donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tareekhi Paare
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Moqeet Abdul Qadeer
Title :
   Saqoot Khelafat : Kya Musalman Ise Bhula Chuke Hain

 

سقوط خلافت : کیا مسلمان اسے بھلاچکے ہیں ؟ 
 
عبدالمقیت عبدالقدیر ، بھوکر
 
 
سقوط خلافت کو تقریباً 90 سال ہوگئے۔ دیگر حادثات کا غم منانے کے لیے فرصت تو ہے مگر اس المیہ پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ کیا ہمارے نزدیک ملک کا یوم جمہوریہ اور قومی واقعات اس قدر قابل اہمیت ہے کہ ملت کی سانحہ عظمیٰ کی کوئی حیثیت نہیں؟ ہمارے صحافی، تبصرہ نگار، کالم نویس اور مراسلہ نگار سبھی لوگ ملک کی یوم آزادی یا پھر کسی رہنما کی یوم ولادت اور یوم وفات پر تعریفوں بھرے مضامین اور تحریریں لکھتے ہیں ، اس پر مزید المیہ یہ کہ تمام اخبارات جو ملت کے ترجمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ سب ان ایام میں خصوصی ضمیمے نکالتے ہیں جن کی ملٹی کلر پرنٹنگ بھی ہوتی ہے ۔ مگر خلافت اور اس کا زوال شاید ہمارے لیے زیادہ اہم نہیں رہا۔ اسے غفلت کا نام دیں یا پھر اپنی بے حسی کا؟ اللہ معافی مانگنے والوں کو پسند کرتا ہے اور بڑا معاف کرنے والا ہے ۔ اسی رب غفور سے دعا ہے کہ وہ ہماری بے حسی کو نظر انداز کرے اور ہمیں معاف کردے۔ آمین۔
یہ جنگ کیوں چھڑی ؟
جب تک دنیا کا نظام اہل اسلام کے ہاتھ رہا اس نے اس طرح کی تباہ کاریوں سے دنیا کو بچائے رکھا اور چنگیز خان، ہلاکو جیسی آفتوں کو خود کے سینے پر جھیلا۔ اسی ایثار و قربانی کے نتیجے میں اللہ نے دشمنو ں کے دل بدل دیے اور صنم خانوں سے کعبے کے پاسباں نکل آئے۔ خلافت وقت و حالات کے اعتبار سے کمزور ہوتی چلی گئی۔ خلیفہ تمام دنیا کے روحانی پیشوا سے زیادہ نہ رہا۔ چین سے لیکر اسپین تک افریقہ سے لے کر یونان و روم تک جو خلافت پھیلی ہوئی تھی اب اس میں ہر خطے میں بادشاہی نے سر اُٹھایا مگر کوئی بھی مسلم بادشاہ خلیفہ کے خلاف جانے کی ہمت نہیں کرسکا۔ اٹھارہویں صدی کے آتے آتے خلافت اپنا دبدبہ کھوچکی تھی اور انیسویں صدی میں کمزور ہوچکی تھی۔ 
دنیامیں سائنسی انقلابات آگئے جن کا راست فائدہ یور وپی اقوام نے اُٹھایا۔ بڑے بڑے کارخانوں کا جال سارے یوروپی ممالک میں بچھ گیا۔ اب اپنے مال کو کھپانے کے لیے انھیں بڑی بڑی تجارتی منڈیوں کی ضرورت پیش آئی ان ضروریا کی تکمیل کے لیے نوآبادیات کی طرف توجہ دی گئی۔ ایشیاء کے بڑے اور اہم حصوں پر انگلستان قابض تھا۔ جس سے ٹکر لینا دیگر یورپین ممالک کے لیے آسان نہیں تھا اس لیے سبھی کی توجہ افریقہ کے مالدار علاقوں کی طرف بڑھنے لگی۔ نئے صنعتی انقلاب نے صرف صنعتوں کو ہی ترقی نہیں بخشی بلکہ اسلحہ سازی کو بھی عروج بخشا ۔ یوروپی ممالک نے ان مواقع کا فائدہ اُٹھا کر فوجی قوت میں اضافہ کیا۔ اس اسلحہ کی ترقی و فوجی اضافے نے تمام یورپین ممالک کو آپس میں ایک دوسرے سے عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یوروپی ممالک اپنی طاقت بڑھانے اور اپنے دشمن کو کمزور کرنے کے لیے آپس میں اپنے ہم مفاد ممالک سے دوستی کی کوشش کرنے لگے۔ جرمنی نے آسٹریا اور اٹلی سے ملکر ایک خفیہ معاہدہ کیا۔ حالات کا جائز ہ لیتے ہوئے انگلستان نے فرانس کے ساتھ معاہدہ کیابعد ازاں اس میں روس بھی شامل ہوگیا۔ 
مملکت اسلامیہ ( خلافت عثمانیہ) کی جنگ میں زبردستی گھسیٹ:
مملکت اسلامیہ ان حالات میں ان سب سے دور تھی ۔ اس نے نہ اپنے لیے کسی نئی نوابادی کی تلاش کی اور نہ ہی کسی قسم کی جدید اسلحہ سازی میں دلچسپی دکھائی تھی۔ یوروپین اقوام نے بلقان میں خلیفہ کے خلاف منظم بغاوت کروائی جس کا واحد منشا مملکت اسلامیہ کو یوروپ کی آپسی جنگوں میں زبردستی شامل کرنا تھا۔ اسی دور میں جرمنی نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے مملکت اسلامیہ کا استعمال کرناچاہا اور خلیفہ کے سامنے برلن تا بغداد ریلوے لائن کی پیش کش کرتے ہوئے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تاکہ جرمنی کے تجارتی مفادات کی تکمیل ہو سکے۔
جنگ کی ابتدا: 
انیسویں صدی کے اوآخر میں مسلم خلافت کافی کمزور پڑ چکی تھی جسکا فائدہ اُٹھا کر سربیا (1882) اور بعد ازاں بلغاریہ(1908) نے بغاوت کرتے ہوئے آزادی کا اعلان کردیا، اس بغاوت کو راست کلیسا اور یوروپی اقوام سے حمایت و مدد حاصل رہی ۔ یوروپی ممالک ایک دوسرے کے خلاف مواقع کی تلاش میں تھے موقعہ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے آسٹریانے 28 جولائی 1914 میں سریبا پر حملہ کردیا جس پر سربیا کی مدد کے لیے روس نے اپنی فوجیں اتار دیں ۔ آسٹریا اور جرمنی میں معاہد ہ تھا اس لیے جرمنی بھی اس جنگ میں روس کی مخالفت کرتے ہوئے آدھمکا۔ اتنے میں روس میں سن 1917 بالشیوک انقلاب آیا جس کی وجہ سے روس کی خارجہ پالیسی بدل گئی اور روس اس جنگ سے پیچھے ہٹ گیا۔ روس کے ہٹتے ہی امریکہ نے روس کی جگہ لے لی ۔ اس طرح اس جنگ میں جرمنی ۔ آسٹریا اور اٹلی مرکزی طاقت اور ان کے خلاف لڑنے والوں میں انگلستان ، فرانس اور روس ( روس کے بعد امریکہ )اتحادی ممالک کے طور پر جنگ میں شامل ہوگئے۔ جرمنی نے آبدوزکے ذریعے امریکی جہازغرق کردیا جس کا بہانہ بنا کر امریکہ جنگ میں داخل ہوگیا جس کے داخل ہوتے ہی جنگ میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ تمام مرکزی طاقتوں نے یکے بعد دیگر ہتھیار ڈال دیے اور آخر میں جرمنی بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگیا اور نومبر1918 کو جرمنی نے ہتھیا ر ڈال دیے۔ معاہدہ ورسلیز کو طے کیا گیا جس پر انجمن اقوام League of Nation ) )کے ذریعے اکتوبر 1919 میں عمل آوری ہوئی ۔ جس کی رو سے تمام مرکزی طاقت والے ممالک نے اپنے علاقے واپس کردیے اور اس جنگ میں ہوئے مالی نقصانات کی بھر پائی بھی مرکزی طاقت کو کرنی پڑی جس میں سب زیادہ بوجھ جرمنی کے حصے میں آیا۔
خلافت عثمانیہ: 
ترکی میں اب بھی خلافت عثمانیہ قائم تھی۔ ترکی ( عالمی مملکت اسلامیہ ) پر یہ الزام لگایا گیا کہ اس نے مرکزی طاقتوں سے ساز باز کی اس لیے ترک فوج کے ذریعے بغاوت کرواکر خلیفۃ المسلمین عبدالمجید ثانی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ۔ ان سب میں ترک کمانڈر مستفا کمال پاشاہ ( اسے مصطفی نہیں لکھنا چاہیئے ) خلافت کے عہدے کو برخاست کرنے میں پیش پیش رہا۔
اس جنگ کا اثر مرکزی اور اتحادی ممالک سے زیادہ مملکت اسلامیہ پر کیسے ہوا یہ ایک پہیلی ہے۔ لڑنے والے تو کب کے دوست بن گئے مگر مسلمانوں کا روحانی پیشوا برطرف کردیا گیا ۔ یہ المیہ کیسے ہوا اس کی کیا وجوہات رہیں اس پر اہل علم کو ضرور توجہ دینی چاہیے۔ ایک مملکت عظمیٰ جس کی حکومت مشرق میں چین تا مغرب میں اسپین تک، شمال میں روس تو جنوب میں وسط افریقہ تک پھیلی ہوئی تھی ، جس کا سربراہ محض ایک بادشاہ کی نہیں بلکہ دنیا کے مسلمانوں کا روحانی پیشوا تھا اسے اس کے عہدے سے برطرف کیسے کردیا گیا؟
وہ ملت جو دنیا کو اندھیروں سے نکال کر اجالوں میں لائی۔ جس کے علم و ہنر سے سارا جہاں روشن ہوا ۔ جس کے ماننے والوں نے امن و انصاف کی جو مثالیں قائم کی کہ دشمنان اسلام بھی انکی تعریف کرتے نہیں تھکتے ۔ جس نے میڈیکل، تاریخ جغرافیہ، سائنس، فلکیات ،ریاضی غرض علم کے ہر شعبے میں رہنمائی کی وہ آخر دنیا کے انقلابات سے بے خبر کیسے رہ گئی ۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر سوچنے والے کو بے چین کیے بغیر رہ نہیں سکتے مگر صرف بے چین ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اب ماضی کی غفلتوں سے سبق لے کر ہمیں دوبارہ اپنا منصب حاصل کرنا ہے ۔ 
اللہ تعالی کاارشاد ہے کہ ’’ ط ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیرو ما بانفسھم ط ( الرعد :۱۱
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف نہیں بدل دیتی‘‘
اب اس دور میں مسلمانوں کی رہمنائی کی لیے کوئی پیغمبر آنے والا نہیں ۔ اللہ نے اپنا دین مکمل کردیا ہے ۔ اس کے نبیؐ نے اللہ کا پیغام مکمل پہنچا دیا ہے ۔ قرآن میں اللہ باربار اپنی بات کو دوہر ا رہے ہیں کہ ’’ ولقد یسرناالقرآن للذکر فھل من مدکر ‘‘( القمر) ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنادیا ہے ،پھرکیا ہے کوئی جونصیحت قبول کرے؟ اللہ تعالی ہم سے مطالبہ کررہے ہیں کہ کوئی ہے جو نصیحت قبول کرے ایسے میں اگر ہم اپنے رب کی بات نہ مان کر جہالت میں بھٹکنا پسند کررہے ہیں تو اللہ کے عذاب کے مستحق ہی بنیں گے ۔ یہ عذاب ہی کی ایک شکل ہے آج امت مسلمہ اس قدر ذلیل و رسواہورہی ۔ ہمیں اللہ سے کیے ہوئے عہد کی دوبارہ تجدید کرنی ہوگی۔ ائے اللہ ہم تیری ہر نافرمانی سے پناہ مانگتے ہیں اور تجھ سے سوال کرتے ہیں تیری رضا کا، تیری نعمتوں کا جنھیں تو نے اپنے نیک بندوں پر برسایا اور تمام گمراہیوں اور تیرے غضب سے تیری ہی پناہ مانگتے ہیں کہ کہیں ہمارا حال بھی تیری غضب شدہ اقوام سا نہ ہوجائے ۔ آمین
----------------------------
عبدالمقیت عبدالقدیر ، بھوکر
سخن فروش ہوں داد ہنر کمانی ہے
+++++++++
Comments


Login

You are Visitor Number : 603