donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tareekhi Paare
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Sadiyon Pahle Musalmano Ne Karaye The Mahabharat Ke Arbi Aur Farsi Zuban Me Tarjume


صدیوں پہلے مسلمانوں نے کرائے تھے

 

مہابھارت کے عربی اور فارسی زبان میںترجمے


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

اے آب رودِ گنگا وہ دن ہے یاد تجھ کو
اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا

    ہندوستان ایک قدیم تہذیبی ملک ہے جو ہزارہا سال کے تمدنی آثار رکھتا ہے۔ یہاں اہل عرب کی آمد اسلام سے بہت پہلے سے جاری ہے اور بھارت کے لوگ بھی عرب اور وسط ایشیا کے ملکوں میں صدیوں سے آناجانا کرہے ہیں۔ موجودہ ہندوستانیوں کے خون میں جس طرح بیرون ملک سے آنے والوں کا خون شامل ہے، اسی طرح دوسرے ممالک میں بھی ہندوستانیوں کی آمد ورفت اور اختلاط کے سبب وہاں کی مٹی میں ہندوستانی مٹی کی سوندھی مہک شامل ہوچکی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی آمدورفت تحقیق کا ایک موضوع ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں بسنے والے سبھی مذاہب کے لوگوں نے ایک دوسرے کے مذہب کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے ایک دوسرے کی مذہبی کتابوں کو پڑھا ہے ،ان کے تراجم کئے ہیں اور اشاعت کی ہے۔ محمود غزنوی کی فوج کے ساتھ یہاں آنے والے فلسفی ومورخ البیرونی نے ’’کتاب الہند‘‘ لکھ کربھارت کی تہذیب وتمدن اور یہاں کے علوم وفنون سے دنیا کو آگاہ کرنے کا پہلا کام کیا تھا۔ حالانکہ اسی دور میں بغداد کے عباسی خلفاء بھی ہندوستانی کتابوں کے تراجم کرارہے تھے اور انھوں نے ہندوستان کے علم نجوم وطب سے استفادے کی کوشش کی تھی۔ بھارت میں مغل حکمراں جلال الدین محمد اکبر کو علم پروری کے لئے جاناجاتا ہے مگر اس نے علمی کتابیں کم اور آرٹ کی کتابوں کی طرف زیادہ توجہ دی تھی۔ اکبر نے مہابھارت کا ترجمہ رزم نامہ کے نام سے کرایا تھا۔ یہ قدیم داستان کورووں اور پانڈووں کے درمیان کی لڑائی کی ہے، جو پشتہاپشت سے عوامی زبان پر رائج ہے اور یہ جنگ ضرب المثل کے طور پر بیان کی جاتی ہے۔ جنگ کے دوران کرشن نے ارجن کی رتھ بانی کی خدمت انجام دی تھی اور اس بیچ انھوں نے انھیں بہت سی نصیحتیں کی تھیں جن کامجموعہ بھگوت گیتا ہے۔ بھگوت گیتا کا ترجمہ سنسکرت سے فارسی میں فیضی نے کیا تھا۔ مہابھارت کی جنگ حقیقتاً ہوئی تھی یا نہیں اور اگر ہوئی تھی تو کب ہوئی تھی ،اس بارے میں کسی کو پتہ نہیں ،کیونکہ اس کے تاریخی شواہد اب تک نہیں مل پائے ہیں مگر ممکن ہے کوئی بڑی جنگ قبل تاریخ ہوئی ہوجس کی داستان لوگوں کی زبان پر آگئی ہو۔ ہندو عقیدے میں مہابھارت کو ایک مقدس کتاب مانا جاتا ہے او ر اکبر چونکہ مذہبی رواداری کا قائل تھا اور ہندووں کو بھی خوش رکھنا چاہتا تھا لہٰذا اس نے سیاسی مقصد کے پیش نظر اس کتاب کا ترجمہ کرایا ہوگا اور یہ بھی ممکن ہے کہ قصے کہانیوں کو اس نے حرم سرا کی خواتین اور امراء کی ضیافت طبع کے لئے فارسی کا روپ دیا ہو، کیونکہ بیشتر امراء سنسکرت سے واقف نہیں تھے ۔ اس نے جن کتابوں کے تراجم سنسکرت سے فارسی میں کرائے تھے ان میں مہابھارت، رامائن اور اپنیشد بھی شامل تھیں۔ایک محقق شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں:

    ’’اکبر نے ادبیات کی سرپرستی کی۔ سنسکرت،عربی، ترکی، یونانی سے فارسی میں کتابیں ترجمہ کرائیں۔ سنسکرت سے جوکتابیں ترجمہ ہوئیں، ان میں رامائن، مہابھارت، بھاگوت گیتا، اتھروید اور ریاضی کی کتاب لیلاوتی مشہور ہیں۔‘‘’

(رودکوثر،صفحہ ۱۶۴)

ہندووں کی مذہبی کتابوں کے تراجم عہد اکبری میں

    اکبر کے حکم سے جن کتابوں کا سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کیا گیا تھا ان کی تعداد مورخین نے پندرہ بتائی ہے۔ جن میں رزم نامہ کے علاوہ اتھروید ہے جس کا ترجمہ ملاعبدالقادربدایونی نے کیا تھا۔ بھگوت گیتا کا ترجمہ فیضی نے کیا تھا۔گنگادھر کا ترجمہ ابوالفضل نے کیا تھا۔ یوگ بششٹ کا ترجمہ مولانا فرنیولی، کتھا سریتا ساگرکا ملابدایونی، کشن جوشی کا ترجمہ ابوالفضل نے کیا تھا ،جب کہ لیلاوتی اور نل دمن کا ترجمہ فیضی نے کیا تھا۔مہیش موہانند کا ابوالفضل نے کیا تھا۔سنگھاسن بتیسی،مہابھارت اور رامائن کو سنسکرت سے فارسی میں ڈھالا تھاملا عبدالقادر بدایونی نے۔ سنگھاسن بتیسی کو ’’نامہ خرد افزا‘‘ کا نام دیا گیا تھا یعنی عقل بڑھانے والا مضمون۔ علاوہ ازیں کچھ دوسری کتابیں بھی سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کی گئی تھیں۔ غورطلب ہے کہ مورخ محمد قاسم فرشتہ نے اپنی کتاب تاریخ فرشتہ میں لکھا ہے کہ سلطان فیروز شاہ تغلق نے کچھ سنسکرت کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کرایا تھا۔  

    اکبر نے مہابھارت کا جو فارسی ترجمہ کرایا تھا اس کانام ’’رزم نامہ ‘‘رکھا تھا، دوسرے الفاظ میں جنگ نامہ بھی کہہ سکتے ہیں۔اس کی ماہر خطاطوں سے خطاطی کرائی گئی تھی اور ماہر فن مصوروں سے خوبصورت وجاذب نظر تصویریں بنوائی گئی تھیں۔

رزم نامہ کی خصوصیات

    اکبر کے رزم نامہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ فارسی میں مہابھارت کا پہلا ترجمہ تھا۔ اس سے پہلے کسی ترجمے کی خبر نہیں ہے۔البتہ عربی میں ترجمہ ہوچکا تھا۔ یہ سیدھا ترجمہ نہیں تھا بلکہ adaptationتھا۔ ۱۵۸۲ء میں اکبر نے بدایونی کو ترجمہ کرنے کا حکم دیا تھا اور اس نے ۱۵۸۴ء سے اس کام کو شروع کردیا۔۱۵۸۶ء میں یہ ترجمہ مکمل ہوگیا اور خطاطی وآرائش بھی۔پہلی کاپی میں مصور مشفق نے تصویریں بنائی تھیں بعد میں اس کی بہت سی کاپیاں تیار کرائی گئی تھیں جن میں سے ایک کاپی بعد میں جے پور کے راجہ سوائی مان سنگھ دوئم کے پاس پائی گئی تھی، یہ اب بھی سیٹی پیلس میوزیم، جے پور میں موجود ہے۔ اکبر نے ایک کاپی اپنے درباری عبدالرحیم خان خاناں کو بھیجی تھی اور دوسرے درباریوں اور امراء کو بھی رزم نامہ کی کاپیاں تحفے کے طور پر بھیجی گئی تھیں۔ خانِ خاناں عالم وعلم دوست انسان تھا اور اس کی لائبریری میں تمام اہم کتابیں موجود ہوتی تھیں لہٰذا بادشاہ بھی ہر کتاب کی ایک کاپی محفوظ رکھنے کے لئے ضرور بھیج دیتا تھا۔

رزم نامہ کی تصاویر اور ان کی اہمیت

     رزم نامہ میں جو تصویریں بنائی گئی ہیں، وہ بے حد خوبصورت اور جاذب نظر ہیں اور ہند،ایرانی ومغل مصوری کا شاہکار ہیں۔ ایک تصویر میں بھیشم اور یدھشٹر کو محو گفتگو دکھایا گیا ہے اور ان کے پیچھے کچھ لوگ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ یہ تصویر فتو کی بنائی ہوئی ہے جب کہ دوسری تصویر میں بھی وہی دونوں صلاح ومشورے میں ہیں مگر یہ تصویر دائود نامی مصور کی بنائی ہوئی۔ یہ تصویریں ۱۵۹۸ء کے نسخے کی ہیں۔ ۱۶۱۶ء کے رزم نامہ کی ایک تصویر میں دریودھن اور بھشم کی لڑائی دکھائی گئی ہے۔ایک تصویر مین کرشن کو یدھشٹر اور ہستیناپور کے کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایک تصویر میں بھشم کی موت کو ظاہر کیا گیا ہے اور اس کی لاش کے پاس کرشن ودیگر لوگوں کو بیٹھا ہوا دکھایا گیا ہے۔ تصاویر میں جنگیں دکھائی گئی ہیں اور جنگ کی بہت حسین منظر کشی کی گئی ہے۔  ایک تصویر میں کرشن کا حرم دکھایا گیا ہے، جس میں بہت سی خواتین زرق و برق لباس میں دکھائی دے رہی ہیں۔ کئی تصاویر میں کرشن کو دکھایا گیا ہے اور ان کے بدن کی رنگت نیلی دکھائی گئی ہے۔ان تصاویر کا خاص پہلو یہ ہے کہ ان میں کلچر وہی نظر آتا ہے جو عہد اکبری میں رائج تھا۔ لباس، مکانات کا آرکٹکچر اور فرش وقالین سب کچھ مغل عہد کے دکھائی دیتے ہیں۔ گنبد، جالیاں،محرابی دروازے اور تخت وتاج سب وہی ہیں جو مغل دور میں دکھائی دیتے تھے۔  

عربی میں مہابھارت

    بعض مورخین کا خیال ہے کہ مہابھارت کا عربی ترجمہ گیارہویں صدی عیسوی میں موجو دتھا اور یہ فرانس کے ایک کتب خانے میں دستیاب ہوا ہے۔ یہ ۱۰۲۶ء میں کسی شہزادی کے حکم سے کیا گیا تھا اور مترجم کا نام ابوصالح تھا۔ اسی سے فارسی میں مہابھارت کا ترجمہ کیا گیا اور فارسی سے فرنچ میں ترجمہ ہوا ،جس کا نام غالباً ’’مجمل التواریخ‘‘ تھا۔ اس میں ایک مقام پر تحریر تھا’’بھارت کے بادشاہوں کی تاریخ اور اس کی فہرست جانکاری کے لئے دی جارہی ہے جو ہمیں دستیاب ہوئی ہے۔‘‘ اصل میں عربی ترجمہ وسط ایشیا کے شہر جرجان میں دستیاب ہوا تھا، جس کی جانکاری وہاں کے لائبریرین ابوالحسن علی نے دی تھی۔۱۸۴۵ء میں پہلی بار فرنچ میں مہابھارت کا ترجمہ شائع ہوا جو سنسکرت نہیں بلکہ عربی کے اسی نسخے کیا گیا تھا اور اسے شائع کیا تھا M.Reinaud, Membre de l'Institut, Parisنے۔مہابھارت کا عربی ترجمہ گیارہویں صدی عیسوی میں کیسے ہوگیا، جب کہ دلی میں مسلم سلطنت کا قیام بھی اس وقت تک نہیں ہوا تھا؟ اس سوال کا بالکل ٹھیک ٹھیک جواب ملنا مشکل ہے مگر اس عہد میں سندھ میں مسلمانوں کی کئی چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں اور جاٹو ں کا ایک بڑا طبقہ عرب وایران میں آباد تھا ، ایسے میں سنسکرت سے عربی میں ترجمہ ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔مورخین نے لکھا ہے کہ اہل عرب اکثر سمندری راستے سے بھارت، چین، لنکا وغیرہ کے سفر پر قدیم دور سے آرہے ہیں، ایسے میں ان کی مہابھارت تک رسائی ناممکن نہیں لگتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مہابھارت کا سنسکرت سے عربی میں ترجمہ بغداد کے ان ترجمہ گاہوں میں ہوا ہوجو خلفاء بنو عباسیہ کے عہد میں قائم کئے گئے تھے اور سرکار ان کی سرپرستی کیا کرتی تھی۔ یہاں ہندوستانی اہل علم کو ترجمہ کی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ نویں صدی میںایک مرتبہ خلیفہ ہارون رشید بیمار ہوا تو اس کا علاج کرنے والوں میں دو ہندستانی وید بھی شامل تھے۔ عہد نبوی میں مدینہ میں ہندوستانی ویدوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا اور ایک مرتبہ حضرت عائشہ کا علاج بھی ایک ہندوستانی وید نے کیا تھا۔   

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 582