donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abid Anwar
Title :
   Dil Aazar Cartoon Ki Ishayat


دل آزار کارٹون کی اشاعت

مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی طویل حکمت عملی کا حصہ


تیشہ فکر عابد انور


مغربی اقوام لباس، رہن سہن ،بات چیت ،باڈی لنگویز سے جتنی مہذب نظر آتی ہے درحقیقت وہ اتنی ہے نہیں۔ ان کے علم و حکمت کی وجہ سے دوسروں قومیں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ علم ہونا ہے الگ بات ہے تہذیب یافتہ یارحم دل ہونا یا دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا دوسری بات ہے ۔ جس بات کے لئے یہ قومیں اور وہاں کی حکومتیں پوری دنیا کو سخت لعنت و ملامت بھیجتی رہی ہیں انہی چیزوں سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہمیشہ نظر آئے۔ اگر کسی ملک میں اس قوم نے سو ڈالر کی امداد دی ہے تو ایک ہزار ڈالرکی برائی پھیلائی ہے۔ اس قوم کو دوسرے مسلم ملکوں میں عورتوں کے حقوق اور ان کے اختیارات کی بڑی فکر ہے لیکن وہ اپنے یہاں ان ہی حقوق سے مسلم خواتین محروم رکھناچاہتی ہے۔ وہ زبردست اظہارخیال کی آزاد ی کی وکالت کرتی نظر آتی ہے لیکن جب کوئی مسلمان ہولوکاسٹ کے بارے میں کچھ کہتا ہے کہ تو فوراً اس کے خلاف مقدمہ دائر کردیا جاتاہے۔ دوسری طرف آنحضورصلی اللہ علیہ و سلم کے کارٹون بنانے والوں کی اس بنیادپرحمایت کی جاتی ہے کہ ہر شخص کو اظہار آزادی کا حق حاصل ہے لیکن یہی حق اگر کوئی مسلمان استعمال کرنا چاہتا ہے تو اس قوم کا رویہ اس کے برعکس ہوجاتا ہے۔ مغرب کو انسانی حقوق کی بڑی فکر رہتی ہے اس کی بہت ساری تنظیمیں اس میدان میں کام کر رہی ہیں لیکن اس قوم کامعیار ہمیشہ دوہراہوتا ہے۔ ابوغریب اورافغان کے بگرام قیدخانہ یا گوانتانامو کی جیل ہو جس طرح انسانیت سوز واقعات پیش آئے ہیں اس سے مغربی اقوام کو کوئی فرق پڑا ہو یا نہ پڑاہو لیکن پوری انسانیت شرمسارضرورہوئی ہے۔ وہ مسلمانوں کی اخلاقیات اور آزادی کی بات کرتے ہیں مسلمانوں کے اخلاقات و عادات اور سلوک کا اندازہ اس بات سے لگایا جاجاسکتا ہے کہ طالبان کی قید میں رہنے والی برطانوی خاتون صحافی قید سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد مشرف بہ اسلام ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف امریکی جیل میں قید پاکستانی سائنسداں ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر مظالم ڈھانے کی وہ داستان سامنے آئی ہے کہ رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ جیل میں ان کے حاملہ ہونے کی بھی خبر تھی۔ یہ ہے مغربی اقوام کے اخلاق و عادات۔ سیاحت کے نام غریب ملکوں کے بچے بچیوں کاجنسی استحصال کرنے میں مغربی سیاح سب سے آگے ہیں۔ اس کے باوجود یہ قوم سب سے مہذب قوم کا تمغہ لئے پھر رہی ہے۔ تہذیب دوسروں کی تہذیب کی قدر کرناسکھاتی ہے ۔ دوسرے حقوق کااحترام اور اسے اپنے عائلی انداز اور مذہب کے طریقے پر آزادی کی حمایت کرتی ہے لیکن مغرب آج ان سب چیزوں سے کوسوں دور ہے۔ وہاں نقاب، حجاب ،اسلامی لباس اور اسلامی وضع قطع کے نام پر مسلمانوں کو معاشرہ کا حصہ بننے سے روکا جارہا ہے۔کئی ملکوں نے ان چیزوں پرپابندیاں لگادی ہیں اور کچھ پابندی لگانے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ آج مغرب اسلامو فوبیا کا شکار ہے اور مغرب کے کچھ لوگوں کے اسلام کی طرف بڑھتے ہوئے رجحانات کوکچلنے کے لئے مغربی ممالک طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان رویوں کا ادراک کرتے ہوئے مغربی ممالک کے تمام شعبوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی طرف توجہ دلائی ہے۔


فرانس سے شائع ہونے والی ہفتہ روزہ شارلی ہیبدو(چارلی ایبدو بھی لکھاجارہا ہے)گزشتہ چھ جنوری 2015کو آنحضور ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے کارٹون شائع کیا تھا۔ جس کے بعد اسلام پسندوں نے اس اخبار کے دفتر پر حملہ کرکے اخبار کے صحافیوں کے سمیت 12لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس واقعہ کی پوی دنیا میں مذمت کی جارہی ہے۔ اس طرح کے حملے کی مذمت کی جانی چاہئے خواہ وہ مغربی ممالک میں ہو یا عرب ممالک یا ہندوستان میں ہو یا دیگر ممالک میں کیوں کہ قانون ہاتھ لینے کی اجازت کسی کو نہیں ہونی چاہئے۔ اس واقعہ کوروکا جاسکتا تھا اگر فرانسیسی حکومت نے دل آزار کارٹون بنانے والے صحافی اور اخبار کے خلاف قانونی کارروائی کی ہوتی۔وہاں ایسی بیہودہ حرکت کی آزاد ی اظہار کا نام دیکر حمایت کی جاتی ہے۔ جب کہ اس طرح کی کوئی حرکت مسلمان کرتا تو ان کے خلاف فوراَ کارروائی کی جاتی۔ اسی امریکہ میں بیہودہ فلم بنانے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی کیوں کہ ان کے نزدیک یہ آزادی اظہار کے خلاف ہوتا جب کہ ہولوکاسٹ پر تنقید کرنے والوں کوفوراً سزا دی جاتی ہے۔ تو مغربی ممالک کا آزادی اظہار کانعرہ کہاں چلاجاتا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مغربی ممالک میں آنحضور کی شان میں گستاخی کرنے والے کارٹون شائع کئے گئے ہیں۔ اس اخبار نے اسی طرح کی دلسوز حرکت 2011میں کی تھی۔ اس وقت بہت ہنگامہ ہوا تھا لیکن حکومت فرانس نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی معاملہ صرف مذمت تک محدود رہا تھا۔ اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری بان کی مون نے بھی مذمت کی تھی۔ ڈنمارک سے شائع ہونے والا اخبار ’’جائی لینڈ پوسٹن‘‘نے ستمبر ۲۰۰۵میں حضرت محمد ﷺ کے اہانت آمیز کارٹون شائع کیا تھا اور اس وقت وہاں کے مسلمانوں نے زبردست احتجاج اور غم و غصہ کا اظہار کیا تھا لیکن ڈنمارک کے وزیر اعظم اور وہاں کے اخبار کے دیدہ دلیر ی دیکھئے کہ انہوں نے معافی مانگنے سے صاف انکا ر کر دیاتھا۔اس وقت بات آئی گئی ہوگی اس کے بعد یوروپ کے کئی ممالک کے اخبارات نے پھر اس کارٹون کو شائع کیا اور مسلمانوں کو تذلیل اور دل آزاری کی بھر پور کوشش کی جس کے خلاف تمام دنیا کے مسلمانوں نے زبردست احتجاج کیاجو کہ فطری ہے۔یہ بات مسلمانوں کے لئے کہی جا سکتاہے کہ وہ آنحضرت ﷺکے لئے خون کا آخری قطرہ ہر وقت بہانے کے لئے تیار رہتا ہے ہر چیز برداشت کر سکتا ہے لیکن آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخی کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتا۔ُ ُ’’جائی لینڈ پوسٹن ٗ‘ نامی اخبار جس نے کھلم کھلا اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نعوذباللہ حضوراکرم ﷺ کے تین کارٹون شائع کئے تھے۔ایک کارٹون میں نبی اکرم ﷺ کو تلوار لہراتے ہوئے دہشت گرد کی شکل میں دکھایا گیا تھا جس میں ان کے ساتھ برقعہ پوش کچھ خواتین بھی نظر آرہی ہیں۔دوسرے کارٹون میں ان کے صافے کو بم کی شکل میں دکھا یا اور تیسرے کارٹون میں ایک بلیک بورڈ میں ان کو ایک طالب علم دکھایا گیا تھا۔


انہوں نے یہ کارٹون راتوں رات نہیں بنایا بلکہ مسلمانوں کے خلاف دل آزاری اور سازش کی طویل منصوبہ بندی کا حصہ تھا۔ اخبار کی ادارتی ٹیم کے اہم رکن کار سٹن جیسٹ نے معافی مانگنے کے مسلمانوں کے مطالبے کو مسترد کردیا تھا ’’اور کہا تھا کہ میں خواب میں بھی ان سے معذرت طلب نہیں کر سکتا ‘‘۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں عوام کے مذہبی جذبات کا لحاظ رکھنا چاہئے مغربی جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی سے میل نہیں کھاتا۔ ادارتی بورڈ کے رکن کارسٹن جیسٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے ان کارٹو ن کی اشاعت کی اجازت بچوں کے مصنف کیرے بلوئٹ جن سے صلاح مشورہ اور ان کے مشکلات سننے کے بعد دی تھی۔ اس مصنف نے قرآن اور اسلام کے بارے میں کتاب لکھی ہے انہوں نے کہا تھا کہ وہ محمد ﷺ کی شبیہہ شائع کر نا چاہتا ہے لیکن تمام آرٹسٹوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا ان آرٹسٹوں کا کہنا تھا کہ ایسا کرکے وہ مسلمانوں کے غیض و غضب کا شکار ہونا نہیں چا ہتے ۔اخبارکے ایڈیٹرنے کہاکہ میں سنسر شپ کے رویہ کا مقابلہ کر نا چا ہتا تھا اور یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کتنے کارٹونسٹ محمد کی تصویر بنانے کی جرأت کا مظاہر ہ کرسکتے ہیں۔ (نعوذبااللہ)۔ ادارتی بورڈ اور ایڈیٹر کے ان بیانات سے واضح ہوگیاکہ کارٹون کا شائع کرنا محض اتفاق نہیں تھا بلکہ منصوبہ بند اور رد عمل کا مکمل علم ہونے ، مسلمانوں میں خلفشار پید اکرنے اور ان کے علم و ترقی پر مائل ذہن کو ہٹا نا تھا ۔اس وقت گیارہ مسلم ملک کے سفراء نے ڈنمارک کے وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ اخبار اور مدیر اور کارٹونسٹ کے خلاف کاروائی کر یں، لیکن وزیر اعظم نے کاروائی کرنا تودور معافی مانگنے سے بھی انکارکر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس واقعہ کے سلسلے میں معذرت کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ساتھ ہی انہو ں نے کہا تھا کہ ’کسی مذہب کے احترام کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی فنکار طنزو مزاح کے پیرائے میں بھی اپنی بات نہ کہ پائے‘۔پیرس میں شارلی ایبدو‘ پر حملے کے بعد اسلام اور تارکین وطن سے متعلق بحث شدید ہو سکتی ہے۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کرسٹوف ہاسل باخ کے مطابق اس صورتحال میں نہ تو آزادی اور نہ ہی برداشت پر کسی قسم کا سمجھوتہ کیا جائے گا۔کرسٹوف ہاسل باخ کہتے ہیں کہ شارلی ایبدو‘ پر ہونے والا یہ حملہ اچانک نہیں تھا۔ اس اخبار نے 2006ء میں پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکے چھاپے تھے، جو اس سے قبل ڈنمارک کا اخبار جیلاڈن پوسٹن‘ بھی شائع کر چکا تھا۔ ان کارٹونز یا خاکوں کی اشاعت کے بعد مسلم ممالک میں شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ 2011ء میں شارلی ایبدو‘ کے دفاتر کو نذر آتش کرنے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم اس کے باوجود بھی اس اخبار نے پیغمبر اسلام اور اسلام پر طنز و مزاح کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ شارلی ایبدو نے‘ ابھی حال ہی میں شریعت‘ کے نام سے ایک خصوصی ضمیمہ بھی نکالا تھا، جس پر تحریر تھا چیف ایڈیٹر محمد‘‘۔ ہاسل باخ کے بقول یہ بھی کوئی اتفاق نہیں کہ اس ضمیمے کے صفحہ اول پر فرانسیسی مصنف مشیل ویلبیک کی بھی تصویر تھی۔ ویلبیک کا ابھی حال ہی میں ایک انتہائی متنازعہ ناول منظر عام پر آیا ہے، جس میں انہوں نے ایک ایسے فرانس کی منظر کشی کی تھی، جس کا صدر ایک مسلمان ہے۔اسلام اور مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کی توہین مغربی ذرائع ابلاغ کا من پسند مشغلہ بنتا جا رہا ہے اور گستاخانہ مواد شائع کرنے کے لیے مغربی ذرائع ابلاغ کے اشاعتی اور نشریاتی اداروں میں ایک مقابلے کی کیفیت ہے۔ امریکا میں نائن الیون کی برسی کے موقع پر توہین آمیز فلم کے خلاف عالم اسلام میں احتجاج کی حدت کم نہیں ہوئی ہے کہ انہی دنوں فرانس کے ایک ہفت روزہ جریدے نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کا اعلان کیا ہے۔


انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی حالیہ رپورٹ میں مسلمانوں کے ساتھ کئے جانے والے امتیازی سلوک ،دفتروں، راہوں، بسوں، ہوائی جہازوں،ٹرینوں اور دیگرمقامات پر کئے جانے والے بھید بھاؤ اور مذہبی شناخت کے تعلق سے برتے جانے والے رویے کے بارے میں مغربی ملکوں کی آزاد ی اظہار اور شخصی آزادی پر سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔ مسلم خواتین کی آزادی کے نام پر کس قدران کے حقوق پرڈاکہ ڈالا گیا ہے یہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے ۔ ہیومن رائٹس گروپ نے ’ انتخاب اور تعصب‘ کے عنوان سے شائع شدہ ایک تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایسے یورپی ممالک جہاں مذہبی آزادی کو قانونی تحفظ حاصل ہے، مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں امتیازی سلوک کا سامناہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے یورپ اور وسطی ایشیاء کے ڈائریکٹر ’ جان ڈلہاؤزن‘ کے بقول، ’’اس بارے میں کوئی شبہ نہیں، نہ ہی یہ کوئی انوکھی بات ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔‘‘ سب سے زیادہ افسوس اور تکلیف دہ امر یہ ہے کہ یورپی ممالک کے قانونی مسودوں میں امتیازی سلوک کے خلاف نہایت سخت قوانین موجودہیں، اس کے باوجود حکام کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف تعصب کے بڑھتے ہوئے رجحان کی روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل سے منسلک امتیازی سلوک جیسے مسائل کی ایک اور ماہر ’مارکو پیرولینی‘ نے اس حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ روایتی لباس پہننے والی مثلاً، سر ڈھانپنے یا ہیڈ اسکارف پہننے والی مسلم خواتین کو روزگار کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جبکہ حجاب کااستعمال کرنے والی لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں کلاسوں میں حصہ لینے سے روکا جاتا ہے۔ جبکہ باریش مردوں کو اسلامی عقیدے سے تعلق رکھنے والا گردانتے ہوئے انہیں نوکریوں سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔’مارکو پیرولینی‘کے مطابق سیاسی جماعتیں اور سرکاری ملازمین مسلمانوں کے خلاف پائے جانے والے تعصب کا سد باب کرنے کے بجائے اس موضوع کو مزید ہوا دے رہے ہیں اور اس طرح اپنا ووٹ بینک بڑھانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ایمنسٹی کی اس رپورٹ میں متعدد ایسے ہی دیگر واقعات کا حوالہ شامل ہے۔ خاص طور سے بلجیئم، فرانس، ہالینڈ، اسپین اور سوئٹزر لینڈ میں یہ سب کچھ عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے۔ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ تعصب کے انسداد کے لیے جو قوانین موجود ہیں ان کا اطلاق بالکل بھی مناسب انداز میں نہیں کیا جاتا۔ ان ممالک میں آجرین کو مذہبی اور ثقافتی علامات کا استعمال کرنے والے کارکنوں کے خلاف عملاً امتیازی سلوک کی اجازت دی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کا رویہ یورپی یونین کے انسداد تعصب کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔


پورا یوروپ اسلامو فوبیا کاشکار ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی میں ایسے شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام مغربی معاشرے کا حصہ نہیں ہے۔ رائے عامہ کے ایک جائزے میں شامل نصف سے زائد افراد اسلام کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ جرمنی میں تقریباً چالیس لاکھ مسلمان آباد ہیں اور ان میں سے زیادہ تر خود کو اس معاشرے کا حصہ سمجھتے ہیں۔ تاہم دوسری جانب ملک کی غیر مسلم آبادی میں اِن کے حوالے سے بداعتمادی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس تناظر میں اسی ہفتے خبر رساں ادارے اے ایف پی نے رائے عامہ کے ایک جائزے کے نتائج جاری کیے ہیں۔ اس جائزے میں شامل 57 فیصد غیر مسلم جرمن شہری اسلام کو ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔ 2012ء میں اسی طرح کے ایک جائزے میں یہ شرح 53 فیصد تھی۔ جرمنی میں یہ جائزہ بیرٹلزمان فاؤنڈیشن کی جانب سے کرایا گیا ہے۔اس جائزے کے مطابق 61 فیصد جرمن شہریوں کا خیال ہے کہ اسلام جرمن معاشرے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ 2012ء میں 52 فیصد اِس سوچ کے حامل تھے۔ اِس جائزے میں شامل 40 فیصد نے کہا کہ وہ مسلمانوں کی موجودگی کی وجہ سے خود کو اپنے ہی ملک میں اجنبی محسوس کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر چوتھا شخص مسلمانوں اور تارکین وطن کو جرمنی سے بے دخل کرنے کے حق میں ہے۔ بیرٹلزمان کے اس جائزے میں جرمنی میں آباد بہت سے مسلمانوں نے ریاست اور معاشرے سے اپنی شدید وابستگی کا بھی اظہار کیا۔نتائج کے مطابق مسلم برادری کی نمائندگی کرنے والے نوے فیصد افراد نے کہا کہ وہ جمہوریت کو حکومت چلانے کے لیے ایک بہترین نظام سمجھتے ہیں۔ اس جائزے میں شامل 54 سال کی عمر سے زائد کے61 فیصد افراد اسلام کو خطرہ سمجھتے ہیں جبکہ 25 سال سے کم عمروں میں یہ شرح 39 فیصد ہے۔ اس حوالے سے اْن علاقوں میں زیادہ خوف پایا جاتا ہے، جہاں مسلمانوں کی آبادی بہت کم ہے۔جرمنی میں زیادہ تعداد میں مسلمان صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں آباد ہیں اور اس صوبے کے 46 فیصد افراد مسلم برادری سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ صوبے تھیورنگیا اور سیکسنی میں سب سے کم مسلمان آباد ہیں اور یہاں کی نوے فیصد آبادی مسلمانوں سے خوفزدہ ہے۔بیرٹلزمان فاؤنڈیشن میں مذہبی امور کی ماہر یاسمین المنصور کے مطابق یہاں آباد مسلمانوں کے لیے جرمنی ان کا آبائی ملک بن چکا ہے، لیکن اس کے باوجود انہیں منفی انداز میں دیکھا جاتا ہے اور اس کی وجہ اس برادری میں موجود انتہا پسندوں کی قلیل تعداد ہے‘‘۔ ساتھ ہی انہوں نے عوام میں بڑھتے ہوئے اسلام مخالف جذبات سے بھی خبردار کیا ہے۔یہ آزادی اظہار،یکساں حقوق کاعلبردار ملک کی ایک جھلک ۔ہندوستا ن میں بھی ایک پرائیویٹ چینل کے ایک اینکر نے پیرس میں حملے کے بعد شارلی ہیبدو میں شائع دل آزار کارٹون کو لہرا لہرا کر مسلما نوں کی دل آزاری کر رہا تھا۔ سنگھل نامی اس صحافی نے مسلمانوں کی دل آزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حکومت ہند کو فوراً اس صحافی کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔


آج حالات بدل گئے ہیں ایسی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ زیادہ شور مچانے کے بجائے ان تما م ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے جن ممالک کے اخبارات نے اہانت آمیز کارٹوں شائع کئے ہیں۔ آج پوری دنیا کے مسلمان اگر پیپسی اور کوکا کولا پینا ترک کر دیں اور امریکی مصنوعات خریدنا چھوڑدیں توامریکی، مغربی اور اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ آسان ہوجائے گا۔ آج مسلمانوں کو ان طاقتوں کو مقابلہ کرنا ہے تو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی ہوگی، عالم اسلام میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنا ہوگا۔ ان تمام ممالک کی مصنوعات کا خاموشی سے بائیکاٹ کرنا ہوگا جو مسلم مفاد اور اسلام کا دشمن ہیں۔ لیکن یہ طویل منصوبہ بندی کا حصہ ہونا چاہئے۔ پانچ دس برسوں میں آپ ان ممالک کے موقف میں مسلمانوں کے حق میں نمایاں تبدیلی محسوس کریں گے۔


ڈی۔ 64فلیٹ نمبر دس، ابوالفضل انکلیو ، جامعہ نگر، نئی دہلی۔ 25
abidanwaruni@gmail.com
9810372335


***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 583