donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tareekhi Paare
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafiz Peer Shabbir Ahmad
Title :
   Jange Azadi Me Ulmae Karam Ka Kirdar

جنگ آزا دی میں علماء کرام کا کر دار ۔  


  از حا فظ پیر شبیر احمد

(صدر جمعیتہ علماء تلنگانہ واے پی)   


ہما را ملک بھا ئی چار گی اور امن و آمان اور ہر مذہب کے مانے وا لوں کو مساوی حقوق دینے وا لا ملک ہے ۔  مغلیہ دور میں بھی نواب اور    مہا را جہ کے دور میں بھی گنگا جمنا تہذیب بر قرار رہی اس تہذیب کو ختم کر نے کے لئے تجا رت کے بہا نے انگریزوں نے اس ملک میں قدم رکھا، اور ملک کو لو ٹا اور مذہبی بنیاد پر ہندو مسلم سکھ کوبانٹنے کی کو شش کی ،ہما رے اکا برین حا جی امداد اللہ مہا جر مکی ّ ؒ سے لیکر سر ہندیؒ تک تمام ہی اکا برین نے اسکے خلاف آواز اٹھا ئی،ایک ہندو مو رخ رام گپت نے لکھا ہے کہ 1857؁ ء میں 50 ہزار علماء کرام اور 5 لاکھ سے زا ید مسلمان شہید ہو ئے ، وہ مسلمان بھی علماء کرام کے قیا دت میںجنگ آزا دی کا جھنڈا بلند کیاتھا ،دنیا نے ایسا نظا رہ دیکھا کہ دہلی کی چا ندی چوک سے لیکر لا ہور تک ہر درخت پر علما ء اورمسلم عو م کی لاش لٹکی تھی ،ور اگر کو ئی دا ڈھی وا لا نظر آتا تو اس کو بھی بھا نسی دیجا تی ، ملک کے ایک مقام پر آگ لگا ئی گئی اور تمام مسلما نوںو علماء کرام سے کہا کہ ہما ری حکو مت کو تسلیم کرو ورنہ اس آگ میں ڈال دیا جا ئے گا ، اور ڈا لا بھی گیا ، اور کئی قرآن کریم کے نسخوں کو جلا یا گیا ،ان انگریزوں کی کو شش یہ تھی کہ تمام کو مذہب عیسا ئیت میں دا خل کیا جا ئیں ،ان کے ایک پا دری نے کہاکہ اس وقت اپنے مذہب کی اشا عت کے خا طر کئے کروڑ رو پیہ تقسیم کئے گئے ، اس ملک کے ہندو مسلم اور سکھ نے ان کی حکو مت کو نہیں ما نا ،مولانا محمود الحسن دیو بندی جو جمعیتہ علماء کے با نی ہے ،انکوں مالٹا کی جیل میں بند کر دیا گیا ،اور کئی اکا برین علما ء کرام اور مسلما نوں کو کا لا پا نی میںبھیجاگیا ،ان حضرات کوایسی ایسی تکا لیف دی گئی کہ ہم اندا زہ بھی نہیں لگا سکتے ،10 فیٹ لا مبا  5 فیٹ چو ڑہ ،اور 15 فیٹ اونچا ایک کمرہ تھا ،وہاںپر ہی کھا نا اوروہاں پر ہی ضرو رت پو ری کر نا صرف دن میں ایک مر تبہ کھو لا جا تا تھا ،ہوا جا نے کے لئے ،مولانا محمود الحسن ؒ کو جیل سے رہا ئی ملی جب ممبئی لا یا گیا تو ان کے استقبال کے لئے ، کر من چند مو ہن داس (گا ندھی جی )بھی مو جود تھے ،مولانا محمود الحسن ؒ کے انتقال کے بعد غسل دیا گیا تو دیکھا کہ ران پر گو شت نہیں ہے صرف ہڈی نظر آرہی ہے ، ان کے شا گر د مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ سے سوا ل کیا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ انگریزو ںنے اتنی تکلیف دی کہ ران کا گو شت بھی کا ٹ دیا،اور کہا کہ اس حکو مت کو مان لو ،مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے ایک فتویٰ دیا کہ ان کے فوج میں دا خل ہو نا حرام ونہ جا ئز ہے،انگریزوں نے مولانا پر مقدمہ چلا یا انگریز جج نے مولانا سے سوا ل کیا کہ کیا تم اس طرح کا فتویٰ دیا ہے ؟مولانا محمد علی جو ہر نے مولانا حسین احمد مدنی ؒ سے کہاکہ حضرت خا مو شی اختیار کی جا ئیں ، مولانا نے کہاکہ ہاں دیا ہو ،ابھی بھی دو نگا اورآگے بھی دو نگا، جج نے کہا تم جانتے ہو اسکی سزا کیا ہو گی مولانا نے کہاکہ موت سے زیا دہ اور کیا ہوسکتی ہے ،اور اپنے بغل سے کپڑا نکا لا اور کہادیکھوں میں دیو بند سے آتے آتے اپنا کفن سا تھ لا یا ہو ں ۔،مولانا کے ماننے وا لے بہت زیا دہ تھے اسی لئے مولانا کو موت کی سزا نہیں سنا ئی گئی ،مولانا ابوالکلام آزادؒ ا نے الہلال ،البلال کے نام سے ایک رسا لہ شا ئع کیا تھا ،جس کو انگروزوں نے بند کر وا دیا ،مولانا آزاد جیل میں تھے انسے انگریزوں نے کہاکہ آپ کی وا لدہ بیمار ہیں اگر آپ درخواست دئیں تو ملا قا ت کی اجا زت مل سکتی ہے مولانا نے کہا میں جس حکو مت کو مانتا ہی نہیں اس کو درخوا ست کیسے دیسکتا ہوں ،جب ملک آزاد ہوا تو سب سے پہلے جمعیتہ علماء ہند نے آواز اٹھا ئی کہ مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم نہ کیا جا ئیں ۔ مولانا آزاد ؒ، مولانا حفظ الرحمن جو اس وقت جمعیتہ علماء کے جنرل سکریٹری تھے انہوں نے تقسیم کے مسوما ت پر دستخط بھی نہیں کی ۔اس ملک کو جمہو ری ملک اور سکو لر ملک بنا نے کے لئے ہما رے اکا برین نے بہت محنت کی ہے ،برا دران وطن کے سا تھ ہما رے اکا برین صفہ اول میں موجود تھے ۔


 1930 میں جمعیتہ علماء ہند کا اجلاس عام بصدا رت مولانا آزاد منعقد ہوا جس میں مولاناآزاد ؒ اپنے صدا رتی خطاب میں گا ندھی جی کو خطاب کر کے فر ما یا تھا کہ ۔ہندو ستان کی تا ریخ میں اس حقیقت کو کبھی بھلا یا نہ جا سکے گا کہ جب وہ وقت آیا کہ ہندو ستان کے ہاتھ غلا می کی زنجیروں میں بندھ گئے اور وطن عزیز کے پیروں میں بدیسی سا مراج کی بیڑیاں پڑی ہو ئی تھیں ایسے وقت میںفرزندان وطن کا وہ طبقہ جو جدید تعلیم کی اعلی امتیاز ات سے  بہر ہ مند اورنئی رو شنی کو اپنے دل و دما غوں میں سما ئے ہو ئے تھا کا لجوں ۔پو نیور سٹیوں سے نکلی ہو ئی و کیلوں ۔پرو فیسروں ۔ڈاکٹروں اور تربیت یا فتہ دما غوں کی وہ فو جیں جنھوں نے فلسفہ اور تا ریخ کو بار بار دھرا یا تھا ،جنھیں انقلاب امریکہ و فرانس کی دستا نیں از بر یاد تھیں ،ان کے کا ن خود اپنے وطن میںانقلاب کی صدا ؤں کو نہ سن سکے اور ان کی نگا ہیں کو ئی را تلاش نہ کر سکیں غیر ملکی اقتدار و شو کت سے وہ اس درجہ مر عوب ہو ئے کہ علم و عمل کے   دروا زے پر کنجیاں ان کے ہاتھ سے گر گئیں لیکن ٹھیک اسی وقت ایک دو سرا طبقہ جو قدیم روا یات کا حا مل او رپرا نی تعلیم و طریقہ کا علمبر دار تھا ،اٹھا اور وقت کے تقا ضوں کے پو رے احساس اور جوش عمل کیسا تھ میدان کی طرف بڑھا ۔آج ہم اس طبقہ کو جنگ آزا دی کے صف اول میں دیکھ رہے ہیں وہ طبقہ غریب شکستہ حال بو ریہ نشیں علماء کرام کا تھا جو آج آپ کے سا منے (اشا رہ کر تے ہو ئے )اس اجلاس میں مو جود ہے ۔           


ہما رے اکا برین کی قربا نیاں

 ؍جون 1920 ؁ء حضرت مولانا محمود الحسن ؒاور ان کے رفقا ء کو تین سال سا ت ماہ جیل میں رکھا گیا ۔

9 ؍ جون 1920 خلا فت کا نفرنس الہ آباد میں نان کو آپریشن تحریک شروع کر نے کا فیصلہ کیا گیا ۔
9 1 ؍جو لا ئی 1920 شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ نے تر ک موا لات کا فتویٰ دیا ۔

31 ؍اگست 1920 ؁  باقا عدہ عدم تعا ون تحریک شروع کی گئی اس تحریک میں تیس ہزار آدمی جیل گئے جسمیں اکثر مسلما نو ںکی تعداد تھی۔

9 1 ؍20 ؍نو مبر 1920 ؁ جمعیتہ علماء ہند کا دو سرا اجلاس بصدا رت شیخ الہند دہلی میں منعقد ہوا ۔اس میں گو رنمنٹ بر طا نیہ کے سا تھ موا لات اور نصرت کے تمام تعلقات کو رکھنا حرام ہے مسعو دہ پاس کیا گیا ۔

6 ڈسمبر 1920 ؁ مولانا تاج محمود امروٹ شریف سندھی کی صدا رت میں خصو صی اجلاس کلکتہ میں ہوا ۔جس میں مولانا ابو الکلام آزاد ؒ نے   تر ک مولانا کی تجویز پیش کی جس کو تمام مو جود علماء کرام نے منظور کر لیا ۔                 

                 
8جو لا ئی 1921؁ ء کو مولانا شیخ الاسلام ؒ نے اعلان کیا کہ گو رنمنٹ بر طا نیہ کی اعا نت اور ملا زمت حرام ہے ۔جس کے پا داش پر حضرت پر مقدمہ چلا یا گیا ۔

1922 ؁ میں بر طا نیہ ،ڈپلو میسی نے ہندؤں اور مسلما نوں کے مثا لی اتحاد کو ختم کر نے کیلئے شدھی سنگھٹن جیسی تحریکیں شروع کی ،پو را ملک فسادات کی لپیٹ میںآ جا نے پر جمعیتہ علماء ہند نے فسا دات کے روک تھام اور ہندو مسلم اتحاد کی انتھک کو شش کی ۔

11 جنوری 1925 جمعیتہ علماء ہند کا پانچواں اجلاس کا کناڈا میں بصدا رت شیخ السالام منعقد ہوا جسمیں کامل آزا دی کا مطا لبہ کیا ۔

 4 1 ؍مارچ 1926دستو ھند کا سا تواں اجلاس کلکتہ میں بصدا رت علامہ سید سلمان ندوی منعقد ہوا جسمیں سب سے پہلے کا مل آزا دی کی قرارداد منظور کی گئی ۔


 18؍ڈسمبر 1927دستور ہند کی تبدیلی کے سوال پر حکو مت بر طا نیہ نے سا ئمن کمیشن مقرر کیا اسکی تحقیقات پر آئین و دستور کی بنیاد رکھنے کا اعلان کیا تو سب سے پہلے جمعیتہ علماء ہند نے اسکا با ئیکاٹ کیا ۔   

1929میں گا ندھی جی کے ڈانڑی مارچ اور نمک سا زی تحریک میں جمعیتہ علماء ہند کی جا نب سے بڑے اکا برین نے شر کت کی اور گرفتار ہو ئے ۔  

  1 1 مارچ 1934؁ ء جمعیتہ علماء ہند کے پہلے ڈکٹیٹر مفتی اعظم مولانا کفا یت اللہ صا حب ایک لاکھ افراد کے جلوس کے سا تھ نکلے اور شیخ الاسلام حسین احمد مدنی

 ؒ دیو بند سے دہلی آتے ہو ئے اور مولانا محمد میاں دیو بندی مولانا حفظ الرحمن لدھیانوی وغیرہ ایک کے بعددیگر ڈ یکٹیٹر منتخب ہو تے گئے اور گرفتار ہو ئے اور اس تحریک میں تیس ہزار مسلمان بھی گرفتار ہو ئے ۔

1936 جمعیتہ علماء ہند نے انگریزوں سے فیصلہ کن جنگ کیلئے متحدہ قو میت کی وکا لت کی اور اسے قرآن پاک و حدیث شریف سے ثا بت کیا

1942  میںشیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے پوری قو ت سے آزا دی کا مسئلہ اٹھا یا جسکے پا داش میں 24 جون 1942 کو گرفتار کر لئے گئے ۔  

15؍ اگست 1942  میں جمعیتہ علماء ہند کی مجلس عا ملہ میں مو قر ار کان گرا می نے سب سے پہلے انگریز ہندو ستان چھو ڑ و کا نعرہ لگا یا اور اخبار میں   چھپا یا جسکی پا داش میںجمعیتہ علماء ہند کے اکا برین اور ہزا روں کی تعداد میں کا رکن گرفتار کئے گئے ۔

 1942میں جمعیتہ علماء ہند نے نظریہ پا کستان کی مخا لفت اور مسلم فر قہ پرستی کا ڈٹ کر مقا بلہ کیا جسکی وجہ سے جمعیۃ علماء ہندکے اکا برین بالخصوص شیخ الاسلام مدنی ؒمسلم لیگیوں کے ظلم و ستم کا نشا نہ بنے تھے ۔

4جنوری 1943جب چھ ماہ کی سزا پو ری ہو ئی تو شیخ الاسلام مدنی ؒ کو مزید غیرمحدود عرصہ کیلئے نمد ک ردیا گیا اور پھر 26 اگست 1944 کو نینی تال جیل سے بلا شرط رہا ہو ئے ۔

3 جون 1947 حکو مت بر طا نیہ نے تقسیم ہندکا پلان پیش کیا ۔9جون کو لیگ نے 14 جون کو کانگریس نے اسکو تسلیم کر لیا اور ملک تقسیم ہو گیا ،جسکی  مخا لفت آزا دی کیلئے جان کی با زی لگا نے وا لی جما عتوں میں صرف جمعیتہ علماء ہند ہی تھی ۔

15 اگست 1947 صدہا قربا نیوں کے بعد گلشن ہند کو آزا دی کی بہار یں نصیب ہو ئیں اور افق پر آزا دی کا سو رج طلوع ہوا ۔

(یو این این)

 

**************************

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 667