئن اپنی انا کو کم نظر کرتا رہا؟

آخری شعر میں تخلیقی اظہار کا جو  Out flashہے اس میں تنقیدی منصب کی گراوٹ اور منافقانہ ادبی صورت حال کو دھواں دھواںہوتے ہوئے دیکھا جاسکتاہے۔ناقد اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار نہیں ہوسکتا۔ ناقد(کم نظر ) اور تخلیق کار کے درمیان ہنوز ایک سرد جنگ جاری ہے۔ نان جنوئن رائٹرس مزے اُڑا رہے ہیں۔ جنوئن فن کار ناقدری ٔ وقت کا رونا رو رہے ہیں۔ اب ایسے میں آہٹ کے خالق کا لب ولہجہ ذرا باغیانہ اور سرکش ہو جائے تو مقام تعجب نہیں    ؎

آئو! اب آگ محاذوں پہ لگا کر دیکھیں
کیسا کردار ادا جنگ میں کرتا ہے دھواں

المختصرمعاصر اُردو شاعری کے تازہ منظرنامے پر ایک  Angry Poet یا احتجاجی رویے کے شاعر کے طورپر اپنی باوقار موجودگی درج کرانے والے شارق عدیل کے خوش آئندمستقبل کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے ان کے اس معنی خیز شعرکے ساتھ رخصت ہوا چاہتا ہوں   ؎

اُتر نہ آئے محبت کہیں بغاوت پر
نہ حوصلوں کو بڑھا اشتعال کی حد تک


(عالمی سہارا:جنوری ۲۰۱۵ئ)


***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 710