donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abid Anwar
Title :
   Be Yaro Madadgar Bihar Ke Sailab Zadgan


بے یارو مددگار بہار کے سیلاب زدگان


عابد انور 


    آج بہار کا بیشتر حصہ سیلاب کی زد میں ہے کہیں پانی اترگیا ہے تو کہیں پانی بھرا ہوا ہے۔لوگوں کی فصلیںتباہ ہوگئی ہیں، جانور مرگئے ہیں، انسانی جانوں کا اتلاف بھی ہوا ہے۔لوگ دانے دانے کو ترس رہے ہیں، کہیں کہیں تو اتنی خشک جگہ بھی نہیں ہے کہ وہ لوگ کھانا بناسکیں، ایک تصویر جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا کھیلے کے ناؤ پر کھانا بناتے ہوئے ایک عورت کو دیکھا جاسکتا ہے، یہ تصویر سیلاب کی صورت حال اور اس کی سنگینیت کو بیان کرتی ہے، میڈیا میں بھی سیلاب کی تباہ کار ی کا ذکر ہوا۔ سب لوگ جانتے ہیں جب اس طرح کا سیلاب آتا ہے تو اپنے پیچھے کتنی تباہی کا نشان چھوڑ جاتا ہے، اناج سڑجاتا ہے، کھانا بنانے کے کام میں آنے والا جلاون گیلا ہوجاتا ہے یا گیلا ہونے کے بعد جلانے کے قابل نہیں رہتا، لوگوں کی جمع پونجی اناج ہی ہوتی ہے جس سے وہ اپناپیٹ پالتے ہیں۔ اس میں اب تک سیکڑوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں، سیلاب کے پانی میں تیرتا ہوا بچے کا فوٹو بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا تھا وہ شام کے بچے کے سمندر میں ڈوب کر مرنے والا بچہ کی یاد تازہ کرتا ہے۔ لیکن ہماری مسلم تنظیمیں جو زکوۃ ، صدقات ، خیرات اور دیگر فلاحی رقوم دینے والوں سے رقم ہڑپنے میں ماہر ہیں، آج تک ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ہیں، اب تک ان تنظیموں کو عیدملن پارٹی سے فرصت نہیں ملی ہے۔اس لئے بہار کے سیلاب زدہ علاقے خاص طور پر سیمانچل کا علاقہ جس کی غربت کے نام سینکڑوں لوگ کروڑ پتی بن گئے ہیں اور اس کی غربت ختم کرنے کے نام پر جنوبی افریقہ ، لندن اور عرب ممالک کے دورے کرتے ہیں، آج بے حال ہے، راحت رسانی کے کام میں کوئی تنظیم نظر نہیں آرہی ہے۔ ورنہ اس سے قبل کئی تنظیم ریلیف کا کام کرتی تھیں، دو سوٹن، چوڑا، مڑھی اور دیگر اشیاء تقسیم کا دعوی کرنے والے بھی نظر نہیں آتے۔ آج سیمانچل کا خطہ بے یارو مددگار ہے، کوئی تنظیم ریلیف لیکر نہیں جارہی ہے اور نہ ہی اس خطے کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کیا جارہا ہے۔ وہاں کی لیڈرشپ ہمیشہ کی طرح ناکارہ ہے، سیمانچل کو بدحال رکھنے میں وہاں کے سیاسی رہنماؤں نے جو اسمبلی سے لیکر پارلیمنٹ تک سیر کرتے ہیں،کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ آزادی کے اتنے برسوں کے بعد بھی یہ خطہ بنیادی سہولت کے لئے ترس رہا ہے۔وہاں کے بچے الٹی دست سے مر جاتے ہیں،  اگر ان کے سو روپے ہوتے تو بچے کی جان بچائی جاسکتی تھی۔وہاں کے مسلمانوں کی بدحالی کے لئے جہاں حکومت، سیاسی لیڈران اور افسران ذمہ دار ہیں وہیں مسلم تنظمیں بھی ذمہ دار ہیں جو پیسہ تو سیمانچل کی غریبی ختم کرنے پر لاتی ہیں اور خرچ اپنے عیش اور اثر و رسوخ بڑھانے میں کرتی ہیں۔ یعنی جو پیسہ سیمانچل کے نام پر آتا ہے وہ سیمانچل میں خرچ نہیں کیا جاتا۔ 

    بہار میں گنگا سمیت چار بڑے دریاؤں کے سرخ نشان سے اوپر رہنے اور ان دریاؤں میں آنے والی طغیانی سے جہاں ریاست کے 14 اضلاع کے 2361 گاؤں کے 33 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں، وہیں سیلاب سے اب تک سیکڑوں لوگوں کی ڈوب کر موت ہو چکی ہے۔ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے سرکاری ذرائع نے گزشتہ روز یہاں بتایا کہ گزشتہ کئی دنوں سے پڑوسی ملک نیپال کے آبی ذخائر کے  علاقوں میں ہونے والی بارش کی وجہ سے بہار کے 14 اضلاع کے نشیبی  علاقوں میں سیلاب کی صورتحال سنگین ہو گئی ہے۔ مہانندا، بکرا،کنکئی ، پرمار، کوسی اور اس کی دیگر معاون ندیوں میں آنے والی طغیانی  سے ریاست کے پورنیہ ، کشن گنج، ارریہ، دربھنگہ، مدھے پورا، بھاگلپور، کٹیہار، سہرسہ، سپول، گوپال گنج، مشرقی اور مغربی چمپارن اور مظفر پور ضلع کے نچلے علاقے سیلاب کی زد میں ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ ارریہ میں 21، پورنیہ  میں 26، کٹیہار میں 15، سپول میں 8، کشن گنج میں  5، مدھے پورا اور گوپال گنج میں 4-4، دربھنگہ میں 3 اور سہرسہ، مظفر پور اور سارن ضلع میں ایک ایک شخص کی اب تک ڈوب کر کر موت ہوئی ہے۔  اس کے ساتھ ہی سیلاب کے پانی میں ڈوب کر مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر اب 89 ہو گئی ہے۔ سیلاب کے پانی میں ابھی تک دو جانوروں کی بھی ڈوب کر موت ہوئی ہے۔ڈیزاسٹر مینجمنٹ محکمہ کے ذرائع نے بتایا کہ 14 اضلاع کے 78 بلاکوں کے 2361 گاؤں کے 33 لاکھ لوگ سیلاب سیمتاثر ہوئے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے ان اضلاع 2 .0 لاکھ ہیکٹر کے علاقے میں لگی  فصل تباہ ہوئی  ہے۔  متاثر اضلاع میں اونچیاور محفوظ مقامات پر 464 ریلیف کیمپ بنائے گئے ہیں۔  متاثرہ  اضلاع میں بنائے گئے ریلیف کیمپوں میں 379117 لوگ پناہ لئے ہوئے ہیں۔ متاثرہ لوگوں کی سہولت کے لئے 224 ڈاکٹروں کی تعیناتی کی گئی ہے۔  اسی طرح 69 جانوروں کے کیمپ بھی بنائے گئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ 14 اضلاع میں ریلیف تقسیم کا کام جنگی پیمانے پر چلایا جا رہا ہے۔ متاثرہ  لوگوں کیدرمیان چوڑا، گڑ،دیا سلائی، موم بتی،کراسن تیل سمیت دیگر ضروری صارفین اشیا دستیاب کرائی جا رہی ہے۔ متعلقہ اضلاع کے ضلع مجسٹریٹ کی ہدایت پر متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے خاص طور پر حکام کو تعینات کیا گیا ہے۔

     محکمہ کے ذرائع نے بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ سپول، گوپال گنج، مظفر پور اور دربھنگہ ضلع میں قومی آفات ریلیف فورس (این ڈی آر ایف) کی ٹیم کو لگایا گیا ہے۔ اسی طرح کھگڑیا، سیتامڑھی، پورنیہ، بھاگلپور، مدھوبنی اور مدھے پورہ اضلاع میں ریاستی آفات ریلیف  فورس (ایس ڈی آرایف ) کی تعیناتی کی گئی ہے۔  این ڈی آر ایف اورایس ڈی  آرایف کی دو دو ٹیم کو فی الحال بہٹا کے پٹنہ میں محفوظ رکھا گیا ہے۔

ڈیزاسٹر مینجمنٹ محکمہ کے ذرائع نے بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ ارریہ اور مدھے پورہ اضلاع میں جہاں  افرادی قوت کو راحت اور بچاؤ کے کام میں لگایا گیا ہے وہیں بھوجپور اور بکسرا ضلاع سے 25۔25 سرکاری فیری ارریہ بھیجا گیا ہے۔ اسی طرح کھگڑیا اور مظفر پورا ضلاع سے 25-25 سرکاری فیری پورنیہ ا ضلاع میں امدادی کام کے لئے بھیجا گیا ہے۔ ساتھ ہی دربھنگہ ضلع سے این ڈی آر ایف کے 20 جوانوں کو کشن گنج کے متاثرہ علاقوں میں تعینات کیا گیا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں 712 سرکاری مقامی فیری اور 778 نجی فیری کو لگایا گیا ہے۔ اسی طرح کشن گنج ضلع میں بچاو اور امدادی کام کے لئے دو موٹربوٹ کے ساتھ ایس ڈیآرایف  کے جوانوں کی تعیناتی کی گئی ہے۔اس کے علاوہ کشن گنج کے متاثرہ علاقوں میں امدادی کام میں تیزی لانے کا مقصد کھگڑیا ضلع سے چھ اضافی موٹر ووٹ بھیجا گیا ہے۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ محکمہ کے ذرائع نے بتایا کہ ایس ڈیآرایف کی ایک ٹیم کو مدھوبنی ضلع سے کٹیہار ضلع کے متاثرہ علاقوں میں بھیجا گیا ہے۔ اسی طرح سیتامڑھی ضلع سے ایس ڈی آرایف کی ٹیم کو مشرقی اور مغربی چمپارن اضلاع کے متاثرہ علاقوں میں تعیناتی کی گئی ہے۔مرکزی آبی کمیشن کے مطابق گنگای گنڈک اور کوسی کے دریا خطرے کے نشان سے کئی مقامات پراوپر ہیں۔گنگا دریا کہلگاوں، صاحب گنج اورکارا میں خطرے کے نشان سے اوپر ہے۔اسی طرح گھاگھرا ندی درولی اور گگنپورسسون میں خطرے کے نشان سے اوپر ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بوڑھی گنڈک کھگڑیا میں 2 اور کوسی دریا بالتارا اور کرسیلا میں بالترتیب 127 اور 27 سینٹی میٹر زیادہ ہے۔ ان دریاؤں کے پانی کی سطح میں کل تک کچھ اور مقامات پر اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

    بہار میں اس وقت سیلاب کی تباہ کاری جاری ہے ، بھیم نگر بیراج سے چھوڑے گئے لاکھوں کیوسک پانی اور مسلسل ہونے والی بارش نے لوگوں کا جینا محال کردیا ہے۔ بیشتر علاقے زیر آب ہیں۔ لوگوں کی پریشانی کایہ عالم ہے کہ کوئی خشک جگہ نہیں ہے جہاں وہ دو وقت روٹی پکاسکیں۔ جانورچارہ کے لئے ترس رہے ہیں۔ لوگوں تک ریلف نہیں پہنچ رہا ہے۔ چندہ خور علماء پیسہ اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں۔ بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعہ اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت سارے لوگ منظرسے غائب ہیں۔ کوئی تنظیم ریلیف کام میں نظر نہیں آرہی ہے۔ سیلاب اور آفات سماوی ایسی تنظیموں کے بہترین موسم ہوتے ہیں۔ جن کے دوران وہ کروڑ پتی بن جاتے ہیں اور روزگار کا اچھا ذریعہ پیدا ہوجاتا ہے۔ سیمانچل کے خطے کو بیشتر تنظیموں، مدرسوں اور علماء نے غربت کے نام پر کیش کیا ہے۔ کروڑ روپے کا فنڈ غربت دور کرنے ، جہالت ختم کرنے اور بنیادی سہولت کی دستیابی کے نام پر حاصل کیا ہے ۔ لیکن سیمانچل خطے کی حالت آج بھی جوں کی توں ہے۔سیلاب تباہ کاریوں نے علاقے کے لوگوں کا بے حال کردیا ہے۔ اس مصیبت کی گھڑی میں تمام تنظیموں اور بالخصوص مسلم تنظیموں کو چاہئے کہ وہ آگے آئیں اور ملک کے سیلاب زدہ علاقوں، خصوصاً بہار اور سیمانچل کے خطے کے لئے کام کریں۔ اس وقت ان کو ریلیف کی سخت ضروری ہے۔ تنظیمیں اس طرح کام کریں سیلاب زدگان کو اپنی زندگی کو پٹری پر لانے میں مدد مل سکے، چھوٹی چھوٹی مدد بھی کسی کے لئے بڑی مدد ہوجاتی ہے۔


abidanwaruni@gmail.com
9810372335

*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 503