donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tareekhi Paare
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Izhar Ahmad Gulzar
Title :
   Qaide Azam Ka Bachpan


قائداعظم ؒ کا بچپن


 ڈاکٹر اظہار احمد گلزار

 (۱۱ گورونانک پورہ ، فیصل آباد ، پاکستان)

 فون: 0092 300 7632419

 

    بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ ۱۸۷۶ء میں دسمبر کی ۲۵ویں تاریخ کو پیدا ہوئے آپ کی والدہ کا نام میٹھی بائی تھا جب کہ والد کا نام جینا بھائی پونچا تھا۔ آپ کی پیدائش سے پہلے اس گھر میں نام ایسے رکھے جاتے تھے۔ جو روایتی رنگ میں رچے ہوتے تھے۔ ناموں کی اسلامی روایت سے یہ گھر عمومی طور پر بے گانہ تھا۔ لیکن قائداعظمؒ کی پیدائش اس گھر میں ایک نئی تہذیب کا پیغام بن گئی۔ آپ کے ماموں قاسم موسیٰ نے آپ کا نام محمد علی تجویز کیا۔ اس پورے خاندان میں یہ اسلامی نام تھا۔ لیکن خاندانی روایت کو برقرار رکھنے کے لیے آپ کے نام کے ساتھ جینا کا اضافہ کر دیا گیا۔ چنانچہ آپ محمد علی سے محمد علی جینا بھائی بن گئے اور اپنی عمر کے ایک حصہ تک آپ جینا ہی کہلواتے رہے۔ ایک مرتبہ علامہ سید سلیمان ندویؒ نے کہا جینا کیا ہوتا ہے؟ بلکہ آپ کو جناح کہنا چاہیے۔ اس طرح آپ محمد علی جناحؒ ہو گئے۔

    قائداعظم محمد علی جناحؒ کا عقیقہ نہایت دھوم دھام سے منایا گیا۔ آپ کے والد کچھ عرصہ ٹیچر بھی رہے تھے۔ لیکن بعد میں کاروباری ذمہ داریوں کی وجہ سے یہ پیشہ ترک کرنا پڑا۔ لیکن اپنے اس تجربے کی وجہ سے انہوں نے محمد علی جناح کی بہترین تربیت کے لیے اپنی ساری کوشش کی۔ جب محمد علی جناحؒ چھ سال کے ہو گئے۔ تو ماں باپ کو آپ کی پڑھائی کی بہت فکر ہوئی۔ لیکن مسئلہ جودرپیش تھا وہ یہ کہ آپ بہت چھوٹے تھے اور قریب قریب کوئی سکول نہیں تھا اور دور پیدل جانا محمد علی ؒ کے بس کی بات نہ تھی۔ چنانچہ والد گرامی نے اپنے چہیتے بچے کے لیے گھر میں ایک معلم کا اہتمام کیا لیکن محمد علی جناحؒ اس چھوٹی سی عمر میں بھی اس سارے اہتمام کے باوجود گھر بیٹھنے والی شخصیت نہ تھے۔ بہت چست اور ذہین تھے۔ گھر والوں سے آنکھ بچا کر گلی میں نکل جانا اور ہم جولیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنا آپ کو دل و جان سے پسند تھا۔


    محمد علی جناحؒ کے محلے کی گلیاں ننھے منے کھلاڑیوں سے آباد تھیں۔ ان کھلاڑیوں میں ایک نئے کھلاڑی کا اضافہ ہو گیا۔ گلی گلی کو دتے پھاندتے، دوڑتے ، بھاگے ، دکھائی دینے والے اس کھلاڑی نے چند ہی دنوں میں ایک ممتاز حیثیت حاصل کر لی۔ کوئی بھی کھیل ہو ، ہر کھیل میں ننھا محمد علی ایسا طاق تھا کہ دوسرے لڑکے اسے اُستاد ماننے لگے۔ محمد علی کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اس نے کھیل سے جو چیزیں سیکھیں انہیں اپنی عملی زندگی میں بھی اس طرح برتا کہ زندگی کی مشکل راہیں آسان ہو گئیں۔

    ننھے محمد علیؒ نے بہت سے کھیل کھیلے لیکن ایسے وقار کے ساتھ کہ شان و شوکت میں کوئی فرق نہ آیا۔ میلے کپڑے تو انہیں شروع ہی سے برے لگتے تھے۔ صفائی ستھرائی کا شروع ہی سے خیال رہتا تھا۔ ایک دن وہ اپنے ہم جولیوں سے کہنے لگے۔ دوستو یہ جو تم گولیاں کھیلتے ہو۔ اس سے ایک طرف تو کپڑے میلے ہوتے ہیں ، ہاتھ بھی خراب ہوتے ہیں، زمین پر بھی بیٹھنا پڑتا ہے ، تو کیوں نہ ایسا کھیل کھیلا جائے جس میں ان سب مسائل سے نجات ہو۔ ہم جولیوں نے پوچھا کون سا کھیل؟

    محمد علی جناحؒ نے جواب دیا گیند بلا ، دوستوں نے اس پر اتفاق کیا کہ اب ہم گولیوں کی بجائے گیند بلا ہی کھیلیں گے۔ چنانچہ محمد علی جناحؒ نے گیند بلا خریدا اور سب کرکٹ کے شیدائی ہو گئے۔ یہ سر سید احمد خان کی تعلیمی تحریک کا زمانہ تھا۔ سندھ میں خان بہادر ، حسن علی آفندی، سرسید احمد خان تھے جو سندھی مسلمانوں کو جدید تعلیم پر آمادہ کر رہے تھے۔ اس تعلیمی تحریک میں محمد علی جناحؒ کے والد جناح بھائی پونچا اور ایک تاجر نور محمد لالن نے فنڈز اکٹھے کر کے ۱۸۸۵ء میں سندھ مدرستہ الاسلام کی بنیاد رکھ دی۔

    گھر سے ایک میل کے فاصلے پر موجود ’’سندھ مدرستہ الاسلام‘‘ میں آپ کا داخلہ کروایا گیا۔ اس زمانے میں محمد علی جناحؒ کے والد کا کاروبار بہت زیادہ پھیل گیا۔ آپ کی ملکیت میں بہت زیادہ کشتیاں تھیں جوکہ سمندر میں سامان ڈھوٹی تھیں۔ اب انہوں نے ایک لمبی چوڑی لانچ تیار کروائی۔ اس لانچ کے سمندر میں اُتارے جانے کی افتتاحی تقریب میں ننھے صاحبزادے محمد علی جناحؒ کو بھی خوشی خوشی چکر لگوایا۔ جب بخیرو خوبی لانچ واپس پلٹی تو لوگوں میں کھجوریں تقسیم کی گئیں اور لانچ کا نام ’’جناح‘‘ رکھ دیا گیا۔ اسی زمانے میں ایک مربہ محمد علیؒ بمبئی کے ’’انجمن اسلام سکول‘‘ میں داخل ہوئے لیکن چند ماہرہ کر واپس لوٹ آئے۔ اس زمانے میں ہر وقت کرکٹ کھیلنے والا محمد علیؒ ہر دم پڑھنے والا محمد علیؒ بن گیا۔ وہ لمبا سا زردکوٹ پہنے ساری ساری رات پڑھتارہتا۔ اگرچہ پڑھنے کے لیے ان کے پاس کوئی الگ کمرہ تو موجود نہیں تھا۔ اس کمرے میں بہن بھائی سوتے اسی کمرے میں ننھامحمد علیؒ ساری ساری رات پڑھتا رہتا۔ لیکن دوسرے بہن بھائیوں کا اسے احساس بہت زیادہ تھا۔ اس لیے جب چھوٹے بہن بھائی سو جاتے تو ان کے چہرے کی طرف لالٹین کے آگے گتے کا ایک ٹکڑا رکھ دیا کرتے تھے ۔تاکہ روشنی ان کی نیند کو پریشان نہ کرے۔ ایک رات جب آپ کو پڑھتے پڑھتے بہت زیادہ دیر ہو چکی تھی اور قریب تھا کہ رات بیت جاتی۔ کہ فاطمہ بائی نے کہا ’’بھائی محمد علی تم رات کو سویا بھی کرو اتنا جاگو اور پڑھو گے تو بیمار ہو جاؤگے‘‘ محمد علی نے جواب دیا بی جی کیسے نہ پڑھوں میری قوم سو رہی ہے مجھے قوم کے لیے جاگ کر پڑھنا ہے۔


    ۱۶ برس کی عمر میں محمد علی جناحؒ کے والد گرامی کو محمد علی جناحؒ کو ولایت بھیج کر تعلیم دلوانے کا خیال آیا۔ ایک انگریز جس کا نام فریڈرک تھا وہ محمد علی جناحؒ کے والد سے کاروباری تعلقات رکھتا تھا۔ اس نے کم سن محمد علی جناحؒ کو دیکھا اور اس کی ذہانت سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے جناح کے والا بھائی پونچا کو قائل کیا کہ لڑکا بہت لائق ہے۔ اسے ولایت بھجواؤ اور قانون کی اعلیٰ تعلیم دلواؤ۔ جناح بھائی پونچا نے اپنی اہلیہ میٹھی بائی کے سامنے جب یہ ارادہ ظاہر کیا تو وہ بہت خوش ہوئیں اور پریشان بھی۔ خوشی اس بات کی تھی کہ بیٹا لندن سے ڈگری لے کر آئے گا اور پریشان اس بات پر تھیں کہ ان کو جناح کی جدائی شاق گزر رہی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے شوہر سے کہا کہ میری خواہش کہ ولایت جانے سے پہلے بیٹے کی شادی کر دی جائے پھر ولایت بھیجا جائے۔ آپ  یہ بات پسند آئی کہ ولایت بھیجنے سے پہلے لاڈلے بیٹا کے سر پر سہرا دیکھ لیں۔ چنانچہ سولہ برس کی عمر میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی دلہن تلاش کر لی گئی۔ بارات کراچی سے کشتیوں اورلانچوں پر روانہ ہوئی اور کاٹھیا واڑ میںایک چھوٹی سی بندرگاہ ’’چوڈیا‘‘اُتری۔ شادی کے بعد بھی آپ کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ اور آپ نے ’’چرچ مشن سکول‘‘ میں داخلہ لے لیا۔ لکن شادی کے ایک سال بعد آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان روانہ ہو گئے۔


**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 606