donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tareekhi Paare
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Hussain Ahmad Paracha
Title :
   Aye Allah Main Ne Yeh To Nahi Manga Tha


اے اللہ میں نے یہ تو نہیں مانگا تھا...


ڈاکٹرحسین احمد پراچہ


’’یہ دسمبر 1971کی ایک انتہائی یخ بستہ رات تھی۔ میں دن بھر مشقتی کی ڈیوٹی دے کر اپنی کوٹھڑی میں گہری نیند سو رہا تھا۔ اچانک میری کوٹھڑی کے کواڑکوئی زور زور سے بجانے لگا۔ انار خان جاگو جلدی سے دروازہ کھولو۔ میں نیند سے ہڑ بڑا کر اٹھا ۔میں نے پوچھا تم کون ہواوررات گئےدروازہ کیوںپیٹ رہے ہو۔ تم میری آواز کیوں نہیںپہچانتے میںا سپیشل برانچ کا آفسرخواجہ طفیل ہوں ۔میں نے کہا آپ چاہےکوئی بھی ہوں میں جیل قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آدھی رات کودروازہ نہیں کھول سکتا۔ اب خواجہ طفیل کا صبر جواب دینے لگا۔ انہوںنے مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا جلدی سے دروازہ کھولو اس وقت تمہاری اور شیخ مجیب الرحمٰن کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ میں نے دروازے کے نیچے سے چابی باہر سرکادی۔ خواجہ طفیل نے اس چابی سے میرا دروازہ باہر سے کھولا اور پھر مجھ سے چابی لیکر شیخ مجیب الرحمٰن کا کمرہ کھولا اور انہیںگہری نیند سے جگایا۔ اس وقت شب کےڈھائی بجے کا عمل ہو گا۔ رات کے اس پہر میں عموماََ مجرموں کو پھانسی دی جاتی ہے۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے بار بار پوچھا کہ کیا آپ مجھے پھانسی گھاٹ کی طرف لے جارہے ہیں۔ اس پر خواجہ طفیل نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ ایسا نہیں ۔البتہ یہاں آپ کی جان کو خطرہ ہے۔خواجہ طفیل شیخ مجیب الرحمٰن اور مجھے گاڑی میں بٹھا کر میانوالی ہی میں کسی ویران کوٹھی پر لے آئے اور چابی سے ایک کمرہ کھولا ۔اس کمرے میں صرف ایک چارپائی اور ایک کرسی تھی۔ میں نے شیخ مجیب الرحمٰن سے کہا بابا !آپ چارپائی پر آرام کریں میں کرسی پر بیٹھ جائوں گا۔ اگرچہ کمرے میں ہیٹر جل رہا تھا مگر شدید سردی میں وہ ناکافی تھا۔ اس وقت تک سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ پیش آ چکا تھا اور ڈر یہ تھا کہ کہیں کچھ لوگ میانوالی جیل پر حملہ کرکے شیخ مجیب الرحمٰن کو قتل نہ کر دیں۔ اس خدشے کے پیش نظر شیخ مجیب کو فوری طور پر جیل سے نکالا گیا۔ اگلے دو تین روز میں ہمیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے سہالہ ریسٹ ہائوس راولپنڈی لایا گیا ۔ہماری یہاں آمد کے دو تین دن بعد ذوالفقار علی بھٹو شیخ مجیب الرحمٰن سے ملاقات کے لئے آئے۔ ابھی تک شیخ مجیب الرحمٰن سقوطِ ڈھاکہ ،ہندوستانی فوج کے سامنے پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے سانحے وغیرہ سے بالکل بے خبر تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے کمرے میں دیکھ کر شیخ مجیب الرحمٰن بہت حیران ہوئے ۔ علیک سلیک کے بعد مجیب الرحمٰن نے بھٹو سے پوچھا کہ آپ یہاں کیسے آئے۔ بھٹو نے بتایا کہ سقوطِ ڈھاکہ مشرقی پاکستان کا واقعہ رونما ہو چکا ہے ۔ہندوستانی فوج اس وقت مشرقی پاکستان میں ہے اورباقی ماندہ پاکستان کا میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر ہوں۔ یہ سن کر شیخ مجیب الرحمٰن آگ بگولہ ہو گئے ۔ غصے سے لال پیلے ہوتے ہوئے وہ اپنی سیٹ سے اچھل کرکھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا یہ کیسے ممکن ہے۔ تم کیسے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے ۔اکثریتی پارٹی تو میری ہے ملک کا سربراہ تو مجھے ہونا چاہئے ۔ انہوں نے بھٹو سے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ مجھے ابھی ٹیلیویژن اور ریڈیو پر لے چلو میں ابھی اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان نہیں ٹوٹا۔بھٹو نے شیخ مجیب الرحمٰن سے کہا کہ وہ جذبات پرقابو پائیں اور ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ موجودہ صورتِ حال کو سمجھیں ۔جب مجیب الرحمٰن دوبارہ صوفے پر بیٹھ گئے اور ماحول میں تنائو قدرے کم ہو گیا تو شیخ مجیب الرحمن نے بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر بھٹو! تم نے بالاخر وہی کر دکھایا جو تم نے کہا تھا کہ ’’ادھر ہم اُدھر تم ‘‘۔اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو شیخ مجیب الرحمٰن کی بنگلہ دیش روانگی کا بندوبست کرنے کا کہہ کر رخصت ہو گئے ۔اُن کے جانے کے بعد شیخ مجیب الرحمن سجدے میں گر گئے اور انہوں نے بڑے ہی جذباتی انداز میں گڑ گڑا کر اور رو رو کر کہا’’ اے اللہ میں نے یہ تو نہیں مانگا تھا‘‘۔میرا ہدف متحدہ پاکستان تھا۔ پھر ایسا بھیانک منظر کیسے پیدا ہو گیا‘‘۔سقوطِ ڈھاکہ کے بعد مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو کی ملاقات کا یہ آنکھوں دیکھا حال 43برس بعد پہلی مرتبہ منظر عام پر آیا ہے یہ کہانی راجہ انار خان نے سینئر صحافی مجیب الرحمٰن شامی کو ایک انٹرویو میں سنائی۔ راجہ انار خان اس وقت ا سپیشل برانچ پولیس میں بطورسب انسپکٹر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کی حفاظت اور نگرانی کے فرائض بطور ایک جیل مشقتی کے لئے تقریباََ دس ماہ تک انجام دیئے۔


اس سو فیصد سچی کہانی سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وطن عزیز میں قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد کیسی کیسی سازشیں پروان چڑھتی رہیں قدم قدم پر جمہوریت کا راستہ کیسے روکا گیا ۔ آج25دسمبر قائدا عظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش ہے ۔ رحمت ایزدی جب کسی قوم پر مہربان ہوتی ہے تو اسے کوئی ایسا رہنما عطا کر دیتی ہے بھٹکی ہوئی قوم کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے ۔اور اپنی کرشماتی شخصیت سے تاریخ عالم کا رخ موڑ دیتا ہے ۔ایسے عالمی قائدین کی تعداد تو اور بھی کم ہے جو اپنے ارادے کی قوّت سے دنیا کا نقشہ بدل دیں ۔ اسٹینلے والپرٹ نے بجا طور پر لکھا ہے کہ ساری حالیہ تاریخ میں ہمیں صرف ایک نام ایسا ملتا ہے جس نے اپنی مضبوط قوّت ارادی سے ایک قومی ریاست قائم کرکے دنیا کا نقشہ بدل دیا ۔اسی لئے تو میر تقی میر نے کہا تھا

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے

جب ربّ ذوالجلال کسی قوم کی طرف سے منہ موڑ لیتا ہے تو اسے قحط الرجال کی اذیت ناک صورت حال سے دو چار کر دیتاہے۔ ہم کئی دہائیوں سے اسی قحط الرجال کا شکار ہیں ۔اس دوران ہمارے جو قائدین سامنے آئے وہ بہت کوتاہ نظر اور کوتاہ اندیش تھے۔ وہ اپنی ذات یا اپنے اعزّہ واقارب کے مفادات سے کچھ آگے نہ دیکھ سکے اورنہ سوچ سکے۔ انہوںنے اپنی قوم کے غریب اور متوسط لوگوں کی کمزوریوں اور مجبوریوں کا نہایت بے دردی سے استحصال کیا اور اپنی انا پرستی اور مفاد پرسی کی خاطر قانون وآئین کی دھجیاں اڑاتے چلے گئے اور ہمیں بدامنی ، دہشت گردی ،مالی بدعنوانی اور لاقانونیت کے تہہ در تہہ گرداب میں پھنسا گئے۔آج اگر قائد اعظم محمد علی جناح ؒحیات ہوتے تو سانحہ پشاور دیکھ کر اُن کا دل پارہ پارہ ہو جاتا۔ وہاں پھول سے بچوں کے معصوم خون سے جس سفاکانہ انداز میں ہولی کھیلی گئی قائداعظم کبھی اس کا تصور بھی نہ کر سکتے تھے۔سانحہ پشاور دہشت گردی کی ان کارروائیوں کا نقطہ ٔعروج تھاجن کا ہم گزشتہ ایک دہائی سے نشانہ بن رہے ہیں۔ اسی طرح قائد اعظم کے محبوب شہر کراچی میں گزشتہ تین چار دہائیوں سے جاری ٹارگٹ کلنگ،بوری بند لاشوں ،بھتہ خوری اور ٹارچر سیلوں کے ذریعے جو تذلیل آدمیت جاری ہے وہ بھی قائد اعظم کے وہم وگمان میں کبھی نہ آسکتی تھی۔ ایسے ہی بلوچستان فرقہ پرستی ،علیحدگی پسندی اور نسلی منافرت کی آگ میں جل رہا ہے اور یہ انتہائی پرامن صوبہ اب ایک آتش فشاں کا روپ دھار چکا ہے ۔آج اگر بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح زندہ ہوتے تو وہ سقوطِ ڈھاکہ سے لے کر سانحہ پشاور تک کی صورتِ حال پر کتنے آزردہ خاطر ہوتے۔اسی لئے تو ڈاکٹر خورشید رضوی نے کتنی دل سوزی کے ساتھ قائد کے لئے یہ شعر کہا ہے کہ

میں وہ محروم کہ پایا نہ زمانہ تیرا
تو وہ خوش بخت کہ جو میرے زمانے میں نہیں

پاکستان کو علامہ اقبال ؒ کے خوابوں کی تعبیر اور قائد اعظم ؒ کے وژن کی تصویر بنانے کی بجائے ہمارے بعض قائدین نے اسے غیروں کے ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہوئے دہشت گردی اور قتل وغارتگری کی آماجگاہ بنا دیا ہے ۔ اسی لئے قائد اعظم آج اپنی آخری آرام گاہ میں کتنے بے آرام ہوں گے اور سوچتے ہوں گے اور اپنے رب سے فریاد کرتے ہوں گے اے خدا! میں نے ایسا پاکستان تو نہیں مانگا تھا۔

hussain.ahmed@janggroup.com.pk

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 583