donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tareekhi Paare
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghulam Ibne Sultan
Title :
   Nau Abadiyat Aur Adbiyat

 

 نو آبادیات اور ادبیات

 


  غلام ابن سلطان


       برصغیر میں یورپی اقوام کی آمد کا سلسلہ بیس مئی 1498کو پر تگیز جوئندہ واسکوڈے گاما(Vasco da Gama)کی جنوبی ہند کی ریاست کیرالا میں واقع مالا بار کے ساحلی شہر کالی کٹ ( Calicut) موجودہ نام کوجھیکوڈ (Kozhikode) میں آمد سے شروع ہوا ۔پُورے بر صغیر پر غاصبانہ قبضہ کر کے اسے اپنی نو آبادی کا درجہ دے کر یہاں کے وسائل پر قابض ہونے کے منصوبے یورپی اقوام طویل عرصے سے بنا رہی تھیں۔ بر صغیر  کے سر سبز و شاداب کھیتوں سے زرعی اجناس کے خِرمن ،جاہ و منصب ،قصر و ایون اور تاج و تخت لُو ٹنے کے ظالمانہ اور جارحانہ منصوبے بنانے والے سفاک مہم جُو اور طالع آزماؤں نے اس خطے میں ہر سُو سازشوں کے جال بچھا دئیے۔بر صغیر کے قدرتی وسائل اورزراعت کے خام مال کو یورپی اقوا م للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ببر صغیر کی خو دمختاری یورپی اقوام کے دِل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی ۔ برطانوی بحری جہاز ہیکٹر کا امیر البحر ہاکنز(Hawkins)وسط اپریل سال 1609میں مغل شہنشاہ نور الدین جہاں گیر (عہدحکومت :1605-1627)سے ملنے کی غرض سے آگرہ میں قصر شاہی میں منعقدہونے والے دربار میں پہنچا۔ اپنی چرب زبانی ،جی حضوری ،خوشامداور چاپلوسی سے اس ملاقات میں وہ بر طانوی تاجروں کے لیے کچھ تجارتی مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔(1)اکتیس دسمبر1600سے بر صغیر میں تجارت کاآغاز کرنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارتی امور کی انجام دہی کی خاطر شروع ہی سے مکرو فریب اور جبر و استبداد کو اپنا نصب العین بنایا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے عیار تاجر یہ بات بر ملا کہتے تھے کہ تجارت میں غیر معمولی منافع کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جیب میں زر ہو جس سے ترغیب و تحریص پر مائل کیا جا سکے اور ہاتھ میں شمشیر ہوجس سے معمولی مزاحمت پر گھائل اور شدید اختلاف پر مخالف کا سر تن سے جد ا کیا جا سکے۔اپنے چہرے پر تاجر کا نقاب سجائے اور ہاتھوں میں استحصال کی درانتی سنبھالے بر طانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ظالم و سفاک تاجر سر سبز و شاداب کھیتوں سے زرعی اجناس کی فصل اور بستیوں سے سروں کی فصل کا ٹنے کے لیے آگ اور خون کا دردناک کھیل کھیلنے کی غرض سے، بر صغیر کے معاملات میں در اندازی اور اپنی نوآبادیات میں وسعت کے لیے اس خطے میں پہنچ گئے۔ اکتیس دسمبر 1600کو ملکہ الزبتھ اول (Queen Elizabeth I)نے بر طانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقتدر حلقوں( جن میں تاجر اور گورنر شامل تھے )کو بہ ظاہر تو تجارت کا چارٹر دیا تھا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ در پردہ ان جو فروش گندم نما تاجروں کو بر صغیر میں بھی ملکہ الزبتھ اول (عہد حکومت :سترہ نو مبر1558تاچوبیس مارچ1603)کو مطلق العنان تاج ور بنانے کی راہ ہموار کرنے کی ذمہ داری تفویض کر دی گئی تھی۔ہوسِ ملک گیری اور سادیت پسندی کے عارضے میں مبتلا بر طانوی تاجر وںکو تاج ور بننے میں دو سو ستاون سال کا عرصہ(1600-1857) لگا اور بر طانوی ایسٹ انڈیا  اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے میں کام یاب ہو گئی۔ تاجروں کے روپ میں آنے والوں نے یہاںزندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دیں۔برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارت کے عرصے میں حالات نہایت تیزی سے ابتر ہوتے چلے گئے اور سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں میں تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے رفتہ رفتہ بہتے چلے گئے۔سال1639میں بر طانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ترغیب و تحریص کے ذریعے مدراس کی اہم بندرگاہ کے ہندو راجہ وینکٹ دری نائک(Damarla Venkatadri Nayakudu,) سے پٹے پر حاصل کر لی۔(2) برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے موقع پرست تاجروں نے بر صغیرکے مقامی باشندوں کی املاک کو للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا۔اس خطے کے تما م علاقوں کو وہ اپنی ذاتی املاک تصور کرنے لگے ۔انھیں یقین تھا کہ وہ دن دُور نہیںجب یہاں کے سادہ لوح عوام اپنے کور مغز ،عیاش اور ذہنی و مالی اعتبار سے قلاش حاکموں کے بجائے غیر ملکی فرماں رواؤں کی آمد کو نیک شگون خیال کریں گے۔یہ بات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سچ ثابت ہوئی اور مقامی حکمر انوں کی اقتدار پر گرفت کم زور ہوتی چلی گئی۔ بر طانوی شہنشاہ چارلس دوم(عرصہ اقتدار:انتیس مئی 1660تاچھے فروری1685) نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو جزیرہ بمبئی پٹے پر دے دیا۔یہ جزیرہ سال 1661میں چارلس دوم (Charles II of England)نے پر تگیزوں سے اپنی ملکہ کیتھرین (Catherine of Braganza)کے جہیز میں حاصل کیا تھا۔(3) برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے حریص ،خود غرض ،مفاد پرست اور استحصالی سوچ رکھنے والے تاجروں نے مقامی باشندوں بالخصوص ہندو سرمایہ داروں کو سبز باغ دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا ۔متعصب ہندو اس علاقے میں مسلمانوں کے اقتدار کو پسند نہیں کرتے تھے اس لیے انھوں نے مسلمانوں کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ چور محل میں جنم لینے والے کئی آستین کے سانپ ،سانپ تلے کے بچھو، محسن کش اور کُوڑے کے ہر ڈھیر سے مفادات کے استخواں سُونگھنے والے خارش زدہ باؤلے سگان راہ ِ بھی بر طانوی تاجروں کے سامنے دُم ہلانے میں عافیت محسوس کرتے تھے۔


        ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک موقع پرست معالج ولیم ہملٹن نے مغل شہنشاہ فرخ سیر کی ران پر سُوجن کا علاج کیا تھا۔ اس خدمت کی وجہ سے مغل شہنشاہ ولیم ہملٹن کی بہت قدر کرتاتھا۔جان سرمن نے سرجن ڈاکٹر ولیم ہملٹن (William Hamilton) توسط سے سال 1715میں مغل شہنشاہ فرخ سیر(عہد حکومت :1713-1719) سے دہلی میں ملاقات کی اور سال 1717میں فرخ سیر نے بر طانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو اس قدر فراخ دلانہ مراعات دیں جو کہ ان کی توقع سے بھی بڑھ کر تھیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے یہ مراعات مستقبل کی منصوبہ بندی میں بے حد معاون ثابت ہوئیں ۔اس قدر وسیع اختیارات اورتجارتی مراعات حاصل کرنے کے بعد بر طانوی تاجروں نے بر صغیر کی سیاست میں کھلم کھلا گہری دلچسپی لینی شروع کر دی۔(4)المیہ یہ ہوا کہ اپنی شاطرانہ چالوں سے بر طانوی تاجروںنے یہاں کے لوگوں کو اخلاقی میدان میں شکست دے دی۔عیار بر طانوی تاجر بر صغیر سے کچھ ایسے لوگ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے جن کی بے بصری ،کور مغزی،بے ضمیری،بے غیرتی،بے شرمی،بے حسی اور بے حیائی نے خود انھیں اقوام عالم کی صف میں تماشا بنا دیا۔چڑھتے سورج کی پرستش کرنے والے ان نمک حرام ،ابن الوقت ،مفاد پرست ،کینہ پرور ،حاسد اور غدار درندوں نے اپنے انتہائی گھٹیا نوعیت کے ذاتی مفادات کی خاطرپُورے بر صغیرکی مرکزی حکومت کے اقتدار اعلا ،قومی تشخص اور تہذیبی اقدار ،ثقافتی روایات ،تاریخی میرا ث اور ملی وقار کو داؤ پر لگادیا۔جلتے ہوئے روم کودیکھ کر وقت کے نیر وچین کی بانسری بجانے میں مشغول رہے اور عوام دشمن درندوں کی سفلگی،خست وخجالت ،باطنی خباثت اور ذہنی نجاست کے باعث ایسی آگ بھڑک اُٹھی جس نے بر عظیم میں صدیوں سے موجود ہر شعبۂ زندگی میں مسلمانوں کی کار کردگی اور اسلامی حکومت کے قصرِ عالی شان کو ملبے کے سوختہ ڈھیر میں بدل دیا۔مسلمانوں نے سخت محنت اور جاں فشانی سے بر صغیر میں بحری تجارت کو فروغ دیا(5)۔سازشی عناصر نے مسلمان تاجروں اور ملاحوں کواس قدر ہراساں کیا کہ بحری تجارت ان کے ہاتھ سے نکل گئی اور اس پر برطانوی تاجر قابض ہو گئے۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی بر صغیر میں یلغار سے قبل مقامی اہلِ حرفہ ،دست کار ،محنت کش اور صناع اپنے اپنے شعبوں میں اس قدر فنی مہارت رکھتے تھے کہ ہر جگہ ان کی دست کاریوں اور مصنوعات کی دُھوم تھی۔ایران میں شاہ عباس (عہد حکومت :1588-1629 )نے دست کاریوں کے فروغ با لخصوص قالین سازی کے فن کو ترقی دینے میں گہری دلچسپی لی ۔ایرانی دست کاروں کے تیار کیے ہوئے قالین دنیا بھر میں مقبول تھے۔ مغل شہنشاہ شاہ جہان(عہدِ حکومت:1628-1658    )کے عہد میںبرصغیرمیں اس قدر عمدہ اور نفیس قالین تیار کیے جاتے تھے کہ ان کے مقابلے میں شاہِ ایران کے کارخانوں میں تیار ہونے والے قالین بوریا معلوم ہوتے تھے۔(6)ایسٹ انڈیا کمپنی کے عیار تاجروں نے استحصالی ہتھکنڈوں سے مقامی دست کاروں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا اور ان کی زندگی اجیرن کر دی۔اپنے غیر قانونی ،غیر اخلاقی اور غیر انسانی روّیے سے برطانوی تاجروں نے بر صغیرکے دست کاروں کے کام پر بلا جوا زپا بندیا ںلگائیں اور دست کاروں کے ساتھ ناروا سلوک کر کے انھیں اپنا کام چھوڑ کر غیر ہنر مندوں کی طرح محنت، مزدوری یا خوانچہ لگانے پر مجبور کر دیا۔ایک سوچے سمجھے منصوبے اور گھناونی سازش کے تحت مقامی دست کاریوں کو ختم کر دیا گیا اور ان دست کاریوں سے روزی کمانے والے محنت کش لوگ در بہ در خاک بہ سر ہو گئے۔بر طانوی تاجروں نے غیر ملکی مصنوعات کے لیے کھلی منڈی فراہم کرنے کی غرض سے مقامی دست کاروں کو بے بسی کے عالم میں اپنے آبائی پیشوں سے کنارہ کش ہونے پر مجبور کردیا۔اس قسم کے اقدامات سے معاشی ڈھانچہ مفلوج ہو کر رہ گیااور ہنر مند لوگ بے روزگار ہو گئے۔بر صغیرکے سماجی ،معاشرتی اور سیاسی حالات میں اس قدر ابتری پید ا کی گئی کہ بیرونی دنیا کے صنعت کار اپنی فرسودہ مصنوعات یہاں دھڑلے سے فروخت کرنے لگے۔مقامی دست کار ہر جگہ خوار و زبو ںتھے اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہ تھا۔بر طانوی تاجر اپنے مکر کی چالوں سے مقامی باشندوں کا جی بھر کر استحصال کر رہے تھے اور کوئی اُن سے باز پُرس کرنے والا نہ تھا۔بر طانوی تاجروں نے صنعتی منصو بوںاور ذرائع مواصلات کی ترقی کی آڑ میں لُوٹ کھسوٹ کی انتہا کر دی یہاں تک کہ بر صغیر کے تمام وسائل پر اُن کا قبضہ ہو گیا۔(7)سیاسی میدان میں انگری تاجروں نے مقامی حکمرانوں کو غدارو ںاور نمک حرام سالاروں کی مدد سے اپنا مطیع بنا لیا تھا ۔تئیس جون 1757کو پلاسی کی جنگ میں کرنل کلائیو کی تین ہزار فوج نے سراج الدولہ کی اٹھارہ ہزار فوج کو صرف چالیس منٹ کی جھڑپ کے بعد بھاری جانی نقصان پہنچا کر تتر بتر کر دیا۔اس فیصلہ کن جنگ میں جن نمک حرام غداروں نے سراج الدولہ کی پیٹھ میں چُھرا گھونپ کر جارحیت کے مرتکب انگریزوں کا ساتھ دیا ان میں میر جعفر،یار لطف خان،مہتاب چند،سوارپ چند،اومی چند اور رائے درلبھ شامل تھے۔سراج الدولہ کی فوج کے سالار میر جعفر نے فوج کو جنگ سے باز رکھا اور اس کی غداری کے باعث سراج الدولہ کو شکست ہوئی۔ شکست کے بعدسراج الدولہ پہلے مرشد آباد پہنچا پھر کشتی کے ذریعے پٹنہ چلا گیالیکن گردشِ ایّام پیہم اس کے تعاقب میں تھی۔میر جعفر کے سپاہیوں نے سراج الدولہ کو گرفتار کر لیا۔دو جولائی 1757کو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اشارے پرمیرجعفر کے بیٹے میر میرن کے حکم پر مرشد آباد  کے مقام پرمیر جعفر کی رہائش گاہ میں واقع نمک حرام ڈیوڑھی میںمحمد علی بیگ نے سراج الدولہ کو بار ِ ہستی سے سبک دوش کر دیا۔ ہوس ِ ملک گیری میں مبتلا غاصب بر طانوی تاجر جلد از جلد تاج ور بننا چاہتے تھے۔پلاسی کی جنگ میں فتح کے بعد بر طانوی تاجروں نے عملاً بر صغیر کا انتظام حکومت سنبھال لیا۔چار مئی 1799کو شیرِ میسور سلطان فتح علی ٹیپو نے بر طانوی استعمار کے خلاف سینہ سپر ہو کر سر نگا پٹم کا دفاع کرتے ہوئے جامِ ِشہادت نوش کیا۔بر طانوی سامراج کے نمائندہ گورنر لارڈ ویلزلی(Lord Wellesley)نے چار مئی 1800 کوکلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کے قیام کی منظوری دی۔ فتح علی ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد بر طانوی سامراج کو یقین ہو گیا کہ اب پورے بر صغیر پر غاصبانہ قبضہ کرنے میں انھیں کسی شدید نوعیت کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گااور وہ ہندوستان کے مطلق العنان حکم ران بن کر یہاں کے مظلوم عوام کو اپنا تابع اور مطیع بنا کر رکھنے میں کام یاب ہو جائیں گے۔ بر طانوی سامراج کے کبر ونخوت اور رعونت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج کے قیام کی منظوری ٹیپو سلطان کی شہادت کی پہلی برسی پر دی گئی۔ فورٹ ولیم کالج میں دس جولائی 1800کو تدریسی کام کا آغاز ہو گیا۔اپنی نوآبادی میں انگریزوں کو بر صغیرکی زبانیں اورعلوم شرقیہ سکھانے کی غرض سے فورٹ ولیم کالج قائم کیا۔فورٹ ولیم کالج میں اردو،عربی،فارسی،سنسکرت،بنگالی،مراٹھی اورچینی زبان کی تدریس کا انتظام کیا گیا۔فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے شعبہ ترجمہ میں ماہر مترجمین نے مقامی زبانوں کی ہزاروں کتابوں کے تراجم کیے۔اس کالج میں شعبہ اُردو کی نگرانی پر جان گلکرسٹ (John Gilchrist)کو مامور کیا گیا جو میٹرک کرنے کے بعد برطانوی بحریہ میں ڈسپنسرکی حیثیت سے خدمات انجام دے چُکا تھا۔مورخین کا خیال ہے کہ بر طانوی سامراج نے بر صغیر میں اپنے قدم جمانے کے لیے اس قسم کے اقدامات کیے ورنہ انھیں ہندوستانی لسانیات اورادبیات کے فروغ سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔فورٹ ولیم کالج میں جو تراجم کیے گئے وہ سب نو آبادیاتی دور کی نشانی ہیں۔     

        بر طانوی استعمار کی کی چڑھتی ہوئی سفید آندھی اور کالے قوانین کے تُند و تیز بگولوں کی زد میں آکر مقامی حکومتوں اورریاستوں کی خود مختاری خس وخاشاک کے مانند اُڑ گئی۔ایسی ہوائے جور و ستم چلی کہ مقامی باشندے اپنے وطن میں اجنبی بن گئے اور بر طانوی سامراج ان پر مسلط ہو گیا۔بہادر شاہ ظفر (عرصہ حکومت :اٹھائیس ستمبر 1837تاچودہ ستمبر 1857)کی جائز اورقانونی حکومت کو بلاجواز ،غیر قانونی اور غیر اخلاقی انداز میں بر طرف کر دیا گیا۔آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر اور اُس کے خاندان کے سولہ افراد نے لال قلعہ دہلی سے آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع عہدِ اکبری میں سال1570میں تعمیر ہونے والے بر عظیم میں باغوں والے پہلے مرقد’’ہمایوں کے مقبرے ‘‘میں پناہ لے رکھی تھی۔جنگی جنون میں مبتلابر طانوی فوجی شکاری کتوں کی طرح شاہی خاندان کے افراد کے تعاقب میں تھے۔بالآخر بر طانوی فوجی دستے کے سالار میجر ہڈسن نے انھیں ڈھونڈ نکالا اور ان کی سلامتی اور جاں بخشی کا عہد کرکے انھیں بیس ستمبر 1857 کو گرفتار کر کے ایک رتھ میںبٹھا کر دہلی لایا ۔عادی دروغ گو،پیمان شکن حملہ آور ،سفاک قاتل اور شقی القلب جلاد میجر ہڈسن نے بائیس ستمبر1857کو دہلی گیٹ کے قریب خونی گیٹ میں بہادر شاہ ظفر کے بیٹوںمرزا مغل،مرزا خضر سلطان اور پوتے مرزا ابو بکر کو گولیوں سے چھلنی کر دیا،ان کے سر تلوار سے کاٹ کر پھینک دئیے اور ان کی انگوٹھیاں اور زیورات خوداتار کر اپنی جیب میں ٹھونس لیے۔ ان شہزادوں کی لاشیں دہلی شہر کی کوتوالی کے سامنے لٹکا دی گئیں جہاں ان بد نصیب شہزادوں کی بو ٹیاں گدھ اور کتے کئی دن تک نو چتے رہے ۔(8)  بے رحمانہ انتقامی کار روائیوں اور ظالمانہ نظام کی قباحتوں کے سامنے مظلوم عوام بے بس تھے۔ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اور اس کے خاندان کے افراد کو جنگل کے قانون کے تحت جلا وطن کر کے رنگون کے زندان میں محبوس کر دیا گیا ۔ معزول مغل شہنشاہ اور اس کے اہلِ خانہ کے ساتھ یہ درندگی اس حقیقت کی غماز ہے کہ بر طانوی استعمار اور نوآبادیاتی استبدادنے تمام انسانی اور اخلاقی اقدار کو مامال کر دیا۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ عالم ،دانش ور ،مورخ ،محقق،ادیب اور فنون لطیفہ سے وابستہ ممتاز لوگو ں کو جان کے لالے پڑ گئے۔  1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد بر طانوی استعمار نے ہلاکو اور چنگیز کو بھی مات کر دیا ۔ بر طانوی استعمار کے مقتدر حلقوں کی فرعونیت کا یہ حال تھا کہ جسے چاہتے بے جرم و خطا اُسے گولی سے اُڑا دیتے۔1857 کی ناکام جنگ آزادی کے بعدجن ہزاروںبے گناہ خاک نشینوں ، الم نصیبو ں اور ممتاز ادیبوںکا خون رزقِ خاک ہوا اُن میں ا ُس عہد کے ممتاز عالم امام بخش صہبائی اور اُن کے خاندان کے اکیس افراد بھی شامل تھے۔(9)آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے سات نومبر 1862صبح پانچ بجے رنگون کے ایک عقوبت خانے میں عالم تنہائی اور جلاوطنی میں ستاسی سال کی عمر میںداعی ٔ اجل کو لبیک کہا ۔اسی روز سہ پہر چار بجے بر عظیم پاک و ہند میں سال  1526میں قائم ہونے والی مغلیہ حکومت کی آخری نشانی رنگون میں پیوند ِ خاک ہو گئی۔بہادر شاہ ظفر کی تدفین کے وقت اس کے دو بیٹے موجود تھے مگر اس کی اہلیہ زینت محل موجود نہ تھی۔وقت کا دھار ا بہت ظالم ہے یہ نمود و نمائش، دنیاوی کر و فر اور جاہ و جلال کوخس و خاشا ک کے مانند بہا لے جاتا ہے ۔ بڑے بڑے نامیوں کی مثال بھی ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایسی تحریر کے مانند ہے جسے سیل زماں کے مہیب تھپیڑے پلک جھپکتے میں مٹا دیتے ہیں۔  1857کی ناکا م جنگ ِ آزادی کے بعد رُونما  ہونے والے الم ناک حالات اور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں ڈاکٹر محمو دالرحمٰن نے لکھا ہے :

        ’’بر طانوی سامراج کا بول بالا ہو گیاہر جگہ توپ و تفنگ کا پہر ہ تھا،سنگین و سلاسل کی یورش تھی۔حسین و جمیل عمارتوں کے شہر کھنڈر میں تبدیل کر دئیے گئے،اُمید و آرزو کا آخری مرکز،قلعہ معلیٰ غیر ملکی تاجروں کی تحویل میں چلا گیا۔اب ہر سُو شکست و ریخت کا روح فرسا سماں اہلِ وطن کے رُو بہ رُو تھا۔‘‘

(10)
     1857 کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد رُو نما ہونے والے المناک واقعات،انتقامی کارروائیوں اور توہین آمیز سلوک کے بعد برصغیر کے باشندوں نے بر طانوی استبداد ی نظام ِحکومت کو کبھی دل سے تسلیم نہ کیا۔ غیر ملکی تاجروں کے عزائم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے مسلمانوں نے اس وقت بھی اس نظام کی مخالفت کی جب ہر طرف سے اس قسم کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں :

         ’’خلق خدا کی ، ملک بادشاہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا۔‘‘

(11)
     جنگِ آزادی1857کے بعد بر صغیرکے حالات کی کایا پلٹ گئی۔ایسٹ انڈیا کمپنی جس کا قیام اکتیس دسمبر 1600کو عمل میں لایا گیاتھااسے استعماری،توسیع پسندانہ ،جابرانہ اور نو آبادیاتی ایجنڈے کی تکمیل کے بعد یکم جون 1874کو غیر فعال کر دیا گیا۔ اس سے پہلے دو اگست 1858کو بر طانوی پارلیمنٹ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی منظوری دے کر بر صغیرکا انتظام سنبھال چکی تھی۔ برصغیرپر برطانوی تسلط کے بعد مسلمانوں کی اکثریت نے برطانوی استعمار کے کالے قوانین اور فسطائی جبر کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کردیا ۔انگریزوں نے اپنی کینہ پروری اور اسلام دشمنی کے باعث بر صغیر میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ انگریزوں نے ہندوئوںکی مسلم دشمنی سے فائدہ اٹھایااور انھیں اپنا طرف دار بنانے کی مکروہ سازش تیار کر لی ۔ نو آبادیاتی دور میں بر صغیر میں انگریزوں نے لڑائواور حکومت کرو کے شیطانی منصوبے پر عمل کیا۔ جب پورا بر صغیرغاصب بر طانوی سامر اج کے شکنجے میں آ گیا تو یہاں کے مظلوم عوام پر جو کوہِ غم ٹوٹا اس نے اُردو زبان و ادب پردُور رس اثرات مرتب کیے۔بر طانوی استعمار کی مسلط کردہ شبِ غم جو نوے سال پر محیط تھی اس نے یہاں کے باشندوں کی زندگی کا تمام منظر نامہ گہنا دیا ۔ہراساں شب و روز کے اس طویل ،لرزہ خیز اور اعصاب شکن ماحول میںچلنے والی ہوائے جورو ستم نے اُمیدوں کے چمن میں کِھلنے والی حوصلے ،صبر اور تعمیر ِ نو کی کلیوں کو جُھلسا دیا۔اس خطے کے مظلوم عوام کا اس بے دردی سے استحصال کیا گیا کہ تاریخ میں کی کوئی مثال نہیں ملتی۔یورپ کے حکمران طبقے نے سولہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک ایشیا اور افریقہ کے پس ماندہ ممالک میں اپنی نو آبادیاں قائم کر لی تھیں۔ان نو آبادیوں کے باشندوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا اور وہاں کے تما م وسائل پر ہاتھ صاف کرنا ان ظالم حکمرانوں کا وتیرہ بن گیا۔

      1857 کی ناکام جنگ آزادی کے بعد برصغیر کے علمی و ادبی حلقوں میںغیر یقینی ، مایوسی ، اضطراب اور بیزاری کی کیفیت پیدا ہوگئی ۔ فنونِ لطیفہ سے وابستہ لوگ اس تشویش میں مبتلا تھے کہ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد حالات کیا رخ اختیار کریں گے اور برطانوی سامراج کی ہوسِ ملک گیری کیاگُل کھلائے گی ۔ برطانوی سامراج نے اپنے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے برصغیر کے طول وعرض میں ادب اور فنون لطیفہ کے فروغ کے نام پر مختلف انجمنیں اور سوسائٹیاںقائم کیں ۔ اسی مقصد کے تحت اکیس جنوری 1865کو لاہور میں ’’انجمن اشاعتِ مطالبِ مفیدہ پنجاب‘‘ کے نام سے ایک انجمن کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس کے قیام میں ڈاکٹرلائٹنر(  Dr Gottlieb Wilhelm Leitner  )نے گہری دلچسپی لی۔ سال 1865میںانجمن پنجاب کے اراکین کی تعداد 244تھی یہ سب علوم شرقیہ کے فروغ کے لیے کوشا ں تھے۔یکم جنوری 1864 کولاہور میں گورنمنٹ کالج کے قیام کے بعدڈاکٹر لائٹنر کو اِس کا پہلا پر نسپل مقرر کیا گیا اور سال 1882 میں لاہور میںجامعہ پنجاب کے قیام کے بعد ڈاکٹر لائٹنر کو اس کا پہلا رجسٹرار مقرر کیا گیا۔ انجمن پنجاب نے بر صغیر کی مقامی زبانوں کے ادب کی ترویج و اشاعت کو اپنا نصب العین بنایا۔انجمن پنجاب نے طب کے شعبے میںبھی گہری دلچسپی لی یو نانی اور ویدک ادویات پر تحقیقی کام کی حوصلہ افزائی کی۔انجمن پنجاب نے مشاعروں ،ادبی سیمینارز،صحافت،کتب خانوں کے قیام،علمی و ادبی خطبات اور علمی وادبی کتب کی اشاعت کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔انجمن پنجاب میں خدمات انجام دینے کے لیے محمد حسین آزاد (1830-1910) سال  1864میں دہلی سے لاہور  پہنچے ۔ محمد حسین آزادنے سال 1864میںانجمن پنجاب کے جلسہ میں ایک اہم لیکچر دیا۔اُردو زبان کو تکلف ،تصنع ،روایتی نوعیت کے استعارات ،تخیل کی جو لانیوں ،بے فائدہ طول نویسی ،غیر محتاط قیاس آرائی اور تخیل کی شادابی کے مظہر مفروضوں سے نجات دلا کر علم و ادب کی ترجمان بنانے کے سلسلے میں مؤثر لائحۂ عمل اختیار کرنے پر زور دیا۔آزاد کا خیال تھا کہ زبان کی سادگی ،سلاست اورروانی اس کے مؤثر اظہار و ابلاغ کو یقینی بنا سکتی ہے۔اپنی تصنیف ’’آب ِحیات (1880)میں محمد حسین آزاد ؔ نے ادب میں اصلاح ،افادیت اور مقصدیت پر توجہ مرکوزرکھنے پر زور دیا۔ سال1880کے وسط میںانجمن پنجاب کی مقبولیت کم ہو گئی اکثر لوگ اسے قدیم سوچ کی مظہر سمجھنے لگے۔

       یہ امر قابل غور ہے کہ بر عظیم میں بر طانوی استعمار کے غلبے کے بعدیہاں کے ادیبوں نے کیا طرز عمل اختیارکیا۔اس برطانوی نو آبادی کے بے بس عوام نے استعماری قوت کے فسطائی جبر کے سامنے سینہ سپر ہو کر کیسے کیسے دکھ بر داشت کیے اور انھیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔موقع پرستوں ،ابن الوقت اور چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے بے ضمیروں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے کون سے حربے اختیار کیے ۔اُردو ادب میں نو آبادیاتی دور کی عقوبتوں اور اذیتوں کے خلا ف کُھل کر لکھا گیا۔اس کی چند مثالیں پیش ہیں:

   مومن خان مومن

(1800-1851)

      حکیم مومن خان مومنؔ نے غالبؔ اور ذوقؔ کا زمانہ دیکھا تھا۔مومنؔ نے شاعری ،طب اور علم نجوم میں اپنی مہارت کا لو ہامنوایا۔مومنؔ کے دور میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے مسلط کردہ ظالمانہ استبدادی نظام اور نو آبادیاتی دور کے عذاب کے باعث بر صغیر کے عوام شدید مسائل کا شکار تھے۔معاشرتی ،تہذیبی اور ثقافتی سطح پرشکست و ریخت کے آثار نمایاں تھے۔ بر طانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں نے طویل عرصے سے بر صغیرکے وسائل اوراقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے کی جو منصوبہ بندی کر رکھی تھی وہ اہلِ درد کی نظروں سے پوشیدہ نہ تھی۔ اِیسٹ انڈیا کمپنی نے مقامی باشندوں کو روزگار فراہم کرنے کی غرض سے نہایت عیاری سے مقامی سپاہیوں پر مشتمل ایک فوج بھرتی کر لی ۔اس فوج میں تمام کلیدی عہدے انگریز افسروں نے سنبھال رکھے تھے۔انگریزوں کو مسلمان باشندوںپر اعتماد نہ تھا اس لیے ہندو راجوں اور مہا راجوں کی ملی بھگت سے اِس مسلح فوج میں زیادہ تر ہند و،سکھ اور نیپا ل سے تعلق رکھنے والے گورکھے شامل کیے گئے۔ مسلمان باشندوں کی تحقیر کرنا بر طانوی فوجی افسروں کا معمول بن گیا۔ فسطائی جبر کے اِس مسموم ماحول میںاُردو زبان کے زیرک تخلیق کار یہ ثابت کرنے میں کام یاب ہو گئے کہ قلم کی قوت شمشیر سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس عہدِ ستم میں اِن حساس ادیبوں کے دِ ل کی انجمن پر جتنے موسم اُترے ان کا حال من وعن بیان کیا گیا ہے۔ مومن خان مومن ؔنے اپنی شاعری میںان تمام عوامل کی جانب متوجہ کیا ہے:

        ناصحا دِل میں تُواِتنا تو سمجھ اپنے کہ ہم
        لاکھ ناداں ہوئے کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے

       مِنتِ حضرتِ عیسیٰ  ؑنہ اُٹھائیں گے کبھی
        زِندگی کے لیے شرمندۂ احساں ہوں گے

        پِھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہو گی
        پِھر وہی پاؤںوہی خارِ مغیلاں ہوں گے

       عمرساری تو کتی عشقِ بُتاں میں مومنؔ
      آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

 

مرز اسداللہ خان غالبؔ

(پیدائش:ستائیس دسمبر1797وفات:پندرہ فروری1869) 

        جنگ آزادی1857کے الم ناک انجام اور عوام کی ناکامی کے بعد عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں آ گئے اور بر طانوی زاغ و زغن نے یہاں کے مفلوک الحال،پس ماندہ، مظلوم اور قسمت سے محروم باشندوں کا خون چوسنا شروع کر دیا۔ بر طانوی طالع آزما ،مہم جُو اور سفاک حملہ آورمقامی باشندوں کے در پئے آزار تھے ۔ جنگ ِآزادی کی ناکامی کے بعدیہاں کے باشندوں کو جن صبر آزما حالات کا سامنا کرنا پڑا وہ تاریخ کے ایک ہو لناک سانحہ سے کم نہیں ۔ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے معاشرتی زندگی کا امن و سکون غارت کر دیا اور رابن ہُڈ کی تقلید کرتے ہوئے بر طانوی تاجر زرو مال سمیٹنے میں مصروف ہو گئے۔اس عہد کے ا دیبوں نے اس صر یح ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔مرزا اسداللہ خان غالبؔ نے فسطائی جبر کے تما م حربوں کا سامنا کیا اور زندگی بھر دہلی میں موجو درہے۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مرزا اسداللہ خان غالبؔ نے اس قلزم خون کے شناور کا کردار ادا کیاجس نے پورے بر عظیم کو اپنی زد میں لے رکھا تھا۔بر طانوی استعمار نے تمام اخلاقی حدو دسے تجاوز کرتے ہوئے یہاں کے مظلوم عوام کے خون سے ہولی کھیلی ۔جنگ آزادی کی ناکامی کے بعدغاصب بر طانوی استعمارکے حامیوں جس درندگی کا مظاہرہ کیا،اسے دیکھ کر اس حساس تخلیق کار کی روح زخم زخم اور دِل کِرچی کِرچی ہو گیا۔ جبر کے ماحول میں انسانیت کی توہین،تذلیل،تضحیک اور بے توقیری جب حد سے تجاوز کرنے لگی تو بر صغیر کے باشندے حالات سے اس قدر مایوس ہو گئے کہ ان کی دلی کیفیت اس شعر کے مصداق تھی:

      رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
      ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

       جنگِ آزادی 1857کی ناکامی کے بعد شہر سنسان ہو گئے اور آبادیاں چھاونیوں اور فوجی کیمپوں میں بدل گئیں۔بر طانوی سامراج نے اپنے مکر کی چالوں سے بر صغیر کے باشندوں کی آزادی سلب کر کے اُن کو اپنا غلام بنا لیا۔ ان حملہ آور بر طانوی سپاہیوں نے دہلی اور اس کے گرد و نواح کے وسیع علاقے کو بُوٹوں کے نیچے روند ڈالا۔ غاصب بر طانوی استعمار اور اس کے آلۂ کار موقع پرستوںنے جس سفاکی کا مظاہرہ کیا ،اس کی لفظی مرقع نگاری کرتے ہوئے مرزا اسداللہ خان غالبؔ نے کہا:

       گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
       زَہرہ ہوتا ہے آب اِنساں کا

       چوک جِس کو کہیں وہ مقتل ہے 
      گھر،بنا ہے نمونہ زِنداں کا

      شہر دہلی کا ذرّہ ذرّہ ٔ  خاک
      تشنۂ خوں ہے ،ہر مسلمان کا 

      کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک
      آدمی،واں نہ جا سکے یاں کا

      میں نے ماناکہ مِل گئے،پِھر کیا؟
       وہی رونا تن و دِل و جاں کا

       گاہ جل کر کیا کیے شکوہ
       سوزشِ داغ ہائے پِنہاں کا

      گاہ رو کر کہا کیے باہم
        ماجرا دیدہ ہائے گِریاں کا

        اِس طرح کے وصال سے،یا رب
      کیا مِٹے دِل سے داغ ہجراں کا

          مرزا اسداللہ خان غالبؔ کے محولہ بالا اشعار میں ’’داغ ِ ہجراں ‘‘کاذکر گہری معنویت کا حامل ہے ۔شاعر نے ان جری ،با ضمیر اور حریت فکر و عمل کے مجاہدوں اور جان کی بازی لگانے والے بہادروں کا ذکر کیا ہے جنھیں فسطائی جبر کے باعث اذیتوں اور عقوبتوں کا نشانہ بنایا گیا۔اس کے نتیجے میں بیش تر مجاہد شہید ہو گئے جو بچ گئے وہ بر طانوی استعمار کے مسلط کیے ہوئے جنگل کے کالے قوانین کی زد میں آ گئے اور انھیں حبسِ دوام کی سزا دی گئی یا انھیں جزیرہ انڈیمان (Andaman ) کالے پانی میں اسیروں کو انتہائی اذیت اور عقوبت پہنچانے کے لیے تعمیر کی گئی کال کوٹھڑیوں پر مشتمل (Cellular Jail) زندان میں اسیر ی کی سزا دی گئی۔مرزا اسداللہ خان غالب ؔنے مغلوں کی جائز حکومت کی سفاکانہ برطرفی کے بعدہمیشہ اپنی تشویش اور رنج کا اظہار کیا۔بر طانوی استعمار کے کرگس جب یہاں کے عوام پر جھپٹے تو نہتے عوام حسرت و یاس کی تصویر بنے گردشِ حالات کے زخم سہنے پر مجبور تھے۔مرزا اسداللہ خان غالبؔ نے ان لرزہ خیز حالات کے بارے میں کہا:

       ایک اہلِ درد نے سنسان جودیکھا قفس
      یوں کہا:’’آتی نہیں کیوں اب صدائے عندلیب‘‘

      بال و پر دو چار دِکھلا کر، کہا صیّاد نے :
      ’’یہ نشانی رہ گئی ہے اب  بجائے عندلیب‘‘

       جب مقامی باشندوں کو جنگ آزادی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ ا تو اس کے بعدبر طانوی استعمارنے یہاں کے باشندوں کو اپنے غیظ و غضب اور انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کے لیے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کیے۔ د و فروری 1859کومرزا اسداللہ خان غالبؔ نے میر مہدی مجروح ؔکو لکھے گئے اپنے ایک مکتوب میں دہلی کی بربادی اور اہلِ شہر کو درپیش مصائب و آلا م کا احوال لکھنے کے بعدیہ شعر لکھ کر اپنا مکتوب مکمل کیا۔

          روز اس شہرمیں اِک حکم نیا ہوتا ہے 
         کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے

        بر طانوی استعمار 1857کے بعدبر صغیر پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ظالم و سفاک بر طانوی مسلح افواج نے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا اور مسلمانوں کو ہر شعبۂ زندگی مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا۔ بر طانوی فوج کی انتقامی کارروائیوں کے نتیجے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان کے باعث پورے ہندوستان میں ہر گھر ماتم کدہ بن گیا جہاں دائمی مفارقت دینے والوں کے غم میں ہر وقت  نالہ ،فریاد ،آہ و زاری جاری رہتی تھی۔ برطانوی نوآبادیاتی نظام سے نفرت بڑھنے لگی اور ارضِ وطن کی محبت ہر دِل میں جاگ اُٹھی۔برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے شاطر ،مہم جُو اور طالع آزما تاجر مغلیہ حکومت کے مرکزی انتظامی ڈھانچے کو تہس نہس کر کے پُورے ملک کا انتظام سنبھال چکے تھے۔وہ تاجر جو برطانوی فوج کے سالارکلائیو(Robert Clive) کی نگرانی میں بمبئی،مدراس اور کلکتہ میں اپنے مضبوط فوجی اڈے قائم کر چکے تھے اب اس قدر مضبوط ہو چکے تھے کہ انھوں نے دہلی کی مرکزی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔بیس ستمبر 1857کو میجر ہڈسن نے ہمایوں کے مقبرے سے بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر لیا۔مرزااسدللہ خان غالب نے ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے ان واقعات سے جو اثرات قبول کیے انھیں پُوری جرأت کے ساتھ اشعار کے قالب میںڈھالا۔ اپنی شاعری میںنو آبادیاتی دور کے مسموم ماحول کی حقیقت پسندانہ انداز میںلفظی مرقع نگاری کر کے مرزا اسداللہ خان غالبؔ نے اپنے گہرے شعور ،زبردست احساس ،عمیق مشاہدے ،انسانی ہمدردی اور حق گوئی کا ارفع معیار پیش کیا ہے۔ اس عہد کے متعدد ممتاز شعرا نے ان کر ب ناک حالات کو اپنی شاعری کا موضوع بنا یا ہے ۔درجِ ذیل اشعار میں ان حساس، زیرک اور جری تخلیق کار وںکے قلبی سوز ،خلوص اور دردمندی کو محسوس کیا جاسکتا ہے:

      مرزا اسداللہ خان غالبؔ

      گلشن میں بندو بست برنگِ دِگر ہے آج
       قمری کا طوق،حلقۂ بیرونِ در ہے آج 

       آتا ہے ایک پارۂ دِل ہر فغاں کے ساتھ
       تارِ نفس،کمند شکار اثر ہے آج

       اے عافیت،کنارہ کر،اے انتظام،چل
       سیلابِ گریہ،درپئے دیوار و در ہے آج

        رہے نہ جان ،تو قاتل کو خوں بہا دیجے
        کٹے زبان،تو خنجر کو مر حبا کہیے

       سفینہ جب کہ کنارے پہ آ لگا غالبؔ 
        خدا سے کیا ستم و جورِ نا خدا کہیے

-------------------------------------------------

 شیخ محمدابراہیم ذوقؔ

(1789-1854)

          میری خواری کے رُتبے کا کمالِ اوج تو دیکھو
         کہ ہے چرخِ زحل بھی سایۂ بختِ دژم میرا

          ہوا روشن چراغِ کعبہ زاہد جس کے شعلے سے
         اُسی آتش کا رکھتا ہے شرر سنگِ صنم میرا

         تخیل نے مرے باندھا طلسم تازہ کیفیت
          نہ ہو کیوںکاسۂ سرذوق ؔرشکِ جامِ جم میرا

-------------------------

        بہادر شاہ ظفرؔ

(پیدائش:چوبیس اکتوبر 1775،وفات:سات نومبر1862)


          کر گئی ویراں چمن بعدخزاں گل جھاڑ کے
        بس قفس میں بیٹھ رہ پر اپنے بلبل جھاڑ کے

       کہہ دو غنچے سے نہ پھولے مشتِ زر پر باغ میں
         آخرش جانا ہے یاں سے ہاتھ بالکل جھاڑ کے

         یا مجھے افسرِ شاہانہ بنایا ہوتا
          یا مِرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا

         اپنا دیوانہ بنایا مجھے ہوتا تُو نے
        کیوں خِرد مند بنایانہ بنایا ہوتا

        روز معمورۂ دُنیا میں خرابی ہے ظفرؔ
         ایسی بستی کو تو ویرانہ بنایا ہوتا

 -------------------------------


       نواب مرزا خان داغ

(پیدائش:پچیس مئی 1831،وفات:سترہ مارچ1905)

        عا قبت پاک ہے مے خوار کی سُن رکھ زاہدؔ
       یہ تو مے خانے سے اللہ کے گھر جائے گا

       کر کے بر بادمجھے چرخ کہاں جاتا ہے
        میں بھی ہم راہ اسی کے ہوںجدھر جائے گا

        کیوں ناصحوںکوفکر ہے مجھ بادہ نوش کی
         صدقہ وہ دیںحواسوں کا بنوائیں ہوش کی

         زاہد کی سُرخ آنکھوں سے معلوم ہو گیا
         رِندوں سے جو بچی تھی وہ حضرت نے نوش کی

 --------------------------------

       میر مہدی مجروح

(پیدائش:پچیس مئی1831،وفات:سترہ مارچ1905 )

          اِک عمر کے دُکھ پائے،سوتے ہیں فراغت سے
          اے غلغلۂ محشرہم کو نہ جگا جانا

         نہ وہ نالوں کی شورش ہے نہ غل ہے آہ و زاری کا
         وہ اب پہلا سا ہنگامہ نہیں ہے بے قراری کا

       بے عدو وعدہ قتل کا نہ ہوا
       ظلم بھی حسب مدعا نہ ہوا

       ظلم بے جا ہیں اس کے سب لیکن
       کون یہ کہہ سکے بجا نہ ہوا

       بہتر یہ ہے کہ اس کا نہ انداز دیکھنا
        ورنہ ہزار فتنہ کے در باز دیکھنا

       اب تک بھی یہ خیال پریشاں ہے عرش پر
       اس مرغ پر شکستہ کی پرواز دیکھنا

       صیاد جور پیشہ کو شاید نہیں پسند
        مرغ ِچمن کو زمزمہ پرداز دیکھنا   

 ----------------------------

       خواجہ میر دردؔ

(1721-1785)

         ہم نے کہا بہت اسے پر نہ ہوا یہ آدمی
         زاہد خشک بھی کوئی سخت خر دماغ تھا

         شعلۂ دِل کو ہر گھڑی اے دمِ یاس مت بُجھا
         اپنی بساط میں تو یاں ایک یہی چراغ تھا    

         جگ میںکوئی نہ ٹُک ہنسا ہو گا
       کہ نہ ہنسنے میں رو دیا ہو گا

        دیکھیے غم سے اب کے جی میرا
         نہ بچے گا بچے گا کیا ہو گا 

         دِل زمانے کے ہاتھ سے سالم
        کوئی ہو گا کہ رہ گیا ہو گا

         اس نے قصداً بھی میرے نالے کو
         نہ سنا ہوگا گر سنا ہوگا

       حال مجھ غم زدے کاجس تس نے 
         جب سنا ہوگا رو دیا ہوگا

         میرے نالوں پہ کوئی دنیا میں
      بِن کیے آہ کم رہا ہو گا


          بر طانوی سامرج  کے جبر کے خلاف فکری سطح پر جد و جہد اور آزادی کے حصول کے لیے سوزِ یقیں سے دِلوں کو تپش عطا کرنے کے لیے اُردو  زبان کے تخلیق کاروں نے عزمِ صمیم سے کام لیتے ہوئے سعیٔ پیہم کو شعار بنانے پر اصرار کیا ۔نو آبادیاتی دور میں اُردو کے جن ممتاز ادیبوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریتِ ضمیر سے جینے کو اپنا مطمح نظر بنایا ان میں سے اہم نام درج ذیل ہیں:

    اکبر الہ آبادی(سیداکبر حسین رضوی)،الطاف حسین حالی،اختر شیرانی،اسرار الحق مجاز، امیر مینائی،ببر علی انیس،برج نارائن چکبست،بسمل سعیدی،تلوک چند محروم، جگر مراد آبادی ،جوش ملیح آبادی(شبیر حسن خان)، حسرت موہانی(سید فضل الحسن)،حفیظ جالندھری(محمد حفیظ)،دیا شنکر نسیم،دِل شاہ جہان پوری(ضمیر حسن خان)،ذوالفقار علی بخاری،ذہین شاہ تاجی،ساغر نظامی،سجاد ظہیر،سلامت علی دبیر،سیماب اکبر آبادی،شبلی نعمانی،طالب چکوالی(منوہر لال کپور)،ظفر علی خان،عابد علی عابد،عالم مظفر نگری(محمد اسحاق)،عبدالحمید عدم،غلام بھیک نیرنگ،فانی بدایونی(شوکت علی خان)،فراق گورکھ پوری

(رگھو پتی

 سہائے)،قمر جلالوی(محمد حسین)،محمد صادق رضا چاند پوری،محمد عبدالحئی صدیقی(بے خود بدایونی)،مخدوم محی الدین،،مضطر خیر آبادی،نیاز محمد خان(نیاز فتح پوری)، واجد حسین یاس یگانہ چنگیزی ،وحید الدین احمد(بے خود دہلوی)


       الطاف حسین حالی

(1837-1914)


       یہ غم نہیںہے وہ جسے کوئی ہٹا سکے
      غم خواری اپنی رہنے دے غم گُسار بس

       آتا نہیںنظرکہ یہ ہو رات اب سحر
       کی نیند کیوں حرام بس اے انتظار بس

        مجھ میں وہ تابِ ضبط شکایت کہاں ہے اب
        چھیڑو نہ تم کہ میرے بھی منھ میں زباں ہے اب

        وہ دِ ن گئے کہ حوصلۂ ضبطِ راز تھا
        چہرے سے اپنے شورشِ پنہاں عیاں ہے اب

---------------------------------------------

        قمر جلالوی

(1887-1988)

        قمر جلالوی (محمد حسین) نے زندگی بھر بائیسکل مرمت کرنے سے رزق حلال کمایا ۔ دکان پر اس مشاق کاریگر کونو عمر شاگرد استاد کہہ کر پکارتے تھے۔ اُستاد قمر جلالوی نے نوآبادیاتی دور میںنہایت دردمندی اور خلوص سے بدلتے ہوئے حالات کو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے:

       دعا بہار کی مانگی تو اتنے پُھول کِھلے
       کہیں جگہ نہ مِلی میرے آشیانے کو

       چمن میں جانا تو صیاددیکھ کر جانا
       اکیلے چھوڑ کر آیا ہوں آشیانے کو  

------------------------

          اسرار الحق مجاز

(1911-1955 )

     آسماں تک جو نالہ پہنچا ہے 
      دِ ل کی گہرائیوں سے نکلا ہے  

     ہائے انجام اُس سفینے کا
        ناخدا نے جِسے ڈبویا ہے

-----------------------

      امیر احمد امیرؔ مینائی

(1828-1900)

         جب سے بلبل تُو نے دو تِنکے لیے 

        ٹُوٹتی ہیں بجلیاں  اِن کے لیے

        کون وِیرانے میں دیکھے گا بہار
         پُھول جنگل میں کِھلے کِن کے لیے

         ساری دُنیا کے ہیں وہ میرے سِوا
        میں نے دُنیا چھوڑ دی جِن کے لیے 

----------------------


        میر ببر علی انیسؔ

(1803-1874)

      عارضوں پہ وہ ڈھلکتے ہوئے آنسو توبہ!
      ہم نے شعلوں پہ مچلتی ہوئی شبنم دیکھی

      ورائے فقر کیا ہے اور گھروں میں ہم فقیروں کے 
      وہ دیوانے ہیںدروازے میں جو زنجیر رکھتے ہیں

      توقع جِن سے تھی وہ لوگ مطلب آشنا نکلے
      انیسؔ افسوس ہم بھی کیا بُری تقدیر رکھتے ہیں

----------------------------

      نواب مرزا خان داغؔ دہلوی

(1831-1905)

       گزر گیا وہ زمانہ کہوں تو کس سے کہوں
       خیال دِل کو میرے صبح و شام کِس کا تھا

       رہا نہ دِ ل میں وہ بے درد اور درد رہا
        مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا

      وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پُوچھتے ہیں
      یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کِس کا تھا

          بھلا ضبط کی بھی کوئی انتہا ہے 
     کہاں تک طبیعت کو اپنی سنبھالیں 

-------------------

       سیمابؔ اکبر آبادی

(عاشق حسین صدیقی)

پیدائش:پانچ جون 1882،وفات:اکتیس جنوری،1951)


            غلط کہ وقت کی تجدید فرض ِعین نہیں
            یزید اب بھی ہیں لاکھوں کوئی حسینؑ نہیں

            نسیمِ صبح گلشن میں گلوں سے کھیلتی ہو گی
            کسی کی آخری ہچکی کسی کی دِل لگی ہو گی

             دِل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں
            اِک آئینہ تھا ٹُوٹ گیا دیکھ بھال میں

            فطرتاً عجزِ طبیعت بن گیا رنگِ حیات
           عمر بھر سیمابؔ پابندِ اطاعت ہی رہا

--------------------------


      شوکت علی خان فانیؔ بدایونی

(1879-1941)

         یہ کس قیامت کی بے کسی ہے،نہ میں ہی اپنا نہ یار میرا
        نہ خاطرِ بے قرارمیری،نہ دیدۂ اشک بار میرا

        مر کے ٹُوٹا ہے کبھی سلسلۂ قیدِ حیات
         مگر اِتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے 

        آبادی بھی دیکھی ہے ،ویرانے بھی دیکھے ہیں
        جو اُجڑے اور پِھر نہ بسے،دِل وہ نِرالی بستی ہے 

       شوق سے ناکامی کی بہ دولت کُوچۂ دِل ہی چُھوٹ گیا
       ساری اُمیدیں ٹُوٹ گئیںدِل بیٹھ گیا،جی چُھوٹ گیا

           بر صغیر سے مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ انگریزوں کے ظلم اور ناانصافی پر مبنی ایک ناقا بل معافی جرم ہے۔1857کی ناکام جنگ ِ آزادی کے سانحہ کے بعد لال قلعے کی حکومت کا بھرم تو ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے شاطر بر طانوی تاجر ملکہ بر طانیہ کے تاج میں بر صغیر کی صورت میں ایک درخشاں ہیرا سجانے کی سازش میں کام یاب ہو گئے۔ مسلمانوں کی حکومت کے ٹمٹماتے ہوئے چرا غ برطانوی استبداد کی باد سموم کے جھونکوں نے گُل کر دئیے ۔ اس صریح ناانصافی اور فسطائی جبرکے باعث مسلمانوں کو جس قلزم ِخوں سے گزرنا پڑااس پر ہر آنکھ اشک بار تھی۔عوامی مصائب اور آلام کو دیکھ کر شاعر خون کے آنسو روئے ۔ اپنے اشعار میں انھوں نے اس المیے کے بارے میں اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ان مایوس کن حالات میںقومی درد اور وطن سے محبت کے جذبات رکھنے والے زعما نے عوام کے لیے مستقبل کی حکمت عملی وضع کرتے ہوئے ان تمام امور پیشِ نظررکھا جن کے باعث قو م کو ابتلا اور آزمائش کے نہایت کٹھن دور سے گزرنا پڑا۔ 

       1857 ناکام جنگِ آزادی کے بعد برطانوی سپاہ نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔کورٹ مارشل کے مہیب شعلوں میں تمام انسانی اور اخلاقی اقدار کو بھسم کر کے بر طانوی سپاہ نے جشنِ فتح منایا۔نو آبادیاتی دور میں مظلوم اورقسمت سے محروم مسلمانوں کو بے رحم غاصب بر طانوی فوج کے عتاب،انتقام اور جوروستم سے بچانے کے لیے سر سید احمد خان(پیدائش:سترہ اکتوبر 1817 ,،وفات:ستائیس مارچ،1898)نے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ تاریخ کا ایک درخشاں باب ہیں۔ایک ممتاز ماہرتعلیم،مصلح،فلسفی،ماہر علم بشریات،ماہر سماجی علوم ،مورخ اور مستقبل کی پیش بینی کرکے تلخ حقائق کے نتائج سے متنبہ کرنے والے مسلمانوں کے اس خیر خواہ نے ایک شکست خوردہ اور پامال قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور سعیٔ پیہم کو شعار بنانے کے لیے انتھک جد و جہد کی۔سرسید احمد خان نے ’’اسباب بغاوت ہند‘‘لکھ کر برطانوی افواج کے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور انتقام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔مقامی ہندو اور غیر مسلم باشندوںنے بر طانوی حملہ آوروں کے دِل میں مسلمانوں کے بارے میں ایسے شکوک و شبہات پیدا کر دئیے کہ مسلمانوں کے بارے میں انگریزوں کا بغض و عناداپنی انتہا کو پہنچ گیا۔

       سر سید احمد خان اپنے بیٹوں سید محمو داور سید حامدکے ہم راہ یکم اپریل1869کو لندن روانہ ہوئے۔وہاں انھیں بر طانیہ سے شائع ہونے والے انگریزی زبان کے دو مجلے SPECTATOR اور TETLOR بہت پسند آئے۔ سر سیداحمد خان کی دلی تمنا تھی کہ وہ اسی معیار کا ایک علمی و ادبی مجلہ اُردو زبان میںشائع کریں ۔نو آبادیاتی دورمیں بر صغیرکے عوام میں مایوسی اور اضطراب کو رفع کرنے کی غرض سے سے سر سید احمد خان نے ایک علمی ،ادبی اور اصلاحی مجلے کی اشاعت کا فیصلہ کیا۔مسلمانوں کو عصری آگہی سے فیض یاب کرنے، تعمیر و ترقی کے مثبت کاموں میں مصروف رکھنے ،درپیش حالات کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے اور مسلمانوں کی فکری بیداری کویقینی بنانے کی خاطر سر سید احمد خان نے چوبیس دسمبر 1870کو رجحان ساز مجلے تہذیب الاخلاق کا اجرا کیا۔تہذیب الاخلاق کو جن زیرک اور معاملہ فہم قلمی معاونین کا تعاون حاصل تھا ان میں سرسید احمد خان ،محسن الملک،مولوی چراغ علی،مولوی مشتاق حسین،مولانا الطاف حسین حالیؔ،مولوی ذکا اللہ،مولانا شبلی نعمانی،مولوی مہدی حسن اور سید محمودشامل تھے۔تہذیب الاخلاق کی اشاعت سے ایک اصلاحی تحریک کا آغازہو گیا ۔اس تحریک کو بعد میں علی گڑھ تحریک کے نام سے شہرت ملی۔بر صغیر پاک و ہند پر انگریزوں کے غاصبانہ قبضے کے بعد یہاں کے باشندوں بالخصوص مسلمانوںکو جن لرزہ خیز،اعصاب شکن اور تباہ کُن حالات کا سامنا کرنا پڑا اُن کو پیش نظر رکھتے ہوئے سر سید احمد خان نے اپنے نامور رفقائے کار کے تعاون سے جو بے مثال جد وجہد کی اس کا ذکر کرتے ہوئے مولانا الطاف حسین حالیؔ نے لکھا ہے:

        ’’اُس وقت سر سید کا حال بعینہٖ اُس شخص کا تھاجِس کے گھر میں آگ لگ کر گھر کا ایک حصہ جل گیا ہواور باقی حصوں کو بچانے کے لیے وہ دیوانہ وار اِدھر اُدھر ہاتھ مارتا پِھرتا ہو۔‘‘

(12 ) 

        نو آبادیاتی دور کے مسموم ماحول میں اس خطے کے باشندوں کو مایوسی ،اضطراب ،خوف ،بے عملی ،بے بسی اور بے چارگی کے ہراساں شب و روز سے نجات دلا کر عملی زندگی میں فعال کردار ادا کرنے پر مائل کرنے کے سلسلے میںسر سید احمد خان اور ان کے ممتاز رفقا نے سائنسی اندازِ فکر کو اپناتے ہوئے ماضی کی تلخ یادوں سے چھٹکارا حاصل کر کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کی تفہیم  اور مسائل کے ادراک پر اصرار کیا۔نوآبادیاتی دور کے آغاز کے بعد فسطائی جبر کی اذیت و عقوبت کا شکار ہونے والے مظلوم عوام کی بحالی کے لیے تخلیق ِ ادب کے لیے جس معیار ،منہاج اور سمت کا تعین کیا گیا اُس میںقومی دردمندی،اصلاح ،مقصدیت اور صداقت کو کلیدی اہمیت حاصل تھی۔بر طانوی استبداد نے جس بے دردی سے اس خطے کے عوام کی اُمیدوں کی فصل کو غارت کر کے ،گلشنِ ہند کو وقفِ خزاں کیا علی گڑھ تحریک سے وابستہ ادیبوں نے خونِ دِل دے کر اس کو از سر ِ نو نکھارنے کی مقدور بھر سعی کی۔سرسید احمد خان ،ان کے معتمد ساتھیوں اور علی گڑھ تحریک سے وابستہ با صلاحیت ادیبوں کی تخلیقی فعالیت سے بر صغیر کے باشندوں کی عزتِ نفس کی بحالی،ملی نشاۃ الثانیہ،قومی تعمیر و ترقی اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو یقینی بنانے میں بے پناہ مدد ملی۔یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ علی گڑھ تحریک نے بر طانوی نو آبادیاتی دور میںبر صغیر کے عوام کے حقوق کے لیے جو جد جہد کی اس کے معجز نما اثر سے ہوا کا رُخ بدل گیا۔1857 کے الم ناک سانحہ کے بعد وہ قوم جو مکمل انہدام اور تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی تھی ،اُسے منظم کر کے ایک ولولۂ تازہ عطا کر کے علی گڑھ تحریک نے قومی یک جہتی ،تعلیم، تعمیر و ترقی کے نئے آفاق تک رسائی کی راہ ہم وار کر دی۔نو آبادیاتی دور نے اس خطے کے عوام کو مسلسل عقوبت اور اذیت میں مبتلا رکھا۔علی گڑھ تحریک نے سماجی یکسانیت کے فروغ ،مسلمانوں کی بیداری،اسلامی تہذیب و ثقافت،اور مشرقی اقدار و روایات کی بحالی کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا۔مسلمانوں اور اسلام کے بارے میںیورپ میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کر کے ملتِ اسلامیہ اور اسلام کی آفاقی تعلیمات کے بارے میںحقیقی شعور کو پروان چڑھاناعلی گڑھ تحریک نے اپنا نصب العین بنایا۔اردو زبان و ادب کو علی گڑھ تحریک نے مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیا۔ادب کو ملی وقار ،سر بلندی ،تعمیر و ترقی اور اصلاحی مقاصد کے لیے بروئے کار لا کر علی گڑھ تحریک نے جو فقید المثال کامرانیاں حاصل کیں  ان کے اعتراف میں تاریخ ہر دور میںعلی گڑھ تحریک سے وابستہ ادیبوں کے نام کی تعظیم کرے گی۔نو آبادیاتی دور میں علی گڑھ تحریک نے جو موثر اور فعال کردار ادا کیا اس کے بارے میں ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا ہے :

       ’’سر سید کی تحریک نے زندگی میں یقین پیدا کرکے عمل کی بر کات کا اعتقاد بڑھایا،عقل و فکر کی اہمیّت (جو بڑی حد تک نظر انداز ہو گئی تھی)پِھر سے واضح ہوئی اور تمدنی تعاون کا احساس زندہ ہوا۔یہی وہ عناصر تھے جِن کے سبب اِس ادب میں نیا پن پیدا ہوا اور آنے والے ترقی پسند نظریات کے لیے راستہ صاف ہوا۔‘‘

(13 )
        علی گڑھ تحریک کی بدولت نئے احساس اور نئے شعری تجربے کے امکانات روشن ہوئے اور جس وقت پُورے بر صغیر کے قومی افق پر مایوسی ، اضطراب اور سب سے بڑھ کر بے عملی کے مہیب سائے بڑھ رہے تھے ، اس تحریک سے وابستہ ادیبوں اور شعرا نے ادبی سطح پر قابل قد ر خدمات انجام دیں اور قومی عوارض کاحل تلاش کرنے کی مخلصانہ سعی کی ۔جذبۂ حب الوطنی سے سر شاران مخلص اور دیانت دار تخلیق کاروں نے دردمندی اور خلوص کو شعار بناتے ہوئے اپنے افکار کی موثر جو لانیاں دکھائیں اوربر صغیر  میں نوآبادیاتی دورکے پس ماندہ اور کُچلے ہوئے لوگوں کی ہمت بندھائی۔ اس طرح ان کی شاعری ایک ولولۂ تازہ کی نقیب ثابت ہوئی جس نے منزلوں کی جستجو پر مائل کیااورآزادی کی نعمت کی قدر و منزلت کا احساس اُجاگر کرنے کی کوشش کی۔ خواجہ الطاف حسین حالی نے مقدمہ شعر و شاعری (1893)میں تخلیق فن کے لمحوں میں اصلاح ،مقصدیت اور افادیت کا پہلو پیشِ نظر رکھنے کی جانب متوجہ کیا ۔خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے مسدس حالی میں ملت ِ اسلامیہ کی زبوں حالی کا جو نوحہ بیان کیا ہے ،تاریخی تناظر میں اس کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے ۔ الطاف حسین حالی کی شاعری نوآبادیاتی دور کے کرب ناک ماحول میں گہری معنویت کی حامل تھی۔

   خواجہ الطاف حسین حالیؔ

(1837 - 1914 )

       آزادی کی قدر  

         ایک ہندی نے کہا حاصل ہے آزادی جنھیں 
          قدرداں ان سے بہت بڑھ کرہیںآزادی کے ہم

         ہم کہ غیروں کے سدا محکوم رہتے آئے ہیں 
         قدر آزادی کی جتنی ہم کو ہو اتنی ہے کم 

         عافیت کی قد ر ہوتی ہے مصیبت میں سوا
         بے نوا کو ہے زیادہ قدر دینار و درم

         ’’تعرف الاشیابالاضداد ‘‘ہے قولِ حکیم
          دے گا قیدی سے زیادہ کون آزادی پہ دم 

         سن کے اک آزاد نے یہ لاف چپکے سے کہا
        ہے سقر موری کے کیڑے کے لیے باغ ارم 

          انگلستان کی آزادی اور ہندوستان کی غلامی
         کہتے ہیں’’آزاد ہو جاتا ہے جب لیتا ہے سانس

         یہاں غلام آکر  یہ کرامت ہے انگلستان کی 
           اس کی سر حد میں غلاموں نے جوں ہی رکھا قدم

          اور کٹ کر پاؤں سے ایک اِک کے بیڑی گِر پڑی
          قلب ماہیت میں انگلستان ہے گر کیمیا

          کم نہیں کچھ قلب ماہیت میں ہندوستان بھی
          آن کر آزاد یاں آزا درہ سکتا نہیں

           وہ رہے ہو کر غلام ا س کی ہو اجن کو لگی
         کالے اور گورے کی صحت کا میڈیکل امتحان

          دو ملازم،ایک کالااور گورا دوسرا
          دوسرا پیدل ،مگر پہلا سوارِ راہوار

          تھے سِول سرجن کی کوٹھی کی طرف دونوں رواں
          کیونکہ بیماری کی رخصت کے تھے دونوخواستگار

          راہ میںدونو کے باہم ہو گئی کچھ ہشت مشت
         کوکھ میں کالے کی اِک  مُکا دیا گورے نے مار

          صدمہ پہنچا جس سے تِلی کو بہت مسکین کی
          آکے گھوڑے سے لیا سائیس نے اُس کو اُتار

          ٹھوک کر کالے کو گورے نے تو اپنی راہ لی
         چوٹ کے صدمے سے غش کالے کو آیا چند بار

         آخرش کو ٹھی پہ پہنچے جا کے دونوپیش و پس
         ضارب اپنے پاؤں اور مضروب ڈولی میں سوار 

         ڈاکٹر نے آ کے دونو کی سُنی جب سر گذشت
         تہ کو جا پہنچا سخن کی سُن کے قصہ ایک بار

         دی سند گورے کو لکھ،تھی جس میں تصدیق مرض
         اور یہ لکھا تھا کہ سائل ہے بہت زار و نزار

         یعنی اِک کالا نہ جس گورے کے مُکّے سے مرے
         کر نہیں سکتا حکومت ہند پر وہ زینہار

          اور کہا کالے سے ’’تم کو مِل نہیں سکتی سند
          کیوں کہ تم معلوم ہوتے ہو بہ ظاہر جان دار

           ایک کالاپِٹ کے جو گورے سے فوراً مر نہ جائے
         آئے بابا اُس کی بیماری کا کیوں کر اعتبار


        شبلی نعمانی

(1857-1914)


       مولاناشبلی نعمانی نے سولہ برس علی گڑھ میں سر سید احمد خان اور ان کے ممتاز ساتھیوں کے ساتھ گزارے۔علی گڑھ کی ملازمت اور سر سید احمد خان کی رفاقت سے شبلی نعمانی نے بہت کچھ سیکھا ۔ملی وقار ،قومی استحکام ،اصلاحی اور افادی مقاصد کے لیے تخلیق ادب کے سب ڈھب یہیں سے سیکھے ۔نو آبادیاتی دور میں بر طانوی استبداد اور سامراجی مظالم کے خلاف مولانا شبلی نعمانی نے کُھل کر لکھا۔اُسی زمانے میں کان پور میںسات سو سال سے موجود قدیم تاریخی مسجد کا کچھ حصہ منہدم کرکے سٹرک کی توسیع کا منصوبہ بنایا گیا ۔ مسلمانوں نے برطانوی حکومت کے اس اسلام دشمن رویے کے خلاف احتجاج کیا۔ تین اگست1913 کو ہزاروں کی تعداد میںکلمہ طیبہ اور درودِ پاک کا وِرد کرتے ہوئے مسلمانوں کے احتجاجی جلوس پر کان پور کے مجسٹریٹ ٹائیلر  (  Tylor, the magistrate of Kanpur)کے حکم سے بے تحاشا گولی چلائی گئی ، مسلسل پندرہ منٹ تک فائر ہوتا رہا، چھ سوکارتوس چلائے گئے ۔ (14 )پُر امن احتجاج میں شامل بہت سے نہتے مسلمان شہید ہوئے اور متعدد شدید زخمی ہوئے ۔مسلمان شہیدوں میں بُوڑھے ،جوان اورکم سِنبچے شامل تھے ۔ برطانوی سامراج کے گماشتوں ،اُجرتی بد معاشوں اور پیشہ ور قاتلوں نے بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل کر ہلاکو اور چنگیز کو بھی مات دے دی ۔ بر صغیر کے باشندوںکا آرام ،آسائش ،راحت اور امن و سکون بر طانوی سامراج نے غارت کر دیا اس کی جگہ اس خطے میںرنج و غم،مصائب وآلام ،ابتلا و آزمائش ،لُوٹ مار اورقتل و غارت نے مستقل ڈیرے ڈال دئیے ۔مولانا شبلی نعمانی اس سانحہ پر سراپا حزن و ملال تھے ان کی نظم ’’شہدائے قو م‘‘اسی دردناک سانحہ کی یاد دلاتی ہے ۔   

      شہدائے قوم 

      کل مجھ کو چند لاشۂ بے جان نظر پڑے 
       دیکھا قریب جاکے تو زخموں سے چور ہیں 

       کچھ طفلِ خودر سال ہیں جو چپ ہیں خود مگر
       بچپن یہ کہہ رہا ہے کہ ہم بے قصور ہیں 

       آئے تھے اس لیے کہ بنا ئیں خداکا گھر 
       نیند آگئی ہے منتظر فتح صور ہیں 

       کچھ نوجواں ہیں بے خبر نشۂ شباب 
       ظاہر میں گرچہ صاحب عقل و شعور ہیں 

       اُٹھتا ہوا شباب یہ کہتا ہے بے دریغ 
       مجرم کوئی نہیں ہے مگر ہم ضرور ہیں 

       سینے پہ ہم نے روک لیے برچھیوں کے وار 
       ازبسکہ مست بادہ ٔناز و غرور ہیں 

      ہم اپنا آپ کاٹ کے رکھ دیتے ہیں جو سر
      لذت شناس ذوقِ دلِ ناصبور ہیں

     کچھ پیر کہنہ سال ہیں دلدادۂ فنا 
      جو خاک و خوں میں ہمہ تن غرقِ نور ہیں 

      پوچھا جومیں نے کون ہوتم ؟ آئی یہ صدا
      ’’ہم کشتہ گانِ معرکۂ کان پورہیں ‘‘

------------------------------------


       مولوی نذیر احمد دہلوی

(1836-1912)

        کُھلی آخرش وجہ پستیٔ حالت

       جہالت!جہالت!جہالت!جہالت!

       زمیںبدلی بدلا ہوا آسماں ہے 
       زمانہ کی اگلی سی حالت کہاں ہے 

       وہی جانور ہیں وہی ہیں صفیریں
       مسلماں اور اپنی پُرانی لکیریں

       سر چشمۂ آب حیواں ہیںپیاسے
      سبب کیا؟ کہ لڑتے ہیں احمق خدا سے

-------------------------------

 اسمٰعیل محمد میرٹھی

(1844-1917)

        نام نہاد رہنمایانِ قوم

      ان مدعیوں سے نہ کہو دردِ دِل اپنا
       مر جائے بھی کوئی تو یہ ہر گز کریں نہ ہائے

       جس رائے کی تائید ہو مضمونِ ریا سے
     جید حکما کہتے ہیں مردود ہے وہ رائے

        سر پِیٹ لوںیااپنا گریباں کروں چاک
       اِس درجہ کو پہنچا مرا احوال کہ اے وائے

       آئے ہیں مرا زخم جگر سینے کو وہ لوگ
        ناکے میں سوئی کے جنھیں دھاگہ نہ پرو آئے

       خبردار ہاں اے بزرگانِ قوم
       کہ اُجڑا پڑا ہے گُلستاںِ قوم

        نہ عزت نہ دولت نہ سطوت رہی
       مِلی خاک میں شوکت و شانِ قوم

       ترقی کے میداں میں کیوں کر بڑھے
        کہ اُلجھا ہے کانٹوں میںدامانِ قوم

-------------------------


      اکبرؔ الہ آبادی(سید اکبر حسین رضوی)(پیدائش :سولہ نومبر1846،وفات:پندرہ فروری1921)
      اب نہ وہ عمرنہ وہ لوگ نہ وہ لیل و نہار
      بُجھ گئی طبع کبھی جوش پہ گر آئی بھی
       کام کی بات جو کہنی ہے وہ کہہ لو اکبرؔ
       دم میںچِھن جائے گی یہ طاقت گویائی بھی
       یوں تو ہر شے پہ اُداسی سی نظر آتی ہے 
       کس مپرسی میں کوئی شے نہیں مذہب کی طرح
        مولوی گو کہ ہیں شمس العلماپھر بھی ہیںسست
        رینگتے پِھرتے ہیںپروانۂ بے شب کی طرح
        ہم میں باقی نہیںاب خالد جاں باز کا رنگ
        دِل پہ غالب ہے فقط حافظ ِ شیراز کا رنگ
         یاں نہ وہ نعرۂ تکبیرنہ وہ جوشِ سپاہ
       سب کے سب آپ ہی پڑھتے ہیں سبحان اللہ
         بر صغیر کو اپنی نو آبادی بنانے کے بعدبر طانوی سامرا ج نے اپنے استحصالی ہتھکنڈوںسے مقامی باشندوں کا امن و سکون چھین لیا۔بر صغیر کی مختلف اقوام کو باہم دست و گریباں رکھنے کے لیے مکروہ سازشوں کے جال بچھا دئیے۔بر طانوی سامراج نے مقامی آبادی کے مذہبی، علاقائی،لسانی،فرقہ وارانہ،رسوم ورواج،پُرانی دشمنیوںاور مفادات کے ٹکراؤ کو ہوا دی تاکہ مقامی لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں۔جب کبھی مقامی لوگوں کی جہالت ،بے بصری،کور مغزی اور کوتاہ اندیشی کے باعث کسی مقام پر جُوتیوں میں دال بٹنے لگتی تو لذتِ ایذا حاصل کر نے کے خبط میں مبتلابر طانوی استعمار کے کرتا دھرتا اہل کار خوشی سے پُھولے نہ سماتے ۔اس عہدِ ستم میں بر طانوی سامراج کی سازش کے نتیجے میں مقامی ناشندے با لعموم یہ بات بُھول گئے کہ اُن کے مفادات،منافع ،خسارہ،خوشیاں،غم مسائل و مصائب،آرزوئیں اور اُمنگیں سب ایک جیسی ہیں۔ان سب کا ایک ہی مسئلہ تھاکہ وہ سب بر طانوی استعمار کے غلام بن چُکے تھے۔ابتلا اور آزمائش کی اس گھڑی میںبر صغر کے مقامی باشندوں کا نصب العین بھی ایک تھا کہ اُنھیںجلد از جلد غلامی کا طوق اپنے گلے سے اُتار پھینکنا تھا۔آزاد فضاؤں میں سانس لینا وقت کا اہم ترین تقاضا تھا۔ حقیقی آزادی کی روح یہ ہے کہ کسی انسان کے ساتھ جس قسم کا سلوک روا رکھا جائے جواب میں وہ بھی اپنے ساتھ ایسا سلوک کرنے والے کے ساتھ بعینہٖ اُسی نوعیت کا سلوک کرنے کا مجاز ہو۔ اگر وہ ایسا کرنے پر قادر نہیں تو اسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بے وقار آزادیٔ موہوم کی بات کررہاہے۔ایسی نام نہاد آزادی میں تاج سر پر سجا دیاجاتا ہے مگر پاؤں بیڑیوں سے فگار ہوتے ہیں ۔ تاریخ کے مسلسل عمل کے نتیجے میںرفتہ رفتہ انھیںان حقائق کا احساس وادراک ہو گیا ۔ غریب اور پس ماندہ ممالک میں جاکر وہاں کے عوام کی آزادی سلب کر کے محکوم قوم کی اُمیدوں کی فصل کو غارت کرناہی نو آبادیاتی نظام کا ہدف رہا ہے ۔ ہے اس کے بارے میں فرانس کے ممتاز ادیب اور فلسفی ژاں پال سارتر (Jean-Paul Sartre) نے کہا تھا:
Colonization unifies, but it divides at least as much, not only by design and Machiavellianism – that would be nothing – but through the division of labour that it introduces and the social classes that it creates and stratifies. In the towns, socio-professional bonds tended to win over tribal bonds, but, on closer examination, divisions based on work, standard of living and education were superadded to ethnic divisions inside black districts. To this had to be added the conflicts between the first and the last to be urbanized. The proletariat of the camps was not the same as that of
the towns, and above all, the rural ‘coutumiers’, ruled by conservative tribalism more often than not sold out to the Europeans, did not enter into the field of view of évolué town-dwellers. But the nascent petty bourgeoisie could not avoid making the same mistake as the French bourgeoisie at the time of the Revolution: confronted with a
disorganized proletariat with confused demands, and a peasantry from which it had emerged and whose aspirations it imagined it knew, it took itself to be the universal class .   (15)  
          
     نو آبادیاتی دور میںتہذیبی اور ثقافتی سطح پر شکست و ریخت کا غیر مختتم سلسلہ شرو ع ہو جاتا ہے۔یورپ کے موقع پرست ،طالع آزما اور مہم جُو سیاست دانوں نے تاجروں کو اپنا ہم نوا بنا لیا۔یورپی تاجروں نے ایشیا کی نو آبادیوں کا رُخ اس لیے کیا کہ وہ یہاں سے اپنی صنعتوں کے لیے ارزاں نر خوں پر خام مال حاصل کر سکتے تھے۔بر صغیر کی آزاد مارکیٹ تک رسائی اور اس پر مکمل گرفت ان کا واحد مقصد تھا۔یورپی اقوام کی آمد سے اس خطے  کے عوام کی زندگی کے شب و روز کے معمولات بدل گئے۔آزاد قوم سے اقتدار چھین کر اس کے افراد کے گلے میں غلامی کا طوق پہنا دیا گیا۔انسانیت اور ہوش وخرد سے عاری مہم جُو پُوری قوت اور جبر سے زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو پامال کررہے تھے۔ بر طانیہ نے سولہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک اپنی نو آبادیوں میںجنگل کا قانون نافذ کر کے اس خطے کی صدیوں پرانی تہذیبی و ثقافتی میراث کو برباد کرنے کی مکروہ سازش کی۔ نو آبادیاتی دور میںمحکوم قوم کی تہذیبی و ثقافتی اقدار پر جو مسموم اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایڈورڈ سعید نے نو آبادیاتی دور میں ثقافتی میراث پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں لکھا ہے :
,,All cultures tend to make representations of foreign culturesthe better to master or in some way controll them.Yet all the cultures make representations of foreign cultures and in fact master or controll them.This is the distinction,I believe of modern Western cultures.It requires the study of western knowledge or representations of t he non-European world to be a study of both the representations and the political power they express.,, 
 (16)
        علی گڑھ تحریک کے ساتھ ہی اس کے ناقدین بھی میدان عمل میں آ گئے۔ان کا خیا ل تھا کہ انگریزوں کے خیالات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔مغربی تہذیب کی یلغار سے بر صغیر کے باشندے عمومی طور پر ناخوش و بیزار تھے۔وہ اپنی مٹی پر چلنے کا قرینہ جانتے تھے اس لیے سنگِ مر مر کی چکا چوند انھیں مرعوب نہ کر سکی۔  اکبر الہ آبادی نے نو آبادیاتی دور میں نئی تہذیب کی یلغار پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ۔
     اکبر الہ آبادی  سیداکبر حسین رضوی(پیدائش :سولہ نومبر1846،وفات:پندر ہ فروری،1921 )
       ہوئے اِس قدر مہذب کبھی گھر کا منھ نہ دیکھا
      کٹی عمر ہوٹلوں میںمرے اسپتال جا کر
     سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں 
        یہ نہ سمجھیں کہ آہ بھرتا ہوں
       پرانی روشنی میں اور نئی میں فرق اتنا ہے
      اُسے کشتی نہیں ملتی اِسے ساحل نہیں ملتا
      پہنچنا داد کومظلوم کا مشکل ہی ہوتا ہے
      کبھی قاضی نہیں ملتا ، کبھی قاتل نہیں ملتا
       حریفوں پر خزانے ہیں کھلے یا ں ہجر گیسو ہے
       وہاں پے بل ہے اور یاں سانپ کابھی بل نہیں ملتا
       ہم نشیں کہتا ہے کچھ پروا نہیں مذہب گیا
       میں یہ کہتا ہوں کہ بھائی یہ گیاتو سب گیا
       نیشنل فیلنگ تو ہم میں کبھی تھی ہی نہیں 
       اتحاد دیں فقط باقی رہا تھا اب گیا
       حق سے اگر ہے غافل ہرگز نہیںعاقل
      ہنری جو ہے تو پھر کیا پرویزہے تو پھر کیا
      دونوں ہی مر رہے ہیں دونوں کا حشر ہوگا
       نیٹو جوہے تو پھر کیا انگریزہے تو پھر کیا
      علوم دینوی کے بحر میں غوطے لگانے سے 
      زباں گو صاف ہوجاتی ہے دل طاہر نہیں ہوتا
      یہ حق گوئی ہے اکبرؔ کی کہ ہے جس کا ا ثراتنا 
      فسوں کیسا مسلماں آدمی ساحر نہیں ہوتا
       بر صغیر میں بیسویں صدی کے آغاز ہی سے سیاسی بیداری میں اضافہ ہونے لگا۔بر طانوی سامراج کے خلاف جذبات میں شدت آنے لگی۔1857کی ناکام جنگ آزادی کے زخم ابھی تازہ تھے ۔بزرگوں نے نئی نسل کو تمام حالات سے آ گا ہ کر دیا تھا۔نو آبادیاتی دور کے ستم رسیدہ لوگ ارضِ وطن سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے۔وہ وطن کو محض چمکتے ہوئی سنگ و خشت کی عمارات کے بجائے اپنی روح اور جسم سے عبارت ایک نعمت خیال کرتے تھے۔بر طانوی استبداد کے خلاف نفرت کے بڑھتے ہوئے جذبات شعلۂ جوالا میں بدلنے لگے تھے۔بر صغیر کے باشندے خاکِ وطن کے ہر ذرے کو دیوتاخیال کرتے تھے اور وہ ہر گز نہیں چاہتے تھے کہ اجنبی اقوام یہاں راج کریں ۔ بر صغیر میں نو آبادیاتی دو ر کے زخم خوردہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیااور وہ غلامی کا طوق اپنے گلے سے اُتار کر آزادی اور خود مختاری کے حصول کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔وہ اس منحوس دور اور منظر جور و جفا کے خاتمے کے شدت سے آرزومند تھے جس کا آغاز 1857کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد ہوا۔نسل در نسل اذیتیں اور عقوبتیں بر داشت کرنے کے بعد اُنھیں اس بات کا پُختہ یقین ہو چُکا تھاکہ بر طانوی استعمار کی لُوٹ مار اور استحصال کے نتیجے میں بر صغیر کے مقامی باشندے غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں۔نو آبادیاتی دور میں بر صغیر کے باشندوں کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ بر طانوی استعمار نے بر صغیر کی صدیوں پُرانی تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کے قصرِ عالی شان کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا۔ بعض ضمیر فروش موقع پرست مقامی باشندوں کو ارضِ وطن سے غداری پر آمادہ کر کے اپنے ساتھ ملا کر بر طانوی استعمار نے زندگی کی اقدار ِعالیہ اور اخلاقیات کاسفینہ غرقاب کرنے کی مکروہ ساز ش کی۔خلوص ،دردمندی اور ایثار جو مقامی باشندوں کا امتیازی وصف تھا وہ اہلِ ہوس کی ریشہ دوانیوں کے باعث عنقا ہونے لگا۔نوآبادیاتی دور میں قسمت سے محروم بے بس و لاچارمقامی باشندوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ،اُن کی توہین ،تذلیل،تضحیک اور بے توقیری بر طانوی استعمار کا معمول تھا۔بر صغیر کی تاریخ کے وہ مشاہیر جن کی قدر و منزلت ہر دور میں مسلمہ رہی ،بر طانوی استعمار کے گماشتوں نے اُن کا تمسخر اُڑایا۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ میر تقی میر ؔ کی آخری آرام گاہ کو منہدم کر کے اس مقام پر لکھنو کا ریلوے سٹیشن تعمیر کیا گیا۔ وہ عظیم شاعر جس نے اپنی شاعری سے اُردو ادب کی ثروت میں بے پناہ اضافہ کیا اب اس کے مزار کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔بر طانوی استعمار نے فسطائی جبر کے اوچھے ہتھکنڈے اس لیے استعمال کیے کہ مقامی باشندے بے بسی کے عالم میں اُن کے سامنے گُھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں۔ان حالات کو دیکھ کراُردو شعرا نے بر صغیر کے باشندوں کے دِل میں آزادی کی تڑپ پیدا کرنے کے سلسلے میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ تاریخ کے اوراق میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
       سید فضل الحسن حسرت موہانی(پیدائش:یکم جنوری1875،وفات:تیرہ مئی1951)
         رسمِ جفا کامیاب دیکھیے کب تک رہے 
        حُبِ وطن مستِ خواب دیکھیے کب تک رہے
       دِل پہ رہا مدتوں غلبۂ یاس و ہراس
        قبضۂ حزم و حجاب دیکھیے کب تک رہے
        تا بہ کجا ہوں دراز سلسلہ ہائے فریب
        ضبط کی لوگوں میں تاب دیکھیے کب تک رہے
        نام سے قانون کے ہوتے ہیںکیا کیا سِتم
         جبر بہ زیرِ نقاب دیکھیے کب تک رہے
         دولتِ ہندوستان قبضۂ اغیار میں
         بے عدد و بے حساب دیکھیے کب تک رہے
        حسرتؔ آزاد پر جور غلامانِ وقت
       از رہِ  بُغض و عتاب دیکھیے کب تک رہے 
        اچھا ہے اہلِ جور کیے جائیں سختیاں
         پھیلے گی یوں ہی شورشِ حُبِ وطن تمام
          سمجھے ہیں اہلِ شرق کو شاید قریبِ مرگ
          مغرب کے یوں ہیں جمع یہ زاغ و زغن تمام
      برج نارائن  چکبستؔ لکھنوی(1926-1882)
            ہم ہوں گے عیش ہو گا اور ہو م رُول ہو گا
          اہلِ وطن مُبارک تم کو یہ بزمِ اعلا
         جِس میں نئی اُمیدوں کا ہے نیا اُجالا
         دُنیا کے مذہبوں کا یہ رنگ ہے نِرالا
         مسجد یہی ہے اپنی اور ہے یہی شوالا
         ہو ہوم رُول حاصل ارمان ہے تو یہ ہے 
         اب دین ہے تو یہ ہے ایمان ہے تو یہ ہے
      علامہ محمد اقبال(پیدائش:نو، نومبر 1877,وفات:اکیس، اپریل1938)
       بر طانوی استعمار کے اذیت ناک ماحول میں اُردو زبان کے تمام ممتاز ادیبوں نے حریتِ ضمیر سے جینے کی خاطر حق گوئی و بے باکی کے ارفع اصولوں کو پیشِ نظر رکھااور حریتِ فکر و عمل کا علم بلند رکھا۔اس زمانے میں علامہ محمد اقبال نے الہ آباد کے مقام پر اپنے تاریخی خطبے(پیر،انتیس دسمبر 1930)میں بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا۔علامہ اقبال کی شاعری نے بر طانوی استعمار کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردارادا کیا۔برطانوی استعمار کے پیدا کردہ مسموم حالات میں علامہ اقبال کی شاعری سے بر صغیر کے باشندوں کے دِلوں کو ایک ولوۂ تازہ نصیب ہوا۔علامہ اقبال کی شاعری کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم  ہوتی ہے کہ واقعتاً بر طانوی سامراج کی سیاسی قوت و ہیبت اور مغربی تہذیب طلسمِ سامری کی ایک صورت تھی۔بر طانوی استعمار نے بر صغیر میں 1857کے بعد ایک ابلیسی نظام کے ذریعے اس خطے کے باشندوں کو اپنا غلام بنا لیا۔بر طانوی استعمار کے چُنگل میں پھنسنے کے بعدبر صغیر کے باشندوں کو انتہائی کٹھن اور صبر آزما حالات سے دو چار ہونا پڑا۔ ملی بیداری،قومی شعور ،خلوص اور دردمندی سے لبریز علامہ اقبال کی شاعری کو جد و جہدِ آزادی میں بانگِ درا کی حیثیت حاصل ہے جِس کے اعجاز سے سرابوں میں بھٹکنے والی راہ گُم کردہ قوم نشانِ منزل کی شناخت میں کام یاب ہو گئی۔اپنی شاعری میںعلامہ اقبال نے بر صغیر کی ملت اسلامیہ کوحوصلے اور اُمید کا دامن تھام کر آزادی کے لیے جد و جہد جاری رکھنے کی تلقین کی۔ بر طانوی استعمار کے زندان سے رہائی کے لیے قومی اتحاد،حق گوئی و بے باکی ،ایثار اور عزم و استقلال کی ضرورت کو اُجاگر کرتے ہوئے علامہ اقبال نے دِلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے پر زوردیا۔نوآبادیاتی دور میں بر طانوی سامراج نے جس بے دردی سے مسلمانوں کو تختۂ مشق بنایا علامہ اقبال کو اس پر بہت تشویش تھی۔علامہ اقبال نے واضح کر دیا کہ غلامی کی زنجیریں کا ٹنے کے لیے آزادی کے حصول کاذوقِ یقیں نا گزیر ہے۔قوموں کی بقا اور حیات ِ جاوداں کا راز ستیز میں پنہاں ہے ۔اس لیے جہد للبقا کی خاطر اپنی دُنیا آپ پیدا کرنا ہی زندہ قوموںکا نصب العین ہوتا ہے۔مثال کے طور پر اپنی نظم’’پرندے کی فریاد‘‘میں انھوں نے نو آبادیاتی دور میں بر صغیر کے باشندوں کی بے بسی کا نقشہ پیش کیا ہے۔علامہ اقبال کو ہر شعبۂ زندگی میں بر صغیر کے مسلمانوں کی زبوں حالی کا بہت دکھ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ یورپی اقوام نے اسلام کی آفاقی تعلیمات سے استفادہ کرکے علوم وفنون کو وسعت دی۔ تجربی سائنس کے فروغ میں گہری دلچسپی لے کر اور اسے فروغ دے کر مسلمانوں نے اولیت کا اعزاز حاصل کیا۔تاریخ کے مسلسل عمل کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنے اسلاف کی میراث کو گنوادیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علوم و فنون کی تابندہ مشعل یورپی قوام کے ہاتھ آگئی  اور مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہنے میں عافیت محسوس کرنے لگے ۔ حقیقت پر مبنی واقعات خرافات کی بھینٹ چڑھ گئے اور اُمت مسلمہ روایات کے سرابوں میں سر گرداں رہنے لگی۔ عشق کی چنگاری کیا گُل ہوئی کہ ایک زندہ  قوم راکھ کے ڈھیر میں بدل گئی ۔ نو آبادیاتی دور میں بر صغیر کے مسلمان فروعی اختلافات اور عصبیتوں کا شکار ہو گئے جس کے نتیجے میں برطانوی استعمار نے انھیں استحصال کے پاٹوں میں پِیس کر رکھ دیا۔ بر طانوی سامراج کی شقاوت ،عناد اور فساد کے باعث مسلمان طویل عرصہ تک بر صغیر میں خوار و زبوں رہے ۔ علامہ اقبال نے یقین کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے واضح کیا کہ یقین کی بدولت نار بھی گُل زار میں بدل جاتی ہے اور یقین ہی تعمیر ِ ملت کا عظیم اثاثہ ہے ۔جہد و عمل پر مائل کرنے والی علامہ اقبال کی شاعری دِلوںکو ایک ولولۂ تازہ عطا کرنے کا مؤثر وسیلہ ثابت ہوئی ۔
      آسماں ہو گاسحر کے نُور سے آئینہ پوش
       اورظُلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
       شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
       یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ تو حید سے
     سیاستِ افرنگ
        تری حریف ہے یا رب سیاستِ افرنگ
       مگر ہیں اس کے پُجاری فقط امیر و رئیس
       بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تُو نے 
        بنائے خاک سے اُس نے دو صد ہزار ابلیس
       ابلیس کی عرض داشت
       کہتا تھا عزازیل خدا وند ِجہاں سے 
       پر کا لۂ آتش ہوئی آدم کی کفِ خاک!
        جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست
        باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک!
--------------------------------------------
        مولانا ظفر علی خان(1873-1956)
         مولانا ظفر علی خان کی شاعر ی ان تمام مسائل کا احاطہ کرتی ہے جو نو آبادیاتی دور میں بر طانوی سامراج کے مظالم کے باعث بر صغیر کے مقامی باشندوں کو درپیش تھے۔بر طانوی سامراج کے خلاف مولانا ظفر علی خان ایک شعلۂ جوالا بن گئے ۔ انھوں نے مصلحت کی پروا نہ کرتے ہوئے فسطائی جبر کے خلاف کُھل کر لکھا۔ زہر ہلاہل کو کبھی قند نہ کہنے والے حریتِ فکر کے اس مجاہد کا اخبار ’’زمیندار‘‘بند کر کے پریس ضبط کر لیا گیا اور پندرہ برس تک پابند سلاسل رکھا گیا ۔(17 )مولانا ظفر علی خان کی استعمار دُشمنی سے غاصب انگریز حاکم ڈرتے تھے۔ جلیاں والا باغ جو سات ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے اور جس کے گرد بلند چار دیواری تعمیر کی گئی ہے۔اس باغ میں داخل ہونے کے لیے پانچ دروازے ہیں ۔تیرہ اپریل 1919کو سہ پہر چار بجے کرنل ڈائر(Colonel Reginald Edward Harry Dyer)جسے امرتسر کا قصاب بھی کہا جاتا ہے ،نے سیکڑوں مسلح سپاہیوں کو ساتھ لے کر اس باغ پر دھاوا بول دیااورباغ میں موجود دس ہزار سے زائد افراد کے ایک  پُر امن جلسے پر فائرنگ کا حکم دیا ۔دروازوں سے باہر بھاگ کر نکلنے کی کوشش کرنے والوں پر دس منٹ میں0 165گولیاں بر سائیں ۔ بعض روایات کے مطابق پندرہ منٹ تک فائرنگ جاری رہی یہاں تک کہ گولی بارود ختم ہو گیا ۔بر طانوی فوج کی اس اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں1516بے گناہ انسان لقمۂ اجل بن گئے (18) ان میں عورتیں ،بچے ،بوڑھے اور جوان شامل تھے۔ جلسہ گاہ سے بھاگ کر باہر نکلتے ہوئے بارہ سو نہتے لوگ شدید زخمی ہوئے۔ وائسرائے ہندلارڈ ہار ڈنگ(Lord Hardinge of Penshurst)  کے زمانے میں بر صغیر میں برطانوی استبداد اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔چمسفور ڈ (The Viscount Chelmsford) نے ہارڈنگ(Lord Hardinge ) کی جگہ مار چ1916 میں جب وائسرائے کا منصب سنبھالا تو اس نے بر صغیر کے طُول و عرض میں بڑھتی ہوئی سیاسی بے چینی،جلسے ،جلوس اور احتجاج کو روکنے کی خاطر جسٹس رولٹ(Sidney Rowlatt) کی سر براہی میں ایک کمیٹی بنائی ۔ اس کی سفاشات کے مطابق رولٹ ایکٹ (Rowlatt Act (1919))  کی منظوری دی گئی۔اس ایکٹ کے مطابق برصغیر کی غاصب بر طانوی حکومت کو بر صغیر میں لا محدود اختیارات مِل گئے۔حکومت مشکوک افراد کو بغیر کسی مقدمے کے حراست میں لے کرعقوبت خانوں میں بند کر سکتی تھی۔ اس ایکٹ کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج ہوا۔ رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاجی تحریک کو دبانے کے لیے 1919 میں پنجاب میں مارشل لا نافذ کردیا گیا۔ امرتسر میں ایک جلوس کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے فائرنگ کردی ۔ مجمع شہر کی طرف بھاگا راستے میں ایک انگریز خاتون مارسیلا شیروڈ کو کسی نے ڈنڈا مارا وہ بے ہوش ہوگئی۔ گلی کے لوگوں نے اسے فوری طورپر ہسپتال پہنچایا اور وہ صحت یاب ہو کر انگلستان چلی گئی ۔ اس واقعہ کے فوراً بعد کرنل ڈائر نے حکم دیا کہ جس گلی میں مس شیروڈ کو پیٹا گیاتھا وہاں سے لوگ پیٹ کے بل رینگتے ہوئے گزریں ۔ (19 متعد د بے گناہ لوگوں کو محض شک کی بنا پر سر عام کوڑے مارے گئے اور انھیں اذیت و عقوبت سے دوچار کر کے اُن کی تذلیل کی گئی ۔پنجاب کے اس وقت کے جلاد منش لیفٹنٹ گورنر سر مائیکل ایڈ وائر (Sir Michael Francis O'Dwyer)نے امرتسر کے قصاب کے اس قسم کے ظالمانہ اقدا مات کی تعریف کی اور جلیاں والا باغ کی فائرنگ کو درست قرار دیا۔(20) اس قدر سفاکی کے باوجود یہ درندہ سات برس(1912-1919) تک پنجاب کا گورنر رہا۔کرنل ڈائر جب انگلستان واپس پہنچا تو قومی ہیرو کی طرح اس کا استقبال کیا گیا اوراسے تلوار پیش کی گئی۔(21) جلیاں والا باغ میں بر صغیر کے مقامی باشندوں کے خون سے ہولی کھیلنے والا مائیکل ایڈوائر بالآخر گردشِ حالات، فطرت کی تعزیروں اور مکافاتِ عمل کی زد میں آ گیا۔ تیرہ مارچ،1940کو جب وہ لندن کے قدیم تاریخی کیکسٹن ہال (Caxton Hall)میں منعقد ہونے والے ایک جلسے میں شریک تھا تو اُدھم سنگھ نے اس سفاک قاتل کو گولیوں سے چھلنی کر دیااور اس نے اکیس برس بعد جلیاں والا باغ میں ہونے والے قتلِ عام کا بدلہ لے لیا۔اُدھم سنگھ کو برطانوی عدالت کے فیصلے کے مطابق سزائے موت دے دی گئی۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نوآبادیاتی دورمیں بر صغیر کے مقامی باشندے انگریزوں کے مظالم، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور اہانت آمیز سلوک کے خلاف انتقام کی آگ میں مسلسل سُلگ رہے تھے۔ مولانا ظفر علی خان کی گرفتاری کا حکم دینے کے بعدکرنل ڈائر نے ایک موقع پر یہ تسلیم کیا کہ اگر ظفر علی خان کو قید نہ کیا جاتا تو یہ چند دنوں میں برطانوی اقتدار کی دھجیاں بکھیر دیتا(22)  ملابار کے موپلوں نے انگریزوں کی طرف سے مسجدوں کے محاصرے اور عوام کی تذلیل پر احتجاج کیا تو موپلا علاقے میں مارشل لالگادیا گیا۔ان کے گھروں اور کھیتوں میں کھڑی فصلوں کو نذر آتش کردیا گیا ۔ ہزاروں موپلے قتل کردئیے گئے اور ہزاروں بے گناہ افراد کو قید کرلیا گیا۔ ایک سو سے زائد پُر جوش موپلوں کو ایک مال گاڑی میں بھر کر ہلاری منتقل کیا گیا جن میں سے ستر موپلے 19 نومبر 1921 کی شب دم گُھٹنے کی وجہ سے مر گئے ۔ (23)مولانا ظفر علی خان نے اپنی شاعری کے ذریعے بر صغیر کے عوام کو آزادی کے لیے جد و جہد اور ظلم کے خلاف احتجاج پر مائل کیا۔ 
   لٹس
      حاشا کہ اس قد ر نہیں سارے جہاں کی لُوٹ
      جتنی ہے ایک سال میں ہندوستاں کی لُوٹ
       گُل چِیںکے دستِ شوخ کی گیرائیوں کو دیکھ 
       سُنبل کی لُوٹ لالہ کی لُوٹ ارغواں کی لُوٹ
       اُجڑے ہوئے چمن میں ہے بلبل کا آشیاں 
       منظوراُنھیں ہے شاید اب اسی آشیاں کی لُوٹ
       مغرب کے رہزنوں کی نظر میں ہے رات دِن
      مشرق کے نقدِ امن و متاعِ اماں کی لُوٹ
      لندن سے جو بچا تھا وہ شملہ میں لُٹ گیا
      اور اس پہ مستزاد ہوئی قادیاں کی لُوٹ
       اللہ کے پیارے
       طریقِ عدل اِس انگریزی حکومت کے بھی نیارے ہیں
       ہوئی ہیں مسجدیں ویراں سلامت گُردوارے ہیں
       خدا ثابت قدم رکھے ہمیں اِس آزمائش میں
      اُدھر ہیں گولیاں اُن کی اِدھر سینے ہمارے ہیں
        بر طانوی سامراج نے 1857کے بعد بر صغیر میں لُوٹ کھسوٹ کی انتہا کر دی۔ اس بے رحمانہ استحصال سے بر صغیر کی صنعت ،تجارت،معیشت،زراعت،دست کاریوں اور تہذیب و معاشرت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔نو آبادیاتی تسلط اور معیشت پرسامراجی قبضے کے نتیجے میںبر صغیر کے عوام برطا نوی حکومت کے دست نگر بن کر رہ گئے۔بر طانوی تاجروں نے غذائی اجنا س کے بجائے نقد آور فصلوں کی کاشت کی حوصلہ افزائی کی۔اس ناقص منصوبہ بندی کے باعث بر صغیر میں غذائی اجناس کی قلت ہو گئی اور قحط کی سی کیفیت پیدا ہونے لگی۔ بر صغیر کی سیاست پر تاجِ بر طانیہ کا قبضہ تھامقامی باشندے بے بسی اور حسرت و یاس کی تصویر بنے اس کوہِ ستم کے نیچے سسک رہے تھے۔بر طانوی سامراج نے اپنی عمل داری قائم رکھنے کے لیے مقامی افرادی قوت کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں۔حالات کی ستم ظریفی یہ تھی کہ وہ مقامی لوگ جو بر طانوی سامراج کے لیے اپنی خدمات پیش کر چکے تھے انھیں بر طانوی سامراج نے ہمیشہ شک و شُبہ کی نظر سے دیکھا اور اُن سے توہین آمیز امتیازی سلوک روا رکھا۔بر طانوی سامراج نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بر صغیر کے مقامی باشندوںکے ذات پات،علاقائی،نسلی،لسانی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دی۔اُردو زبان کے ممتازادیبوں نے تاریخ کے اس نازک دور میںاپنے خون جگر سے حریتِ فکر کی شمع فروزاں کی اور روشنی کا سفر جاری رکھا۔اردو زبان کے جری ادیبوں نے مزدوروں ،کسانوں ،پس ماندہ طبقات اور فاقہ کش انسانوں کے مصائب و آلام کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا ۔ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ مثبت شعور و آ گہی کے وسیلے سے معاشرت ،سماجی نظام ،معیشت ،سیاست اور اظہار و ابلاغ کے جملہ طریقوں کو عصری آگہی سے نکھا رعطا کیاجائے۔دور ِ غلامی کے پُر آشو ب حالات میںاس نئے طرز ِ احساس کو تازہ ہوا کے جھونکے سے تعبیر کیا گیا۔ نو آبادیاتی دور میںبر صغیر کے مظلوم باشندوںکی کرب ناک زندگی کا لرزہ خیز افسانہ جسے اس عہد کے جری تخلیق کاروں نے اپنے اشعار کے قالب میں ڈھالاوہ ہر دور میںہلاکو اور چنگیز کی تقلید کرنے والے آمروں کے لیے عبرت کا تازیانہ ثابت ہو گا۔
      محمد یوسف ظفرؔ(پیدائش: یکم دسمبر1914،وفات:سات مارچ 1972  )
         قیدی
       ۔۔۔۔مسکرا جیل کی دیوار میں رونے والے
      تُوہے آزاد ۔۔۔ ذرا سوچ کہ آزاد ہے  تُو
      تیری دیوار تو پتھر کی ہے۔۔۔ بے حس دیوار
      جو مرے سامنے اک سایۂ بے معنی ہے
              لیکن افکا ر کی دیوار ہے ، میری دیوار 
             جس کو میرے ہی تخیل نے بنایا ہے مگر 
             کوئی طاقت  اسے مسمار نہیں کرسکتی 
---------------------------------------------
       عبدا لحفیظ حفیظؔ ہوشیار پوری(5  جنوری 1912 ۔ 10  جنوری 1973  )
       جبینِ زہد کا سرمایہ ہے داغِ ریا جب تک 
       متاعِ داغِ دِل کی قدر پہچانی  نہیں جاتی
       نہ جانے کس گھڑی کوئی رہا کرنے کو آپہنچے 
      قفس میں ہیں مگر مشقِ پر افشانی جاتی  
      --------------------------------------
    علی سکندرجگرؔ مراد آبادی(1890 ۔ 1960)
      چمن میں راس کب مجھ کو ہوائے روزگار آئی 
      قفس ہی میری قسمت میں لکھا تھا جب بہار آئی 
      غضب تھا آج گلشن میں یہ حسرت خیز نظّارہ
      اِدھر بلبل کا دم ٹوٹا، اُدھر فصل بہار آئی 
        دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی جفا یاد 
       اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد 
       میں شکوہ بہ لب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد 
      شاید کہ میرے بھولنے والے نے کیا یاد 
      کیا جانیے کیا ہوگیا اربابِ جنوں کو 
       جِینے کی ادا یاد نہ مرنے کی ادا یاد
      جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرمِ نوا ز ش 
      اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سِوا یاد 
      میں ترکِ رہ و رسمِ جنوں کر ہی چُکاتھا
      کیوں آگئی ایسے میں تیری لغزشِ پا یاد 
      مُدت ہوئی اک حادثۂ عِشق کو لیکن 
       اب تک ہے تیرے دِل کے دھڑکنے کی صدا یاد
      کیا لُطف کہ میں اپنا پتا آپ بتائو ں 
      کیجئے کوئی بُھولی ہوئی کو ئی خاص اَدا یاد    
    ---------------------------------------------------------
          برصغیر میں نو آبادیاتی دور میں بر طانوی سامراج کے دخیل ہو نے سے اس خطے کی مقامی آبادی کی زبوں حالی اس قد ر بڑھ گئی کہ لوگ سانس گِن گِن کر زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور تھے ۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے اور مکروہ سازش کے تحت برطانوی استعمار نے برصغیر میں رہنے والی مختلف اقوام کو باہم دست و گریباں رکھا ۔ فرضی مقدمات قائم کرکے وعدہ معاف سلطانی گواہوں کے ہیجانی بیانات کے ذریعے اپنی قائم کی کنگرو عدالتوں سے حریتِ فکر کے مجاہدوں کو کڑی سزائیں دلوائیں گئیں مگر جذبۂ آزادی سے سر شار اور ظلم سے ٹکرانے والے جس جنون سے آگے بڑھ رہے تھے انھیں روکنا ممکن نہ تھا۔ جس بے باکی سے یہ لوگ اپنے خون سے جد و جہدآزادی کی حکایتیں رقم کر رہے تھے وہ تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ مہاشے راج پال نے رحمت اللعالمین حضرت محمد  ﷺ کے خلاف ایک کتاب شائع کی۔اس کتاب کی اشاعت کے بعد بر طانوی حکومت نے مسلمانوں کے شدید غم و غصہ کا کوئی خیال نہ رکھا اور نہ ہی متعصب ہندو مہاجن پر کوئی تعزیر لگائی اور نہ ہی اس گھناونی سازش کے مرتکب افراد کا احتساب کیا۔ جب غازی علم دین (1908-1929)نے اس نا ہنجار ہندو کو واصل ِ جہنم کیا تو اس اکیس سالہ نو جوان کو دار پر کھنچوا دیا۔ بر صغیر کی تحریکِ آزادی میں حصہ لینے کی بنا پر متعدد مسلمان نوجوانوں کو طویل عرصہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ غاصب بر طانوی استعمار کے خلاف جد و جہد کرنے والے بھگت سنگھ (1907-1931)نے آٹھ اپریل1929کو مرکزی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بم پھینکا۔گرفتاری کے بعد بھگت سنکھ نے کہا کہ سامراجی طاقتیں افراد کو تو تباہ کر سکتی ہیں مگر حریت فکر کے خیالات کی ترجمانی کرنے والے جذبات پر قدغن لگانا اور جذبۂ آزادی کے سیلِ رواں کے سامنے بند باندھنا اُن کے بس سے باہر ہے ۔بر طانوی عدالت نے بھگت سنگھ کو سزائے موت دی لیکن اس نے فسطائی جبر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جرأت کی جو مثال قائم کی وہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئی۔بر صغیر کے مقامی باشندوں کو جو سزائیں دی گئیں ان کے سرِ محضر تاجِ بر طانیہ کی مہر سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ نو آبادیاتی نظام کے تحت اس خطے کے عوام کی زندگی اجیرن کرنے کی طویل منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ جد و جہد آزادی کے دوران بر صغیر کے حریت پسند اور ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے والے باشندوں کا لہو آزادی کے افسانے کی شہ سُرخی بن گیا۔
            بر صغیر کے عوام جو 1857کی ناکام جنگ ِ آزادی کے بعدمسلسل مصائب و آلام کی زد میں تھے صبر آزما حالات میںجبر کے سامنے سینہ سپر ہو گئے۔ان حالات میں خون ِ دِل سے لوح و قلم کی پرورش کرنے والے ادیبوں نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔ادبی تحریکیں معاشرتی زندگی میں پائے جانے والے جمود کا خاتمہ کر کے فکر و نظر کو اس طرح مہمیز کرتی ہیں کہ قوموں کی سیاسی زندگی پر اِس کے دُوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔علی گڑھ تحریک،رومانوی تحریک اور ترقی پسند تحریک نے اپنے اپنے انداز میں عوامی جذبات کی ترجمانی کی۔ نو آبادیاتی دور میں بر طانوی استعمار نے ادیبوں سے متاعِ لوح و قلم چھین کر اُن کے لبِ ظہار پر تالے لانے کے مذموم ہتھکنڈے اپنائے ۔ بر صغیر میں اٹھارہویں صدی میں جبر کے اس جامد ساکت اور ناروا پابندیوں سے بھرے ہوئے ماحول کے ردِ عمل میںرومانوی تحریک نے وادیٔ خیال میں مستانہ وار سرگرمِ سفر رہنے میں عافیت محسوس کی۔ اپنی خیالی اور مثالی دنیا میں موہوم مسرتوں کی تمنا میں سر گرم عمل رہنے والے ان ادیبوں نے بھی حالات کا رُخ پہچان کر جبر کا ہر انداز مستر دکرتے ہوئے حریتِ فکر کا علم بلند رکھا۔جوشؔ ملیح آبادی ،حفیظ جالندھری ،احسان دانش ،اور اخترشیرانی کی شاعری اسی عہد کی یاد دلاتی ہے ۔ 
       احسان الحق احسانؔ دانش(1914-1982)
        ریا کی غم گساری ہے ،غرض کی آشنائی ہے 
        بہ ظاہر جاں نثاری ہے ،بہ باطن بے وفائی ہے
        مِلے قیمت تو بِک جاتے ہیں مذہب ہو کہ خود داری
        ملمع کی فدا کاری ہے ،جُھوٹی پارسائی ہے 
        خلوص اب تیرے بندوں میں کہیں ڈھونڈے نہیں ملتا
        دہائی ہے خدائے د وجہاں تیری دہائی ہے 
------                         
     محمد داؤد خان اخترؔ شیرانی(پیدائش :چار مئی 1905،وفات:نو ستمبر 1948)
    دیکھ سکتا ہے بھلا کون یہ پیارے آنسو
     میری آنکھوںمیں نہ آ جائیں تمھارے آنسو
      مسرت!آہ تُو بستی ہے کِن ستاروں میں؟  
      زمیں پہ عمر ہوئی تیری جُستجو کرتے
         مزدور کی شام 
  غروبِ مہر ، گردوں پر شفق ، چپ چاپ ویرانہ
      زبانِ شام پر ہے دن کی ناسازی کا افسانہ 
      تہی آنکھیں ،تہی سینہ ، تہی کیسہ ، تہی دامن 
      سلگتا آتش شب رنگ سے راحت کا کا شانہ 
      پھٹے کُرتے کی ہلتی دھجیاں ٹھنڈی ہوائوں میں 
      زبانِ حال سے کہتی ہوئی عسرت کا افسانہ 
      پھٹی دستا ر کا ہر تار ہے عنوانِ مجبوری 
      برہنہ پائوں کا ہر نقش ہے نکہت کا افسانہ   
----------------------------------------   
      مشورات
      راحتِ ساحل تجھے گرداب میں ہوگی نصیب 
      ڈُوبنے والے ! خیالِ ناخدا جانے بھی دے!
      دیکھ خود داری کے آئینے میں آجائے نہ بال 
      جان جاتی ہے اگر ہو کر فناجانے بھی دے !
      ہم نشینوں پر نہ رکھ اپنی تمنا کا مدار 
      ان ستم رانوں سے امیدِ وفا؟ جانے بھی دے  
       موت کے ظُلمت کدے سے مانگ تنویرِ حیات
       جستجوئے چشمۂ آبِ بقا جانے بھی دے
      آسماں دُشمن،زمیں درپے،جہاں خنجر بہ کف
      رہ زنوں میں یہ تلاشِ رہنما جانے بھی دے
----------------------
    ابوالاثر حفیظ جالندھری(پیدائش:چودہ جنوری1900،وفات:اکیس دسمبر1982)
      اِدھر سیلاب پِھر آتاہوا معلوم ہوتا ہے 
      اِدھر گرداب بل کھاتا ہوا معلوم ہوتا ہے 
     نہیں ہنگام سونے کاکھڑے ہو جاؤ تن جاؤ
     حوادث کے مقابِل آہنی دیوار بن جاؤ
      رات کے افسون میں گُم ہو گئی ہے کائنات
      یہ گُماں ہوتا ہے شاید سو گئی ہے کائنات
      چلی ہے جان یادِ رفتگاں میں
      مسافر ہے تلاشِ کارواں میں
         یہ قافلہ ہے موت کا
       بس یوں ہی چلتا جائے گا
      اس قافلے کے ہم سفر
      بس یوں ہی بڑھتے جائیں گے
      سُود و زیاں سے بے خبر
     زوروں پہ چڑھتے جائیں گے
     یہ تیز روآتش قدم
      جائیں گے تا حدِ عدم
     منزل مگر معدوم ہے 
      اللہ کومعلوم ہے 
      بس یوں ہی چلتا جائے گا
      یہ قافلہ ہے موت کا
    -----------------------------------
   شبیر حسن خان جوشؔ ملیح آبادی (پیدائش:پانچ دسمبر1898وفات:بائیس فروری1982)
         قدم انسان کاراہِ دہر میں تھّرا ہی جاتا ہے 
        چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے
        ہوائیں زور کتنا ہی لگائیںآندھیاں بن کر !
         مگر جو گِھر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے
----------------            
          عبادت
         عبادت کرتے ہیں جو لوگ جنت کی تمنا میں 
        عبادت تو نہیں ہے اک طرح کی وہ تجارت ہے
        جو ڈر کر نارِ دوزخ سے خدا کا نام لیتے ہیں 
        عبادت کیا وہ خالی بزدلانہ ایک خدمت ہے
                مگر جب شکر نعمت میں جبیں جھکتی ہے بندے کی 
               وہ ’’سچی بندگی ہے‘‘ اک شریفانہ اطاعت ہے
     رازِ حیات 
       بزدلی ، دوں ہمتی ، بے مائگی، خواب کراں 
      تجھ پہ اور یہ لعنتیں ، افسوس اے ہندوستاں       
      آہ  اے ہندوستاں ، مشرق کی اے تاریک رات
       کہہ رہا ہوں کب سے میں کم بخت یہ راز حیات 
       تجھکو لوہا بن کے دنیا میں ابھر نا چاہیے 
       یہ اگر ہمت نہیں ، تو ڈوب مرنا چاہیے
---------------------------------------
          غلاموں سے خطاب
      تُجھ کو یقیں نہ آئے گا اے دائمی غلام!
      میں جا کے مقبروں میں سناؤں اگر کلام
      خودموت سے حیات کے چشمے اُبل پڑیں
      قبروں سے سر کو پِیٹ کے مُردے نِکل پڑیں
      میرے رجز سے لرزہ بر اندام ہے زمیں
      افسوس تیرے کان پہ جُوں رینگتی نہیں
      تُو چُپ رہا،زمین ہِلی،آسمان ہِلا
      تُجھ سے تو کیا ،خدا سے کروں گا میں یہ گِلا
       اِن بُزدلوں کے حُسن پہ شیدا کیا ہے کیوں
      نامرد  قوم میں مُجھے پیدا کیا ہے کیوں
         بر طانوی حکومت نے اپنی نو آبادیوں کے عوام کو اپنا غلام سمجھ رکھا تھا۔پہلی جنگِ عظیم (آغاز :اٹھائیس جولائی 1914،اختتام :گیارہ نومبر،1918)کے آغاز کے ساتھ ہی بر صغیر کے عوام پر مصائب و آلام کے پہاڑ ٹُوٹ پڑے۔ بر طانوی استعمار نے اپنے مفادات کی خاطر بر صغیر کے مقامی باشندوں کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا۔اس جنگ کے شعلوں نے کروڑوں گھروں کی اُمیدوں کا خرمن خاکستر کر کے اُنھیں بے چراغ کر دیا۔وقت کے نیرو جلتے روم کو دیکھ کر چین کی بانسری بجانے میں مصروف تھے۔ بر صغیر کے مظلوم عوام اپنی بے بسی ،بے چارگی اور حالات کی سفاکی پر نوحہ کنا ں تھے۔جب بر طانوی استعمار کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو مقامی باشندوں نے پُر امن احتجاجی تحریک شرع کر دی۔ ترقی پسند تحریک نے 1936میں اپنے کام کا آغاز کیا۔ترقی پسند تحریک  سے وابستہ ادیبوں نے وادیٔ خیال میں مستانہ وار گُھومنے کے بجائے استبد ادی نظام کوبیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکنے پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔بر طانوی سامراج نے 1857کے بعدجس بے دردی سے بر صغیر کے عوام کا استحصال کیا ،اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے دل میں نوآبادیاتی نظام کے خلاف نفرت کے جذبات میں شدت آتی چلی گئی۔پُورے بر صغیر میں انسانیت کی توہین ،تذلیل ، تضحیک ،بے توقیری،بے رحمانہ استحصال اورفسطائی جبر کے خلاف ترقی پسند تحریک نے بھر پُور آواز بلند کی۔ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادیب تیشۂ حر ف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کے آرزو مند تھے۔ترقی پسند تحریک کے علم بردار ادیبوںنے معاشرے کے مظلوم طبقے سے جو عہدِ وفا استوار کیا اسی کو علاج گردش ِ لیل و نہار قرار دیا۔وہ چاہتے تھے کہ تخلیق ِفن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی سعی کی جائے۔ترقی پسند نظریات کے حامی ادیبوں نے انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کو اپنا مطمح نظر بنایا ۔اس منفر د اور موثر نوعیت کے طرزِ احساس نے پتھروں کو بھی موم کر دیا ۔اس کے معجز نما اثر سے تخلیق ِ ادب میں تحلیل نفسی،زندگی کے جملہ نشیب و فراز ،واقعات ،مشاہدات،شواہد ،معلومات اور تجربات کی جانچ پر کھ اور جذباتی کیفیات کے مد و جزر اور اس کے محرکات کی تفہیم یقینی ہو گئی۔تخلیقی عمل کے لا شعوری محرکات اور جذبات کی نموکے بارے میں حقیقی آگہی پروان چڑھانے کے سلسلے میںاس نئے طرزِ احساس نے کلیدی کردار ادا کیا۔علم بشریات میں ثقافت کو اہم مقام حاصل ہے ۔ترقی پسند تحریک نے ثقافت کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ان کی مساعی سے ادب ،اخلاقیات،رسوم و رواج اور فنون لطیفہ پر دُور رس اثرات مرتب ہوئے۔ وہ زندگی کی حیات آفریں اقدار سے والہانہ محبت اور قلبی وابستگی رکھتے تھے جب کہ زندگی کی مرگ آفریں قوتوں کے مسلط کردہ جبر کے خلاف سینہ سپر ہونا ان کا شیوہ تھا۔ ترقی پسند تحریک نے عوامی سطح پر طبقاتی شعورکو اُجاگرکرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔نو آبادیاتی دور کے استحصالی نظام کے خلاف ترقی پسند تحریک نے جس جرأت سے اپنا ما فی الضمیر بیان کیا وہ تاریخ ِ ادب میںہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بر طانوی سامراجی دور کے فسطائی جبر ، استحصال،انصاف کُشی اور حبس کے ماحول میں جب طائرانِ خوش نوا بھی اپنے آ شیانوں میں سسک کر دم توڑ رہے تھے تر قی پسند تحریک نے ایسی تر جیحات اور ترغیبات پر اپنی توجہ مرکوز کی جس سے ثقافتی ترقی مقاصد کی رفعت کے لحاظ سے ہم دوش ثریا ہو گئی۔
       برطانوی استعمار نے معاشرتی زندگی کو جمود کی بھینٹ چڑھا دیا اس کے نتیجے میں ادب میں مبتذل اور پامال اسالیب رواج پا گئے۔ ترقی پسند تحریک نے تقلید کی روِش سے بچتے ہوئے افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب عازم سفر ہونے کا مصمم ارادہ کرلیا ۔آزاد نظم ، ڈرامائی اور تمثیلی انداز کی حامل منظومات اسی عہد کی یاد دلاتی ہیں۔ اس نوعیت کی تخلیقی فعالیت سے ادب میںنئے تجربات کی راہ ہموار ہوگئی اور برصغیر میں جدوجہد آزادی میںتیزی آگئی ۔ برطانوی سامراج کے مسلط کردہ فسطائی جبر نے پورے برصغیر میں معاشرتی اضمحلال ، سیاسی اور معاشی ابتری ، خوف و ہراس اور مایوسی کی فضا پیدا کردی تھی ۔ ترقی پسند تحریک نے اس کے مسموم اثرات کو کافور کرنے کے لیے جذبۂ حب الوطنی سے سر شار ہو کر فکری سطح پر بھر پور جدوجہد کی ۔
       احمدندیم قاسمی(پیدائش:بیس نومبر1916,وفات:دس جولائی2006)
          قندیلِ احساس
       جب بُھوک سے پھٹ جاتا ہے مُفلس کا کلیجہ
       کہتا ہے ’’خدا نے مُجھے کیوں دہر میں بھیجا‘‘
       بھولا سا یہ بچہ ،یہ بہشتوں کا کِھلونا
       کیا اِس کے مُقدر میں ہے دِن رات کا رونا
        یا بُھوک مِٹانے کا سُجھا کوئی طریقہ
       یا چَین سے مرنے کا بتا کوئی طریقہ
       سُنتا ہوں جب افلاس کی پُر درد کراہیں 
       اِحساس کی قندیل سے جلتی ہیں نگاہیں      
          (1940
-------------------------------------
      داورِ حشرمجھے تیری قسم
      عمر بھر میں نے عبادت کی ہے 
      تُو میرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
      میں نے انساں سے محبت کی ہے 
---------------------------------------
         پتھر
     ریت سے بُت نہ بنا اے میرے اچھے فن کار
     ایک لمحے کو ٹھہر ، میں تجھے پتھر لادوں 
     میں تیرے سامنے انبار لگادوں، لیکن 
      کون سے رنگ کا پتھر تیرے کا م آئے گا
       سرخ  پتھر جسے دِل کہتی ہے بے دِل دُ نیا
       یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر 
       جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے
       کیا تجھے رُوح کے پتھر کی ضرورت ہوگی ؟
       جس پہ حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے
       اک وہ پتھر ہے جسے کہتے ہیں تہذیبِ سفید 
      اس کے مرمر میں سیاہ خُون جھلک جاتا ہے
      ایک انصاف کا پتھر بھی ہوتا ہے مگر 
      ہا تھ میں تیشہ ٔ  زر ہوتووہ ہاتھ آتا ہے
      جتنے معیار ہیںاس دورکے سب پتھر ہیں
      جتنے افکار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں 
      شعر بھی، رقص بھی ، تصویر و غنا بھی پتھر
      میرا الہام ، تیرا ذہنِ رسا بھی پتھر 
      اس زمانے میں تو ہر فن کا نشاں پتھر ہے
      ہاتھ پتھر ہیں تیرے ، میری زباں پتھر ہے
      ریت سے بُت نہ بنا مرے اچھے فن کا ر 
             ---------------- 
      اسرار الحق مجاز لکھنوی(1911-1955)
     بخش دی ہیں ہم کو عشق نے وہ جرأتیں مجازؔ
     ڈرتے نہیں سیاستِ اہلِ جہاں سے ہم
     جنونِ شوق اب بھی کم نہیں ہے 
       مگر وہ آج بھی بر ہم نہیں ہے 
        بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
       تِری زُلفوں کا پیچ  وخم نہیں ہے 
       بہ ایں سیلِ غم و سیلِ حواد ث
       مِراسر ہے کہ اب بھی خم نہیں ہے
       مجازؔاِک بادہ کش تو ہے یقیناً
       جو ہم سُنتے تھے وہ عالَم نہیں ہے
------------------------------------
     بسمل عظیم آبادی (1901- 1978 ) 
        سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے 
      دیکھنا ہے زور کتنا بازو ئے قا تل میں ہے
      ہا تھ جن میں ہو جنوں کٹتے نہیں تلوار سے
      سر جو اُٹھ جاتے ہیں وہ جُھکتے نہیں للکا رسے
     اور بھڑ کے گا جو شعلہ سا ہمارے دل میں ہے
       سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
----------------------------------------
         علی سردار جعفری (پیدائش:اُنتیس نومبر 1913،وفات:یکم اگست،2000)
      بغاوت رسمِ چنگیزی سے تہذیبِ تتاری سے
        بغاوت جبر و استبداد سے سر مایہ داری سے 
       بغاوت وہم کی پابندیوںسے قیدِ مِلت سے
       بغاوت آدمی کو پیسنے والی مشیّت سے 
       بغاوت زرگری کے مسخ مذہب کے ترانوں سے 
       بغاوت عہدِ پارینہ کی رنگیں داستانوں سے
       بغاوت اپنی آزادی کی نعمت کھونے والوں سے 
       بغاوت عظمتِ رفتہ کے اُوپر رونے والوں سے 
       بغاوت دورِ حاضر کی حکومت سے ریاست سے 
       بغاوت سامراجی نظم و قانون و سیاست سے 
       بغاوت سخت پتھر کی طرح بے حِس خدائوں سے 
       بغاوت مُفلسی کی عاجزانہ بددعائوں سے 
       بغاوت حریت کے دیوتا کا آستانہ ہے
       بغاوت عصرِ حاضر کے سپوتوں کا ترانہ ہے
----------------------------------------
     مجروح سلطان پوری(اسرار الحسن خان) (1919-2000)
        مانا شبِ  غم صبح کی محرم تو نہیں ہے
        سورج سے تیرا رنگ حِنا کم تو نہیں ہے
       کچھ زخم ہی کھا ئیں چلو کچھ گُل ہی کھلائیں 
        ہر چند بہاراں کا یہ موسم تو نہیں ہے 
        اب کار گہ دہر میں لگتا ہے بہت دل 
        اے دوست کہیں یہ بھی تیرا غم تو نہیں ہے
        چاہے وہ کسی کا ہو لہو دامنِ گُل پر 
        صیا د  یہ کل رات کی شبنم تو نہیں ہے
        اتنی بھی ہمیں بندشِ غم کب تھی گوار ا
        پردے میں تیری کا کلِ پُر خم تو نہیں ہے
        صحرا میں بگولا بھی ہے مجروحؔ صبا بھی 
        ہم سا کوئی  آوارۂ عالم تو نہیں ہے
       میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر 
       لو گ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
----------------------------------------------
         مخدوم محی الدین(1908-1969)
      آپ کی یادآتی رہی رات بھر
       چشمِ نم مُسکراتی رہی رات بھر
       رات بھر درد کی شمع جلتی رہی 
      غم کی لو تھر تھراتی رہی رات بھر
      یاد کے چاند دِل میں اُترتے رہے 
      چاندنی جگمگاتی رہی رات بھر
       ایک اُمید سے دِل بہلتا رہا 
      اِک تمنا ستاتی رہی رات بھر
      حیات لے کے چلو ،کائنات لے کے چلو
      چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
----------------------------------------
     معین احسن جذبی(1912-2005)
              موت
      اپنی سوئی ہوئی دُنیا کو جگا لُوں تو چلوں
      اپنے غم خانے میں ایک دُھوم مچا لُوں تو چلوں
     اورایک جام مئے تلخ چڑھالوں تو چلوں 
     ابھی چلتاہوں ذرا خود کو سنبھالُوں تو چلوں 
     جانے کب پی تھی اَبھی تک ہے مئے غم کا خمار 
     دھندلادھندلا سا نظر آتا ہے جہاں ِبیدار 
      آندھیاں چلتی ہیں دُنیا ہوئی جاتی ہے غُبار
       آنکھ تو مَل لوں ذرا ہوش میں آلُوں تو چلوں 
       وہ میر ا سِحر وہ اِعجاز کہا ں ہے لانا
       میری کھوئی ہوئی آواز کہاں ہے لانا
      میرا ٹُوٹا ہوا ساز کہا ں ہے لانا
      اِک ذرا گِیت بھی اس ساز پہ گا لُوں تو چلوں 
      میں تھکا ہارا تھا اتنے  میں جو بادل آئے
      کسی متوالے نے چُپکے سے بڑھادی بوتل 
       اُف وہ رنگیں پر اسرار خیالوں کے محل 
       ایسے دوچار محل اور بنا لُوں تو چلوں 
      میری آنکھوں میں ابھی تک ہے محبت کاغرور 
      میرے ہونٹوں کو ابھی تک ہے صداقت کا غرور 
     میرے ماتھے پہ ابھی تک ہے شرافت کا غرور 
     ایسے وہموںسے خود کو نکالوں تو چلوں   
---------------------------------------------------
    فیض احمد فیض(پیدائش:تیرہ فروری،1911،وفات:بیس نومبر،1984 )
     مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ 
      اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا 
     راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سو ا
     ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم 
     ریشم و اطلس و کم خواب میں بنوائے ہوئے
     جابہ جابِکتے ہوئے کو چہ و بازار میں جسم 
     خاک میں لِتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے  
                        لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا  کیجیے
                        اب بھی دِل کش ہے تیر ا حسن ، مگر کیا کیجیے
           بر صغیر میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برطانوی استعمار کے فسطائی جبر کے خلاف نفر ت میں اضافہ ہو رہا تھا۔بر طانوی سامراج نے نے جب سال 1857میں مغلوںکی حکومت کو بر طرف کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تو غاصب فراعنہ نے بر صغیر کے مسلمانوں کو بے رحمانہ انتقامی کا رروائیوں کا نشانہ بنایا ۔ بر طانوی نو آبادیاتی دور میں بر صغیر کے مظلوم مسلمان غربت و افلاس کے پاٹوں میں پستے رہے مگر غاصب بر طانوی حاکم ٹس سے مس نہ ہوئے۔بے روزگار مسلمانوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کر دئیے گئے۔سرکاری گزٹ میں بر صغیر کے مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے علاحدہ رکھنے کا اعلان کیا گیا۔(24)بر طانوی سامراج کی ظالمانہ انتقامی کارروائیوں اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کے خلاف جب مسلمان پُر امن احتجاج کرتے تو اُن پر بے تحاشا گولیاں بر سائی جاتیں۔اُردو زبان کے جری تخلیق کاروں نے نو آبادیاتی دور کی مسموم فضا میں عزم و ہمت کی شمع فروزاں رکھی۔بر طانوی سامراج کے مسلط کردہ فسطائی جبر کے لر زہ خیز ،اعصاب شکن ،مہیب ،جان لیوا اور اذیت ناک ماحول اور غلامی کی سفاک ظلمتوںمیں ان کی تخلیقات کو ضمیر کی ایسی للکار سے تعبیر کیا جاتا ہے جس نے اقتدار کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیا۔اُردو زبان کے نڈر ادیبوں نے مطلق العنان آمریت کے ماحول میں جنگل کے کالے قوانین کو مسترد کرتے ہوئے آزادیٔ اظہارکی جو شمعیں فروزاں کیں ،اُن کے اعجاز سے دِلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے ،ولولۂ تازہ عطا کرنے اور جِہد و عمل پر مائل کرنے میں مدد ملی۔جنگِ آزادی میں بر صغیر کے باشندوں کی ناکامی کے بعد بر طانوی سامراج نے اس خطے کے عوام پر بد ترین آمریت مسلط کر دی۔اس آمرانہ نظام کو تہس نہس کرنے اور بر طانوی سامراج کا قلع قمع کرنے کے لیے بر صغیر کے باشندوں نے بہت قربانیاں دیں۔ کسی بھی ملک میں آمریت کو ایک ایسی پھٹکار سمجھا جاتاہے جو وہاں کے باشندوں کے معیار ِ زندگی اور عزتِ نفس کے لیے تباہ کُن ہے ۔ ڈیلا امیڈے نے آمریت کی بیخ کنی کو اقتضائے وقت کے عین مطابق سمجھتے ہوئے لکھا ہے:
        ’’جِس قوم کے تمام یا اکثر افرادآمریت کے جُوئے کو محسوس نہیں کرتے وہ قوم آزادی کی کبھی مستحق نہیں ہوتی۔آمریت کا مقابلہ قوّت  وتشدد سے نہیں بل کہ شعور و تدبر کے ساتھ قدم بہ قدم کر نا چاہیے۔آمریت کے مقابلے سے پہلے اس حکومت کا خاکہ تیار کر لینا نہایت ضروری ہے جِسے آمریت کی جگہ قائم کرنا ہے ۔‘‘(25 )
        جنگِ آزادی  1857کی ناکامی کے بعدبر طانوی استعمار کے جبر کے خلاف بر صغیر کے باشندوں نے بالعموم اور مسلمانوں نے بالخصوص صبر و تحمل ،بصیرت و تدبر ،فہم و فراست اور سیاسی شعور کو زادِ راہ بنایا۔ دوسری عالمی جنگ (1939-1945 )میں بر طانوی استعمار نے اپنی جنگ میں ایک بار پھر بر صغیر کے مظلوم اور محکوم باشندوں کو جنگ کے شعلوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اس جنگ میں اخلاقیات اورانسانی ہمدردی کے بُور لدے چھتنار پر جس بے دردی سے تعصب اور تنگ نظری پر مبنی انتقامی کارروائی کی آری چلائی گئی اُس کے نتیجے میںفسطائی رجحانات تقویت پانے لگے اور فاتح اقوام خلوص اور دردمندی سے عاری ہوتی چلی گئیں۔سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا استعماری طاقتیں اپنی نو آبادیات کے بے بس و لاچار باشندوں کو اذیت و عقوبت میں مبتلا کر کے اپنے لیے مسرت و انبساط کی جستجو میں خجل ہونے میں تامل نہ کرتیں ۔ اس طویل جنگ میں اس قدر جانی و مالی نقصان ہوا کہ بر صغیر کے ہر گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی ۔دوسری عالمی جنگ کے دوران بر صغیر کا پورا معاشی ڈھانچہ بر طانیہ کے جنگی جنون کے نتیجے میں زمیں بوس ہو گیا۔محاذ ِجنگ پر تو بر طانیہ اور اس کے اتحادیوں نے جر منوں کو شکست دی مگر اخلاقی میدان میں انھیں جس ہزیمت کا سامنا تھا اس سے بچ نکلنا کسی صورت میں ممکن ہی نہ تھا۔اپنی نو آبادیات میں بر طانیہ کو شدید نوعیت کے داخلی بحران نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بر طانوی سامراج سے نفرت میں بے پناہ اضافہ ہو گیااور مشتعل عوام تنگ آمد بہ جنگ آمد کی نفسیاتی کیفیت سے گزر رہے تھے۔بر صغیر کے طول و عرض میں بر طانوی استبداد کے خلاف مظاہروں کا غیر مختتم سلسلہ چل نکلا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رفتہ رفتہ بر طانوی حکومت کی حاکمیت ،وقاراور جاہ و جلال سب کچھ خاک میں مِل گیا ۔پرِ زمانہ کے بارے میں یہ بات مُسلمہ ہے کہ یہ پروازِ نُور سے کہیں بڑھ کر تیز ہے۔ بر صغیر کی نو آبادی میںبر طانوی اقتدار اب ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایسی تحریر کے مانند تھا جسے سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے کسی بھی وقت بہا کر غرقاب کر سکتے تھے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات نے ایسا رُخ اختیار کیا بر صغیر میں اپنی نو آبادی میں بر طانوی فوج کے پاؤں اُکھڑنے لگے تھے۔آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کے بر طانوی حکمرانوں نے یہ محسوس کر لیا کہ بر صغیر کی اپنی نو آبادی میں اب انھیں ایک فیصلہ کُن آخری معرکہ درپیش ہے ۔غاصب بر طانوی حکمران اس نتیجے پر پہنچ چُکے تھے کہ اِس فیصلہ کُن معرکے سے بچ نکلنے کی راہیں مسدود اور کام یابی کے امکانات مفقود ہیں۔بر صغیر میں 1857کے بعدکی مطلق العنان فرماں روائی،یہاں کے باشندوں کے ساتھ کج ادائی یہاں کے مجبور انسانوں کے چام کے دام چلانے،کِشتِ دہقاں اور تخت و تاج لُوٹنے اور مال بنانے کے نشے کو بُھول کر اب بے نیلِ مرام یہاں سے بچ نکلنے کے سِواکوئی عقبی دروازہ موجود نہ تھا۔ اسی کو قضاو قدر کا فیصلہ سمجھ کر قبول کرنا پڑے گا۔
        آزادی کے حصول کی پُر امن جدو جہد میںاُردو زبان کے فعال تخلیق کاروں کا کردار نہایت اہم ہے ۔اُردو زبان کے شعرا نے بر طانوی سامراج کی گرتی ہوئی دیوار کو زندہ حروف کی ضربِ کلیمی سے منہدم کرنے کی مساعی جاری رکھیں۔عوامی جوش و جذبے کے سیلِ رواں میں شدت آتی چلی گئی جس میں بر طانوی جاہ و جلال اور کرو فر خس و خاشاک کی طرح بہہ گیا۔حالات کا رُخ بد ل رہا تھا اورصاف نظر آ رہا تھا کہ اب برطانوی استعمار اپنا بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس زمانے میںاُردو زبان کے متعددممتاز شعرا نے جد و جہد آزادی کو مہمیز کرنے میں جس خلوص اور درد مندی کا ثبوت دیا اس کی بنا پر تاریخ ہر دور میںاُن کے نام کی تعظیم کرے گی۔ 
      احمد ندیم قاسمی(پیدائش:بیس نومبر،1916،وفات:دس جولائی،2006)
      ہر شعر مِرا اصل میں تاریخِ اُمم ہے 
      مُجھ کو مِری آفاق نوردی کی قسم ہے 
      دیوانہ وہی مردِ ہنر مند ہے یارو
      اِس دَور میں جو طالبِ اِنصاف و کرم ہے 
      سُلجھاتا ہے افلاس کے عقدے وہ سخن ور
       جو ہاتھ میں تھامے ہوئے سونے کا قلم ہے 
       جِینے کے لیے اِذن ہے قانون کا مطلوب
       اللہ سِتم ہے ،مِرے اللہ سِتم ہے 
                                                          (1941 )
--------------------------------------------------------------------------- 
  اصغر گونڈوی(1884-1936)
    چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے 
     اگر آسانیاں ہوں ،زندگی دشوار ہو جائے
      آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
     جو غم ہوا اُسے غمِ جاناں بنا دیا
---------------------------------------
          حفیظ ہو شیار پوری(1912-1973 )
        سحر ہوئی بھی تو اُس کو یقیں  نہ آئے گا
        جو بد نصیب اُمیدِ سحر سے گُزر ا ہے 
        حرم ہو ،دَیر ہو،راہیں ہیں ایک منزل کی
        کوئی اِدھر سے تو کوئی اُدھر سے گُزرا ہے 
      ------------------------------------
   نواب سید علی محمدشاد ؔعظیم آبادی(1846-1927)
     ڈھونڈو گے اگر مُلکوں مُلکوں مِلنے کے نہیں نایاب ہیں ہم 
       جو یاد نہ آئے بُھول کے پِھراے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
       اے شوق بتا کچھ تُو ہی بتااب تک یہ کرشمہ کچھ نہ کُھلا
       ہم میں ہے دِلِ بے تاب نہاں یا آپ دِلِ بے تاب ہیں ہم
       میں حیرت و حسرت کا ماراخاموش کھڑا ہوں ساحل پر
       دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیںپایاب ہیں ہم 
        لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
        اے اہلِ زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم
        مُرغانِ قفس کو پُھولوں نے اے شادؔ یہ کہلا بھیجا ہے 
        آجاؤجو تُم کو آنا ہوایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم
-------------------------------------------------------
     ن۔م۔راشد( نذر محمد جنجوعہ) (1910-1975)
           سچ کا سفر
       زندگی سے ڈرتے ہو؟
     زندگی تو تم بھی ہو،زندگی تو ہم بھی ہیں
      آدمی سے ڈرتے ہو
      آدمی تو تم بھی ہو آدمی تو ہم بھی ہیں
      آدمی زباں بھی ہے آدمی بیاں بھی ہے 
       اس سے تم نہیں ڈرتے
      حر ف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے
      آدمی ہے وابستہ
      آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
      اس سے تم نہیں ڈرتے
       ’’ان کہی ‘‘ سے ڈرتے ہو
        جو ابھی نہیں آئی اُس گھڑی سے ڈرتے ہو
        اُس گھڑی کی آمد کی آ گہی سے ڈرتے ہو 
        پہلے بھی تو گزرے ہیں 
        دور نا رسائی کے ،بے ریا خدائی کے 
        پِھر بھی یہ سمجھتے ہو،ہیچ آرزو مندی
        یہ شبِ زباں بندی ہے رہِ خدا وندی
         تم مگر یہ کیا جانو
       لب اگر نہیں ہلتے
       ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں
       ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں راہ کا نشاں بن کر 
       نُور کی زبان بن کر 
       ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں صبح کی اذاں بن کر 
       روشنی سے ڈرتے ہو ؟
       روشنی تو تم بھی ہو روشنی تو ہم بھی ہیں
        روشنی سے ڈرتے ہو 
     ۔۔۔۔۔شہر کی فصیلوں پر
      دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
      ازدحامِ انساں سے فرد کی نوا آئی
      ذات کی صدا آئی
      راہِ شوق میں جیسے راہ رو کا خوں لپکے 
       اِک نیا جنوں لپکے
       آدمی چھلک اُٹھے
        آدمی ہنسے دیکھو،شہر پِھر بسے دیکھو
        تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
----------------------------------------------------
     سید علی نقوی زیدی صفیؔلکھنوی(1862-1950)
       غزل اس نے چھڑی مجھے ساز دینا 
       ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا
      جنا زہ روک کر میرا وہ اِس انداز سے بولے 
      گلی ہم نے کہی تھی تم تو دُینا چھوڑے جا تے ہو
------------------------------------------------------------
       مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی(1882-1935)
     دیکھ کر در و دیوار کو حیراں ہونا
     وہ میرا پہلے پہل داخلِ زِنداں ہونا
     جیتے ہیں کیسے ایسی مثالوں سے دیکھیے
     پردہ اُٹھا کے چاہنے والوں کو دیکھیے
     یہ مشورہ باہم اُٹھے ہیں چارہ جُو کرتے
     کہ اب مریض کو اچھا تھا قِبلہ رُو کرتے
-----------------------------------------------------------------
      سید ناصر رضا  ناصرؔ کاظمی(پیدائش:آٹھ دسمبر،1925،وفات:دو مارچ،1972)
        مایوس نہ ہو اُداس راہی
        پِھر آئے گا دورِ صبح گاہی
       اے منتظر ِ طلوعِ فردا
        بدلے گا جہانِ مرغ و ماہی
       پِھر خاک نشیں اُٹھائیں گے سر 
       مٹنے کو ہے نازِ کج کلاہی
        اِنصاف کا دِن قریب تر ہے 
        پِھر داد طلب ہے بے گُناہی
------------------------------------------------------------------- 
     رضا علی وحشتؔ کلکتوی(1881-1950)
      آہِ شب نالۂ سحر لے کر 
      نکلے ہم توشۂ سفر لے کر
        تیری محفل کا یار کیا کہنا
        ہم بھی نِکلے تھے چشمِ تر لے کر
        تھا قفس کا خیال دامن گِیر
         اُڑ سکے ہم نہ بال و پر لے کر
         وحشتؔ اُس بزم میں رہے تھے رات
         صبح نکلے ہیں دردِ سر لے کر
 ------------------------------------------------------- 
       عاشق حسین صدیقی سیمابؔ اکبر آبادی(1882-1951)
     چمک جُگنو کی برقِ بے اماں معلوم ہوتی ہے 
     قفس میں رہ کے قدرِ آشیاں معلوم ہوتی ہے 
     قفس کی تیلیوں میں جانے کیا ترکیب رکھی ہے 
     کہ ہر بِجلی قریبِ آشیاں معلوم ہوتی ہے
      شبِ غم اے میرے اللہ بسر بھی ہو گی
     رات ہی رات رہے گی کہ سحر بھی ہو گی
      میں یہ سُنتا ہوںکہ وہ دُنیا کی خبر رکھتے ہیں
      جو یہ سچ ہے تو اُنھیں میری خبر بھی ہو گی
       حریتِ ضمیر سے زندگی بسر کرنا اور حریت ِ فکر کا علم بلند رکھنا ہر باشعور انسان کی جبلت میں شامل ہے ۔بر طانوی استعمار کے بھیانک تاریک دور میںجب معاشرتی زندگی میں متعدد تضادات سرایت کر گئے اس وقت اُردو زبان کے ممتاز ادیبوں نے مثبت شعور کی آئینہ دار اجتماعی آگہی کو پروان چڑھانے اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں سے عہدہ بر آ ہونے کی خاطرفکری سطح پر بھر پور جد و جہد کی ۔ سامراجی استحصال کے باعث سماجی اور معاشرتی زندگی میں در آنے والے تضادات اور مناقشات کے خلاف دبنگ لہجے میں بات کر کے اُردو ادیبوں نے ہوائے جور وستم کے لرزہ خیز، اعصاب شکن اور تباہ کُن ماحول میں حوصلے،اُمید،ایثار ،وفااور آزادی کی شمع فروزاں رکھنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ بر طانوی استبداد نے جن امتیازات اور تعصبات کو ہوا دی ان میںریاستی ،علاقائی ،لسانی ،نسلی ،فرقہ وارانہ ،سرمایہ دارانہ اور ذات پات کے امتیازات شامل ہیں۔اُردو زبان کے ادیبوں نے نو آبادیاتی دور میں ہر قسم کے امتیازات اور جبر کی ہر صورت کو مسترد کرتے ہوئے اُس قومی وقار کی بحالی کو اپنا نصب العین بنایا جس کی پامالی کے منحوس دور کا آغاز 1857کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد ہوا تھا۔نو آبادیاتی دور میں حبس کے جان لیوا ماحول میں اردو زبان کے ادیبوں کے جذبۂ انسانیت نوازی کو ہر دور میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔اردو زبان کے ادیبوں نے نوآبادیاتی دور کے جبر کو زیرِ نقاب نہیں رہنے دیا بل کہ اس کا کریہہ چہرہ سامنے لا کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی جو کوشش کی ہے وہ ہر اعتبار سے لائق ِ صد رشک و تحسین ہے۔ تاریخ ِ اسلام کے مطالعہ سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں نے ہر عہد میں حق گوئی و بے باکی کو شعار بنایا۔واقعہ کر بلا (61 ہجری)کا یہی درس ہے کہ نظام ِحکومت کو صحیح سمت میں رواں رکھنے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔نواسۂ رسولﷺ حضرت امام حسینؓ نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی اور حریتِ فکر وعمل کی خاطراپنا سارا خاندان قربان کر دیا۔مجید امجد نے کہا تھا:
          سلام اُن پہ تہِ تیغ بھی جنھوں نے کہا 
          جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تُو چاہے
      تاریخ ِ اسلام میں حریت ِ فکر و عمل کی متعدد مثالیں محفوظ ہیں۔اِمام مالکؒ،اِمام احمد بن حنبلؒاور اِمام ابو حنیفہؒنے اپنے اپنے زمانے کے جابر حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق اداکر کے جریدۂ عالم پر اپنی حق گوئی و بے باکی کے ابدآشنا نقوش ثبت کیے۔ ان کی حق گوئی کا ایک عالم معترف تھااور حرفِ صداقت کی امین ان کی آواز پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی تھی۔معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام اخلاص و مروّت کی فراوانی اور حق و صداقت کی بالا دستی ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔سقراط نے جب معاشرتی زندگی میں سرایت کر جانے والے لرزہ خیز ارتعاشات ، فسطائی جبر کے سانحات ،بے ہنگم تضادات اور ظالمانہ بے اعتدالیوں کے خلاف آواز بلند کی تو مقتدر حلقوں کو یہ بات سخت ناگوار گزری اُن کی بھویں تن گئیں اور جبینوں پر بل پڑ گئے۔جب استحصالی طبقے نے یہ دیکھا کہ سقراط کے خیالات ان کی مطلق العنان شاہی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں توسقراط کو اذیت و عقوبت سے ہراساں کیا گیا اور متاعِ لوح  وقلم چھین کر اس کے لبِ اظہار پر تالے لگانے کا فیصلہ کیا گیا ۔سقراط نے ظلم واستبداد کے سامنے سِپر انداز ہونے سے انکار کر دیا ۔سفاک ظُلمتوں کو اُجالا کہنے کے بجائے سقراط نے حق گوئی کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ دے کر حریتِ فکر کا علم بلند رکھنے کی روایت کو نمو بخشی۔ حریتِ فکر و عمل کو باوقار اقوام ،باضمیر انسانوں اور مہذب معاشرے کی پہچان سمجھا جاتا ہے ۔زندہ قومیں ہر دور میں قوی وقار ، خود داری ،عزتِ نفس اور آزادی کی خاطر حریت ِ فکر و عمل کو شعار بناتی ہیں۔مظلوم و محکوم اقوام کے اذہان جب حریت ِ فکر کے جذبات سے منور ہو جاتے ہیں تو وہ غلامی کی شبِ تاریک کو سحر کرنے کا مصمم اِرادہ کر لیتی ہیں۔ان جری اقوام کے جذبۂ آزادی کو کسی صورت میں بھی پابندیوں کے ذریعے روکا نہیں جا سکتا۔ یہی وہ لافانی جذبہ ہے جس کی بے پناہ قوت فسطائی جبر کے آ ہنی شکنجوں کو پاش پاش کرنے کی استطاعت سے متمتع ہے اور ہر ظالم پہ لعنت بھیجنے کا حوصلہ اسی کی عطا ہے ۔نو آبادیاتی دور میں اُردو زبان کے زیرک ،فعال ،مستعد اور جری تخلیق کاروں نے زندگی کی اقدار ِعالیہ کے تحفظ ،اخلاقی معائر کی بالادستی ،عدل و انصاف کے قیام ،سماجی اور معاشرتی زندگی میں اجتماعی خوبیوں کی نمو کے لیے بے مثال جد جہد کی ۔قحط الرجال کے زمانے میں جہد للبقا کی خاطر انھوں نے ظُلم کی مذمت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ۔ان کے اسلوب کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے منافقت،مناقشات،تضادات ،ہوس ،موقع پرستی اور چڑھتے سُورج کی پر ستش پر تین حر ف بھیجتے ہوئے سامراجی مظالم کے خلاف رائے عامہ ہموار کی۔اُردو زبان کے ادیبوں کا یہ مثبت کرداراُن کی حب الوطنی اور کردار کی پختگی کی دلیل ہے ۔ جب تک حریتِ فکر کے جذبات ذہن وذکاوت کو صیقل کرتے رہیں گے قومی آزادی پر کوئی آنچ نہیں آ سکتی۔احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا:
        بقا اِسی کو تو کہتے ہیں، جب کوئی اِنساں 
        برائے عظمتِ انسانیت فنا ہو جائے
        مرض ہی حریت ِ فکر کا کچھ ایسا ہے 
        کہ جو بھی فِکر کرے اِس میں مبتلا ہو جائے
                  تاریخی حقائق سے معلو م ہوتا ہے کہ بر طانوی استعمار اپنے مکر کی چالوں اور کالے قوانین کے ذریعے بر صغیر کے باشندوں کو سیاسی آزادی سے محروم کرکے اپنا غلام بنانے میں کام یاب ہو گیا۔جبرکے اس مسموم ماحول میں بھی ادب اور فنون ِلطیفہ سے وابستہ مقامی باشندوں نے حریت ِفکر کا علم بلند رکھا اور ادیبوں نے متاعِ لوح و قلم چِھن جانے کے بعد خون ِ دِل میں انگلیاںڈبو کر پرورشِ لوح و قلم کو شعار بنایا۔جب بر طانوی سامراج کو بر صغیر میں ہر جگہ پے درپے ہزیمت کا سامنا تھا ،اس وقت اُردو ادب مسلسل مائل بہ ارتقا تھا۔ اردو کے جری تخلیق کاروں نے اپنی تخلیقی فعالیت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے بر صغیر میں بر طانوی اقتدار کی کشتی کو طوفانِ حوادث میں غرقاب ہونے کے قریب پہنچا دیا۔جن ادیبوں نے حق و صداقت اور حریت فکر کا علم بلند رکھتے ہوئے زہرِ ہلاہل کو قند کہنے سے انکا ر کیا انھوں نے ارضی و ثقافتی اعتبار سے بر صغیر کے باشندوںکو اقوام ِ عالم کی صف میں معزز و مفتخر کر دیا ۔ تاریخ ہر دور میں ان کے افکار کی تابانیوں اور آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں کی بنا پر ان کے نام کی تعظیم کرے گی اور قوم ان کی مستحکم شخصیت کی تکریم کرے گی ۔حب ِ وطن کے جذبات کو  بیدار کرنے اور حصولِ آزادی کی صلاحیت کو نکھار عطا کرنے والے کچھ ممتازتخلیق کاروں کے نام درج ذیل ہیں:
      آفاق صدیقی،آغا نو بہار علی خان،ابو الکلام آزاد، احمد ندیم قاسمی ، احسن سلیم،احمد تنویر ، اشفاق احمد، ارشاد گرامی، اطہر ناسک ،انتظار حسین، انور سدید، انعام الحق کوثر، برکت علی چودھری،بلال زبیری،بانوقدسیہ،بیدل پانی پتی، پریم چند،جعفر طاہر،چراغ مولائی،حسرت کاس گنجوی ،حافظ لدھیانوی،حکمت ادیب، خاطر غزنوی،خدیجہ مستور،خضر تمیمی ، خادم رزمی،خادم مگھیانوی،خیر الدین انصاری، دلاور فگار،دل محمدخواجہ،دیوان احمد الیاس نصیب، رفعت سلطان ، رام ریاض،رضا ہمدانی، ساغر صدیقی ،ساحر لدھیانوی،سلیمان ندوی،سجاد حیدر یلدرم سجاد ظہیر،شوکت علی (مولانا)، سیف زُلفی ، شفیق الرحمٰن ،شیر افضل جعفری،شائق حسن خواجہ، شبنم شکیل، شبنم رومانی،شہزاد احمد ،شیخ ایاز، شہر یار،  صبا اکبر آبادی ،صہبا لکھنوی ،صہبا اختر ، صدیق سالک، ضمیرجعفری سید،طاہر سر دھنوی،عبدا لحمیدعدمؔ،  عزم بہزاد،عطا شاد،علی عباس جلال پوری،علی عباس حسینی ،عصمت چغتائی،عبداللہ حسین، غفار بابر ، غلام جیلانی اصغر،غلام محمد قاصر ،فارغ بخاری،فاطمہ ثریا بجیا،فرحت اللہ بیگ،فہمیدہ ریاض ،قرۃ العین حیدر، قدرت اللہ شہاب ،کبیر انور جعفری،کیفی اعظمی، مجید لاہوری ،محمد کاظم،محمدعلی جو ہر ،محسن بھوپالی، محمد علی صدیقی ، محمد خان (کرنل)، محمد فیروز شاہ ،میرزا ادیب، مجروح سلطان پوری ،مجید امجد،محسن احسان، مختار علی خان پر تو روہیلہ ،معین احسن جذبی ،مخدوم محی الدین ، مظفر علی ظفر، مظہر الحق علوی ،ممتاز شیریں، ممتاز مفتی ،منیر نیازی، منظور حسین شور، نذر محمد جنجوعہ (ن ۔م۔ راشد)،نذیر احمد دہلوی، نذیر احمد شیخ،وارث علوی،وزیر آغا،ہاجرہ مسرور۔
       اس دنیا کے آئینہ خانے میں سامراجی طاقتوں نے گزشتہ کئی صدیوں سے پس ماندہ ممالک میں اپنی نو آبادیوں کے باشندوں کو دنیا بھر کی نظروں میں تماشابنا رکھا تھا۔غاصب بر طانوی سامراج نے بر صغیر کے باشندوں کی خوشیاں چھین لیں ، اخلاقیات کے مسلمہ معائر کو تہس نہس کر دیا،اُمیدوں کی فصل غارت کر دی اور ان کی صبح و شام کی محنت اکارت چلی گئی۔بر صغیر کے مطلوم مسلمان خزاں کے سیکڑوں مناظر دیکھ چُکے تھے اب طلوعِ صبح آزادی کی صورت میں وہ بہار کی آمد کے شدت سے منتظر تھے۔مولانا ظفر علی خان کے یہ اشعار بر صغیر کے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن سے ہم آ ہنگ تھے:
       مولانا ظفر علی خان(1873-1956)
           پاکستان
       کہہ دو یہ جا کر بر ہمنوں سے کچھ تمھیں اس کی بھی خبر ہے 
        ہند میں اُونچ اور نِیچ کی لعنت چند ہی دِن کی ہے مہمان 
       گاندھی و ساورکر ہوں کہ ایمری،ہم سے اُلجھ کر لیں گے کیا
        عزم ہمارا ٹل نہیں سکتابن کے رہے گا پاکستان
           جِس میں نہ ہو گا آدمیوں سے جانوروں کاسا برتاؤ
         جِس کی فضا میں دیکھے گی دُنیا پرچمِ اِسلامی کی اُڑان
        غلغلۂ آزادیٔ کامِل ڈال کے مشرق و مغرب میں
        طوقِ غُلامی توڑ کے رکھ دے ہے یہ مسلماں کی پہچان 
        اگرچہ سیاسی طور پر بر صغیر سے بر طانوی استعمار کا 1947میں خاتمہ ہو گیالیکن اس کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی نہ ہو سکی ۔تقسیم ہند کے وقت ایک گھناونی سازش کے تحت مسلمان اکثریت کے علاقوں اور ریاستوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کر دیا گیا۔ تقسیم کے وقت ان شقاوت آمیز نا انصافیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ د و نو آزاد ممالک کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہو گیا۔ ریڈ کلف (Cyril Radcliffe)نے تقسیم ہند کے موقع پر جو نا انصافیاں کیں ان کے باعث دو پڑوسی ممالک میںجنگیں ہو چکی ہیں۔ 
                     مآخذ
am Ibn-e Sultan (Mustafa Abad Jhang ) 1.H.H.Dodwell:The Cambridge History Of India Vol.V,Cambridge University Press, London,1929,Page, 77.
2۔محمود خان منگلوری:تاریخ جنوبی ہند ،پبلشرز یونائیٹد،لاہور،بار دوم،1947،صفحہ 249.
3.William Harrison:Expansion Of British Empire,Cambridge University Press,1929,Page,173.
4.A.P Newton:The British Since 1783,Second Edition,London,1935,Page,7.
5.G.Alana:Muslim Political Thought,Book Company ,Karachi,Second Edition,1988,Page,12.
6۔ابن حسن:دولت مغلیہ کی ہئیت ِ مرکزی،مجلس ترقی ِادب ،لاہور،1958،صفحہ 374  
7 ۔امر ناتھ بالی :ہندوستان کی پولیٹیکل اکانومی ، پنجابی پریس ، لاہور ، بار اول 1923  ، صفحہ  83 
8۔فرمان فتح پوری (ڈاکٹر): ہندی اردو تنازع ، نیشنل بک فاو ئڈیشن ، اسلام آباد ، اشاعت اول 1977 ، صفحہ  79 
9۔رئیس احمد جعفری : بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد ، کتاب منزل ، لاہور  ، اشاعت اول   صفحہ 50
10 ۔محمود الرحمن (ڈاکٹر ):’’ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی اور غالب ‘‘ مضمون مشمولہ ماہ نو ، لاہور ، جلد 48 ، شمارہ 2  ، فروری 1995 ، صفحہ 9 
11۔حسن ریاض(سید )پاکستان ناگزیر تھا، جامعہ کراچی ، اشاعت سوم ، جون 1982 ، صفحہ 19 
 12۔الطا ف حسین حالی:حیات جاوید،اکادمی پنجاب ٹرسٹ ،لاہور،فروری 1957،صفحہ393
13۔عبداللہ ڈاکٹر سید:مباحث،مجلس ترقیٔ ادب،لاہور ،طبع اول ،فروری 1965،صفحہ284
14 ۔سلطان محمود حسین سید (ڈاکٹر):’’حادثہ کان پور ، مسجدمچھلی بازار ‘‘ مضمون مشمولہ ماہ نو، لاہور ، اگست 1989  ، جلد42 ، شمارہ 8 ، صفحہ 57
15.Jean Paul Sartre:Colonialism and neo colonialism,Translated by AzzodineHaddour,Routledge,London,1964,Page94
16.Edward W.Said:Culture And Imperialism,Vintage Books,New York,1994,Page 100
17۔افتخار خواجہ:’’ظفر علی خان‘‘مضمون مشمولہ روزنامہ جنگ ،لاہور ،27نومبر1993،صفحہ5
18 ۔صفدر محمود ڈاکٹر : پاکستان تاریخ اور سیاست، جنگ پبلشرز ، لاہور ، اشاعت سوم ، اکتوبر  1990 ، صفحہ21 
19 ۔نور احمد سید :مارشل لاسے مارشل لا تک ، سید نوراحمد کوئنز روڈ ، لاہور ،طبع دوم ، 1966                    صفحہ 16
 20۔خلیق الزماں چودھری : شاہراہِ پاکستان ، انجمن اسلامیہ پاکستان ، کراچی ، اشاعت اول ، 1967 ، صفحہ 339 
21 ۔حسن ریاض سید:پاکستان ناگزیر تھا  ،                                                  صفحہ108   
2 2 ۔ افتخار خواجہ:’’ظفر علی خان‘‘مضمون مشمولہ روزنامہ جنگ ،لاہور ،27نومبر1993   ،            صفحہ5 
23۔حسن ریاض سید:پاکستان ناگزیر تھا  ،                                                       صفحہ 62 
 24 ۔محمداکرام شیخ ڈاکٹر :موجِ کوثر،                                                                صفحہ76
 25۔بہ حوالہ وارث میرپروفیسر:حریتِ فکر کے مجاہد،جنگ پبلشرز ،لاہور ،اشاعت اوّل ،1989،         صفحہ 155
---------------------------------------------------------------
Ghulam Ibn-e Sultan (Mustafa Abad Jhang )                    

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1172