donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Suhail Anjum
Title :
   Buzurg Sahafi Hafeez Nomani Ki Qabil Mutalya Kitab


بزرگ صحافی حفیظ نعمانی کی قابل مطالعہ کتاب

کتاب: بجھے دیو ںکی قطار (حفیظ نعمانی کے مضامین سے انتخاب

مرتب: محمد اویس سنبھلی

صفحات: 254، قیمت: 200روپے

ناشر: دوست پبلی کیشنز، لال باغ لکھنو ¿

تبصرہ نگار: سہیل انجم


حفیظ نعمانی اردو صحافیوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو اب رفتہ رفتہ اٹھتی جا رہی ہے۔ حق گوئی وبیباکی جن کی شان ہو اور حرص و طمع سے دشمنی جن کا طرہ امتیاز، ایسے صحافی اب یا تو پیدا نہیں ہورہے یا بہت کم ہو رہے ہیں۔ حفیظ نعمانی صحافیوں کی اس روشن کڑی کے آخری چند لوگوں میں شامل ہیں ’جنھیں دیکھنے کو اب آنکھیں ترستیاں ہیں‘۔ ”بجھے دیوں کی قطار“ ان کے ان مضامین سے ایک خوبصورت انتخاب ہے جو انھوں نے ’عزائم‘، ’ندائے ملت‘’ان دنوں‘ اور دوسرے اخباروں میں کام کے دوران تحریر کیے۔ یہ ایسی شخصیات کو خراج عقیدت ہے جن سے حفیظ نعمانی کے بے حد گہرے اور دوستانہ تعلقات رہے یا جن کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا، جن کی خدمت کی او رجن کے ناز اٹھائے۔

اس میں کل گیارہ مضامین ہیں۔ جن پر قلم اٹھایا گیا ہے وہ ہیں: جگر مرادآبادی، مقبول احمد لاری، چودھری سبط محمد نقوی، عمر انصاری، جمیل مہدی، والی آسی، ہاشم رضا عابدی الہ آبادی، ڈاکٹر سعادت علی صدیقی، سلامت علی مہدی، محبوب علی دریابادی او ران کی اہلیہ۔ آخری مضمون کا عنوان ہے ”ہم رہ گئے اکیلے“۔ حفیظ نعمانی کسی نہ کسی سبب سے ان شخصیات کے رابطے میں آئے اور پھر جو تعلق قائم ہوا وہ ان حضرات کی موت کے ساتھ ہی منقطع ہوا۔ یہ محض مضامین نہیں ہیں بلکہ مذکورہ شخصیات کے حوالے سے ایک ایسی تاریخ ہے جو اس شخص نے لکھی ہے جو اس کا گواہ بھی رہا ہے اور حصہ بھی۔ جگر مرادآبادی کے بارے میں بہت سے لوگوں نے مضامین لکھے ہیں۔ لیکن جس طرح کا مضمون پہلے ماہر القادری نے اور اب حفیظ نعمانی نے لکھا ویسے بہت کم لکھے گئے ہوں گے۔ جگر مرادآبادی کا تعلق حفیظ نعمانی کے والد جناب مولانا منظور نعمانی صاحب سے تھا اور اسی حوالے سے حفیظ نعمانی بھی ان کے قریب آئے۔ لیکن انھوں نے جگر صاحب سے جو رشتہ رکھا وہ وہی تھا جو اپنے خاندان کے کسی بزرگ کے ساتھ ایک نوجوان کا ہوتا ہے۔ نعمانی صاحب اپنے والد سے ان کے تعلق اور ان کے گھر جگر صاحب کے رہنے کے بارے میں لکھتے ہیں ”باوجود اس کے کہ والد ماجد کو نہ شعراءسے کوئی خاص ربط تھا اور نہ شعر سے زیادہ نسبت، جگر صاحب نے اپنے کو کسی حد تک والد ماجد سے وابستہ کر لیا....ہم نے دونوں بڑو ںکی ملاقات ایسی دیکھی جیسے کسی طے شدہ نظام کے تحت ہوتی ہے....والد ماجد نے انتہائی مسرت کے ساتھ فرمایا کہ یہ آپ کا گھر ہے جب تک چاہیں قیام فرمائیں۔ لیکن یہ ایک مولوی کا گھر ہے یہاں شائد آپ کو قیام میں وہ راحت نہ ملے جس کے آپ عادی ہیں (اشارہ قارئین سمجھ گئے ہوں گے)۔ جگر صاحب نے کہا کہ سب کچھ سوچنے کے بعد فیصلہ کیا ہے“۔ اس مضمون میں حفیظ نعمانی نے جگر صاحب کی شخصیت کے کئی پہلووں کا احاطہ کیا ہے۔ لیکن انھوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ سب ”دیدہ“ ہے نہ کہ ”شنیدہ“۔ جگر صاحب کی شخصیت کے پیچ وخم، ان کا لاابالی پن اور ایک عرصے تک قائم رہنے والی ان کی ایک خاص ”عادت“ کے بارے میں بھی بہت سے راز کھولے گئے ہیں۔ انھوں نے جگر صاحب کی ذاتی ڈائری کے بارے میں بھی بڑی دلچسپ باتیں لکھی ہیں اور ان کی شاعری کے بارے میں بھی۔ ان کی ڈائری سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ جگر صاحب نے اپنے بہت سے اشعار قلم زد کیے ہیں۔ لیکن لکیر کھینچ کر شعر کاٹنے کے بجائے بقول نعمانی صاحب وہ مذکورہ شعر پر پھول پتیاں بنا دیتے تھے۔ اس سے جگر صاحب کے ذوق جمالیات کا پتہ چلتا ہے۔ حالانکہ یہ ڈائری وہ بہت احتیاط سے اپنے پاس رکھتے تھے لیکن ایک بار وہ اسے اپنے ساتھ لے جانا بھول گئے اور وہ حفیظ صاحب کے ہاتھ لگ گئی۔ لیکن جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ حفیظ صاحب نے ان کی ڈائری پڑھ لی ہے تو وہ خفا ہوگئے اور یہ تلقین کرنے لوگے کہ تمھیں نہیں معلوم کہ کسی کی ڈائری پڑھنی نہیں چاہیے۔ حفیظ صاحب نے بہر حال ان کو منا لیا۔ یہ مضمون جگر مرادآبادی کو جاننے اور سمجھنے میں بڑا مددگار ہے۔

مقبول احمد لاری پر جو مضمون ہے وہ بہت دلگداز ہے۔ اس کو پڑھ کر کلیجہ دھک سے رہ جاتا ہے۔ اس میں ان کی اردو نوازی، صحافت نوازی اور انسانیت نوازی کے جو واقعات درج کیے گئے ہیں وہ کسی فرشتہ سے تو منسوب ہو سکتے ہیں کسی انسان سے نہیں۔ لیکن بہر حال مقبول احمد لاری بھی ایک انسان تھے اور ان کے اند رجو انسانی خوبیاں تھیں وہ آج کے دور میں ناپید سی ہوتی جا رہی ہیں۔ اخبار عزائم شروع کرنے اور اس کی اشاعت کے تسلسل کو قائم رکھنے میں ان کی جو کوششیں رہی ہیں اس کی تفصیل اس مضمون میں موجود ہے۔ میر اکادمی کے بانی لاری صاحب ایک بہت بڑے تاجر بھی تھے۔ لیکن زندگی کے آخری ایام میں کس طرح ان کی تجارت پر زوال آیا وہ اب بھی ایک سربستہ راز بنا ہوا ہے۔ حفیظ نعمانی کے بقول ”یہ بات آج تک ایک معمہ ہے کہ پورے نیپال کی تجارت کو کنٹرول کرنے والے اور سرحد سے ملے ہر شہر میں چرسا (چھڑا) گوداموں کے مالک تخت شاہی سے اتر کر یہاں کیسے آگئے کہ....”بس اب یہی ذریعہ معاش ہے“، میرے ہی نہیں شائد ہر محبت کرنے والے کے دل میں یہ سوالیہ نشان ہوگا کہ آخر یہ کیسے ہو گیا“۔ انھوں نے لاری صاحب اور ان کے اہل خانہ کی خاموش دینداری پر بھی محبت آمیز انداز میں روشنی ڈالی ہے جس کو پڑھ کر زبان سے بے ساختہ نکلتا ہے کہ دین کی پابندی اسے کہتے ہیں۔ نہ کوئی پروپیگنڈا اور نہ ہی ریاکاری۔ آج لوگوں کے اندر مذہب کے نام پر جو ریاکاری آگئی ہے اسے دیکھ کر ایسے لوگوں سے نفرت ہی کرنے کو جی چاہتا ہے۔


سلامت علی مہدی اپنے عہد کے ایک بڑے صحافی تھے۔ لیکن ان کے اندر صحافیانہ خوبیوں کے علاوہ دوسری خوبیاں بھی تھیں۔ ان پر حفیظ صاحب کا مضمون ان کی تمام قسم کی صلاحیتوں کو خراج عقیدت ہے جن میں صحافیانہ صلاحیتیں بھی ہیں اور خطیبانہ بھی۔ سلامت علی مہدی سے ان کی ملاقات بھی بڑی دلچسپ ہے۔سلامت صاحب ایک صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تاجر کا بھی دماغ رکھتے تھے۔ لیکن وہ اپنے لاابالی پن کی وجہ سے زندگی میں کامیاب نہیں رہے۔ حفیظ صاحب نے جب پہلی بار ان کو دیکھا تو اس وقت تک وہ انھیں پہچانتے نہیں تھے۔ اس بارے میں وہ لکھتے ہیں ”چھوٹا قد، گہرا سانولا رنگ، بہت سفید کپڑے، بہت پرکشش آنکھیں اور بے تکان گفتگو، جس میں سیاست زیادہ علم کم“۔ وہ ان کی ایک تقریر کے حوالے سے لکھتے ہیں ”چند تقریروں کے بعد سلامت صاحب نے تقریر کی اور ثابت کر دیا کہ ان کی تحریر میں ہی آگ نہیں ہے تقریر میں بھی الفاظ انگاروں کی طرح نکلتے ہیں“۔ سلامت علی مہدی بہت اچھے مقرر تھے۔ انھیں کسی بھی موضوع پر بولنے کا ملکہ حاصل تھا یہاں تک کہ سیرت کے جلسوں میں سامعین ان کی تقریر سنناا چاہتے علما کی نہیں۔ ان سے بھی حفیظ نعمانی کے قریبی تعلقات رہے۔ بلکہ دونوں نے ایک ساتھ مل کر کام بھی کیا۔ ان کے ایک سکھ دوست کھڑک سنگھ کے واقعات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ انھوں نے سلامت علی مہدی کا اتنا اچھا خاکہ لکھا ہے (اسے میں خاکہ ہی کہوں گا) کہ طبیعت عش عش کر اٹھتی ہے۔ سلامت علی مہدی کے ذہن کی زرخیزی کی بھی متعدد مثالیں دی گئی ہیں۔ انھوں نے پرواز بکڈپو قائم کرنے کے بعد کس طرح اپنے خداداد قلمی جوہر کو استعمال کیا اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ ایک واقعہ انھوں نے لکھا ہے ”دوسرے دن خان محمود طرزی صاحب آئے تو انھوں نے کہا کہ ناول آج مکمل ہو جائے گا۔ سلامت صاحب نے جواب دیا کہ کل آپ ایک نیا ناول شروع کریں گے اور چار باب روز لکھیں گے۔ طرزی صاحب چلے گئے تو سلامت صاحب نے کہا کہ ”زیور“ طرزی صاحب لکھیں گے۔ آپ دیکھیے گا کہ میں دہلی کے سارے ناشروں کو خون تھکوا دوں گا۔ انھوں نے جو کہا وہ کر دکھایا۔ پاکستان کی بہت مشہور اور مقبول مصنفہ اے آر خاتون کے تین ناول سلامت صاحب لے کر بیٹھے۔ محترمہ کے ناول میں لڑکیوں کے لیے بہت کچھ ہوتا تھا۔ بچوں کی پرورش اور کھانے پکانے سینے پرونے کے درجنوں مشورے ہوتے۔ سلامت صاحب نے طرزی صاحب سے کہا کہ کہانی آپ لکھیں گے درمیان میں جو ان کی نصیحتیں ہوںگی وہ میں تیار کر کے دیتا رہوں گا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ملک کے تمام ناشر پاکستان کے تار ہلاتے رہے اور وہاں سے جواب آتا رہا کہ محترمہ خاتون کا کوئی ناول زیور کے نام سے نہ مارکیٹ میں آیا ہے، نہ کسی پریس میں چھپ رہا ہے، نہ یہاں کسی کو معلوم ہے۔ مگر لکھنو ¿ میں ایک ہزار صفحات کا ناول انتہائی خوبصورت کور کے ساتھ مارکیٹ میں بھی آگیا اور پھیل بھی گیا۔ وہ صرف بکا ہی نہیں بلکہ اتنا مقبول ہوا کہ کھڑک سنگھ کو خوشحال کر دیا“۔ ایسے جانے کتنے واقعات سے نعمانی صاحب نے پردہ اٹھایا ہے۔


اس کتاب میں والی آسی پر جو مضمون ہے وہ بھی لاجواب ہے۔ ان کی شخصیت کے متعدد گوشوں پر کھل کر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان کے مکتبہ کے بارے میں بھی ہے اور مشاعروں میں ان کی شرکت اور کامیابی کے بارے میں بھی۔ انھوں نے والی آسی کے متعدد واقعات اس مضمون میں نقل کیے ہیں۔ ایک واقعہ کا ذکر بڑا دلچسپ ہے۔ لکھتے ہیں کہ والی کے تعلقات ان شاعروں سے بھی انتہائی گہرے تھے جو ہر وقت جام و مینا سے شغل فرماتے تھے۔ لیکن والی چائے یا کافی سے کبھی آگے نہیں بڑھے۔ منتظمین مشاعرہ کو حیرت ہوتی تھی۔ جب وہ دریافت کرتے تھے کہ پینے کے لیے کیا لائیں او رکہا پئیں گے؟ جواب میں وہ کہتے تھے کہ وضو کے لیے ایک لوٹا پانی او رجائے نماز لا دیجیے۔ ایک دفعہ پنجاب کے کسی شہر میں مشاعرہ میں غزل پڑھ رہے تھے۔ غزل میں ایک شعر تھا:

شائد آجائے کوئی ہم سے بھی زیادہ پیاسا
بس یہی سوچ کے تھوڑی سی بچا رکھی ہے

داد و تحسین ختم ہوئی تو ایک سردار جی اٹھے او رانھوں نے بیگ سے ایک بوتل نکال کر سامنے رکھ دی کہ پیاسا آجائے تو اس میں سے پلا دینا اور جو بچا رکھی ہے اسے پی لو۔ اس مضمون سے والی آسی کی شرافت نفسی اور دینداری کی ایسی تصویر بنتی ہے کہ رشک ہونے لگتا ہے۔
عمر انصاری، جمیل مہدی، ہاشم رضا عابدی الہ آبادی اور ڈاکٹر سعادت علی صدیقی سے متعلق مضامین بھی ان کی پوری شخصیت کو قارئین کے سامنے کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ عزائم او رجمیل مہدی کے حوالے سے انھوں نے ایسی بہت سی باتیں لکھی ہیں جن کے بارے میں دوسروں کو معلوم نہیں ہوگا۔ اسی طرح دوسری شخصیات کے سلسلے میں بھی ایسے جانے کتنے واقعات ہیں جو کہیں اور نہیں ملیں گے۔

حفیظ صاحب نے اپنی اہلیہ کے انتقال پر جو مضمون قلمبند کیا ہے اس کو پڑھ کر آبدیدہ ہو جانا پڑتا ہے۔ یہ مضمون جہاں ایک انتہائی شریف النفس، دیندار، انسانیت نواز، بے لوث، بے ریا اور شوہر سے حد درجہ محبت کرنے والی خاتون کی ذات پر روشنی ڈالتا ہے وہیں ان کے مائکے کے خاندانی حالات اور خود نعمانی صاحب کے خاندانی حالات کو بھی تیز روشنی میں لاتا ہے۔ آج کے زمانے میں ایسی خواتین ڈھونڈے سے بھی نہیں ملیں گی جو کسی خاتون کے انتقال کے بعد میت کو غسل دینے کے لیے اپنی گاڑی سے دور دراز تک کا سفر کرنے سے نہ کتراتی ہوں۔ وہ جس گھر میں کسی خاتون میت کو غسل دینے جاتیں وہاں دوسری خواتین کو بھی اس کا طریقہ سکھاتیں تاکہ وہ اس سلسلے میں کسی کی محتاج نہ رہیں۔ انھوں نے اپنی بیٹیوں کو بھی اس کا طریقہ سکھایا۔ وہ یہ کام محض اللہ کی رضا کے لیے زندگی بھر کرتی رہیں۔ نعمانی صاحب نے ان سے وابستہ بہت سے واقعات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ باہمی رشتے پر جس طرح سے لکھا ہے ویسا بہت کم لوگ لکھ پاتے ہیں۔ یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔ ”ہمارے بیٹوں نے اپنی ماں سے کہا کہ آپ کا جو مکان سنبھل میں ہے ہم اس کو فروخت کرنے کے بجائے اس میں مسجد بنوا دیں تو اس نیک خاتون نے اپنے اس مکان کو ایک منٹ میں مسجد کے لیے دے دیا۔ میں نہیں بتا سکتا کہ یہ اس مسجد کی برکت تھی یا ان کی فطری دینداری، یا نمازوں کا فیض تھا یا روزوں کا انعام، لیکن میں نے اپنی اہلیہ کو جس سکون، وقار اور نیاز مندی کے ساتھ اپنے پروردگار کے پاس جاتا ہوا دیکھا وہ میری زندگی کا پہلا مشاہدہ تھا“۔


 مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب مختلف شخصیات کی ایک قوس قزح ہے جس میں ہر قسم کے رنگ موجود ہیں۔ کتاب کا ہر مضمون لاجواب ہے اور Exclusive ہے۔ یہ مضامین ایک ایسے شخص نے لکھے ہیںجن کے ان شخصیات سے گہرے اور دوستانہ رشتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے ان شخصیات کے منفی پہلووں کو بھی اجاگر کیا ہے لیکن اس میں نہ تو تنقیص کا پہلو ہے نہ استہزا کا۔ خوبیوں کا ذکر جس وقار سے کیا گیا ہے خامیوں پر گفتگو بھی اسی انداز سے کی گئی ہے۔ ان منفی باتوں سے نہ تو مثبت باتیں بے اثر ہوئی ہیں اور نہ ہی شخصیت پر کوئی حرف آیا ہے۔ ظاہر ہے یہ تحریر کا کمال ہے، قلم کا جادو ہے، جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ حفیظ صاحب اس کتاب کی اشاعت کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مضامین میں کچھ ہے ہی نہیں کہ ان کو کتابی صورت میں شائع کیا جائے۔ یہ ایک بڑے آدمی اور بڑے صحافی کی نشانی ہے۔ کتاب کے شروع میں شامل ان کا ”اعتراف گناہ“ بھی ان کے بڑے پن کی گواہی دیتا ہے۔ کتاب کا مقدمہ معروف ادیب اور شاعر اور حفیظ نعمانی صاحب کے دوست پروفیسر شارب ردولوی نے تحریر کیا ہے جس میں انھوں نے حفیظ نعمانی کی بے شمار خوبیوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو مذکورہ شخصیات کے مطالعے میں بے حد معاون ثابت ہوگی۔ اس کتاب کی ترتیب و اشاعت کے لیے اویس سنبھلی مبارکباد کے مستحق ہیں۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 603