donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syed Anwar Jawed Hashmi
Title :
   Azm Behzad Apni Shayari Ke Aayine Me


عزم ؔبہزاداپنی شاعری کے آئینے میں


سیدانورجاوید ہاشمی

 

کہنے والے  کہتے ہیں اورسننے  والے سنتے ہیں دونوں کاعمل باہمی  طورپرمختلف حوالوں سے سامنے آتاہے۔جسے کہنے کاہُنرآتاہے وہ کہتا چلاجاتا ہے کبھی غوروفکرکے ساتھ کبھی محض اپنی جبلت کے ہاتھوں مجبورہوکر عادت پوری کرنے کے لیے!اگر            کوئی سننے والا نہ ملے تو پھر یاتو وہ کچھ نہ کہے خاموش رہے یا پھرخودکلامی کی کیفیت اپنے اوپرطاری کرلے اورآئینے کے سامنے یا اپنے سائے سے خود ہی کہے اور اپنی آواز کی گونج میں رہنے میں عافئیت محسوس کرے،یا یہ بھی ممکن ہے کہ  ؎

زمانہ بڑے شوق سے سُن رہا تھا۔۔۔:۔۔۔ہمی سوگئے داستاں کہتے کہتے

سماعتوں کا در بھی کبھی کبھی اور کسی کسی پر ہی کھلاکرتاہے سخن ور گویم وگرنہ گویم مشکل کے مرحلے سے گزربھی جائے تب بھی یہی سُنی اَن سُنی کا احوال سامنے آتا ہے کہ ؎

سُنی حکایت ِ ہستی تو درَمیاں سے سُنی
نہ ابتدأ کی خبر ہے نہ انتہأ معلوم!

آج کی یہ نشست جو عزم بہزاد کی شاعری پراظہارِ خیال کے لیے سجائی گئی ہے اس میں محترم خواجہ رضی حیدر،احسن سلیم،عرفان ستار ،لیاقت علی عاصم،احسن سلیم،عرفان ستار،میم م مغل اوریہ خاکسار زبانی و تحریری اپنا نقطہ ٔ نظریا تجزیہ پیش کریں گے سو آغاز ِ کلام کرتے ہوئے کارِ دنیاداری سے کارِ دل(یا مشق ِ سخن)کرنے والے کی شاعری کے آئینے میں شخصیت کی تلاش کا فریضہ اداکرنے کی مہلت سے فائدہ اُٹھالیتے ہیں اوریہ واضح کردیتے ہیں کہ آج کے اجتماع میں مابین ِ شرکائے نشست مفاہمت تو نظر آرہی ہے کسی قسم کا جبر یا مجبوری ہم لوگوں کو درپیش نہیں ،ہم دل لگی کے لیے نہیں بل کہ ’’دل کی لگی‘‘ کو سامنے لارہے ہیں:                                           

اے گروہ ِ  منکران  ِ عشق  اتنا  یاد  رکھ
کارِ دل کرنے سے پہلے ہم بھی دنیا دار تھے

ادب کی موت ،شاعری کا قتل اور سخن شعاروںکی غیر ذمے دارانہ روش کے ساتھ ہی معاشرے کی خرابی کارونا بھی رویا جاتا ہے کہ فن کار،سخن ور اور دانش وران علم و فن کی عزت ،وقعت واہمیت باقی نہیں رہ گئی  اور اب وابستگان شعر و فن اپنے تئیں شہرت و مقبولیت کے لیے گروہی صورت میں بندوبست و اہتمام میں مصروف ہیں سو واضح طور پر عشاق ِ فن اور اس گروہ کے منکران کے مفادات کا سودایاٹکرائو نظرآئے تو کوئی مضائقہ نہیں!                                                             

یہ شکوہ اب فضول ہی ہے کہ معاشرہ اپنے فن کاروں کی قدر نہیں کرتا اس لیے جس معاشرے میں ’قدر‘ یا اقدار تبدیل ہوچکی ہوں اور’معیارِ فضیلت‘کاتاج دنیاداری میں طاق و افضل فرد کے سر پر پہنایا جارہا ہووہاں کارِ عشق کو کیوں کر اور کون اہمیت دے گا؟

شعوری طور پر حال کو ماضی سے مربوط کرتے ہوئے شاعر نے جو بیانیہ پیش کیا وہ اُس کے رسمی تعارف سے آگے کی بات ہے یعنی عشق کس جذبے اور کس کیفیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اس کے مُنکر گروہ در گروہ کیوں ہوتے ہیں؟اوریہ کارِ دل، دنیا داری کو تج دینے کے مترادف کیوںہوتا ہے!سرِآغازعزمؔ کے جس شعرکو پیش کیا گیا اُسے سمجھنے سے قبل یہ جان لیاجائے کہ ’عشق‘کوعبادت یا اصلِ حیات کا درجہ دینے والے کو دُنیا داری ترک کرنے کا دعویٰ بھی کرنا پڑا یا یہ خودوارفتگی بھی انہی کیفیات سے وارد ہواکرتی ہے:

جو یہاں حاضر ہے وہ مثلِ گُماں موجود ہے
اور جو غایب ہے اُس کی داستاں موجود ہے

ہمارے نزدیک شاعری کائنات کا وہ زندہ احساس ہے کہ جو مختلف کیفیات اور مدارج میںانسان کے مقدّر کو بنتا اور بگڑتا دکھاتا ہے یہی احساس شعری فضا کو مرتب کرتا ہے،امیجیز اسی فضامیں پرورش پاتے ہیں جو شاعر کے ذہن سے نکل کر قاری یا سامع کے ذہن میں اپنی تصویرمرتعش کرتے ہیںدرحقیقت یہ فضا شاعر کی تہذیب ِ نفس؛اخذ و اکتساب اور لب و لہجے کی بلندی وپستی کی بہت نمایاں پہچان ہواکرتی ہے:             

اُس جانِ تکلّم کو تُم مجھ سے تو ملواتے
تسخیرنہ کرپاتا  تو  حیران تو کرجاتا

مسخر کرلینے کی کیفیات سے جُداگانہ کیفیات یعنی حیران کردینے کاعالم ان کا تعلق حکمت اوردانائی سے ہے۔اورجسے  یہ حکمت  ودانائی مل جائے اس کے  لیے خیر                       کثیرہے یا دعوے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے۔
ایسے سخن ور کا مقصد یا مطمعِ نظر ہوائی قلعوں کی تعمیر کرنا نہیں بقول مرزارفیع سودا   ؎

ہُنر ہے گرچہ فنِّ  شاعری  آفاق میں سوداؔ
اگر نادان کو پہنچے تو اس میں عیب ہو پیدا

یا جیسا کہ نواب مصطفی خان شیفتہؒ فرماگئے ہیں:

ہمیشہ شعر کہنا کام تھا والا نژادوں کا
سفیہوں نے دیا ہے دخل جب سے بس یہ فن بگڑا

سو آپ ہم دیکھ رہے ہیں کہ فن شاعری پر کیسا بُراوقت آلگا ہے نادانوں نے اگرہُنر کو عیب میں بدل کر رکھ دیا تو دوسری جانب پروفیسر اور ثقافتی ادارے کے ٹھیکے دار بھی اُس عیب کو ہنر قراردینے کے لیے کم کوشاں نہیں!قوافی کی آزادی،نثری نظم کے نام پر الّم غلّم ہفوات بقول مشفق خواجہ ردّیات ادب کے ڈھیر میں اضافے کے سوا کچھ بھی تو ہاتھ نہیں آرہا کسی کے پہلے مجموعے کا تیسرا ایڈیشن تو کسی کے نصف سیکڑہ مجموعے چھَپ کر بھی یہ تاثر سامنے لارہے ہیں کہ میں کتاب نہیں؟اور ہم میں اس کو پڑھنے کی تاب نہیں!ذاتی تجربات و احساسات کی جگہ شعر سامنے رکھ کر شعر گھڑنے یا بنانے (آورد)کی کوششَ مذموم سے حاصل شدہ سستی شہرت کی خواہش ہرچند بیچ راستے میں حالتِ نزع میں ہے پھر بھی یار لوگ قیمت دے کر اور مصنوعی طورپر اس کا تنفس بحال کرنے میں کوشاں ہیں۔ذرابتائیے کہ اس سہل الحصول خواہش مند یاوہ گو کی منزل کاتعیّن کیا جاسکتا ہے !ہرگز نہیں کیوں کہ یہ کارروائی تو تجارتی اصولوں کے پیشِ نظر کی جاتی ہے جسے تخلیق کاری کے زمرہ میں لانا سراسرجہل و نادانی ہے۔دوسروں کے عیوب ہماری نگاہوں میں اور اپنے عیوب پیٹھ پیچھے ہوتے ہیں اس لیے خودکونظرنہیں آتے،جو لوگ اپنی کم زوریوں سے آگاہ ہوجاتے ہیں وہ علی الاعلان اس کا اعتراف کرنے سے ہرگز نہیں ہچکچاتے ؎

جوازِ گریۂ شب ڈھونڈنے نکلا ہوں گھر سے
مگر یہ کیا کہ اُس کوچے کو رسوا کررہا ہوں

یہ اعترافِ حقیقت احساس ِ جُرم کے مصداق نہیںبلکہ شعوری سطح کا اعتراف ہے جو شاعر کو بے خودی کی کیفیات سے دوچار کردیتا ہے اور غالبؔ سے زیادہ اس کو کسی نے محسوس نہیں کیا ہوگا کہ یہ بے خودی بے سبب نہیں ہوتی  ؎

جب تک مری کسی سے رقابت نہیں ہوئی: میںجانتا نہ تھا پس ِ دیوار دیکھنا

پسِ دیوار دیکھنے کے لیے اولوالعزمی درکار ہواکرتی ہے،شاعر کا شعور بیدار ہو تو تخلیقی قوت و پسِ دیوار دیکھنے کی صلاحیت کو نہ صرف بروئے کار لایاجاسکتا ہے بل کہ اسے بآسانی رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ وصف ہمیں عزم بہزاد کے ہاں نظرآتاہے۔بات وہی ہے کہ خودپرستی،خودآگہی یا انانیت ہو کہ معاشرتی تضادات،انتشارواضطراب اور عدم اطمینان و تحفظ کا احساس،خواہ بے کلی و بے قراری کی کیفیات ہوںکہ خوشی نہ ملنے کا غم اور غم سے دوچارہونے کی خوشی۔ کس نئے لمحۂ واردات کا پتہ تو تخلیقی سطح پر دیاجاسکتا ہے مگر عمومی طورپر لوگوں کے لیے کسی قسم کا انکشاف ہرگز نہیں ہوتا۔

شاعری وہی ہے جس میں زبان و بیان کے وسیلے سے شاعر اپنی فکر،اپنے خیال،اپنی ذات کے حوالے پیش کرتا ہے گویا ہم کسی تشکیک کے بغیر یہ کہہ سکتے ہیں کہ شخصی تجربات کی روشنی میں کیفیات کا اظہار تخلیقی عمل ہے سو جس شاعر میں خودآگہی وخودبینی اور دروں بینی بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے اس کی فکر خیالی یا تصوراتی نہیں ہواکرتی بل کہ وہ اپنے ادراک و حواس کے ذریعے اشیاء کی صفات کی آگہی حاصل کرکے ان کے زندگی سے متعلقات کو محسوس کرتا اور دوسروں تک اس کے ابلاغ کا خود کو ذمے دار سمجھتا ہے اور اس طرح داخلی و خارجی عوامل کے اثرات براہ راست شاعری میں درـآتے ہیں،لمحہ بہ لمحہ تخلیق ہونے والی شاعری اس کا اپنا ایک  واضح  سبھائو،برتائو،رچائو ہوتا ہے جسے کمٹ مینٹ سے بھی بڑھ کر اگر کوئی نام آپ کے ذہن میں ہو تو اس وابستگی کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔اس کی آواز میں انسان اپنی روح کی پکار سن سکتا ہے یہی اعتبار سخن کی سند ہے کہ جو ظاہروباطن کی یکسانیت کوخوداعتمادی کے ساتھ پیش کرنے والے کسی بھی شاعر کی شناخت و پہچان بن گئی ہو۔وہ شاعرجو ابھی عزم بہزاد کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے جو تمام ذاتی دکھ درد بظاہر آپ بیتی مگر بباطن گویا یہ بھی میرے دل میں تھا کی صورت بیان کرتا چلا جارہا ہے۔تعبیر سے پہلے ہی اس کے ناآسودہ و آسودۂ تعبیر خواب ہمارے سامنے شاعری بن کے جلوہ گر ہوئے جاتے ہیں اور یہ کہنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ ؎

خواب ہی دیکھتا رہتا تو کوئی بات نہ تھی        
میں نے تعبیر بھی چاہی سو پریشان ہوا            

یہ خوابِ پریشاں کی بات نہیں ہے بل کہ پریشانی کا باعث تعبیر کی خواہش ہے اِس اسلوب اور لب و لہجے کوپیشِ نظر رکھ کر ان اشعار کو دیکھیں ۔وہ حصولِ تعبیر کے لیے کسی کی مدد کا خواہاں بھی نہیں بل کہ اس کا احساس اس طرح اُبھر کے سامنے آتا ہے ؎

یہ سمجھ کر اشارے تری سمت جانے کے ہیں        
اپنے خوابوں کو عُجلت میں ہم رائگاں کرگئے        

اُس کے (اور اگر ہم سمجھیں تو خود ہمارے بھی) جذبات سخن میں ڈھل کر سچائی و صداقت کا ادراک بخش رہے ہیں ان لمحات میں جو شاعر کے لیے زندہ حقیقت میں بدل گئے ؎

تمھارے قُرب میں ہمیں سکوں نہیں ملا کبھی        
یہ  اور  بات  وحشتوں  میں  اعتدال آگیا        

اعتدال و توازن تسکین ِ قلب احساس اور مشاہدے کے مختلف انداز اور ان کا اظہار عزم کی سچائیوں کی دلیل بن گئے خواب دیکھنے کے بعد تعبیر کی خواہش سے پریشان ہونے کا احساس اور اپنے خوابوں کا عجلت میں رائگاں کیا جانا معمولی یا غیر اہم بات نہیں ہے۔ایک اور خواب دیکھ لیں ؎

میںنے کل خواب میں آئندہ کو چلتے دیکھا        
رِزق اور عِشق کو اِک گھر سے نکلتے دیکھا        

اس حیاتِ چند روزہ میں ہماری مساعی و تگ و دو  کے ماحصل اولاً رزق اور ثانیاً عشق ہی تو ہیں۔مادّی اور روحانی آسودگی کے لیے انسان کی ان دو بنیادی ضرورتوں بل کہ رزق کی وسعت کا اندازہ کریں تو بیشترکا چھن جانا یا چھینے جانے کے اندیشے                        کسی المئیے سے کم نہیں  اگریہ خواب سچا ہوا تو؟یہ اشاریت،رمزوکنایہ،ہجرووصال،حسن وعشق،رقابت و رفاقت کی داستانِ دل گُداز و دل خراش تو مانو سب سنی سنائی باتیں ہیں آدمی جب تک خاموش رہے اُس کے بارے میں کوئی رائے قایم کرنا آسان کہاں ہوتا ہے گفتگو سے ہی تو عیب و ہنر کُھل کر سامنے آتے ہیں    ؎                        

یہ کھیل  درمیانِ  نگاہ  و  دریچہ  ہے     اس دائرے میں اتنے تماشائی کس لیے    

باورکرلیجیے کہ یہ کوئی جارحانہ لب و لہجہ نہیں نہ ہی آپ اس کودائرے میں آنے سے روکنے کا مقصد قراردیجیے گا یہاں احسن سلیم کی اس رائے کوہم مناسب و متوازن کہہ سکتے ہیں ’’عزم بہزاد کی قوتِ فکر ہی اُن کا سرمایہ ہے اس قوتِ فکر سے ایک بے داری اور حوصلہ مندی میسرآتی ہے‘عزم بہزاد عصرِرواں کے ان خوش طبع اور ذی شعور سخن وروں میں شمار کیے جاسکتے ہیں جنہیں جذبات و احساسات کی مصوری اوراظہارِ خیال میں کمال حاصل ہوتا ہے ہرچند کہ وہ بھی اسی معاشرے کا فرد ہیں جو ہماری طرح سانس لے رہا ہو۔اپنے ذاتی کرب و الم ،انسانوں کے دُکھ درد اور ذاتی تجربے کی بنیاد پر فن کو وجہ ٔ شہرت و عظمت بنانے میں اُس کی قوت فکر و نظر کو خاصا دخل ہے‘‘۔احسن سلیم کی رائے سے آپ اتفاق و اختلاف کا پورا حق رکھتے ہیں:

 تمام عمر مروت کی نذر کرڈالی
 ہمیشہ خود سے بچا دوسروں پر ناز کیا

    ***************************


      

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 597