donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Suhail Ahmad Siddiqui
Title :
   Ham Tamasha -- Bharpoor Noqtaye AAghaz

 

ہم تماشا ۔۔۔ بھرپور نقطہ آغاز
 
تحریر: سہیل احمد صدیقی
 
طنز و مزاح نگاروں کی فہرست میں ایک شاندار اضافہ شفیق زادہ ہیں جو اتفاق سے ہمارے ’’جالی دوست(Net-friend)*بھی ہیں اور یہ محض دوسری بار ، اتفاقاً ایسا ہوگیا کہ کسی ’جالی دوست‘‘ کی فرمائش پر ، خاکسار نے خامہ فرسائی کی سعی کی.......پہلی مرتبہ ہندوستان میں مقیم، منیر ارمان نسیمی کے مزاحیہ انشائیوں کی کتاب، ’’آبیل مجھے مار‘‘ پر لکھنے کا اتفاق ہواتھا۔یہ حسن اتفاق ہے کہ شکیل احمد صدیقی المعروف شفیق زادہ کا تعلق ہمارے مولد و مسکن کراچی سے ہے، مگر طنز و مزاح کا یہ کاروبار متحدہ عرب امارات سے چلا رہے ہیں، گرچہ اُن کا پیشہ کمپیوٹر کی فسوں کاری کو ’’آپے میں رکھنا‘‘ ہے۔**
’’ہم تماشا‘‘ کا تماشا شروع ہوتا ہے۔ سرورق بہت چونکا دینے والا ہے۔تفصیل بتا کر مفت خوروں کے پیسے بچانا، قومی دولت کا ضیاع ہوگا۔ ضمنی بات یاد آگئی، قلم برداشتہ لکھتے ہوئے.......وطن عزیز کے ایک بڑے ٹیلی وژن چینل میں ، محض سوئے اتفاق۔یا۔ کسی کی اضطراری غلطی سے ، ایک پڑھے لکھے ادیب بھرتی ہوئے۔چند ماہ قبل انہوں نے ایک نیوز کاپی(News-copy)میں یہی لفظ ’ضیاع‘ لکھا تو ’’بڑے صاحب‘‘ کے حضور پیشی ہوگئی۔’’کلاس‘‘ لیتے ہوئے کہا، یہ کونسا لفظ ہے.......ہم نے تو ساری عمر ’زیاں‘ سنا اور لکھا.......کہیے ہنسنے کا مقام ہے ۔یا۔رونے کا؟؟.......آگے بڑھنے سے پہلے عرض کرتے چلیں کہ زیر نظر کتاب میں ایسے بہت سے مقامات ہیں جہاں اہل ِ نظر ایسی ہی کیفیت میں مبتلا ہوجائیں گے۔یا۔ہوسکتے ہیں۔
شفیق زادہ نے سرورق پر عنوان کے ساتھ سرخی جمائی ہے : ’’ایک خود تماشائی کی قلمی گدگدی‘‘.......راقم کے خیال میں ’خود تماشائی‘ ایجاد ِ بندہ ہے۔ ویسے ایجاداتِ شفیق زادہ کا ذکر آئے گا، چھری تلے دم تو لیں!
 
ہر چند کہ یہ کتاب، موصوف کی اولین طبع زاد ، مطبوعہ سعی ہے اور کیا خوب ہے ، مگر اس ہیچ مد آں کے خیال میں ، رواج ِ عام کے مطابق ، از ابتداء تا انتہاء ، چار اہل ِ قلم کی گراں قدر آراء ، جن میں تین کی شہر ت اسی شعبے میں مسلّم ہے ، ہرگز ’ناگزیر ِ اندراج‘ نہ تھیں.......فارسی کا مقولہ یاد کیجئے: مشک آنست کہ خود ببوید، نہ کہ عطار بگوید.......اب اس رواج ِ عام کی تقلید ِ محض سے جو مسائل پیدا ہوئے ، ان کا ذکر آئندہ۔
اس نئے مزاح نگار کی تکنیکی خوبی یہ ہے کہ بیک وقت، طنز گہرا اور مزاح اتنا بھرپور ہے کہ ’’اچھے اچھے‘‘ خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ رہی خامی یا دیگر معائب ومحاسن ، تو چلتے چلتے ، آگے بات کرتے ہیں۔شفیق زادہ اُن بہت سے ’عظیم‘ اہل قلم میں شامل ہیں جو اپنی شریک حیات کا ذکر اور وہ بھی بطریق ِ احسن ، کرنا کبھی نہیں بھولتے.......ہمارے بزرگ معاصرین میں شامل ، ایک شاعر اور(ان کے علاوہ)، ایک ’عالمی‘ شہرت یافتہ نثر نگار و سفر نامہ نگار تو گویا ’’ذکرِ بیگم ‘‘ کے بغیر کچھ لکھ ہی نہیں سکتے۔خیر یہ دیکھئے ہمارے ممدوح ’’پیش رس‘‘ میں کس طرح اس ’عظیم ‘ رشتے کی عظمت بیان کرتے ہیں:’’اس سطر نگاری کے دوران، میں خاص طور پر ’موصوفہ بیگم‘ کا بھی دل وجان سے شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جو کہ ہر سطر اور ہر لفظ کی اولین سامع ، قاری اور ناقد بھی ہیں۔مجھے پتہ چلا کہ حیرت انگیز طور پر انہوں نے آج تک ، کسی انسان کی لکھی ہوئی کوئی کتاب پوری نہیں پڑھی.......(تو پھر آپ خود کون؟؟۔س ا ص)، بہشتی زیور بھی نہیں..............خدا انہیں ہمیشہ سہاگن رکھے، آمین!‘‘
 
بات بیگم کی ہوئی تو عرض کردیں کہ نثر میں ’’بیگمیات‘‘ پر ایسا بے باک تبصرہ بھی شفیق زادہ کا خاصہ ہے: ’’ہمیں ویسا ہی لگا جیسے سسر سے پہلی ملاقات کے وقت .......انہوں نے یہ کہہ کر کہ برخوردار میں آئیڈیل بیوی کا شوہر بننے کے تمام اشاریے اور گُن موجود ہیں، ہم سے پوچھے بغیر ہی اپنی دختر کے ساتھ ہمارا رشتہ طے کردیا اور مسجد میں نکاح کروا کر ، موصوفہ کو سرخ جوڑے میں ہمارے گھر کورئیر(Courier)کروادیا، یوں ہمیں بارات اور باراتی بھی مرتب کرنے کی مہلت نہیں ملی۔ہمارے معصوم دل میں ’بارات آگئی، بارات آگئی.......دولہا آگیا، دولہا آگیا، سننے کی تمنا آج تک پَل رہی ہے۔ ہم وہ مظلوم دولہا نما شوہر تھے جس نے اپنی ہی دلہن کو اپنے گھر میں ریسیو کیا تھا۔وہ تو ایک دن ہمارے میاں بیوی والے آپسی جھگڑے میں بیگم نے احسان جتاتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ اس ’فیملی پلاننگ‘ میں شروع سے ہی شا مل رہی تھیں‘‘۔(کاٹھ کا الو
 
کہیے ہنسی ’برداشت‘ ہوئی یا کچھ اور پیش کیا جائے.......اسی پیراگراف کی انتہا ملاحظہ کیجئے: ’’اس دن کی اسپاٹ فکسنگ(Spot-fixing)نے زندگی بھر کے لیے ہمارا میچ ، فکس(Fix)کردیا تھا، لہٰذا ہم آج تک اٹھتے بیٹھتے مسلسل تفتیشی مراحل سے ہی گزررہے ہیں اور اکثر ناکردہ گناہوں کی پاداش میں ازدواجی معطلی کا شکار رہتے‘‘۔
آگے چل کر ایک کردار ’’آسف قدر ٹھرکی‘‘ کے چوڑیاں کھاکر خودکشی کرنے کا ذکر آتا ہے اور پھر:’’.......بیگم کانچ کی چوڑیاں 
کھنکھنا کھنکھنا کر ہمیں اشارتاً باور کرواتیں کہ اگر ہم نے اُن کی مرضی اور مطلب کے فیصلے نہ کئے تو ان نازک چوڑیوں کے مہلک، غیر نصابی استعمال میں صرف ہمارا ہی نقصان ہوگا۔.......اسی دن ہم نے .......سنہرے رنگ کی فسادی دھات کے بائیس قیراط کے بھاری کنگنوں سے بدل دیا‘‘۔(کاٹھ کا الو
 
ایک مزاح نگار نے شفیق زادہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اُن میں مشتاق احمد یوسفی کی مماثلت تلاش کی ہے جب کہ راقم کے خیال میں جابجا ، شفیق الرحمن، ابن انشاء اور کہیں کہیں تو ضیاء الحق قاسمی جیسا انداز بھی دیکھا جاسکتا ہے ، مگر بہتر یہی ہے کہ ایک نووارد کی تحسین ۔یا۔حوصلہ افزائی میں کوئی پرچھائیں حارج نہ ہو۔***
آئیے سنجیدہ مزاح کا ایک جدید نمونہ دیکھتے ہیں: ’’ہم سمجھتے ہیں کہ اگر خود پہ کسی (گئی) تمام پھبتیاں اور بیتی ہوئی تمام توہین جمع کرکے ہمالیہ کی چوٹی پہ رکھ دیں تو بلند و بالا پہاڑ چپٹا ہوکے منگولیا کا میدان بن جائے گا یعنی بغیر کسی ناک اور نقشے کے ، بالکل ہمارے باس خوارزمی کی طرح‘‘۔
اب یہ ’’ خوارزمی‘‘ اس عہد میں کیسے؟ ملاحظہ کیجئے تعارف ، لسانی چھیڑچھاڑ کے ساتھ:’’خوار ہونے تک کی تحقیق تو مکمل ہے مگر ’زمی‘ کے بارے میں ہنوز ہمارے سعودی رابطے پتا لگارہے ہیں، جیسے ہی کوئی مصدقہ چٹپٹی خبر ملے گی، مفاد ِ عامّہ میں عام کردیں گے‘‘.......موصوف نے اسلامی اصطلاح ’ذمّی‘ کی طرف غیر محتاط اشارہ کیا ہے۔
 
شفیق زادہ نے کرداروں کی رعایت سی بِہاری، مراٹھی ، پٹھان اور پنجابی لہجہ رقم کرکے اپنے گہرے مشاہدے کا ثبوت دیا ہے ۔انگریزی کی بقدرے ضرورت ، بکثرت آمیزش بھی جدید دور میں ناگزیر سمجھی جاسکتی ہے۔ایک’ کمپیوٹر ماہر‘کے قلم کی چابک دستی ملاحظہ کیجئے: ’’اُس کے نزدیک زندگی کی اہمیت Enter, Back-spaceاور Deleteسے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ کوئی بکھیڑا ہوا بھی تو Rebootکرلیا اور پھر سب کچھ نئے کا نیا۔ جس ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں بھی انٹرویو کے لیے گئی ، سب نے ہاتھوں ہاتھ لینے کی کوشش کی مگر قسمت کی دھنی تھی ، پاؤں پاؤں چل کر بچ نکل آئی۔(بچ نکلی درست ہوتا۔س ا ص)..............اس لیے To start with and exploreنوکری Joinکرلی.....................لباس اور لبوں سے لپٹی لالی سے تو لگتا تھا کہ موصوفہ Exploreکرنے سے زیادہ Exploitکرنے کی مہم پر نکلی ہوئی ہیں‘‘۔(کاٹھ کا الو
’’آہ ! انہوں نے ہمارا نام بھولنے کی اداکاری کرکے ہمیں Zero KBکی فائل(File)سے بھی چھوٹا کردیا‘‘۔کاٹھ کا الو
’’.........ہم ایک بار پھر Cut-to-sizeکردئیے گئے تھے‘‘۔ (ٹیکسی ابو ظبی)
 
کتاب میں شامل تحریر’’کاٹھ کا الو‘‘، دفتری معاشقوں پر نہایت عمدہ طنزیہ و مزاحیہ کاوش ہے جو کم از کم اس خاکسار کے علم کے مطابق، اپنی نوعیت کی پہلی بھرپور نگارش ہے۔اس نثر پارے سے مزید خوشہ چینی سے قبل ، سر نامہ کی تلخ نوائی دیکھئے جو موصوف کی سنجیدہ نثر نگاری میں کامیابی کا امکان ظاہر کرتی ہے: ’’ایک کاٹھ کے الوکی داستان غم جسے کامیاب بننے کے لیے (ہونے کے لیے۔س ا ص)بہت محنت کرنا پڑی تھی، مگر ناکامی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی.....................آج کی لڑکی کا قصہ ، جسے مردوں کے ’نامرد‘ معاشرے میں جینا اور 
جیتنا آتا ہے‘‘۔
شفیق زادہ کی مذکورہ بالا تحریر کا آغاز ہی اس قدر بھرپور ہے کہ اسے طنز و مزاح کی بجائے حقیقت نگاری کا نام دیا جائے تو بہتر ہوگا:’’.....................پَر ہمیں تووہ اپنی Coke bottle-shapeکے باوجود ، ہمیشہ جھاڑو دینے والی جادوگرنی ہی لگی‘‘۔
’’آخر کمپیوٹر کی وِچ(Witch)۔یا۔Wonder womanجو تھی‘‘۔
’’.....................اکیسویں صدی میں جہاں ہر ایرے غیرے ، میلے کچیلے کے ہاتھ جس طرح موبائل فون لگ گیا ہے ، اسی طرح امیروں کی پیٹنٹ(Patent)بیماریاں بھی ، غریبوں میں کرپشن (Corruption)کی لعنت کی طرح ، منتقل ہوئی ہیں‘‘۔
 
شفیق زادہ کی تحریر میں متعدد مقامات اس قدر بھرپور ہیں کہ بلا تبصرہ ہی بطور نمونہ کہیں بھی نقل کیا جائے تو داد ناگزیر ہو:
’’کم بخت کو یقین تھا کہ روپے پیسے کے معاملے میں ہم یہودیوں سے بھی زیادہ ، با اصول ہیں‘‘۔(پیارے میاں)
’’مگر بیوی کو چکمہ دینا اتنا آسان نہیں تھا۔ پچیس پہلے بھی گاؤں کے کھیت میں اگر اُن کے بھگوڑے عزائم نہ بھانپ جاتی تو آج تک کنواری ہی بیٹھی رہ جاتی‘‘۔(’کاٹھ کا الو‘‘)
’’......ہمیں احساس ہوا کہ اس کمرے میں ماہ جبیں سے متعلق اشیاء میں صرف شیشے کی ٹیبل ہی See throughنہیں ہے تو بوکھلاکے ہم نے نظریں اپنے پاؤں کی طرف کرلیں‘‘۔(’کاٹھ کا الو‘‘)
’’پیارے میاں کے مطابق اکثر لوگ کافی (Coffee)سے اس لیے احتراز کرتے ہیں کہ کہیں رنگت اس سے مماثل نہ ہوجائے، حالاں کہ رنگت بدلنے کے لیے کالی کافی نہیں، کالے کرتوت ہی کافی ہیں‘‘۔(بیکار بیگ اور ننھی)
 
شفیق زادہ لفظوں کے ہیر پھیر ، تغیر معنوی، نثری /منظوم تحریف اور دیسی ، بدیسی ناموں کی تحقیر/تبدل سے طنز اور مزاح پیدا کرنے میں ماہر ہیں۔کراچی کی ایک مشہور نجی جامعہ کا نام بدل کر ’پرنس ٹُن‘، شوارزینیگر کی بجائے ’شوارمہ زنگر برگر‘ ، کونڈولیزا رائس کی بجائے ’انا کونڈا لیزرڈ‘ ، جونئیر بُش(صدر امریکا) کی بجائے ’نِکّا بُش‘۔
 
فاضل مزاح نگار کی اُفتاد طبع نے بہت سے الفاظ، تراکیب اور اصطلاحات کو جنم دیا، مثالیں ملاحظہ فرمائیں:بغلولیت، راسپوتین شخصیت، مخبوط الہوس، غلطا(بڑی غلطی)، مکھی بھگاؤ اشارہ،وزیر نجکاری ٹائپ مونچھیں(نوید قمر کی طرف اشارہ )، بولتی بند فلم، کوچنگ۔کم۔تسکین، کنٹھ لنگوٹ(Neck-tie)، انٹرنیٹی حرافہ ، مخلوق مخصوصہ (طبقہ امراء)، نکھٹّو بکارِ خاص، مہر ہڑپ
جب بات تحریف کی ہوتو اُ ن کی تحریف نگاری کی دو عمدہ مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:
’’ہمارے نصیب کی ٹیکسی کسی اور رُخ نکل گئی‘‘۔(ٹیکسی ابو ظبی)
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر ’’ہر برس بچے ہوئے اور خانداں بڑھتا گیا‘‘۔(اختتام نگارش: چہاردرویشنیں اور اختتام کتاب)
ہمارے اس ’’جالی دوست‘‘ کا شعری ذوق اچھا ہے۔ اُن کے نقل کردہ اشعار سے ہماری معلومات میں خوب اضافہ ہوا مثلاًریڈیو کی مشہور 
چالو غزل (بہ آواز حبیب ولی محمد) ؂ راہ طلب میں کون کسی کا......ابن صفی کی ہے۔
اس کتاب میں چونکادینے والا خاصہ مواد موجود ہے۔کھُلے پن (Openness)کی بعض مثالیں تو ایسی ہیں کہ لگتا ہے...........اگر موصوف ، سعادت حسن منٹو کے عہد میں لکھ رہے ہوتے تو ’’ہلکی پھلکی‘‘ فحاشی کے ملزم قرار پاتے:
’’آخر محترمہ کی انگریزی کے اٹّھے (8)سے مماثل Figureکوئی اتفاق تو نہیں تھا۔ پیار ے میاں ہی ایک بار بتارہے تھے کہ خواتین کو Coke bottle-shapeبنائے رکھنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے اور وہ تفصیل سے اس محنت اور اس کے نتیجے میں حاصل کردہ شماریاتی تبدیلیوں کا تذکرہ بھی کررہے تھے‘‘۔کاٹھ کا الو
کشش بدر سے چڑھتا ہوا دریا دیکھا اللہ اللہ رے عالَم تِری انگڑائی کا.....یاد آیا کہ نہیں؟
’’اُس نے گلے میں لاکٹ کی طرح پہنی ہوئی Kingstonکی USBپین ڈرائیو(Pen-drive)، ۔یا۔Flash memoryخوارزمی کے ہاتھ میں پکڑادی‘‘۔(کاٹھ کا الو)
 
’’کیبن میں ہرطرف دل موہ لینے والی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ ہم تفریق نہ کرسکے کہ اس کا منبع، ماہ جبیں کا گلابی لباس ہے ۔یا۔اُس سے چھلکتا (ہوا)ویسا ہی بدن‘‘۔(کاٹھ کا الو)
’’..........مبالغہ آمیزی سے بھرپور ، بالغ ویب سائٹس میں سے ایک ،’نور کلینک ‘کے بلاناغہ زائر اور ’دیسی بابا‘ سے توباقاعدہ بیعت ہیں‘‘۔(کاٹھ کا الو)
’’پیارے میاں نے ہمیشہ کی طرح ، خود کو عقلمندوں کا استاد سمجھتے ہوئے ، ڈرائیور کو اپنی جانگ (جانگھ)کی Surfingاور Searchingمیں مشغول پاکر، اُسے غافل جان کر، اس دفعہ ریڈیوTuneکرنے کی کوشش کی‘‘۔(ٹیکسی ابو ظبی)
’’موصوف کو صفائی کا خبط تھا...........اُ ن کے دوسرے ، تیسرے اور چوتھے شرعی حق کی وصولی کا ناکامی میں اس رگڑائی اور دُھلائی کا بہت ہاتھ ہے‘‘۔کاٹھ کا الو
’’بے چارے گھر میںTVکی عدم موجودگی کی وجہ سے آج بھی جہاں کہیں’چابی‘ کا بورڈ لگا دیکھتے ، اُسے تالا چابی کا کلینک ہی سمجھتے اور نتیجہ شادی کے چند ہی سال میں درجن بھر بچوں کی صورت میں سامنے تھا۔ شاید کسی نے بتایا تھا ، درجن میں خرید کرنے سے بچت ہوتی ہے‘‘۔(کاٹھ کا الو)
’’یار یہ چودھری کے کان جس Angleمیں کھڑے رہتے ہیں، یہ نہ صرف اشتعال انگیز بلکہ اخلاق باختہ بھی ہے‘‘۔کاٹھ کا الو
’’ماہ جبیں کی طرف اپنا دایاں ہاتھ بڑھایا اور گریبان کی طرف اشارہ کرکے نہایت للچائے ہوئے انداز سے کچھ اشارہ کیا۔جب ہم نے اس طرح اُن کے ہاتھ کو خاتون کے تقریباً چاک گریبان کی جانب اٹھتا ہوادیکھا ، ہم دھک (سے )رہ گئے‘‘۔کاٹھ کا الو
’’خادم حسین چوکسؔ بھی ایک عجیب شخصیت تھی (تھے)......اَن پڑھ دائی کو بھی پتا چل گیا تھا کہ ’پیراٹروپر‘(Paratrooper)کسے کہتے ہیں۔دائی نے تو بہت زور لگایا کہ صورت ِ پیدائش کی مناسبت سے نام ’پائل‘ رکھا جائے مگر نرینہ ہونے اور ختنوں کی ٹیکنیکل پرابلم کی 
وجہ سے کوئی مان کے نہیں دیا‘‘۔حاشیہ
 
شفیق زادہ موقع محل کی نزاکت اور مناسبت سے مزاح پیدا کرنا اور سادہ بیان میں گہری بات کہنا خوب جانتے ہیں۔ خوف ِ طوالت دامن گیر ہے، ورنہ نشان زد اقتباسات نقل کردیتا۔ بات کی بات ہے کہ وہ اس راز سے بھی بخوبی آشنا ہیں کہ مزاح میں موقع محل کی مناسبت سے مبالغہ بھی لطف دیتا ہے، مگر یہاں رک کر ایک تکنیکی نوٹ......یہ اقتباس دیکھئے اور خود ہی انصاف کیجئے کہ آیا ایسی معنی خیز گفتگو ایک ماڈرن حسینہ کرسکتی ہے:
 
’’بعض طمنچے اُلٹے بھی چل جاتے ہیں اور کچھ طمانچے اپنے ہی گال کے لیے ہوتے ہیں‘‘۔(کاٹھ کا الو)
ایک نامور مزاح نگار نے(جنہیں موصوف نے لی جینڈLegendقراردیا)، بقلم خود، شفیق زادہ کو زبان وبیان کی اغلاط سے مبرّا ہونے کا پروانہ تھمادیا ہے...... ؂ ناطقہ سر بگریباں ہے ، اسے کیا کہیے!
آئیے اس پر بھی بات ہوجائے۔ شفیق زادہ بہت سے نئے اہل قلم کی نسبت، بہتر زبان لکھنے پر قادر ہیں، البتہ انہوں نے متعدد جگہ غلط العام، غلط العوام اور محض رواج کی بِنا ء پر ، پنجابیت کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ مثالیں دیکھئے:
دکھ دیوک یعنی دکھ دینے والا۔ راجہ راجیسور راؤ اصغرؔ نے اپنی ہندی ۔اردو لغت میں اس مفہوم میں یہ الفاظ دیے ہیں: دکھ پرد، دکھ دائی، دکھ کر، دکھّد، دکھ داتا، دکھ دایک(ہندی ۔اردو لغت از راجہ راجیسور راؤ اصغرمع اضافہ و مقدمہ قدرت نقوی ،مطبوعہ انجمن ترقی اردوپاکستان، ص ۳۱۵۔۳۱۶)...... شفیق زادہ کی وضع کردہ ترکیب غلط ہے۔
 
ضمنی بات یہ ہے کہ موصوف نے اپنے ’پیش رس‘ میں آسان، عام فہم لفظ، ’احسان مند‘ چھوڑ کر، ہندی لفظ ’اَبھاری‘لکھا ہے۔
سماپت (ہندی لفظ) یعنی ختم کی بجائے سماپ، جانگھ کی بجائے جانگ، ہامی بھرنا کی بجائے حامی بھرنا(ویسے بعض اہل لغت مثلاً صاحب فرہنگ آصفیہ کے نزدیک جائز)، دیوالہ کی بجائے دیوال نکلنا،سناٹے کی جگہ زنّاٹے میں آنا، تعینات کے بیچ تشدیدکا غلط استعمال، ویزا کی بجائے ویزہ، پلازا کی بجائے پلازہ، بنی نوع آدم کی بجائے بنی نوع آدمی، ایڈوب (Adobe)کی جگہ ایڈوبی، بے ربطی کی جگہ بے ربطگی، درستی کی بجائے درستگی، مع(ساتھ) کی بجائے بمع اور بمعہ، افراد کی بجائے لوگ، ازاربند کی بجائے آزاربند،آور(Hour)کی جگہ ہاور، موقع کی جگہ موقعہ، افغان کی جگہ افغانی (جو کرنسی کا نام ہے)، ریستوراں کی بجائے ریسٹورنٹ(انگریز ریسٹوراں کہتے ہیں۔ اصل فرینچ لفظ ہے: غیس توغاں)، سابق کی بجائے سابقہ، رِدم(Rithm)کی بجائے ردہم، وتِیرہ کی بجائے وطیرہ، کراہت کی بجائے کراہیت، پیش گوئی کی جگہ پیشن گوئی، امپائر(Umpire)کی بجائے ایمپائر(Empire)،سروتے کی بجائے سروطہ، اللّسان العربی کی جگہ الّسان العربی، Achievementکی جگہ اچھیومنٹ، کدّوکَس کی جگہ کدو کش، Manualکی جگہ مینیویل، Tearoseکو ٹی روژ، کیمرا کی جگہ کیمرہ، نذرانہ کی بجائے نظرانہ...........یہ سب غلط نہیں تو کیا؟؟
 
عموماً ’کمرا‘ کی جگہ کمرہ ، ڈاڑھ اور ڈاڑھی کی جگہ داڑھ اور داڑھی، چھَے (۶۔عدد) کی جگہ چھ لکھنا تو عام ہے، گرچہ غلط ہی ہے، سو اِن اغلاط کے ضمن میں موصوف کو معاف کیا!
مجموعی طور پر ’’ہم تماشا‘‘ بہت اچھی کتاب ہے اور اس کے مصنف کو ہر سطح پر پذیرائی ملنی چاہیے۔ہر اہل ذوق کے لیے اس کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
س ا ص۔۱۸ جنوری ۲۰۱۲ء
*یہ اصطلاح، خاکسار نے آج سے کچھ سال قبل ، انٹرنیٹ پر بنائے ہوئے دوست، منیر ارمان نسیمی (ہندوستان) کے بارے میں مضمون لکھتے ہوئے ، وضع کی تھی۔ویسے بعد ازآں، ایک اور بزرگ جالی دوست ، کے۔اشرف کی دو کتابوں پر تفصیلی تبصرہ کرچکا ہوں۔
**بہت بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ موصوف کی ملازمت اصل میں ، کچھ اور ہے، یہ غلط تأثر اُ ن کی تحریر سے قائم ہوا تھا۔
***موصوف نے ایک نامور مزاح نگار سے ، ہمارے توسط سے ، اپنی کتاب پر رائے لینے کی بھرپور کوشش کی ۔کچھ دنوں بعد اُن مزاح نگار کا ایک طویل ٹیلی فون موصول ہوا ، جس میں یہ بات زور دے کر کہی گئی کہ ہم نے ایک فضول سی کتاب پر ،اپنا اور اُن کا وقت ضائع کیا...........خاکسار کا مضمون پڑھ کر ، دل پر ہاتھ رکھیے اور ایمان داری سے کہیے کہ آیا وہ درست ہیں؟
******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 935