donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tareekhi Paare
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mokhtar Zaman
Title :
   Zafar Shauq Rang

 

 
 
ظفر، شوق رنگ  
 
مختار زمان
 
عجیب نظارہ ہے! عجیب بھی اور دلچسپ بھی، ۳ من چنوں کی بوری لٹکی ہوئی ہے۔ جرثقیل کے ذریعے اسے بار بارچٹکی سے کھینچتے ہیں اور چھوڑ دیتے ہیں۔ ۳ من پختہ کی بوری، جو معمولی آدمی کے اٹھائے نہ اٹھے، اسے گویا چٹکی بجاتے چٹکیوں میں اڑا دیتے ہیں، دلّی کا لال قلعہ گواہ 
ہے کہ آج سے پونے دو سو برس پہلے یہ واقعہ تقریباً روز ہوتا تھا! کہ بوری دیوان خاص کے قریب آویزاں ہے، سلطنت مغلیہ کے ولی عہد ابو ظفر سراج الدین محمد عرف مرزا ابّن المتخلص بہ ظفر و شوق رنگ ایک جوان رعنا ہیں، ہر فن کے استاد ہیں۔ ۳  من بوجھ چٹکی سے کھینچنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھاری سے بھاری اور سخت سے سخت کمان کا چلہ چڑھانا اور تیر چلانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو گیا۔ان کے استاد قادر انداز آپا سنگھ کو اپنے شاگرد پر فخر ہے۔ ابو ظفر سراج الدین محمد زن سے تیر چلاتے ہیں، نشانہ اڑاتے ہیں کسرتی بدن ہے، بدن میں چستی ہے، پیراکی میں لاجواب تیرتے ہیں تو بازو کی مچھلیاں تڑپتی ہیں اور جمنا کی مچھلیاں راستہ چھوڑتی ہیں۔ دیکھنے والوں نے یہ بھی دیکھا کہ سر پر سے مرغابی یا سیخ پر، پھُر سے اڑا، بندوق چھتیانے کا موقع کہاں، اٹھائی اوردھائیں سے جھونک دی۔ بال باندھا نشانہ، چڑیا لوٹ پوٹ کر بھد سے ہودے میں آگری۔دریا میں مگرمچھ نے ۲ انچ منہ نکالا نہیں اور گولی پڑی نہیں۔ سواری جا رہی ہے۔ ابو ظفر سراج الدین گھوڑے کی پیٹھ پر یوں بیٹھے ہیں گویا ستون گڑا ہے اور دیکھنے والے واری صدقے ہو رہے ہیں۔ یہ بات نہیں کہ بہادر شاہ ہاتھ صرف لگام، کمان اور بندوق پر ہی قابو رکھتا ہے۔ جی نہیں وہ فن خطاطی و خوشنویسی میں بھی ایسے طاق ہیں کہ میر پنجہ کش جیسے خوشنویس بھی ان کا لوہا مانتے ہیں، غریب پروری کا یہ عالم کہ لولے لنگڑوں، محتاجوں اور بیوائوں کو گھر بیٹھے روزینہ پہنچ رہا ہے۔جو ایک بار نوکر ہو گیا سو ہو گیا۔ سخت کلامی ان کی عادت نہ تھی، نوکروں کو تنگ کرنا ان کی طبیعت کے خلاف تھا۔ ہاںایک دفعہ ۲ لونڈیاں بدکاری کی مرتکب ہوئیں تو ان کے سر منڈوا دیے۔ یہ عالم و صوفی، گلستان سعدی کا مفسر، شاعر بے بدل تھا۔ گفتاروکردار ایسا جیسے ہمالہ کی چوٹی لیکن قسمت کھوٹی، دستِ قدرت نے لکھ دیا تھا کہ وہ سلطنت مغلیہ کا آخری مگر سب سے زیادہ بد قسمت بادشاہ ہو گا ۳۰ دسمبر ۱۸۲۷ء کو اس تخت پر بیٹھا جو دنیا کا عظیم ترین تختِ شاہی رہ چکا تھا۔ ادھر سفید فام سودا گروں کی ایک ٹولی اپنی نمک حرامی، چالاکی اور طاقت کے زور سے اس تخت کو تختہ بنانے کی تدبیریں کرنے میں مصروف تھی۔اورنگ زیب عالمگیر کے بعد سے مغلوں کے اقتدار کو گُھن تو لگنا شروع ہو گیا لیکن وضع داریاں باقی تھیں، اچھی بری رسمیں جاری تھیں، جو بہادر شاہ ظفر نے آخردم تک نبھائیں اور رعایا کے دل میں بادشاہ کی محبت بھی آخر دم تک جاری رہی۔ وضع داری کی بات میں نہیں کہتا۔ چشم دید گواہ کہتے ہیں کہ جہاں پناہ کے معمولات میں فرق نہ آیا۔ ادھر صبح کی توپ چلی، ادھر بادشاہ بیدار ہوئے، غسل خانے گئے۔
 
جہاں جونپوری کھلی، خوشبو دار بیسن، چنبیلی، شبو، بیلا، جوہی، گلاب کے تیل سے بھری بوتلیں، چاندی، سونے کے جگ، جگمگ کرتے لوٹے لٹیاں رکھی ہیں۔ غسل کیا، لباسی محل گئے، رستم بیگ سردار، نے لکھنو کی چکن کا کرتہ، لٹھے کا ایک برکا پائے جامہ، دلّی کا کمر بند پیش کیا، مخملی کفش پائیاں پہنیں، شمیم خانے کے داروغہ نے سر میں تیل ڈالا، کنگھی کی۔ پھر کچھ دیر گلگشت کیا تسبیح خانے میں تشریف لائے۔ ۲ رکعت نفل پڑھے۔ایوانِ خلعت میں مہتمم ادویات نے حکیم احسن اللہ کی دستخطی سر بہ مُہرشیشی کی مُہر توڑی اور یاقوتی کی پیالی پیش کی۔ اسے پی کر چنوں سے منہ صاف کیا۔ اے لیجئے۔ ۱۰ بج گئے افسرانِ محکمہ کاغذات اور مسلیں لے کر حاضر ہوئے، ان پر احکام عالی کیے، سرمہ کے قلم سے دستخط ثبت ہوئے۔ ۱۱ بجتے بجتے کام ختم کر کے جہاں پناہ محل کی طرف تشریف لے گئے۔ جسولنی نے آواز لگائی۔’’پیر و مرشد! حضور عالی، بادشاہ سلامت، عمر دراز، ظل سبحانی تشریف لاتے ہیں۔ زنانے میں معلوم ہو گیا۔ بیگمات اور شہزادیاں سر و قد کھڑی ہو گئیں۔ بادشاہ سلامت نے انہیں دیکھا، مسکرائے، کشمیری داروغہ نے کسنو کی مہر توڑی، بھنڈا (حقہ) تیار کیا۔ بادشاہ نے نوش کیا اور محل والیوں سے کچھ دیر باتیں کیں۔ خادمہ مہتاب نے عرض کیا ’’دستر خوان تیار ہے۔‘‘ حکم ہوا ’’اچھا، لیجئے صاحب! خاصے والیوں نے پھرتی سے ۷  گز لمبا، ۳  گز چوڑا، چمڑے کا ٹکڑا بچھایا۔ اس کے اوپر لمبی سی چوکی، اس پر پھر چمڑا پھیلایا، اس کے اوپر دستر خوان، کھانا چنا جا رہا ہے۔لین ڈوری لگی ہے۔ ۲۰، ۲۲  قسم کی روٹیاں، چپاتیاں، پھلکے، پراٹھے، ۲۲ ۲۳ قسم کے چاول، پلائو، بریانی مز عفر، نرگسی، شعلہ کھچڑی وغیرہ۔ قورمے آئے تو وہ بھی درجنوں قسم کے مرغ، مچھلی، ہرن کے کباب، مٹھائیاں، جن کے نام بھی اب صرف کتابوں میں رہ گئے ہیں مثلاً دُرّ بہشت اور موتی پاک۔ مشک زعفران اور کیوڑے کی خوشبو سے فضا مہک اٹھی، آج کل کھانے والے صرف ایک نیپکن رکھتے ہیں۔ یہاں زانو پوش، دست پاک، بینی پاک لیے رومال خانے والیاں کھڑی ہیں بادشاہ نے کسی کو اُ لش مرحمت فرمایا تو اس نے سرو قد کھڑے ہو کر آداب کیا۔ کھانے کے بعد دعا مانگی گئی۔ بھِنڈا نوش کیا گیا۔ دوپہر کی نوبت بجی، بادشاہ خواب گاہ میں تشریف لے گئے
 
چیّی والیاں چیّی پر آبیٹھیں۔ ظہر تک آرام کیا۔ پھر لوگوں سے ملاقات کی۔ عصر پڑھی جھروکوں میں آئے۔ درشن دیے کہ مغرب کی اذان ہو گئی۔ نماز کے بعد وظیفے میں مشغول ہو گئے۔ رات ہوئی تو جھاڑ فانوس، نتیل سوز، ایک شاخی، دو شاخی، سہ شاخی، پنج شاخی مشعلیں روشن ہوئیں۔ پھر عشا کی نماز پڑھی۔ تان سِن خاں کی چوکی آئی۔ طبلے پر تھاپ پڑی۔ بادشاہ خود بھی موسیقی کے ماہر تھے، ان کی بندشیں آج بھی رائج ہیں۔ ڈیڑھ پہر رات کی توپ چلی تو پھر کھانا لگایا گیا۔ ادھر بادشاہ نے قاب میں چمچہ ڈالا ادھر چوبدار نے آواز لگای ’’طعام مبارک‘‘دلّی کے مفلس فقیروں کے لیے ۷  من خمیری روٹیاں اور ۵  دیگ سالن تیار ہے۔ وہ کھانے پر ٹوٹ پڑے۔
 
جہاں پناہ کھانا کھا چکے مگر اس وقت تک ہاتھ نہ کھینچتے جب تک دوسرے نہ کھا لیتے۔ یہ سب وضع داریاں تھیں کھانے کے بعد سونے کا خلال کیا۔ بڑی بیگم نے اپنے ہاتھ سے بنا کر گلوری پیش کی اور اب بادشاہ خواب گاہ میں سکھ فرمانے تشریف لے گئے، بادشاہت تو جیسی رہ گئی تھی سب کو معلوم تھا۔ ڈھول میں پول تھا۔ لیکن ٹھاٹ باٹ اپنے بزرگوں کی طرح نبھائے جاتے تھے۔ جنھوں نے پورے ہندوستان پرحکومت کی تھی اور اسے دنیا کا عظیم ترین اور امیر ترین ملک بنا دیا تھا۔بہادر شاہ کی سواری بھی قابل دید تھی۔ نقیب، چوبدار، سرخ، سبز پگڑیاں، زرد اچکن میں، گول پنجے کی جوتیاں پہنے کھڑے ہیں اور بیگنیاں سرخ سبز مردانہ لباس پہنے ہوادار لیے کھڑی ہیں! کیکری کنائو کا گا وتکیہ ، مقیش کے پردے، کم خواب کا گول تکیہ ہوا دار میں رکھا ہے۔ داروغہ پوچھتا ہے ’’کرامات پردے باندھ دیے جائیں۔‘‘ ’’جہاں پناہ‘‘ ’’ہوں‘‘ کہتے ہیں۔ خواجہ سرائوں نے مورچھل سنبھالے، سواری چلی، غریب غربا کا ہجوم اکٹھا ہوا، خیرات خانے کے نقیب نے مٹھیاں بھر بھر چاندی کے پھول نچھاور کرنے شروع کر دئیے۔ سستے زمانے، ۳ ماشے کا پھول غریب کو ۳  دن کی خوراک مہیا کرتا تھا۔ بادشاہ کی سواری اللہ کے گھر آئی۔ اذان کی آواز سنائی دی۔کفش بردار نے زیر پائی رکھ دی، اترے اور مسجد میں داخل ہوئے۔ یہاں دستور ہے کہ بادشاہ خود سب کو سلام کرتے ہیں۔ حوض پر وضو کر کے نماز ادا کی۔ ان بادشاہوں کی نظر میں ہندو مسلم رعایا برابر تھی۔ پرکھوں سے یہی دستور چلا آتا تھا کہ تمام رعایا کو ایک نظر سے دیکھیں۔ بہادر شاہ کے پردادا عالمگیر ثانی کے دور میں تو مغلوں اور ہندوئوں میں بھائی چارے کے بندھن بندھتے۔ عالمگیر ثانی کے نمک حرام وزیر غازی الدین نے بادشاہ کو ایک پہنچتے ہوئے درویش سے ملانے کا بہانہ کر کے کوٹلہ بلایا، بھولے بادشاہ پیروں، فقیروں اور مقبروں کے عاشق وہاں گئے تو وہاں ۵ آدمی تیار تھے۔انھوں نے خنجر بھونکالا۔ بادشاہ نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ لاش جمنا کے کنارے پھینک دی گئی۔ دلّی کی ایک برہمن عورت جمنا میں اشنان کرنے گئی تو لاش کو دیکھا اور پہچان لیا کہ یہ تو جہاں پناہ کی لاش ہے وہیں بیٹھ کر رونے لگی۔ دن چڑھا تو کہرام مچ گیا۔ شاہ عالم باپ کی جگہ تخت نشین ہوئے تو رام کنور کو بہن بنا لیا اور فاخرہ پہنایا۔ اس کے بعد یہ دستور چل نکلا کہ سلونو کے تہوار کے موقع پر سب بھائی اپنی بہنوں کے ہاتھ سے راکھی بندھواتے ہیں، سب مغل بادشاہ رام کنور کی بیٹیوں، پوتیوں کو بہن بنا کر راکھی بندھواتے اور بہن کو زرو جواہر سے مالا مال کرنے کی یہ رسم بہادر شاہ ظفر بھی نبھاتے رہے۔
ہر سال برہمنی راکھی باندھتی تو کڑھائو چڑھتے اور ’’مہابلی بادشاہ‘‘ کے نعرے بلند ہوتے۔ بادشاہ سلامت مسلمانوں اور ہندوئوں کے سبھی تہواروں میں حصہ لیتے تھے۔ عید، بقرہ عید، دسہرہ،دیو سائی، اگر عید کے بعد امام کو خلعت و شمشیر عنایت ہوتی تو دسہرہ میںنیل کنٹھ اڑایا جاتا اور انعام و اکرام تقسیم ہوتے، بادشاہی برائے نام رہ گئی تھی لیکن یہ نام بھی بہت بڑا تھا اور لوگ ان بادشاہوں پر جان چھڑکتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ غاصب انگریز بوڑھے اور کمزور بادشاہ سے بھی خائف تھے اور شاہی کا خاتمہ کرنے پر تلے ہوئے تھے… یہ لوگ تو بادشاہ تھے اور شخصی حکومتوں کی کمزوریاں اپنی جگہ موجود تھیں لیکن ان کی رسموں میں رعایا بھی شریک تھی۔
 
اور اسکا بھی بھلا ہوتا تھا۔ آج بکنگھم پیلس میں ڈنر، وائٹ ہائوس میں بینکویٹ راشٹرپتی بھون میں بھوجن یا ایوان صدر میں عشائیہ ہوتا ہے۔ جن میں سو، دو سو نے کھایا، وہی اس کا مزہ جانیں۔ مگر شاہی دور میںرسمیں اور ہی تھیں۔ دلّی والے ٹھیک کہتے ہیں۔ ایک داڑھ چلے ۷۰  بلا ٹلے۔ سلطنتیں چٹخاروں کی نظر ہوئیں۔ مگر ان چٹخاروں میں عوام بھی شریک تھے!
 
پنکھا چڑھانے قطب صاحب جا رہے ہیں۔ تو ۵۰ خوان غریبوں کا حصہ، بیگمات کے لیے نارنول سے مہندی آئی ہے۔ کلابتون، زربفت، 
زری کے بنانیوالے لاکھوں خاندان بنارس، گجرات، سورت، احمد آباد، لاہور میںپل رہے ہیں، تورہ بندی ہو رہی ہے۔ تو ہر ایک کو ایک تورہ یعنی ۲ باقر خانیاں ڈھائی سیری، ۲ پیالے قورمہ، مُتنجن، فرنی، مربہ، گائودیدہ، مانڈے(باریک روغنی روٹی) سے ڈھکا ہوا عطا کیا جا رہا ہے۔ بادشاہ کی دیکھا دیکھی۔ امراء بھی تورہ بندی کرتے ہیں۔ یہ سب تھے تو امیروں کے چونچلے۔ مگر تھے غریبوں کے حق میں۔ اس زمانے کا لال قلعہ آج کا لال قلعہ نہیں تھا۔ جہاں اب گرد میں اٹی دیواریں چھوڑ کر جانے والوں کو رو رہی ہیں۔ وہ امیدوں کا مرکز تھا۔ ہاتھی مرنے پر بھی سوالاکھ کا تھا۔بہادر شاہ نے حیات بخش باغ لگوایا۔ بیچ میں حوض، چاروں طرف درجنوں قسم کے پھلوں کے درخت آم ناشپاتیاں، انجیر، فالسہ، کھرنی، برسات آئی، ایک دن عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔ عورتوںکی حیثیت کلیدی ہے، آج کے دن کپڑے بیچنے والیاں، دہی بڑے والیاں، بساطنیں، حلوائیوں کی چھوکریاں حیات بخش باغ میں دکانیں لگائے بیٹھی ہیں، چھوٹے چھوٹے لڑکے تلنگوں کی وردیاں پہنے پہرہ دے رہے ہیں۔ یہ بچھیرا پلٹن ہے۔ بیگمات اور شہزادیاں آ رہی ہیں، کاش ان دنوں فلم بندی ممکن ہوتی تو آپ اس بہار کی رونق دیکھتے اور ٹیکسالی اردو، عورتوں کی بولی ٹھولی سنتے۔ لیکن خیر سیلولائیڈ پر نہ سہی۔ لکھنے والوں نے اسے کتابوں کے صفحات پر محفوظ کر لیا ہے۔لکھتے ہیں کہ بیگمات سونے میں پیلی، موتیوں میں سفید چھم چھم کرتی چلی آئی ہیں۔ انا ئیں، مغلانیاں، ودا، چھو چھو، لونڈیاں باندیاں ساتھ ساتھ کہتی جاتی ہیں۔ ’’ہاتھوں چھائوں، اللہ، بسم اللہ، صدقے گئی، واری گئی، بیچ بیچ چلو، سفید چادر اوڑھ لو اس چھتے میں چوٹی والا رہتا ہے۔ کہیں سایہ نہ ہو جائے۔ تو یہ بوڑھا چونڈا کورے استرے سے منڈ جائے۔‘‘جھولے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک ایک پر بولیاں ٹھولیاں ہو ری ہیں: ’’بواتم نے تو سنہری جوڑے کو کالی گوٹ لگا کر کلیجی پھیپھڑو کر دیا۔ واہ۔ اچھی یہ برا معلوم ہوتا ہے۔ اے لوو ہی بات ہوئی، ٹاٹ کی انگیا،مونجھ کی بخیہ‘‘۔ لونڈیاں بھی باغ میں کدکڑے لگاتی پھرتی ہیں۔‘‘چنچل کنور بڑی شوخ و شنگ ہیں۔ بیگم کی ڈانٹ پڑتی ہے۔ ’’بھلاری علامہ، قطامہ، چڑیل، سرمنڈی، اک کٹی، ایسی شتر بے مہار ہو گئی، ایسا دیدے کا ڈر نکل گیا۔ سب کو ازار میں ڈال کر پہن لیا۔ سارے باغ کی جائے لیتی پھرتی ہیں اور میں بیٹھی لہو کے گھونٹ پی رہی ہوں۔‘‘ ادھر کسی نے رونا شروع کر دیا آواز آئی۔ ’’بُو اتم بھی کیا نین مُتنی ہو، ذرا ذرا اسی بات پر روتی ہو۔‘‘ قلعہ، معلی کی زبان، مردوں کی ہو یا عورتوںکی، ٹیکسالی مانی جاتی تھی۔ بادشاہ تشریف لاتے ہیں۔ باغ لوٹنے کا حکم ہوتا ہے۔ اور لونڈیاں درختوں کو بلائوں کی طرح لپٹ جاتی ہیں۔ منٹوں میں سارے پھل شاخوں سے ٹوٹ کر ان کی جھولیوں میں چلے جاتے ہیں۔ رات ہوئی، چاندنی نے کھیت کیا، گانا ہو رہا ہے پچیسی کھیل جا رہی ہے۔ کوئی کہانیاں کہہ رہی ہے، کہیں پہیلیاں، کہہ مکرنیاں ہو رہی ہیں۔ آنکھ مچولی کی دھما چوکڑیاںمچی ہیں۔غرض یہ ہے کہ قلعہ معلیٰ کے دروبام نے وہ مناظر دیکھے، جواب محض ایک خواب ہیں۔ اور آخر آخر میں یہ بھی ایک بھیانک خواب پریشانی بن گیا۔ بہادر شاہ ظفر کی زندگی میں قدم قدم پر تلخیاں تھیں۔ اس کی آنکھوں نے وہ مناظر دیکھے تھے جو خدا دشمن کو نہ دکھلائے۔ ۱۲ برس کا بچہ تھا جب اسی قلعہ میںاس کے دادا شاہ عالم کو غلام قادر رہیلہ نے پچھاڑ کر نوکِ خنجر سے بادشاہ کی آنکھیںنکال کر ایسے پھینک دیں جیسے پھل سے بیج۔ ظفرؔ کے والد اکبر شاہ ثانی اس سے ہمیشہ ہمیشہ کھِینچے کھِینچے رہے اس لیے کہ وہ دوسرے بیٹے کو ولی عہد بنانا چاہتے تھے۔ یہ بیٹا! مرزا 
جہانگیر شریر و شوخ طبع تھا۔ انگریز افسر آیا تو اس نے ’’لُولُو‘‘ کہہ کر مذاق اڑایا، طمنچہ چلایا۔ انگریزوں نے اسے الہ آباد میں قید کرا دیا، اور کچھ دنوں کے بعد وہ اللہ کو پیارا ہوا۔
 
بہادر شاہ تخت پر بیٹھا تو ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ ہوا۔ اپنوں نے غداری کی۔ غیروں کے ہاتھوں شکست ہوئی! بادشاہ پر خود اپنی بادشاہی کے خلاف بغاوت کا الزام لگایا گیا۔ سزا ہوئی۔ جلا وطن کیا گیا، بڑھاپے میں خوار ہوا۔ ذلتیں سہتا رہا۔ بیماری سے لڑتا رہا۔ جو ہاتھ کبھی تیر تفنگ پر قابو رکھتے تھے، وہ اب بے بس تھے۔ اس کی دم ساز ملکہ زینت محل تھیں۔ دلّی میں جب ان کی سواری نکلتی تو ڈنکے بجتے تھے۔ اور وہ ڈنکا بیگم کے نام سے مشہور تھیں۔
 
اب وہ بوڑھے بیمار شوہر کے ساتھ ۴  کمروں کے مکان میں دن گزار رہی تھیں۔ ظفرؔ نے سب کچھ جھیلا۔ یہاں تک کہ شمعِ زندگی جمعہ کی صبح ۲۷ نومبر ۱۸۶۲ء کو بجھ گئی۔ انگریزوں نے اسے چپکے سے گڑھا کھود کر گاڑ دیا۔ بعد میں قبر بھی برابر ہو گئی ؎
 
پسِ مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
اسے آہ دامنِ باد نے سرشام ہی سے بجھادیا
(ظفرؔ)
یہ صحیح ہے کہ بہادر شاہ ظفر کمزور تھا۔ بے بس تھا۔ اس کا خزانہ خالی تھا۔ مگر دل بڑا تھا۔ اس کی سلطنت برائے نام تھی مگر اس کی حکومت ۳  جگہ ضرور تھی۔ قلعہ کی چاردیواری میں عام آدمیوں کے دلوں میں اور اقلیم شعر و سخن میں۔ انگریزوں نے قلعہ چھین لیا۔ مگر دلوں پر اس کا بس نہ چلا۔ بہادر شاہ عہد بھی عجیب عہد تھا۔ مغلیہ سلطنت کا گھنا درخت، جس کی جڑ کو دیمک کھا گئی تھی اور جس کے تنے پر انگریز کی کلہاڑی چل رہی تھی۔ گر رہا تھا۔ لوگ اس کے سائے سے محروم ہونے والے تھے۔ لیکن اس دور میں شعر و ادب کے طیور خوش آواز اس کی شاخوں پر بیٹھے چہچہا رہے تھے۔اُردو کے عظیم شاعر زندہ تھے اور اکثر قلعہ سے متعلق تھے۔ مغلوںکی شمع گُل ہو رہی تھی مگر آخری مغل تاجدار شعر و سخن کا رسیا تھا یہ غالبؔ و ذوقؔ کا دور تھا۔ اسی میں حکیم مومن خان مومنؔ ،حکیم آغا خان عیش، نواب مصطفی خاں شیفتہؔ، خواجہ غلام غوث بے خبر، میر مہدی مجروح، میر نظام الدین ممنون بھی جیتے تھے۔ بادشاہ اردو میں ظفرؔ برج اور دوسری زبانوں میں ’’شوق رنگ‘‘ تخلص کرتے تھے۔ برجؔ پنجابی، پوربی کسی میں بند نہ تھے۔
 
روایت ہے کہ شروع شروع میںانھوں نے شاہ نصیرؔ کو کلام دکھایا۔ مشکل زمینوں میں غزلیں اسی کی یادگار ہیں۔ پھر استاد ذوقؔؔ سے تلمذ رہا۔ قلعہ معلیٰ کی زبان ٹیکسالی تھی۔ سر سید کا خیال ہے کہ قلعہ کے تعلق سے خود ذوق کو زبان آ گئی۔ خیر ذوقؔ کی بڑی عزت ہوتی تھی۔ ظفرؔ انھیں کلام دکھاتے تھے۔ لیکن وہ خود بھی قادر الکلام تھے۔ ذوقؔ کے بعد غالبؔ کو کلام دکھایا۔ ظفرؔ ایک صوفی منش مرنجان مرنج قسم کا انسان تھا۔ 
 
جو گلستان کی تفسیر شہزادگی کے زمانے میں لکھ چکا تھا۔ شاعری اس کی اپنی زندگی کی تفسیر ہے۔ اور زندگی اس کے اشعار کی تصویر۔ دلّی سے نکال کرجب اسے کالے کوسوں دور رنگون بھیجا گیا تو زندگی اندھیر ہو گئی۔ غم کی کالی رات چھا گئی ۴ برس اس حال میں گزرے کہ
 
تارِ بستر میرے حق میں، یار و مارِ بستر ہے
کیوں کر کاٹوں رات کو مجھ کو تو یہ کاٹے کھائے ہے
ظفرؔ کوئی ناسمجھ بچہ نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا کہ
اعتبار صبر و طاقت خاک میں رکھوں ظفرؔ
فوجِ ہندوستان نے کب ساتھ ٹیپو کا دیا؟
 
میں نے عرض کیا کہ ظفرؔ کی شاعری اس کی زندگی ہے۔ اپنا مسکن، اپنا لال قلعہ چھوڑتے ہوئے اس کے دل پر سانپ لوٹ گیا۔ دلی کا لال قلعہ دنیا کی عظیم عمارتوں میں سے ہے۔ کہتا ہے ؎
 
اجاڑے لیٹروں نے وہ قصر اس کے
جو تھے دیکھنے اور دکھانے کے قابل
 
رات کے پردے میں چھپا کر بادشاہ اور ملکہ کو دلی سے رنگون بھیجا گیا تھا تا کہ وہ رعایا جو ان پر جان چھڑکتی تھی کہیں گوروں کی جان کے درپے نہ ہو جائے۔ وہ وطن سےقیدخانے کی طرف جا رہا ہے ؎
 
جلایا یار نے ایسا کہ ہم وطن سے چلے
بطور شمع کے رونے اس انجمن سے چلے
 
رنگون پہنچا تو اس کی بوڑھی آنکھوں نے حیرت سے دیار غیر میں گردوپیش کو دیکھا ؎
 
کون نگر میں آئے ہم کون نگر میں باسے ہیں
جائیں گے اب کون نگر کو من میں اب یہ ہراسے ہیں
 
اور جب دلی کے قلعہ معلی کے وارث کو ۴  کمروں کے مکان میں نظر بندرکھا گیا تو دل سے صدا نکلی ؎
 
لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں
 
ضعیفی، بیماری، غریب الوطنی، مفلسی، قید تنہائی، ناامیدیوں کا ہجوم، مصائب کا نرغہ اسی بہادر کا جگر تھا کہ وہ سب کچھ سہتا رہا، خون جگر پیتا رہا اور جیتا رہا۔ شایداس کی بجھتی ہوئی آنکھوںمیں جو آنسو بنتے تھے، وہ اس کے قلم کی نوک سے ٹپک جاتے تھے، اس نے شاعری کو نہیں چھوڑا، کہ دل کی بھڑاس نکالنے کا یہی ایک راستہ رہ گیا تھا اور شاعری کی دیوی بھی اس کی کنیزبنی سائے کی طرح اس کے ساتھ لگی اس کی خدمت کرتی رہی۔ اس زمانے کے اشعار پر ’’حکایت نَے‘‘ صادق آتی ہے۔ نیستان سے ’نَے‘ اور ہندوستان سے ظفر کٹ گئے تو کیا گزری؟ 
 
’’نے‘‘ کہتی ہے ؎
ازنیستاں چوں مراببریدہ اند
ازنفیرم مرد و زن نالیدہ اند
اور ظفر کے دل کی ہوک یوں گونجتی ہے ؎
میں نہیں ہوں نغمہ جاں فزا مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
 
بابر، ہمایوں، اکبر، جہانگیر، شاہجہاں، عالمگیر نے ہندوستان کو جنت نشان بنایا۔ لیکن دکھی کی پکارنے دلوں کو ہلا دیا۔اس کے دکھ میں ہم آج بھی شریک ہیں۔ مگر اس کی پکار اور اس کی آہِ سوزاں شعلہ بن کرخود دکھ دینے والوں کو چاٹ گئی۔
 
*****************
Comments


Login

You are Visitor Number : 737