donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tareekhi Paare
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Unknown
Title :
   Nezam Deccan Aur Khwaja Hasan Nezami

 

نظام دکن اور خواجہ حسن نظامی
 
فقیروں کے گھروں میں لطف کی راتیں بھی آتی ہیں
 
زیارت کے لیے اکثر مسماتیں بھی آتی ہیں
 
اکبر الٰہ آبادی کے اس شعر کی شان نزول کے بارے میں اردو کے صاحب طرز انشاپرداز ملاواحدی جن کو دہلی کی ٹیکسالی زبان لکھنے میں مہارت حاصل ہے اور جنھوں نے اپنے شگفتہ اور دل آویز طرزِ تحریر میں مصورِفطرت خواجہ حسن نظامی کی سوانح عمری پُراثر انداز میں لکھی ہے، اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: حضرت اکبر کا منہ کمرے کے دروازے کی جانب تھا اور خواجہ صاحب کا منہ حضرت اکبر کی طرف۔ میں بھی حاضر تھا۔ یکایک حضرت اکبر نے فرمایا، ’’آیئے آیئے‘‘ خواجہ صاحب نے اور میں نے مڑکر دیکھا تو ۲  طوائفیں ہمارے پیچھے کھڑی تھیں۔
خواجہ صاحب کا حکم تھا کہ جب تک حضرت اکبر ہیں کسی طوائف کو گھر میں مت گھسنے دینا۔ ویسے مستقل ممانعت نہ تھی۔ فقیروں کے ہاں اچھے برے کی روک ٹوک نہیں ہوا کرتی۔ وہ ۲  طوائفیں خدا جانے کس طرح آنکھ بچاکر اندر گھس آئیں۔ خیر، خواجہ صاحب نے گھس آنے پر بھی انھیں واپس کیا۔ ان کے جانے کے بعد حضرت اکبر نے بغیر مسکرائے کہا، ’’میں تو سمجھتا تھا اس گھر میں فقط فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ واحدی صاحب اکبر کی شعرگوئی کے بارے میں لکھتے ہیں۔ شعر حضرت اکبر بے ساختہ ہی فرمایا کرتے تھے۔ ۱۹۱۲ء میں میری شادی کا دعوت نامہ گیا تو حضرت اکبر نے اس کی رسید یہ شعر لکھ کر دی:
واحدی کو دوئی مبارک ہو
یعنی شادی ہوئی مبارک ہو
آمد شعر کے بارے میں واحدی صاحب مزید لکھتے ہیں۔ حضرت اکبر خواجہ صاحب کو الٰہ آباد بلا رہے تھے اور خواجہ صاحب متعدد تقاضوں کے باوجود جا نہ سکتے تھے۔ حضرت اکبر نے مجھ سے اس بات کی شکایت کی اور لکھا:
خواجہ حسن نظامی سے دلّی نہ چُھٹ سکی
حضرت ابو ہریرہ سے بلّی نہ چُھٹ سکی
کلام اکبر میں آورد نام کو نہیں تھی۔ طویل نظموں میں بے ساختگی ہے، حتیٰ کہ نظموں کے ترجمے بے ساختگی سے کیے ہیں، ترجموں کو اصل نظموں سے بڑھا دیا ہے۔
خواجہ صاحب کے نوابوں اور راجاؤں کے ساتھ تعلقات کس طرح کے تھے اس بارے میں واحدی صاحب کہتے ہیں: ہر ریاست نے خواجہ صاحب کو درباری لباس سے مستثنیٰ کر رکھا تھا، خواجہ صاحب درباروں میں وہی لمبا کرتا اور پنج گوشی ٹوپی پہن کر شریک ہوتے تھے۔ میں نے خواجہ صاحب کو ہندوستان کے راجہ، نوابوں اور افغانستان کے بادشاہ سے ملتے اور باتیں کرتے دیکھا ہے۔
راجہ، نواب اور بادشاہ جھکاؤ کھاتے تھے۔ خواجہ صاحب جھکاؤ نہیں کھاتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ اس نوعیت کی ادائیں برداشت کر لیتے تھے۔ پڑھنے والوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تقسیم برصغیر سے پہلے ہندوستان میں چھوٹی بڑی ۶۹۰ ریاستیں تھیں۔ جن کے اپنے اپنے دربار اور درباری تھے، جہاں خوشامد، چاپلوسی، سازشیں، ریشہ دوانیاں عام تھیں۔ ان ریاستوں میں حیدرآباد دکن سب سے بڑی ریاست تھی جو اٹلی کے برابر تھی۔
اس سازشی ماحول میں کسی کی دال گلنی مشکل تھی اور پھر بادشاہوں کی طبع نازک پر ذرا ذرا سی بات ناگوار گزرتی تھی۔ مگر خواجہ صاحب اس فضا میں کس طرح فاتح رہے اس کے لیے واحدی صاحب مولانا حسن مثنیٰ ندوی کے مضمون، کا حوالہ دیتے ہیں جو بیان کرتے ہیں: خواجہ صاحب جتنے ذہین و فطین تھے اتنے ہی جری وبے باک بھی تھے اور اتنے ہی ماہر نفسیات بھی تھے۔ نازک سے نازک اور کٹھن سے کٹھن گھڑیوں میں بھی ان کا دماغ ان کا ساتھ نہیں چھوڑتا تھا۔
لیکن اس سے بھی زیادہ بڑی اور گراں قدر چیز خواجہ صاحب کی وہ جرأت تھی جس کا دامن مقصدیت اور انسان دوستی سے بندھا ہوا تھا۔ صاحب تاج واورنگ کے دربار میں کم ہی لوگ ہیں جنھوں نے جرأت و بے باکی سے کام لیا ہو اور اس جرأت و بے باکی میں اتنا ہی دل کش و دل آویز پیام بھی موجود ہو۔ خواجہ صاحب کی ان خوبیوں کا ذکر کرنے کے بعد ندوی صاحب لکھتے ہیں۔
خسرو دکن نواب میر عثمان علی خاں کے عہد عروج اور طمطراقِ شاہانہ کے قصے ابھی بھولے نہ ہوں گے۔ بڑے بڑوں کے سر اس بارگاہ بلند میں ادب و احترام سے جھک جاتے تھے۔ خواجہ صاحب حیدرآباد پہنچے تو حسب دستور باریابی کی عزت بخشی گئی اور خواجہ صاحب بارگاہِ خسروی میں باریابی کے لیے روانہ ہوئے مگر ذرا دیر لگ گئی۔
اس دیر نے مزاج شاہی کو برہم کر دیا۔ خواجہ صاحب نے کہا:" ظلِ سبحانی! جب میں اپنی قیام گاہ سے بارگاہ خسروی کی طرف چلا تو راستے میں آواز پر آواز سنائی دی۔ حسن نظامی! حسن نظامی کوئی پکار رہا تھا۔ مڑ کے دیکھا تو چھڑکاؤ کی گاڑی تھی اور وہی پکار رہی تھی۔"
 یہ سن کر خسرو دکن کا غصہ اور بھڑکا لیکن خواجہ صاحب نے نہایت متانت اور صبر و سکون کے ساتھ فرمایا۔ "ہاں ظلِ سبحانی! چھڑکاؤ کی گاڑی مجھے پکار رہی تھی اور اس نے کہا حسن نظامی! تو بادشاہ کی بارگاہِ عالی میں جا رہا ہے۔ایک بات میری بھی سنتا جا اور میں اس کی بات سننے کو رک گیا۔ اس نے کہا میں چھڑکاؤ کی گاڑی ہوں۔ صبح سویرے منہ اندھیرے نل کے پاس جاتی ہوں۔ وہ اپنی دولت سے میرا دامن بھر دیتا ہے۔ سڑک پر کروڑوں ذرّات دھوپ میں پڑے پیاس پیاس پکارتے رہتے ہیں اور میں اس دولت سے ان کی پیاس بجھاتی پھرتی ہوں۔ حتیٰ کہ میرا دامن خالی ہو جاتا ہے اور پھر نل کے پاس جا کھڑی ہوتی ہوں اور وہ پھر اپنی دولت سے مجھے مالا مال کر دیتا ہے اور میں پھر پیاسے ذرّات کی طرف دوڑتی ہوں۔صبح سے شام تک یہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ شام کو میں دامن خالی کرکے ہلکی پھلکی ہوکر آرام سے سو جاتی ہوں۔ صبح اٹھ کر پھر یہی کام شروع ہو جاتا ہے۔ حسن نظامی! تو بادشاہ کے پاس جا رہا ہے۔ تجھے بادشاہ نے بلایا ہے، نوازا ہے۔ تو ایک پیام میرا بھی لیتا جا۔ بادشاہ سے کہیو کہ بادشاہ چھڑکاؤ کی گاڑی ہوتے ہیں اور ان کی رعایا، یہ ساری مخلوق پیاسے ذرّات ہیں۔"
نظام یہ سن کر چونکے۔ ایسی باتیں انھوں نے کبھی کاہے کو سنی ہوں گی۔ بادشاہوں کے دربار میں ایسی باتیں کہنے والا کہاں ہوتا ہے۔ ان کا غصہ دھیما پڑ گیا اور گفتگوکی دل آویزی نے ان پر اثر کیا۔ انھوں نے پوچھا" پھر کیا ہوا؟"
 خواجہ صاحب نے فرمایا:" ظلِ سبحانی! میں چھڑکاؤ کی گاڑی کی باتیں سن کر آگے بڑھا۔ تھوڑی دور گیا تھا کہ پھر آواز سنائی دی حسن نظامی! حسن نظامی! پھر کوئی پکار رہا تھا۔ مڑ کے دیکھا تو لیٹر بکس تھا۔"
" لیٹر بکس؟" نظام چکرائے اور بولے۔" اچھا اس نے کیا کہا؟" اُن کا غصہ ابھی پوری طرح فرو نہیں ہوا تھا۔ 
خواجہ صاحب نے جواب دیا۔" ظلِ سبحانی وہی عرض کر رہا ہوں۔ لیٹر بکس نے کہا۔ حسن نظامی! تو بادشاہ کے ہاں جا رہا ہے۔وہاں جانے سے پہلے میری بات سنتا جا۔ میں لیٹربکس ہوں۔ دن رات ایک طرح کھڑا رہتا ہوں۔ آنے والے لپک لپک کر آتے ہیں۔ ان میں عورت مرد، بوڑھے، جوان، باپ، بیٹے، بھائی، بہن، میاں بیوی، عاشق، معشوق، امیر، غریب، گورے کالے، سبھی ہوتے ہیں۔ سب آتے ہیں اور مجھ پر اعتماد کرکے اپنی اپنی امانتیں اپنے سینوں سے نکال نکال کر میرے سینے میں ڈال جاتے ہیں۔ میں جاڑوں میں ٹھٹھرتا ہوں، گرمیوں میں تپتا جھلستا ہوں۔ برسات میں بھیگتا ہوں مگر کسی کی امانت ضائع نہیں ہونے دیتا۔سب کی امانتوں کو سینے سے لگائے رکھتا ہوں اور چُھپائے رکھتا ہوں اور ساری امانتیں ان تک پہنچاتا ہوں جن کے حصّے کی ہوتی ہیں۔ حسن نظامی! تو بادشاہ کے ہاں جا رہا ہے تو میرا پیغام بھی لیتا جا۔ بادشاہ سے کہیو۔ بادشاہ لیٹر بکس ہیں۔ سب کی امانتوں کے امین۔ سب کے معتمد علیہ اور سب کی امانتوں کو صحیح جگہ پہنچانے والے۔ بس ظلِ سبحانی! ان باتوں کی وجہ سے بارگاہ خسروی تک پہنچنے میں دیر ہوگئی۔ ورنہ حسن نظامی ٹھیک وقت پر پہنچتا۔"
 نظام جھوم اٹھے اور بہت خوب۔ بہت خوب کے نعرے لگانے لگے۔  یہ واقعہ خواجہ صاحب نے اپنے روزنامچے میں لکھا ہے۔
++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 753