donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tareekhi Paare
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Farzana Nighat
Title :
   Bumareng

بومرینگ


فرزانہ نگہت

 

عرصہ دراز قبل جب برطانوی ملکہ الزبتھ اور ان کے شوہر ڈیوک آف ایڈنبرا آسٹریلیا کے دورے پر گئے، تو انھیں ایک ایسے فن کا نظارہ کروایا گیا جو فن شناسی کا ذوق رکھنے والوں کے لیے بالکل نیا اور منفرد قسم کا تھا۔ اس فن کا مظاہرہ کرنے والے کا نام جوٹمبری تھا۔ وہ آسٹریلیا کی قدیم نسل ایبو ریجن سے تعلق رکھنے والا سیاہ فام گٹھے جسم والا کو تاہ قامت شخص تھا۔ اس نے جس آلے سے اپنے فن کے مظاہرے سے ناظرین کو محظوظ کیا تھا وہ آسٹریلیا کا جانا پہچانا امتیازی نشان بومرینگ تھا۔ اس ڈھائی فٹ کے آلے کو ٹمبری نے اس طرح پھینکا تھا کہ یہ ایک آدمی کے سینے تک کی اونچائی جتنی بلندی پر ہوا کو چیرتا ہوا چالیس گز دور تک پہنچ کر ایک دم ہوا میں ایک سو فٹ تک بلند ہوگیا تھا پھر اس نے ایک لمبا چکر کاٹا تھا اور تیزی سے اپنے پھینکنے والے کی طرف نیچے آنے لگا تھا۔ اس کے پاس آتے آتے اس کی رفتار بے حد کم ہوگئی تھی۔ یہ اس کے سر پر منڈلانے لگا تھا۔ ٹمبری، جس نے اپنے آپ کو ایک دم ہی زمین پر گرا دیا تھا، نے تھوڑا سا اونچا ہو کر اسے اپنے ننگے پیروں سے پکڑ لیا تھا۔


ٹمبری کی انسانوں کے اس قدیم ترین ہتھیار بومرینگ (جسے قدیم مصر میں بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے) کے استعمال میں مہارت آسٹریلیا میں کوئی نئی یا نرالی بات نہیں۔ ملک کے دور دراز کے شمالی حصوں میں آباد ایبوریجنز آج کل بھی اسے اپنے روزمرّہ کے کاموںمیں استعمال کرتے ہیں۔ شکار کھیلنے کے ہتھیار کے طور پر بھی اور کھیلنے کی چیز کے طور پر بھی۔

آسٹریلیا کی سیاحت کے لیے وہاں پہنچنے والے لوگ ان سیاہ فام نیم عریاں ماہرینِ فن کے مابین ہونے والے بڑے سنسنی خیز مقابلے دیکھتے ہیں۔ایک ماہرِ فن کے ہاتھ سے پھینکا گیا بومرینگ ڈیڑھ سو فٹ کی بلندی تک پہنچ جاتا ہے۔ پھر جب وہ واپس آنے لگتا ہے، تو اپنے پھینکنے والے کے سر پر پھول تا پھو ل منڈلانے والی عظیم الجثہ تتلی کی طرح آگے پیچھے اور دائیں بائیں جھپٹنے لگتا ہے۔ اکثر ماہرین فن اسے کسی باز کی طرح فضا میں پرواز کرتا ہوا بھی بنا سکتے ہیں۔ آدھے راستے

واپسی پر بومرینگ تیزی سے گھومتے ہوئے اپنے آپ کو ہوا میں مضبوطی سے جماتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ نیچے آنے لگتا ہے حتیٰ کہ یہ زمین کے بالکل قریب پہنچ جاتا ہے۔ پھر یہ مڑتا ہے اور پوری رفتار سے اپنے پھینکنے والے کے پاس آجاتا ہے۔ اسے اُچھال کر پھینکنے کا جو عمل ہوتا ہے اس میں بومرینگ پچاس گز کے فاصلے پر پہنچ کر زمین سے ٹکراتا ہے‘ ہوا میں اُچھلتا ہے‘ پھر دائروں میں چکر لگاتا ہوا واپسی کے لیے مُڑ جاتا ہے۔ اِس فن کی ایک قسم اسے غوطہ دے کر پھینکنے کی ہے۔ بگلا نما بومرینگ جست لگا کر آسمان پر بڑی بلندی تک پہنچتا ہے پھر ایک پہلو سے پھسلتا ہوا زمین سے چند اِنچ اوپر تک آجا تا ہے۔ پھر اُڑتا ہوا اپنے پھینکنے والے کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔

اکثر مقابلوں میں ایبوریجنز اپنے بومرینگوں کو ایک سو تیس یا ایک سو پچاس گز دور واقع درختوں کی طرف پھینک کر ان کے گرد چکر دلوا دیتے ہیں۔ اس طرح پھینکے جانے والے عمل میں بومرینگ پچاس میل فی گھنٹا یا اس سے بھی زیادہ رفتار سے اس تیزی سے گھومتا ہوا اُڑتا ہے کہ یہ لکڑی کی تیز کناروں (بلیڈوں) والی تھالی معلوم ہوتا ہے۔ بیس فٹ کی بلندی پر پہنچ کر یہ ایک بڑے سے دائرے کی صورت میں درخت کے گِرد چکر لگاتا ہے پھر واپسی کے لیے مڑ جاتا ہے۔ رفتار پکڑتے پکڑتے اس میں بھنبھناہٹ جیسی آواز پیدا ہونے لگتی ہے۔ یہ اپنے پھینکنے والے قدموں میں اس زور سے جا کر گرتا ہے کہ اس کے کناروں کے سرے زمین میں چھے اِنچ تک دھنس جاتے ہیں۔ یہ نظارہ دیکھنے والوں کے لیے انتہائی سنسنی خیز ہوتا ہے۔

ایبوریجنز کے ہاتھوں ایسے کرتبوں کے لیے استعمال ہونے والے بومرینگ اٹھارہ اِنچ تا تین فٹ تک لمبے ہوتے ہیں۔ ان کے بازوئوں کے درمیانی زاویے نوے یا سو ڈگری کے ہوتے ہیں۔ اپنی صورت و ہیئت میں یہ قدیم ہتھیار ایک جیٹ طیارے کے پیچھے کی طرف مڑے ہوئے پروں سے مشابہ دکھائی دیتا ہے۔

اگر آپ کسی بومرینگ کا معاینہ کریں، تو آپ دیکھیں گے کہ اس کا ایک بازو دوسرے بازو سے چند اِنچ زیادہ لمبا ہے۔ (ہر چند کہ دونوں یکساں وزن کے ہوتے ہیں)

اس کا ایک پہلو چپٹا اور دوسرا گول یا خمدار سا ہوتا ہے۔ اس کے بلیڈوں میں خفیف سا ترچھا پن ہوتا ہے جس کی بدولت بومرینگ ہوا میں بلند ہوتا ہے۔ بازوئوں کی خم دار صورت ہوائی جہازوں کے پروں کی طرح ’’لِفٹ‘‘ تخلیق کرتی ہے۔ لیکن چونکہ بومرینگ اپنے پھینکنے والے کے ہاتھ سے عمودی صورت میں اوپر اُٹھتا ہے۔ اسی لیے ’’لفٹ‘‘ اسے ایک پہلو کی طرف کھینچتی ہے۔ خمدار راستے کی طرف جس پر اُڑتا ہوا وہ اپنے پھینکنے والے کے پاس واپس آ جاتا ہے۔

یہ قدیم ترین لوگ آخر ایسی ایجاد سے کیسے آگاہ ہوئے جو مرکب ہوائی حرکیاتی اصولوں کی تجسیم ہے۔ تقریباً یقینی طور پر اس نے ایک ابتدائی ہتھیار سے ارتقائی منازل طے کی ہیں۔ ابتدا میں استعمال ہونے والی یہ پھینکی جانے والی چھڑی یا شکار کے لیے استعمال ہونے والا بومرینگ جو دونوں پہلوئوں سے چپٹا لمبا اور بھاری ہوتا تھا اُڑان میں ڈگمگا جاتا تھا اور اپنے پھینکنے والے کے پاس واپس نہیں آتا تھا۔ پھر اس کی بناوٹ میں تبدیلیاں کی گئیں۔ اس کی کارکردگی کو بہتر بنایا گیا۔ اس کے غیر ضروری بھاری پن کو ختم کیا گیا۔ بلیڈوں کو تیز کیا گیا۔اس طرح یہ ایک بہترین آلۂ فن ہی نہیں بہترین شکاری ہتھیار بھی بن گیا۔ اس سے مچھلیوں کے شکار سے لے کر کنگروئوں کا شکار تک کیا جانے لگا۔ ایک ایبوریجن نے بہت سے لوگوں کے سامنے صرف ایک دفعہ بومرینگ پھینک کر تین کنگرو شکار کرنے کا مظاہرہ کیا تھا۔

ایک اور پھینکی جانے والی بھاری چھڑی ’’جنگی بومرینگ‘‘ ہے جو پانچ فٹ تک لمبی ہوتی ہے۔ اسے دونوں بازوئوں کی قوت سے پھینکا جاتا ہے۔ یہ جسم کے کئی حصے کاٹ دیتی اور کھوپڑیاں توڑ دیتی ہے۔ بومرینگ کے ساتھ دکھائے جانے والے کرتبوں کے لیے غیرمعمولی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے لیے ایک ماہرِ فن اس طرح محنت کرتا ہے جیسا کہ ایک ماہر موسیقی۔ جس وقت سے ایک ایبوریجن لڑکا پائوں چلنا شروع کرتا ہے۔ اسے بومرینگ کے استعمال کی تربیت دی

جانے لگتی ہے۔ اس کا باپ اسے ایک کھلونا بومرینگ بنا کر دیتا ہے۔ جسے وہ جلد ہی جنگلی گھاس پھونس سے بنے ہوئے سائبانوں والے پڑائو کی طرف پھینکنا سیکھ لیتا ہے۔ جب وہ کچھ مہارت حاصل کر لیتا ہے، تو وہ دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر کھیلنے لگتا ہے۔ ان لڑکوں کے بڑے اُنھیں زیادہ سے زیادہ مہارت کے ساتھ بومرینگ پھینکناسکھاتے ہیں اور خود کو اُن کا نشانہ قرار دیتے ہوئے اُن کی زد سے بچنے‘ کترانے اور جھکائیاں دینے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس طرح اُنھیں ماہر شکاری بنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔

اس قسم کی مشقوں سے ہر ایبوریجن بچہ جلد ہی بومرینگ کے استعمال کا ماہر بن جاتا ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک آٹھ سالہ بچہ 30گز کے فاصلے پر واقع ایک درخت کی شاخ پر بیٹھے ہوئے پرندے کو بھی اس سے شکار کر لیتا ہے۔

نوجوان ایبوریجن اپنے بومرینگ سے زیادہ تر پرندے شکار کرتا ہے۔ اسے جنگلی مرغابیوں اور کبوتروں کے اُڑتے ہوئے غول کی طرف اُچھالا جائے، تو وہ اس کی زد میں آنے سے بچنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بڑی تعداد میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ بومرینگ کسی خون آشام بلا کی طرح ان کا تعاقب کرتی ہے۔

بومرینگ پھینکنے کے فن نے دوسرے آسٹریلویوں کو بھی اس فن کا والہ و شیدا بنا دیا ہے۔ اِن میں بہت سی نامور شخصیات بھی شامل ہیں۔ مثلاً سڈنی کے ٹراپیکل میڈیسن اینڈ پبلک ہیلتھ اسکول کے پروفیسر ہاروے سٹین جن کی بومرینگ پھینکنے کی مہارت قابلِ رَشک ہے اور فرینک ڈونلسن سڈنی کے مشہور اشاعتی ادارے کے مالک، جنھیں ایبو ریجنز نے اس وقت بومرینگ پھینکنا سکھایا تھا جب وہ نو عمر لڑکے ہی تھے۔ ان کی پھینکی ہوئی بومرینگ ایک سو ساٹھ گز کی دوری پر واقع ایک کھمبے کے گرد چکر لگا کر ان کے پاس واپس آجاتی ہے۔ حال ہی میں اعلیٰ تعلیم ہافتہ ڈونلسن اور آسٹریلویوں کی ایک ٹیم نے ایبوریجنز کی ایک ٹیم سے بومرینگ پھینکنے کا مقابلہ کیا اور انھیں شکست دی ہے۔

ڈونلسن نے مختلف مرکبات سے بومرینگ بنانے کے تجربات بھی کیے ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے پلاسٹک کے بومرینگ بھی بنائے ہیں جو جلد ہی مارکیٹ میں آجائیں گے۔ انھوں نے بہت سے ممالک میں بومرینگ فروخت بھی کیے ہیں۔ ان کا خواب ہے کہ بومرینگ پھینکنے کو بھی ایک باقاعدہ کھیل کی حیثیت سے دنیا بھر میں تسلیم کروا دیں۔ ایک عمدگی سے پھینکے گئے بومرینگ کی پرواز غیر معمولی طور پر دلکش ہوتی ہے۔ یہ فضا میں کسی باز کی طرح اُڑتا اور غوطے لگاتا ہے۔ اس کا صرف نظارہ کر لینا ہی رگ و پے میں سنسنی دوڑا دینے کے لیے کافی ہے۔

اپنی بومرینگ کو بحیثیت ایک کھیل متعارف کرانے کی مہم کے دوران ڈونلسن نے بے شمار اسکولوں کا دورہ کیا اور وہاں بومرینگ تقسیم کیں۔ ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے ان سے کہا کہ لڑکوں کے کھیلنے کے لیے پہلے ہی سے بہت سے کھیل موجود ہیں وہ بومرینگ لے کر کیا کریں گے؟ پھر بھی ڈونلسن وہاں سے جاتے جاتے چند بومرینگ وہاں چھوڑ گئے۔ پھر جب کچھ عرصہ بعد انھوں نے اس اسکول کا دورہ کیا، تو کھیل کے میدان میں لڑکوں کو بومرینگ پھینکنے کی مشقیں کرتے دیکھا۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 497