donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abid Anwar
Title :
   Insdad Firqawarana Tashaddud Bill : Hukumat Ka Mansha Pas Karane Ka Tha Hi Nahi


انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل: حکومت کا منشا پاس کرانے کا تھا ہی نہیں 


تیشہ فکر  عابد انور 


    مرکزی حکومت نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ اسے صرف مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت ہے ان کے مسائل کے حل میںاسے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ کھیل وہ گزشتہ 65برسوں سے مسلمانوں کے ساتھ کھیل رہی ہے اور مسلمان اس کا ساتھ دینے پر مجبور ہیں کیوں کہ ہندوستانی آئین اورہندوستانی نظام انتخابات نے مسلمانوں کو اس لائق ہی نہیں چھوڑا ہے کہ وہ کوئی متبادل راہ کو اختیار کرسکیں۔ الیکشن کا نظام، سول سروس میں بحالی کا نظام اور پھر منتخب سول افسران کی تربیتی نظام یہ ایسے مراکز ہیں جہاں مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے طریقے سیکھا ئے جاتے ہیں۔ ہندوستان کا انتخابی نظام ایسا ہے جہاں مسلمانوں کے ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مسلمان اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود ان کی حیثیت دو کوڑی کی بھی نہیں ہے۔ وہ صرف استعمال کی چیز بن کر رہ گئے ہیں ۔ پاکستان میں ہندوئوں کی دو ڈھائی فیصد آبادی ہے لیکن ان کی نمائندگی کی شرح دس فیصد ہے۔ ایوان بالا میں اس کے دس نمائندے ہوتے ہیں اور ایوان زیریں میں بھی دس نمائندے ہوتے ہیں۔ ان کے لئے حلقے مخصوص ہیں جہاں سے صرف ہندو ہی کھڑ ے ہوسکتے ہیں۔ہندوستان میں پہلے تو حکومت نے مسلم حلقوں کو محفوظ قرار دیکر مسلمانوں کے حق پر ڈاکہ ڈلا اس کے بعدکئی حلقوں کو جنرل زمرے میں کر دیا گیا لیکن بہت سے حلقوں میں مسلمانوں کی نمائندگی ازسرنو حلقہ بندی کے ذریعہ کم کردی گئی۔مدھیہ پردیش میں اندور اس کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ اندورمیں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 28فیصد ہے لیکن کونسلروں کے الیکشن سے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کی نمائندگی برائے نام رہتی ہے۔ اندور کے کسی حلقہ سے کسی مسلمان کا منتخب نہ ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ازسرنوحلقہ بندی میں پورے ملک میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ فیصلہ کن حالت میں نہ رہے۔ رہی سہی کسر ہندوستان کی سیکولر پارٹیوں نے پوری کردی ہے۔ جہاںجہاں مسلم ووٹ فیصلہ کن ہے وہاں ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو امیدوار بنایا اور فرقہ پرست پارٹیوں نے کسی ہندو کو ،اور ووٹوں کی صف بندی کرکے وہ آسانی سے سارے مسلمانوں کو پچھاڑ دیتے ہیں۔دہلی کے اسمبلی حلقہ بابر پورمیں ایسا ہی ہوا تھا۔ اس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنی حیثیت اجتماعی شکل میں پیش نہیں کی۔ ان کا کردار بوجھ اٹھانے والا اور لاٹھی ڈھونے والے سے زیادہ کا نہیں رہا۔ پوری دنیا میں سب سے کامیاب پالیسی دبائو کی پالیسی ہوتی ہے۔ کوئی بھی ملک اسی وقت سر جھکاتا ہے جب اس پر دبائو پڑتا ہے اور وہ بھی ایسا دبائو جسے وہ جھیل پانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ اس کا بہت کچھ دائو پر لگا ہو ۔ مسلمانوں کا مسئلہ اس لئے حل نہیں ہوتا کہ ان کا وزن نہ کے برابر ہے اور ان میں انتشار اس قدر ہے کہ اگر کوئی دبائو ڈالنا چاہتا ہے تو دوسرا فوراً حکومت کو سہارا دینے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ اترپردیش میں ہونے والے فسادات پردہلی ایک مسلم لیڈر(نام نہاد) نے دبائو ڈالنے کے لئے ساتھ چھوڑ دیا تو بریلی کے ایک مولوی صاحب نے لال بتی کے لالچ میں فوراً ملائم کا دامن تھام لیااور انہوں نے نہ صرف ساتھ دیا بلکہ انتخابی شراکت بھی کی۔ اس کے باوجود وہ صاحب اتحاد ملت کی بات کرتے ہیں۔یہ چند اشارے کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کی بے وزنی کیوں ہے۔اس پر ہم غور کر سکیں اور یہ سوچیں کہ حکومت مسلمانوں کی باتوں کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیتی ہے۔یہ وہ طبقہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں پر کوئی آفت آئی ہے خوشی کا اظہار کرتاہے۔ مراداباد میں ہونے والے فسادات کے بعد اس نے کانگریس کے ایک لیڈر کے مالی تعاون سے ایک ریلی کی تھی جس میں انہوں نے مسلمانوں کے ایک طبقہ کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف سخت کارروائی کی مانگ کی تھی۔ اس کے بعد اسی کونسل نے کانگریسی لیڈر کے پیسے سے دہلی تک کوچ کیا تھا۔ 


     ہمارے اندر یہ وہ سوراخ ہے جسے بھرے بغیر ہماری بات میں کوئی وزن پیدا نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی ہمیں سنجیدگی سے لے گی۔اس کے باوجود ہم اس بات کا رونا روتے ہیں کہ ہم بے وزن کیوں ہیں۔ بے وزن ہونے کے سارے کام ہم خود کریں اور سیاسی پارٹیوں سے توقع رکھیں کہ وہ ہمیں وزن دار سمجھیں ۔ اس سوچ کو کیا کہا جائے گا۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔16دسمبر کو جنتر میں انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل کی حمایت میں جنتر منتر پر اے ایم یو لائرز فورم نے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا ۔ اے ایم یو لائرز فورم کے 700ممبران ہیں لیکن اس مظاہرہ میں پچاس ممبران بھی شریک نہیں تھے۔ اس مظاہرہ میں تمام ملی تنظیموں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی، اخبارات اور پمفلٹوں کے ذریعہ اس کی زبردست تشہیر کی گئی تھی لیکن مسلمانوں اور مسلم تنظیموں کی بے حسی دیکھئے کہ کسی مسلم تنظیم نے اس میں شرکت کرنے کی زحمت نہیں کی۔ مظفرنگر کے فسادزدگان اگر نہیں آئے ہوتے یہ مظاہرہ مکمل طور پر فلاپ ثابت ہوتا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اے ایم یو اولڈ بوائز اور اے ایم یو لائرز فورم کی سرگرمی قورمہ بریانی تک محدود ہے۔حالانکہ اے ایم یو لائرز فورم نے فساد متاثرین کے حق کے لئے مقدمات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اسے وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے مسلم رہنما (مذہبی اور سیاسی) ہمیشہ اتحاد کی بات کرتے نہیں تھکتے لیکن جب مظاہرہ کرنے کی نوبت آتی ہے وہ اپنے بلوں میں گھس جاتے ہیں اور اپنے خانے فٹ ہوجاتے ہیں۔ یہ مظاہرہ بہت اچھا موقع ثابت ہوسکتا تھا حکومت کو سخت پیغام دینے کے لئے، لیکن مسلمان جب گھر سے نکلیں گے ہی نہیں اور گلی محلوں اور ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر شکایت کریں گے تو اس سے تو مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ لوک پال بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ترمیم کے ساتھ پاس ہوگیا جب کہ کانگریس پارٹی یا کچھ لوگوں کی کی ضرورت تھی لیکن انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل قوم کی ضرورت تھی اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ پہلے تو یہ وعدہ کیا گیا کہ سرمائی اجلاس میں پاس کیا جائے گا لیکن پاس تو دور اسے پیش تک نہیں کیاگیا۔ کیوں کہ مسلمان کانگریس پارٹی کی حکومت یا کسی بھی پارٹیوں کو نقصان پہنچانے کی حالت میں نہیں ہیں۔ کانگریس پیش نہ کرنے کے لئے طرح طرح کے بہانے تراش رہی ہے۔


    لوک پال بل کو 44 برسوں کے لیت و لعل کے بعد آخر کار پاس کردیا گیااور صدر جمہوریہ کے دستخط کے ساتھ ہی قانونی شکل لے لے گا۔ پہلی بار لوک پال لفظ کا استعمال 1963 میں ایم پی ایلیم سنگھوی نے کیا تھا ۔ اس کے بعد چوتھی لوک سبھا کے دوران 1969 میں لوک پال بل کو شانتی بھوشن نے پیش کیا تھا ، لیکن اس سے پہلے کہ بل راجیہ سبھا میں منظور کیا جاتا ، لوک سبھا تحلیل ہو گئی اور بل اٹک گیا ۔ اس کے بعد لوک پال بل کو الگ الگ شکل 1971 ، 1977 ، 1986 ، 1989 ، 1996 ، 2001 ، 2005 اور 2008 میں دوبارہ پیش کیا گیا ، لیکن اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے بل پاس نہیں ہو سکا۔ 2011 کے سرمائی اجلاس میں لوک سبھا میں متنازعہ لوک پال بل کو سول سوسائٹی اور انا ہزارے کی تحریک کے دباؤ میں پیش کیا گیا ، لیکن ڈرامائی طور پر راجیہ سبھا میں بل پاس نہیں ہوسکا ۔جہاں تک بل کے دائرہ اختیار کا سوال ہے تو اس میں وزیر اعظم سے لے کر گروپ سی اور گروپ ڈی کے سرکاری ملازمین کے خلاف تحقیقات کرنے کی تجویز ہے ، لیکن گروپ بی ، گروپ سی اور گروپ ڈی کے حکام کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں سی وی سی کا اہم کردار ہوگا ۔ بدعنوانی کو کنٹرول کرنے والے موجودہ اداروں جیسے سی وی سی اور سی بی آئی کے کام کاج کا بھی ذکر بل میں کیا گیاہے۔ یہاں تک کہ لوک پال کے خلاف شکایت یا جانچ کا بھی التزام قانون میں موجود ہے۔لوک پال میں چیرمین کے علاوہ آٹھ رکن ہوں گے ، جن میں سے 50 فیصد رکن عدالتی سروس سے منسلک ہوں گے اور دیگر 50 فیصد رکن درج فہرست ذات ، درج فہرست قبائل ، اقلیتوں اور خواتین طبقے سے ہوں گے ۔سب سے اہم بات یہ ہے اس قانون کے تحت لوک پال کو جانچ کرنے کے لئے پہلے منظوری لینے کی ضرورت نہیں ہے اور بدعنوانی سے کمائی گئی جائیداد کو ضبط کرنے کا حق بھی ہے۔لوک پال اہم قانون ہے ، لیکن بدعنوانی کو ختم کرنے کے لئے ایک پیکج کی ضرورت ہے ، جس میں کئی قانون ہوں گے ۔ یہ دیکھنا کافی دلچسپ ہوگا کہ بدعنوانی میں کتنی کمی آتی ہے۔خصوصاً اس پس منظر میں کہ جہاں 75فیصد افراد بدعنوانی میں ملوث ہوں۔ 


    سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے بدلے رویے کو سمجھنے کے لئے ہمیں ملک کے عام آدمی کی نفسیات اور مزاج کو سمجھنا ہوگا ۔دہلی سمیت چاروں ریاستوں کے انتخابات میں کانگریس کی شکست فاش نے نہ صرف منموہن حکومت کو بلکہ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی کے چودہ طبق روشن کردئے ۔ عوام کے رخ کو پھانتے ہوئے اس نے آناًفاناً پہلے راجیہ سبھا میں اور پھر کچھ ترمیم کے ساتھ لوک سبھا میں دوبارہ پاس کردیا گیا۔مسلمانوں نے حالانکہ دہلی میں اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی لاج بچائی تھی لیکن کانگریس نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی۔ دہلی اسمبلی انتخابات میں بدعنوانی مخالف تحریک کی پیداوار عام آدمی پارٹی کے حق میں کھڑا ہو کر اس نے اپنی طاقت دکھا دی ہے ۔عام لوگ دونوں قومی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی سے ناراض اور مایوس ہیں ۔انہیں بدعنوان سیاست داں اور بدعنوانی قطعی پسند نہیں ہیں جب کہ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے عوام کو بدعنوانی پسند ہے۔ اس نفسیات کو مرکز میں حکمراں کانگریس اور اہم اپوزیشن پارٹی بی جے پی ، دونوں اب اچھی طرح سمجھ گئی ہیں ۔ انہیں نظر آنے لگا ہے کہ اگر عوام کو ان کے خلاف قابل اعتماد متبادل ملا تو وہ انہیں مستردکر دے گی ۔ اس لئے دونوں پارٹیاں خوفزدہ ہیں ۔لیکن انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل کے سلسلے میں کوئی بھی پارٹی خوفزدہ نہیں ہے۔ان کا تصور ہے کہ مسلمانوں کے کچھ بھی کرلیا جائے ان کا کوئی بال باکا کرنے والا نہیں ہے۔ 


    انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف مظلوموں کو انصاف ملے گا بلکہ ہندوستان کا وقار بھی بحال ہوگا۔آزادی کے بعد سے فسادات کا جو لامتناہی سلسلہ جاری ہے اسے روکنے میں مدد ملے گی۔اگر اس طرح کا قانون موجود ہوتا تو1983کا نیلی قتل عام،1984 کے سکھ مخالف فسادات، 1987  ہاشم پرہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے دوران پی اے سی کے ہاتھوں مسلم نوجوانوں کا قتل ، گجرات میں 2002 کا منظم قتل عام، 2007میں اڑیسہ میں عیسائیوں پر ہونے والے حملے، 2008میں مہاراشٹرکے بھتمانگے میں دلت خاندان پر حملے اور 2012میں آسام میں فرقہ وارانہ تشدد اور قتل عام اور حالیہ مظفرنگر فرقہ وارانہ فسادات نہ ہوتے۔ سپریم کورٹ کی مشہور وکیل ورندا گروور کا خیال ہے کہ مجوزہ بل میں نہ صرف فرقہ وارانہ مذہبی فرقوں کے درمیان تشدد کے واقعات بلکہ نسلی، ذات کی بنیاد پر اور تمام دیگر قسم کے تشدد کے واقعات کو شامل کیا جانا چاہئے۔ وہ کہتی ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ 1984کے سکھ مخالف فسادات، 1987میں ہاشم پورہ کا قتل عام اور 2002میں گجرات کے قتل عام میں مقدمات کی سماعت اب بھی جاری ہے جس میں متاثرین اور زندہ بچ جانے والے افراد غیر محفوظ طور پر عدالتوں کے چکر لگاتے ہیں ، اس سے بے پرواہ کہ انصاف ان سے کتنے طویل اور غیر یقینی فاصلے پر ہے۔


    اس بل کی خاص بات یہ ہے کہ فسادات کے لئے علاقے کے افسران کو ذمہ دار قرار دیاگیا ہے اور فسادات پر قابو نہ پانے والے افسران پر سخت کارروائی کی بات کہی گئی ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ اگر افسران چاہیں تو فسادات نہیں ہوں گے۔ اب تک بیشتر جگہ فسادات کے دوران افسران ملوث پائے گئے ہیں۔ خاص طور پر پولیس افسران کا کردار فسادات کے دوران مسلم مخالف رہا ہے۔ یہاں تک پولیس افسران اور پولیس اہلکار فسادیوں کو شیڈ فراہم کرتے ہیں۔ اس میں معاوضہ دینے کی بات کہی گئی ہے۔ مکمل بازآبادکاری کا مکمل خیال رکھا گیا ہے اور ذمہ داری طے کی گئی ہے۔ بی جے پی اگر یہ سمجھتی ہے کہ یہ بل اکثریتی طبقے کے خلاف ہے تو اسے وہ فہرست پیش کرنی چاہئے کہ آزادی کے بعد سے اب تک کتنے ہندو مارے گئے اور کتنے کو سزا ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ مظفرنگر میں ہندئوں پر بھی ظلم ہوا ہے تو یہ بتایا جائے کہ ہندو کے کتنے کیمپ ہیں، مسلمانوں کی طرح ان کے کتنے بچے کیمپ میں سرد ی سے ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کے کیمپ کہاں کہاں ہیں۔ جواب نفی میں آئے گا۔ بی جے پی اس بل کی مخالفت اس لئے کر رہی ہے کیوں کہ تقریباً تمام فساد زدہ علاقوں اور فساد کے اسباب کا مطالعہ کرنے کے بعد پتہ چلا ہے کہ اس کے پیچھے بی جے پی اور سنگھ پریوار کا ہاتھ ہوتا ہے اور بی جے پی کے ہی مقامی لیڈر فسادات کو بھڑکانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ 


    جمہوری ملک ہندوستان میں پچاس ہزار سے زیادہ فسادات ہونے باوجود اس کی انسداد کے لئے اب تک کوئی قانون کیوں نہیں بنایا گیا جب کہ اس دوران تمام طبقوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے کئی طرح کے قانون بنائے گئے۔ دلت ایکٹ بنا۔ ایس سی ایس ٹی کیلئے قانون بنے لیکن مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کوئی قانون کیوں نہیں وضع کیا گیا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کو داخل زنداں کرنے کے لئے ٹاڈا اور پوٹا جیسے سیاہ قانون بنائے گئے۔ انسداد فرقہ وارانہ بل کئی سالوں سے ٹھنڈے بستے میں ہے۔ بی جے پی ہی واحد پارٹی ہے جو اس کی کٹر مخالف ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فسادات کے دوران کون سرگرم رول ادا کرتا ہے۔ بی جے پی اس بل کے بارے میں پروپیگنڈہ کر رہی ہے کہ بل میں مذہبی اقلیتوں کی طرف سے اکثریت کے خلاف تشدد کی روک تھام کا انتظام نہیں ہے۔بل کا بنیادی مقصد اجتماعی تشدد کو روکنا ہے، جس کے شکار زیادہ تر معاملات میں اقلیتی ہوتے ہیں۔ پولیس، بیوروکریسی اور ریاستی انتظامیہ کے تعصبات کے شکار بھی اقلیتی ہوتے ہیں۔صرف بی جے پی کی مخالفت کی وجہ سے مرکز کی کانگریس حکومت نے اس بل کو التوا میں ڈال رکھا ہے۔ کانگریس جو فیصلہ کرنا چاہتی ہے یا بل پاس کرانا چاہتی ہے وہ آرام سے کرالیتی ہے لیکن انسداد فرقہ وارانہ بل کے بارے میں اس کا نظریہ بی جے پی سے ہم آہنگ ہے۔


ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔25
9810372335
abidanwaruni@gmail.com

************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 449