donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tareekhi Paare
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Mithla Ka Adbi Aur Sakhafti Manzar Nama

متھلاکاادبی اورثقافتی منظرنامہ
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
ہندی اور میتھلی ہر رنگ کی کھلتی کلی
اس کانہیں جواب خوشبوبھی بے حساب
 
جغرافیائی خاکے پر اگر نظرڈالی جائے تو متھلا کی سرزمین پر پہاڑی سلسلے نہیں ملیں گے۔یہ ہمالہ کی ترائی میں بسا ہوا ایک ایسا علاقہ ہے جسے میدانی علاقہ کہا جاتاہے۔ اس میدانی علاقے میں باغ اور کھیتوں کے دراز سلسلے نظر آئیں گے اس کے علاوہ ندیوں کے بھی سلسلے یہاں موجود ہیں۔ کم محنت میں کاشتکاری، باغبانی یہاں کے لوگ کرتے رہے ہیں۔ قدیم زمانہ ہی سے دیہی علاقوں میں پختہ مکانات بنانے کاسلسلہ نہیں رہا ہے کیوں کہ یہ علاقہ عموماًسیلاب کی زد میں رہتا ہے ندیاں اپنے راستے بھی بدل دیتی ہیں۔ یہ علاقہ کافی زرخیرہے یہاں کے لوگ نرم اور میٹھی زبان بولتے ہیں جسے میتھلی کہا جاتاہے یہ علاقہ روحانی مرکز بھی رہا ہے۔ یہاں بڑی تعدادمیں خانقاہ اور مٹھ موجود ہیں۔ یہاں قدیم مساجد، منادراور دیگر مذہبی مقامات کی کمی نہیں ہے۔ سنسکرت کے مہاکاویوں میں اس علاقہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سیتاجی کاسوئمبر بھی اسی علاقہ میں رچایا گیا تھا۔ یہاں کے لوگ عام طور پر پکاہوا کھانا زیادہ پسند نہیں کرتے۔ چوڑا اور دہی ان کی مرغوب غذاہے۔ برہمن عام طور پر گوشت اور مچھلی نہیں کھاتے لیکن پسند کرتے ہیں اور سادہ زندگی گذارتے ہیں۔ پاگ، پان، مچھلی اور مکھانا کیلئے بھی یہ علاقہ مشہور ہے یہاں کے آم بھی شہرت کے حامل ہیں۔ یہاں کے قدیم علوم وفنون میں زائچہ بنانا ، علم نجوم میں دلچسپی رکھنا اور سنسکرت کواوڑھنا بچھونا بنانا عام ہے۔ برہم کلچرحاوی ہونے کے سبب یہاں،ورن ویوستھا، ذات پات کانظام پر سماج کاڈھانچہ بخوبی دیکھا جاسکتاہے۔ متھلا کاقلب جوپنڈول کے گردونواح کاعلاقہ مانا جاتاہے وہاں اگنا، نام کا ایک شخص جو ودیاپتی کاخدمت گذارتھا مشہورہواجسے شوجی کاوتار مانا جاتاہے۔ ودیاپتی کی شاعری میں گہرے تشبیہی امکانات اور نقوش کے پہلودیکھنے کوملتے ہیں۔ ودیاپتی نے ایک ادبی تحریک کوجنم دیا جواس علاقہ کی علاقائی زبان کے لئے ایک ایسا نمونہ ہے جس سے بعد میں آنے والی نسل بھی فیض یاب ہوتی رہی ۔یہ یاگیہ ولکیہ اور کپل منی کی سرزمین ہے۔ یہاں بابا ناگ ارجن جیسے مقبول شاعروادیب پیداہوئے جن کی تخلیقات میں متھلااور میتھل تہذیب وثقافت کوآسانی سے دیکھا جاسکتاہے۔ یہ علاقہ اپنی پننگس کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے جومتھلا پننکش کے نام سے معروف ہے پننکس کی دنیا میں اسے اہم مقام حاصل ہے۔ پہلے یہاں کی خواتین گھر کی دیواروں پر گوبرسے اس کانمونہ بناتی تھیں۔ اب اس پنٹنگ کی پھیلی ہوئی شکل کینوس ،کپڑے اور دیگر اشیاء پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ غیرممالک میں بھی اس پنٹنگ کوبہت مقبولیت حاصل ہے۔ متھلاپننکس بڑی حدتک اس علاقہ کی خواتین کی تخلیقی محنت کاثمرہ ہے۔ یہ علاقہ کثیرآبادی کاعلاقہ ہے یہ بہارکے شمال میں ہے اور جنوبی بہارکے مقابلہ میں یہاں زیادہ گھنی آبادی ہے۔ برسوں سے یہاں برہمنوں کی بالادستی رہی ہے۔ اس علاقہ میں یونانیوں کابھی اثررہا، مغل بھی آئے، راجے مہاراجے بھی رہے، زمینداروں کادوردرہ بھی رہا لیکن جنوبی بہار کے مقابلے میں یہاں غربت ہونے کے باوجوداس طرح کی بے چینی اور تشددکاماحول اورجاگیردارانہ نظام کے خلاف بغاوت کی کوئی تیزلہرنہیں رہی۔ آج بھی کچھ نکسلی تنظیمیںیہاں سرگرم عمل ہیں لیکن نیپال کی طرح مائووادیوں کی طرزپرکوئی تحریک نہیں ابھری۔ کثیرآبادی اور غربت کے باوجودمغلوں اورفرنگیوںکے آنے کے بعد بھی یہاں امن وشانتی برقراررہی اور آج بھی برقرارہے اس سرزمین میں محبت ہی محبت رچی بسی ہے۔ یہ علاقہ قومی یکجہتی کی مثال ہے جہاں کاہر فردعلامہ قبال کے اس شعرکامجسم پیکرہے؛
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیررکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستان ہمارا
اس علاقہ کے لوگ جب الوطنی کی مثال قائم کرتے رہے ہیں وہ اس بات پریقین رکھتے ہیں کہ
ان کاجوکام ہے وہ اہل سیاست جانیں
میراپیغامِ محبت ہے جہاں تک پہنچے
جہاںتک دربھنگہ کی وجہ تسمیہ اور شہر کے آبادہونے کی تاریخ کی بات ہے تواس ضمن میںمختلف روایتیں ہیں۔ بعضے دربھنگہ کو’’دربنگال‘‘ کی بگڑی ہوئی شکل بتاتے ہیں ۔ولیم ہنٹرنے ’’امپیریل گذٹ آفانڈیا‘‘لندن مطبوعہ ۱۸۸۵ءاور اومیلے نے بنگال گزیٹرکلکتہ مطبوعہ ۱۹۰۷ء میں دربھنگی خاں زین العابدین خاں، کوبائی دربھنگہ اوردربھنگہ کوان کے نام سے منسوب کیاہے جس کی تائید مورخ پی سی رائے چودھری نے بھی بہار ڈسٹرکٹ گزٹ دربھنگہ مطبوعہ۱۹۶۴میں کی ہے۔منشی بہاری لال فطرت نے’’آئینہ ترہت، میں دربھنگہ کوسنسکرت کے مرکب لفظ،داروبھنگ، سے ماخوذبتایاہے۔ کیونکہ سنسکرت میں دارو، کے معنی لکڑی اور،بھنگ، کے معنی کاٹناہے، ڈاکٹر ظہیرناشاددربھنگوی نے بھی اپنی کتاب، دربھنگہ میں اردو، میں بہاری لال فطرت کی تائیدکی ہے۔ جناب حسن امام دردنے اپنے مضمون ،متھلا اورادب ،مطبوعہ نقاش کلکتہ شمارہ عیدنمبر۱۹۴۶ءمیں ’در‘کے معنی کاٹنااور ’بھنگا‘کے معنی فرارشدہ بتایاہے جس سے مترشح ہوتاہے کہ سلطان غیاث الدین تغلق کے حملہ سے راجہ ترہت ہرسنگھ دیوجنگلوں میں فرارہوگیا تو سلطان نے جنگل کٹواکراسے گرفتارکیااوراس جنگل سے صاف مقام پرجوآبادی بسی وہ دربھنگہ سے موسوم ہوئی۔
 
اسی طرح شاداں فاروقی کی کتاب، بزم شمال، مطبوعہ ۱۹۸۶ء ،ڈاکٹر آغاعمادالدین کی کتاب ’وادی بالان‘مطبوعہ ۱۹۹۵ کراچی پاکستان ،ڈاکٹر عبدالمنان طرزی کی کتاب، رفتگاں وقئماں منظوم، ۲۰۰۲،پروفیسرشکیل الرحمن کی کتاب، دربھنگے کاجوذکرکیامطبوعہ،۲۰۰۴غلام فریدکی کتاب نقوش علی نگر، مطبوعہ ۲۰۰۵وغیرہ کتابوں سے متھلاکے جونقوش ابھرت ہیں اس سے دربھنگہ کاتاریخی پس منظرجلوہ گرہوتاہے۔
 
ریاض ترہت، ازمنشی اجودھیاپرساد بہار، مطبوعہ ۱۸۶۸اور آئینہ ترہت ازمنشی بہاری لال فطرت مطبوعہ ۱۸۸۳ کے مطابق مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے میتھل برہمن رگھونندن ساکن موضوع رام پورپرگنہ گورکواس کے علم وکمال سے متاثرہوکر۱۵۵۸ میں خطاب پنڈت رائے اور ریاست ترہت کی جاگیر عطا کی۔ رگھونندن رائے نے اس عطیہ کواپنے گردمہیش ٹھاکرکے قدموں میں گرودکچھنا کے روپ میں ڈال دیا۔ مہیش ٹھاکر کے بیٹے گوپال ٹھاکرنے اپنے باپ کی وراثت کوعہد جہانگیری میں مہیش ٹھاکر کے نام حاصل کرلیا۔ مہاراجہ کنوررامیشور سنگھ کی بھاگلپور میں مغیلہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفرکے پوتے شاہزادہ مرزامحمدرئیس بخت عرف مرزازبیرالدین گورگانی سے ملاقات ہوئی۔ انہیں لے کر وہ دربھنگہ آئے اور اپنے بھائی مہاراجہ لکچھمشورسنگھ بہادر سے ملایا مہاراجہ نے انہیں اپنی پناہ میں رکھا۔ مرزا نے ۱۸۸۲میں موج سلطانی، لکھی جس میں عہد مغلیہ اور وکٹوریہ سے جارج پنجم تک کے برٹش فرمانروائوں کی تاریخ اختصارکے ساتھ پیش کی ہے۔ علاوہ ازیں کھنڈوال خاندان ،خاندان دربھنگہ مہاراج ازمہیش ٹھاکر تاسرکامیشورسنگھ، کے راجائوں کی مختصرداستان اورادباء وشعرا کاذکرہے گویایہ کتاب تاریخ ،سفر نامہ اورخودنوشت ہے۔ اس کے علاوہ ان کاشعری مجموعہ، چمنستان سخن، اورمنثوی، درشہوار بیھ اہم ہیں۔
دربھنگہ کے راجے مہاراجے کے نوابو کادوررہا۔ یہاں نواب سعادت علی خاں کانام اس لئے بھی اہمیت کاحامل ہے کہ وہ صاحب دیوان شاعرتھے اور داغ دہلوی کے شاگردتھے۔
 
یہاں کی سوارٹھ سبھاکافی اہمیت کی حامل ہے۔ سوارٹھ مدھوبنی سے تقریباًاٹھ کلومیٹر پرواقع ہے جہاں ہرسال پوری دنیا میں مقیم میتھل برہمن دولہا اور مناسب رشتہ کی تلاش میں اس سبھا میں جمع ہوتے ہیں۔ یہ سبھاشادی بیاہ کے سلسلے میں منعقد کی جاتی ہے ۔یہ بھی متھلا کی ثقافت کاامین ہے۔ آزادی سے چند سال قبل دربھنگہ مہاراج نے لال قلعہ کی طرزپرعالی شان قلہ بنویاجوآج بھی تاریخی اہمیت کاحامل اورقابل دیدہے۔
 
موجودہ دربھنگہ شہر بہارڈسٹرکٹ گزیٹیردربھنگہ مطبوعہ ۱۹۶۴کے مطابق 25038سے 26026شمالی ارض البداور85041سے86014شمالی طول البلدکے درمیان واقع ہے۔ سمندری ساحل سے اس کی اونچائی 49میٹرہے۔ یہ شمالی بہار کے دربھنگہ ڈویزن کاصدردفتر اورمتھلاکی ثقافتی راجدھانی کادرجہ رکھتی ہے۔ترہت اورمتھلاکے حدوداربعہ سیاسی چپقلش کے نتیجہ میں مختلف ادوارمیں تبدیل ہوتے رہے۔ کبھی اس میں نیپال کی ترائی سے لے کر کوسی ڈویزن تک اوردکھن میں حاجی پورتک شامل تھا جس کا صدرمقام دربھنگہ رہا۔ انگریزوں کے دورمیں دربھنگہ ضلع بنااورترہت کمشنری قائم کی گئی جس میں دربھنگہ اورلہیریاسرائے جڑواں شہر ہے۔ اس طرح یہاں کامیشورسنگھ سنسکرت یونیورسٹی اورللت نارائن متھلایونیورسٹی جڑواں یونیورسٹیزہیں۔
 
میتھلی کے ممتاز شاعرودیاپتی کے مطابق میتھل بینا سب جن مٹھا اور آثاریہ سومدیوکے بقول پگ پگ پوکھری ماچھ مکھان زبان زدعام ہیں۔ یہاں سیکڑوں کی تعدادمیں بڑے بڑے تالاب ہیںجن میں دربھنگہ کے ۳اہم تالاب،ہراہی،دیگہی، اورگنگاساگرایک سلسلے میں نظرآتے ہیں جوآچاریہ سوم دیو کے قول کی تائید کرتے ہیں۔
 
اردوکے پہلے شاعرحضرت امیرخسرو’’۱۲۲۵۔۱۳۲۵‘‘کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اس دیارمیں آئے اور ایک قطعہ بزبان ریختہ اردوفارسی اورمیتھیلی کی آمیزش میں پیش کیا۔
ہندوبچہ ہئیںکہ عجب حسن دھرئی چھئی
بروقت سخن گفتن مکھ پھول جھرئی چھئی
گفتم زلب لعلیںتویک بوسہ بگیرم
گفتاکہ ارے رام ترک کائیں کرئی چھئی
ترجمہ،ہندو ،برہمن،بچہ کی عجیب خوبصورتی ہوتی ہے۔ بات کرتے ہوئے منہ سے پھول جھرتے ہیں کہاجومیں نے تم اپنے گلابی ہونٹ کاایک بوسہ دے دو، اس نے کہا کہ ہے رام ،ترک، کیاکرتے ہو۔ 
متھلاکے عظیم محقق الیاس رحمانی کے وقیع مضامین ،عہداسلامیہ میں دربھنگہ ایک خصوصی نظر دوقسط ،معاصر، پٹنہ ۱۹۴۹،کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہرعہدمیں یہ سرزمین علم وادب کاگہوارہ رہی ہے۔ ملاجیون سے لے کرآج تک بڑے بڑے ادباشعرااوردانشوراس علاقہ کانام روشن کرتے رہے۔ میں اپنی بات اپنے اس قطعے پرختم کرتاہوں۔
ودیاپتی کے شعروسخن کانہیں جواب
اردوزبان پھیلی یہاں مثل آفتاب
الیاس اورآسی مجاہدکی ہے یہ خاک
دربھنگہ، اک شہر ہے عالم میں انتخاب
ہے عالموں کی صوفیوں سنتوں کی سرزمیں
علم وادب کانام بھی روشن ہوایہیں
اب بھی زبان اردوکے خدام ہیں یہاں
اس واسطے زمین ہے متھلاکی دلنشیں
یوں توزبان میتھلی چلتی گلی گلی
لیکن زبان زدرہی اردو کی شاعری 
تہذیبیںہوگئیں یہاں مدغم کچھ اس طرح
پائی ہے میتھلی نے بھی اردو سے روشنی
 
+++++++
Comments


Login

You are Visitor Number : 1355