donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tareekhi Paare
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Feroz Bakht Ahmad
Title :
   Aapsi Payar Ki Holi Moghaliya Daur Ki


آپسی پیار کی ہولی مغلیہ دور کی

فیروز بخت احمد

تمام مغل بادشاہ مسلمانوں کو اپنی ایک آنکھ اور ہندوئوں کو دوسری سمجھتے تھے۔ انھوں نے مذہب کی بنا پر کبھی کوئی امتیاز نہیں برتا۔ وہ درباریوں اور رعایا کے ساتھ بھی تمام تہوار مناتے تھے چاہے وہ عید ہو، دیوالی ہو، ہولی ہو، نوروز ہو یا بڑا دن ہو۔اُردو شاعری میں ہولی کی ست رنگی قوس قزح کا ذکر کرتے ہوئے  فیروز بخت احمد نے مغلوں کے زمانے کی ہولی کا ذکر کیا ہے جس میں ہندو مسلمان سبھی شامل ہوتے تھے۔

 

ہندوستان کی روایت رہی ہے کہ یہاں جو بھی مذہبی تہوار منایا گیا، وہ سماجی طور پر منایا گیا، مثلاً عید، دیوالی،ہولی، نوروز، بسنت، کرسمس، گُرپورب وغیرہ کے تہوار ایسے تہوار ہیں جو مذہبی کم مگر سماجی زیادہ نظرآتے ہیں۔ مگر اس یگانگی اور آپسی ہم آہنگی کی بہترین مثال ملتی ہے مغلوں کے زمانے میں شاہجہاں آباد (دلّی کا فصیل بند شہر) میں منائے جانے والے تہواروں کے ذریعہ جنہیں ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی ہمیشہ سے مل جُل کر مناتے چلے آرہے ہیں۔

جہاں تک ہندوئوں کے مقدّس تہوار ہولی کا تعلق ہے اس کے رنگ ہی کچھ اور ہوا کرتے تھے۔ ’’سراج الاخبار‘‘ کے 3مارچ1842ء کے ایک پرچہ میں لکھا ہے کہ قطب الدّین سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک تقریباً 650سال کا دورِ حکومت ہماری مشترکہ تہذیب و تمدن کے ارتقا کا زمانہ ہے۔ اگرچہ کچھ تاریخ داں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ مسلم حکمراں پر دیسی تھے اور انھوں نے صرف بیرونی تہذیبی روایات کی سرپرستی کی لیکن تاریخ کا خمیر ثبوت اور دلیل سے اٹھتا ہے۔ مغلوں نے ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کو فروغ دینے کے لیے ہر وہ کام کیا جس سے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان آپسی تعلقات زیادہ سے زیادہ برادرانہ ہو سکیں۔ وطن کے ذرّہ ذرّہ سے محبت کی اور قربانیاں دیں۔ دلّی آٹھ مرتبہ اجڑی مگر آٹھوں مرتبہ یہاں کے ہندوئوں اور مسلمانوں نے مل کر اسکی تعمیر کی اور آج یہ شہر دنیا کے بہترین شہروں میں گنا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہندو اپنے تہواروں پرمسلمانوں کو مٹھائی بھیجتے تھے اور مسلمان عیدین کے موقعوں پر کچی سوئیاں، شکر اور گھی اور اگر وہ گوشت کھانے والے ہوتے تو کچا اور پکّاگوشت ہندو دوستوں کو بھیجا کرتے تھے۔

ہولی کے بارے میں باقر علی داستان گو لکھتے ہیں کہ ہولی ہندوئوں کا بڑا قدیم تہوار ہے۔ اس تہوار میں ذات پات کی تفریق نہیں ہوتی اور پرانی دشمنی بھی دوستی میں بدل جاتی ہے۔ عورت مرد سب اس تہوار کو مل کر مناتے چلے آئے ہیں۔ مسلمانوں کے ہندوستان آنے کے بعد بادشاہ سے لے کر فقیر تک، سب نے اس متبرک تہوار کو بڑی دھوم دھام سے منایا اور آپس میں مل کر ہولی کھیلی۔ ہولی کیا آتی ہے دل کی کلی کھل جاتی ہے۔ ہولی کا تہوار ملن کا تہوار ہے۔ دوستوں کے میل ملاپ کا تہوار، بدلتے ہوئے موسم کی بہاراور نئی امنگوں سے بھرپور مستی کا موقعہ ہولی ہے۔ سب کچھ خمار آلود سا لگتا ہے۔ ہولی کے ترانے موسم کے رنگ بدلتے ہی شروع ہو جاتے تھے۔

ہولی کے آنے سے پہلے ہی چہاردانگِ عالم شور ہ ہنگامہ برپا ہو جاتا تھا کہ ہولی ہے ہولی ہے اور بڑا ہی خوشگوار ہی ماحول رہتا تھا۔ بازاروں میں چہل پہل ہوتی تھی۔ پچکاری اور رنگوں کی دھوم رہتی۔ اس خوبصورت منظر کو اپنی مثنوی ’’گلشنِ عشق‘‘ میں یوں پیش کیا گیا ہے :

’’مچ گیا شور ہولی ہولی کا
پھر تو ہنگامہ ہو گیا برپا

رنگ ہر سمت کو اچھلنے لگا
اور بہم قمقمہ بھی چلنے لگا

ماری بھر کر کسی نے پچکاری
کوئی بھاگی تو اس کو للکاری‘‘۔

بچوں کے رسالوں جیسے ماہنامہ ’’کھلونا‘‘، ’’پیامِ تعلیم‘‘، ’’ٹافی‘‘، ’’چندا نگری‘‘، ’’نور‘‘، ’’جنّت کا پھول‘‘، ’’شریر‘‘، ’’پھلواری‘‘ وغیرہ میں مارچ آتے ہی ہولی پر نظمیں چھپنے لگتی تھیں۔ ان رسائل میں راجہ مہدی علی خاں، قتیل شفائی، شفیع الدّین نیّر، وامق جونپوری، کیف احمد صدّیقی وغیرہ ان تہواروں پر بڑی اچھی نظمیں اور کہانیاں لکھا کرتے تھے۔

واقعی میں مغلیہ سلطنت میں ہولی کی بات ہی کچھ اور تھی۔ موسم بدلا، ہوا کی خنکی ٹوٹی اور جاڑا بھاگا۔ بسنت پنچمی کے آتے ہی لوگوں کے ہاتھ میں گلال آ جاتا ہے اور ہولی شروع ہو جاتی۔ ہولی کے رسیاڈھاک اور ٹیسو کے پھولوں کو پانی سے بھرے مٹکوں میں بھر دیتے تھے۔ ہولی کے متوالے مست قلندر بنے گلی گلی، کوچے کوچے گھومتے پھرتے تھے۔ سارنگی، دف اور منجیرے کی تال پر بے حال ہو کر تان اڑاتے:

 ’’تیرے بھولے نے پی لی بھنگ، کون جتن ہولی کھیلیں۔‘‘

شہنشاہِ شاہ جہاں کے دور کی ہولی بقول مہیشور دیال نہایت ہی دلچسپ ہوا کرتی تھی۔ اپنی تصنیف ’’عالم میں انتخاب:دلّی‘‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ لال قلعہ کے پیچھے ٹھیک جمنا کے کنارے میلے لگتے تھے۔ شاہ جہاں صبح کے وقت ہی جھروکے میں آجاتے تھے جہاں دیگر امرائ، ساتھی اور درباری بھی جمع ہوتے تھے۔ فصیل بند شہر اور خاص طور سے چاندنی چوک کے معزز ہندوئوں اور مسلمانوں کو بھی مدعو کیا جاتا تھا۔ شاہ بڑے (آجکل جسے بڑشاہ بلّا کہتے ہیں) سے لے کر راج گھاٹ تک بڑی بھیڑ کا اژدھام موجود ہوتا۔ دف، جھانجیں اور نفیریوں کا شور ہے۔ جگہ جگہ لوگ ناچ رہے ہیں۔ ہولی کا ہڑدنگ اور سوانگ رچنے والوں کی منڈلیاں ایک ایک کر کے قلعے کے نیچے آتیں اور طرح طرح کی نقلیں اور تماشے دکھاتیں۔ سوانگ بھرنے والوں میں صرف وہی نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ ان کے مسلمان دوست بھی ان کا ساتھ دیتے تھے۔ سوانگ بھرنے والے بادشاہ اور شہزادوں، شہزادیوں وغیرہ پر بھی چوٹ کیا کرتے تھے مگر برا کوئی نہیں مانتا تھا۔ بیگمیں، امیرزادیاں اور شہزادیاں جھروکوں میں بیٹھ کر تماشہ دیکھتیں۔ جس جگہ یہ تماشہ ہوا کرتا تھاکافی دن تک وہاں دلی کا سب سے بڑا اتوار کا بازار یا ’’اوپن مارکیٹ‘‘ لگتا تھا۔ بادشاہ سبھی کو انعام و اکرام سے نوازتے تھے۔ ہولی کے موقعہ پر تمام غیر مسلم اور مسلم ملازمین کو سونے کی ایک ایک اشرفی دی جاتی تھی۔ ابو سراج بہادر شاہ ظفر کے زمانہ میں بھی یہ تقریب اس وقت تک چلتی رہی جب تک انگریزوں نے 1856میں اس کو قانونی طور سے نہیں روک دیا۔ بہادر شاہ ظفر کے لڑکے مرزا فخرو کو ویدوں اور اپنیشدوں کو پڑھنے کا بہت شوق تھا لہٰذا وہ بھی داراشکوہ کی طرح ہندو تہذیب کا مداح تھا۔ وہ قلعہ معلّہ میں ہولی کی تقریبات کراتا تھا اور سبھی کو انعام دیتا تھا۔ رات کو قلعے میں ہولی کا جشن منایا جاتا تھا۔ تمام رات گانا بجانا ہوا کرتا تھا۔ ظفر کی کہی ہوئی ’’ہوریاں‘‘ بہت شوق سے گائی جاتی تھیں۔ ’’سراج الاخبار‘‘ کی تیسویں جلد میں بھی ہولی کی تقریبات کا بڑا عمدہ بیان ہے۔ اس کے مطابق بہادر شاہ ظفر خود بھی دن میں تقریباً دس بجے قریب اپنے ہندو مسلم امراء کے ساتھ جھروکوں میں بیٹھتے اور شہر میں جتنے بھی سوانگ بھرنے والے جاتے یا شہر میں ہی رہ کر اپنے محلوں میں سوانگ بھرتے، انکو انعام و اکرام سے فیضیاب کرتے۔ بادشابھی ہولی کھیلتے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دلّی، لکھنؤ، بمبئی وغیرہ میں ہولی قدیم زمانے میں ہندو اور مسلمان مل کر مناتے تھے۔ مغل بادشاہ، مسلم امراء اور عوام سبھی مل کر ہولی کے رنگ و دیگر تقریبات میں حصّہ لیا کرتے تھے۔ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر تو اپنی رعایا کے ساتھ بڑے شوق اور جوش سے ہولی کھیلتے تھے۔ ان کا یہ ہولی کا گیت ان کے جذبات کا آئینہ دار ہے:

’’کیوں موپہ ماری رنگ کی پچکاری
دیکھو کنور جی دوں گی گاری

بھاج سکوں میں کیسے موسوں بھاجا نہیں جات
تھاڑے اب دیکھوں میں کون جو دن رات

شوخ رنگ ایسی ڈھیٹ لنگر سے کون کھیلے ہولی
مکھ بندے اور ہاتھ مرورے کرے وہ برجوری۔‘‘

۔ابوسراج محمّد بہادر شاہ ظفرؔ

بسنت کے وقت سے ہی ہولی کا ذکر شروع ہو جاتا۔ دلی میں یہ رواج رہا ہے کہ بسنت میں چادریں چڑھائی جاتی تھیں۔ آج بھولوشاہ کی بسنت ہے تو کل ہرے بھرے کی۔ کوئی حضرت سرمد کے مزار پر تو کوئی سوئی والان اور ترکمان گیٹ میںبسنت کے میلے لگانے لگا جو ہولی تک چلتے تھے۔ بہادر شاہ ظفر نے بہار کے متعلق کہا تھا:

 ’’سکل بن پھول رہی سرسوں۔‘‘

 بسنت کے بارے میں اامیر خسرونے بھی کہا تھا:

’’اشک ریز آمدہ است ابر بہار۔‘‘

ادھر شاہجہاں آباد میں امیروں اور رئیسوں کی ڈیوڑھیوں اور چھجوں کے نیچے لوگوں کی ٹولیاں جمع ہو جاتیں۔ بقول مہیشور دیال یہ کفر کچہریال کہلاتی تھیں جو کھاری باولی، سرکی والان، صدر غرض کہ ہر کوچے اور کٹرے میں ہوتیں۔ اس میں کوئی کسی کا برا نہیں مانتا۔ لوگ بیچ بیچ میں گاتے رہتے:

’’ہولی ہے بھئی ہولی ہے،
آج ہماری ہولی ہے۔‘‘

اس قسم کے ماحول سے واقعی یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ہولی پیار محبت کا تہوار ہے۔ لوگ اسی طرح سارا دن اور ساری رات دل لگی کرتے رہتے۔ دلہنڈی کے دن بیگم جہاں آراء کے باغ یعنی بیگم کا باغ (گاندھی گرائونڈ) میں بڑی دھوم دھام سے میلہ لگتا۔ کیا بڑے، کیا بچے، کیا جوان، کیا بوڑھے، سبھی اس میلہ کو دیکھنے جاتے۔ شہزادیاں اور امیرزادیاں بھی جایا کرتی تھیں۔ سبھی لوگ اجلے کپڑے زیب تن کر کے جاتے۔ چاٹ والوں، کھلونے والوں، مٹھائی والوں اور مداریوں کی چاندی ہو جاتی۔ ہولی کے متوالے بھی اپنی دھن میں سوار ہوکر انوکھی سچ دھج سے نکلتے اور ہلّڑ کرنے والوں کی نقلیں کرتے اور ہنسی اڑاتے۔ کسی لمڈے نے کسی لاٹ صاحب کی پھٹی پرانی استر نکلی ہوئی ٹائی اور پھٹا پرانا کوٹ پہن رکھا ہے تو کوئی کالا کلوٹا لونڈا چوہیا میم بنا ہوا ہے اور گٹ پٹ کر رہا ہے تو کوئی لڑکا بیگم سمرو بنا ہوا ہے۔ ایک دوسرے سے چھیڑخانی ہو رہی ہے اور ہولیاں گائی جا رہی ہیں۔ کوئی نیا آدمی ادھربھٹک جاتا ہے تو اس پر لڑکے ’’ہولی کا بھڑوا ہے‘‘ کہہ کر ٹوٹ پڑتے اور چشم زدن میں اسے اوپر سے نیچے تک گلال میں پوت دیتے۔ شہر کے سبھی چھوٹے بڑے لوگوں میں جوش بھرا ہوا ہوتا۔ دھوبی ہے تو گھاٹ پر پانی میں چھوا چھو کرتے ہوئے ٹھٹھولیاں کر رہا ہے۔ حلوائی بھنگ اور معجون کی مٹھائیاں اپنے لگے بندھے گاہکوں کو کھلا کر انکا تماشہ دیکھ رہا ہے۔

بازار میں آنے جانے والے لوگ بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ہولی کے دن بڑے بوڑھے بھی سینگ کٹا کر بچوں میں شامل ہو جاتے۔ بچوں کو اکٹھا کر کے انہیں نئی نئی باتیں سکھاتے اور انہیں بہکا کر خود ایک طرف کھڑے ہو کر تماشہ دیکھتے۔

ہولی کے موقع پر لڑکوں کی توکچھ نہ پوچھئے، چھیڑ چھاڑ کا نیا گُراِس دن ہاتھ آیا نہیں اور انھوں نے وہ آزمایا نہیں۔ پیتل، ٹین اور بانس کی پچکاریوں سے یہ لوگ پوری طرح لیس رہتے۔ رنگ اول تو ساتھ ہوتا ورنہ راستے میں جس کی دوکان یا مکان پر نظر آیا، پھر کیا لڑکے کیا تھے آفت کے پرکالے تھے، اس پر رنگ کی بوچھار کر دیتے۔ راستہ چلنے والوں کو اچھا خاصہ بدّھو بناتے۔ سڑک یا گلی کے بیچوں بیچ چاندی کا ایک نیا سکہ اس طرح چپکا دیتے مانو کسی سے گر گیا ہے۔ اگر کوئی راہ گیر بھولے سے یا لالچ میں آکر اسے اٹھانے کی کوشش کرتا تو اس کی شامت آجاتی۔ آڑ میں چھپے لڑکے اس بیچارے کو آن گھیرتے اور بے ایمان اور چور ٹھہراتے اور جب تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے جب تک وہ ان کو حلوائی کی دوکان سے حلوہ پوری کا ناشتہ نہیں کرا دیتا۔ کوئی صاحب انگرکھاپہنے، دوپلی ٹوپی سر پر جمائے گھر سے باہر نکل کر کنارے کنارے سڑک پر چل رہے ہوتے تو اوپر سے کسی مکان کی کھڑکی یا چھت سے کوئی لڑکا مچھلی کا کانٹا لگا دیتا اور جیسے ہی وہ صاحب اس کے نیچے سے گزرتے وہ کانٹا نیچے کرکے اسکی دوپلی کھینچ لیتا۔ اب وہ صاحب ہیں کہ ٹوپی پکڑنے کے لیے اچھل کود کر رہے ہیں اور ٹوپی کبھی اوپر کبھی نیچے۔ جب وہ یہ دیکھتا کہ وہ تھک گئے ہیں تو کنویں کے ڈول کی طرح ٹوپی نیچے لٹکا دیتا اور جیسے ہی وہ صاحب اسے چکمہ دے کر ٹوپی اچکنا چاہتے تو پھٹ سے لڑکا اوپر کھینچ لیتا۔ جب تک منت سماجت نہیں کی جاتی، بڑے بیچ میں نہیں پڑتے یا لڑکے کو کچھ مٹھائی نہیں کھلا دی جاتی تب تک ٹوپی واپس نہیں کی جاتی۔ چھوٹے بچے کچھ کم فتنے نہ ہوتے تھے۔

آلو یا مولی گاجر کو کاٹ کر اس پر چاقو سے الٹے حروف کھود دیتے اور انکے سانچے بنا لیتے۔ پھر اس پر سیاہی لگا لیتے اور ہاتھوں میں لیے پھرتے۔ موقع ملتے ہی کسی کی پیٹھ پر مار دیتے تو اس کے کرتے پر سیدھے الفاظ چھپ جاتے جو ’’420‘‘،’’الّو‘‘، ’’مجھے مارو‘‘، ’’میں گدھا ہوں‘‘ وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ کسی کسی پر تو کوئی گالی بھی کھدی رہتی۔ جس کسی کے یہ سانچہ پڑ جاتا وہ بے چارہ شرم سے پانی پانی ہو جاتا۔ دوسرے بھی اس کو وہی کہہ کر بلاتے۔ مگر یہ شیطان بچوں کی فوج جو اپنے مدرسوں سے چھٹی پاکر اس طرح سے ہڑدنگ مچاتے، اسکا پیچھا نہیں چھوڑتے اور شور مچاتے ہوئے اسکے پیچھے ہو لیتے۔

’’عالم میں انتخاب:دلّی‘‘ میں لکھا ہے کہ ہولی کے دن تو یوں بھی غل غپاڑے ریلوں میں نکل جاتے لیکن رات کو جگہ جگہ محفلیں جمتیں۔ سیٹھ، ساہوکار، امیر و غریب سب چندہ جمع کرتے اور دعوتوں و محفلوں کے لیے تمام بڑی بڑی حویلیوں اور مکانوں کے آنگن میں سجاوٹ کرتے۔ چاندنیاں اور گائو تکیے بچھائے جاتے دھرم شالائوں کے صحنوں کو بھی خوب سجایا جاتا۔ عطردان، پاندان اور خاصدان بھی قرینے سے سجا دئے جاتے تھے۔ بڑے پتوں میں میوہ، مٹھائی، ساگ سبزی، پوری کچوری، حلوہ پاپڑ و دیگر کھانے پینے کی چیزیں رکھ کر دی جاتیں۔ دعوت کے بعد پھر سب لوگ صحن میں آتے اور گائو تکیہ سنبھال لیا جاتا اور اس کے سہارے لوگ بیٹھ جاتے۔ ساری رات محفل رقص و موسیقی گرم رہتی۔ خیال، ٹھمری، دادرا اور غزلیں گائی جاتیں۔ جب لوگ ہوریاں گاتے تو سماں عجب ہو جاتا۔

گلیوں، محلوں اور چوکوں میں رنگ کھیلنے سے ایک دن پہلے ہولی بھی جلائی جاتی تھی۔ اس کے لیے ہی چندہ ہوتا تھا مگر لڑکے بالے ٹولیوں میں گھوم پھر کر اور گھر گھر جاکر پیسے لکڑی اور اپلے بھی جمع کرتے تھے۔ کچھ نہ کچھ لیے بغیر نہیں ٹلتے تھے۔ یہ چیزیں ہفتوں پہلے اکٹھی کرناشروع کر دیتے تھے اور کسی کی چھت پر یا کسی دوسری محفوظ جگہ پر رکھ دیا کرتے تھے۔ مگر آج کے ہندوستان میں کسی بھی تہوار کے لیے وہ جوش و خروش نہیں رہ گیا ہے جو کسی زمانہ میں مغلیہ دور کی ہولی، دیوالی، عید وغیرہ میں تھا۔

اس کی ایک مثال آصف الدولہ کے زمانے کی ہولی کے اس شعر سے ملتی ہے:

’’ہولی کھیلا آصف الدولہ وزیر
رنگِ صحبت سے عجب ہیں خردو پیر‘‘

اسی طرح میرؔ نے بھی ایک شعر کہا ہے:
’’آئو ساقی بہار پھر آئی

ہولی میں کتنی شادیاں لائی۔‘‘

کیا خوب کہا ہے نظیر بنارسی نے:

’’خطا معاف کریں سب کی بانٹ لیں خوشیاں
کسی کا دل نہ دُکھائیں کہ آج ہولی ہے

کریں نہ غیبت و شکوہ کسی کا اے لوگو
دلوں سے بغض مٹائیں کہ آج ہولی ہے۔
‘‘

(یو این این)

فیروز بخت احمد

اے ۔202،  ادیبہ مارکیٹ واپارٹمنٹس نزدرحمانی مسجد، مین روڈ
 ذاکر نگر ، نئی دہلی  :   110 025
فون: 26983211, 26984517
موبائل: 98109-33050


***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 647