donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abid Anwar
Title :
   Philisteen : Musalmano Ki Be Basi Ki Aik Dilkharash Tasweer


فلسطین:مسلمانوں کی بے بسی کی ایک دلخراش تصویر


تیشہ فکر  عابد انور 


    مسلم قوم کو چکنے گھڑے سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ یہ دنیا کی واحد قوم ہے جو ہر جگہ، ہر قدم پراور ہر لمحہ ٹھوکریں کھانے، جبروتشدد سے دوچار ہونے، پریشان کئے جانے، ایک کو دوسرے کے لئے استعمال ہونے اور ظلم و ستم کی چکی میں پسنے اور اس کے لئے انتشار کو ذمہ دار قرار دینے کے احساس کے باوجود اتحاد کا دامن نہیں تھامتی۔ جس مجلس میں جائیں، جس سے بات کریں،جس مسلک والے علمائے کے خیالات سنیں وہ سب یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ ہم میں اتحاد کی کمی ہے۔ عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ ہو یا خلیج تعاون کونسل یا تنظیم اسلامی کانفرنس ہر پلیٹ فارم پر اتحاد پر زور دینے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جب یہ سارے مسلم حکمراں کانفرنسوں سے آتے ہی وہ سب بھول جاتے ہیں اور دانستہ یا نا دانستہ طور پر اسلام اور مسلمانوں کی قبر کھودنے والوں کو فائدہ پہنچانے میں ہمہ تن مصروف ہوجاتے ہیں۔ امریکہ یا یورپ کے ممالک مسلم حکمرانوںکی آپسی چپقلش سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ امریکہ کی اقتصادی محل مسمار ہوچکی ہوتی اگر سعودی عرب نے گزشتہ چند برسوں میں60 بلین ڈالر کا اسلحہ کا معاہدہ نہ کیا ہوتا۔ اس کے علاوہ خلیجی کے دیگر ممالک اسلحہ امریکہ سے اسلحہ نہ خرید رہے ہوتے۔ مسلم ممالک امریکہ اور یوروپی ممالک کے خزانے کو مختلف طریقوں سے بھر رہے ہیں۔ قطر، بحرین، اردن ، متحدہ عرب امارا ت اور دیگر خلیجی ممالک امریکہ سمیت دیگر یوروپی ممالک سے بے تحاشہ اسلحہ خرید رہے ہیں۔ اس روش میں اضافہ کرنے میں ایران بھی برابر کا شراکت دار ہے۔ایران جو بھی قدم اٹھاتا ہے اس کا بلاواسطہ یا بالواسطہ امریکہ اور مغربی ممالک کو فائدہ پہونچتاہے۔ ان ممالک نے امریکی دخل کو اپنے یہاں اس قدر رواج دے دیا ہے کہ امریکی اشارے کے بغیر حکمراں ٹولہ سانس بھی نہیں لے سکتا۔ خلیجی ممالک نے عوامی بیداری کے خوف سے اپنے عوام کو کسی میدان میں آگے نہیں بڑھنے دیا۔ اللہ نے خلیجی ممالک کو وسائل کی نعمت سے مالامال کیا ہے لیکن انہوں نے اپنے نکمے پن اور عیاشی کی وجہ سے تمام چیزوں کو اپنے دشمنوں کے حوالے کردیا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ یہ ممالک تمام چیزیں مغربی ممالک سے برآمد کرتے ہیں۔ اتنے وسائل اور دولت کے باوجود اپنے یہاں انہوں نے نہ تو زراعت کو فروغ دیا اور نہ ہی صنعت و حرفت قائم کرنے میں کوئی دلچسپی لی اور نہ ٹکنالوجی کے میدان میں کوئی کام کرسکے صرف یوزرس بن کر اپنے دشمنوں کا خزانہ بھرتے رہے۔ اسی کا خمیازہ ہے کہ آج مغربی ممالک جس طرح چاہتے ہیں مسلمانوںکو ذلیل کرتے ہیں۔ ہر اصول کی اپنے مفاد کے حساب سے تشریح کرتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں کرنے پر مجبور کرنے کے لئے امریکہ اور برطانیہ نے اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کو ہر طرح کے مظالم ڈھانے کی نہ صرف چھوٹ دے رکھی ہے بلکہ اسلحہ، فنڈ اور تمام چیزیں فراہم کر رہا ہے۔ مسلم ممالک یہ ذلت آج سے نہیں 1948سے جھیل رہے ہیں۔ عرب قوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہت ہی غیرت مند قوم ہوتی ہے لیکن پے درپے جنگوں میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست، امریکی غلامی اور عیاشی نے اسے بزدل قوم میں تبدیل کردیا ہے۔ اسی کا فائدہ اسرائیل اٹھارہاہے کہ وہ جب چاہتا ہے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کردیتا ہے۔اگر خطے کے ممالک فلسطین کو فنڈ اور اسلحہ فراہم کرتے تو آج یہ حالت نہ ہوتی اور فلسطینی جانباز اپنے دم پر ہی اسرائیل کا ناطقہ بندکردیتے۔ عرب ممالک نے ہمیشہ ضابطوں کا حوالہ دے کر فلسطینی کی مدد سے گریز کیا جب کہ امریکہ اور مغربی ممالک نے تمام ضابطوں کی دھجیاں اڑاکراسرائیل کو نہ صرف عرب ممالک سے بچایا ہے بلکہ اقوام متحدہ (امریکہ کا رکھیل) کو استعمال کرکے اسے تمام کارروائیوں سے محفوظ رکھا۔ 


     تمام دنیا سے دہشت گردی کو ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والا امریکہ آج دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد کے طور پر ابھرآیا ہے کیوں کہ اسرائیل کے ذریعہ فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کا پہاڑ توڑ رہا ہے ان مکانا ت کو منہدم کئے جارہے ہیں جس میں فلسطینی رہ رہے تھے۔امریکہ کی زبان اور لب ولہجہ میں ایسی رعونت و خشونت درآئی کہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ پورے عالم کا واحد حکمراں ہو اور دنیا کی تمام حکومتیں اس کے باج گزار۔ کسی حکومت کی ان کے خلاف لب کشائی کی ہمت نہیں خاص کر مسلم ممالک کے حکمراں کی۔ ان حکمران پر خوف اور بزدلی کا لرزہ طاری ہے۔ استعماریت کا سلسلہ صدیوں پرانا ہے ہر دور میں کوئی نہ کوئی بڑے سامراج کے طور پر ابھر کر آیا لیکن سبھی ایک دن خاک میں مل گئے رہ گئی تو تاریخ کے صفحات میں ان کی بکھری  ہوئی داستانیں۔ہلا کو اور چنگیز خاں جن کا تعلق بدھ مذہب سے تھا تاریخ کے پنے پر ان کے مظالم کے خونچکاں داستان زندہ ہیں۔برطانیہ جس کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا آج وہ ایک خطہ میں سمٹ کر رہ گیا ہے اگر ان سے پوری دنیا سے لوٹی ہوئی لولت لے لی جائے تو روانڈا سے اچھی حالت اس کی نہیں ہوگی۔امریکہ نے بھی تاریخی حقائق و عبرتناک واقعات سے منھ توڑ تے ہوئے خود کو دنیا کا خدا سمجھ بیٹھا ہے اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کے ذریعہ فلسطینی مسلمانوں کو تباہ کرنے کے عمل پر رواں دواں ہے۔آج اسرائیل امریکی ٹنینکوں، لڑاکا طیاروں اور دیگر ہتھیاروںسے نہتے فلسطینیوں پر مسلمانوں پر حملے کررہاہے۔امریکہ کے مہیا کردہ اسلحہ جات اور اس کی شہ پر تمام عالم عرب کے سینہ پر بیٹھا منھ چڑھا رہا ہے۔اسرائیل کی سرکاری دہشت گردی امریکہ کو نظر نہیں آتی بلکہ امریکی صدر اور اس کے وزراء فرماتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ دفاع کا حق اس کو حاصل ہوتا ہے جو مظلوم ہو،جس نے جبرواستبداد کو برداشت کیا ہو اور فلسطینی مسلمان گزشتہ 50۔ 60 سالوں سے اسرائیلی مظالم سہتے آرہے ہیں، دفاع کا حق تو صرف فلسطینی مسلمانوں کو حاصل ہے نہ کہ اسرائیل کو۔ امریکہ جس طرح فلسطینی مسلمانوں کی قیمت پر اسرئیل کی پرورش و پرداخت کررہاہے وہ ان کی تباہی و بربادی کا سامان لئے ایک دن کھڑا ہوگا اور اس کی قیمت امریکہ کو چکانی پڑیگی اور پڑرہی ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ امریکہ اسرائیل پر ستی اور اپنی بے پناہ طاقت کے زعم میں اپنے ملک کے لئے تباہی و بربادی کی دعوت انجانے میں دے رہاہو اور اسرائیل کی بداعمالیاں اس کے گلے کی ہڈی بن جائیں۔کیونکہ تاریخ تمام مظالم اور جورو جفا کا حساب و کتاب رکھتی ہے اور حساب و کتاب بھی چکتا کرتی ہے اس لئے کہ ہر عروج کے لئے زوال ہے۔


    فلسطین پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری جاری ہے اسلامی ممالک صرف اجلاس مدعو کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ یہ کیسی بے بسی ہے کہ 54اسلامی ممالک کے رہتے ہوئے فلسطین کو گزشتہ ساٹھ برسوں سے صیہونیوں مظالم کے چکی میں پسنے کے لئے یکا و تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایسا دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان ممالک کے حکمراں اور عوام نے اخوت اور غیرت و حمیت کو صرف تقریر تک تک محدود کردیا ہے۔آٹھ سو سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور ڈھائی زہزار سے زائد زخمی ہیں۔ ان میں سے بھی سنگین زخمی کی تعداد زیادہ ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق ان میں سے 20 فیصد تعداد بچوں کی ہے۔ فلسطینیوں کو گھروں سے نکلنے کیلئے ایک منٹ کا وقت دیا جاتا ہے کیا کوئی ایک منٹ میں گھر سے نکل سکتا ہے۔ اس کے بعد گھر پر بمباری کرکے تباہ کردیا جاتا ہے۔ تمام عرب اور مغربی ممالک خاموش ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ، مصر اور ایران کی مرضی کے بغیراسرائیل فلسطین پر ہاتھ ڈالنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ آج قابل نفرت ہے تو اسرائیل امریکہ اور یوروپی ممالک سے زیادہ سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات ، دیگر عرب ممالک اور ایران قابل نفرت ہے۔متحدہ  عرب امارات کے کچھ لوگ جو ریلیف کیلئے اسرائیلی کے لئے جاسوسی کرتے ہوئے پکڑے گئے، اسی طرح موساد کے سربراہ نے ایک بیان میںکہا تھا کہ ’ہمیں خوشی ہے کہ سعودی عرب حماس کی مدد نہیں کر رہاہے’۔ حسب سابق ترکی فلسطینیوں کی حمایت میں نہ صرف کھل کر سامنے آگیا ہے بلکہ اس کیلئے سفارتی کوششیں بھی کر رہا ہے۔ ترک وزیر اعظم نے کہا کہ اسرائیل کا غزہ پر حملہ کرکے فلسطینیوں کی ’منظم نسل کشی‘ کر رہا ہے۔ غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں کے بارے میں ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوآن کی طرف سے اب تک کی سخت ترین تنقید سامنے آئی ہے۔ ان کا اسرائیل پر الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کی ’منظم نسل کْشی‘ کر رہا ہے۔ ترک وزیراعظم کے بقول، ’’ ہم یہ منظم نسل کْشی ہر رمضان میں دیکھ رہے ہیں۔ مغربی دنیا اس پر خاموش ہے اور اسلامی دنیا بھی ایسا ہی کر رہی ہے۔ کیونکہ جن کے جانیں گئی ہیں، وہ فلسطینی ہیں اور آپ ان کی آواز نہیں سن سکتے۔‘‘


    امریکہ نہ صرف اسرائیلی مظالم کی پردہ پوشی بلکہ اس کا میڈیا اس سے کئی قدم آگے ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکی اور مغربی میڈیا غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے جارحانہ فضائی حملوں میں فلسطینیوں کی شہادتوں اور تباہ کاریوں کی کس طرح پردہ پوشی کررہا ہے یا اسرائیلی جارحیت کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے،اس کا اندازہ ان کی کوریج دیکھ کر بخوبی کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی اس پیشہ ورانہ بددیانتی پر سب خاموش نہیں ہیں۔رشیا ٹوڈے کی واشنگٹن میں موجود پیش کار ایبی مارٹن براہ راست نشریات کے دوران امریکا اور امریکی میڈیا پر برس پڑی ہیں۔ایبی مارٹن نے امریکا کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی مسلسل حمایت کی آن ائیر مخالفت کی ہے اور وہ اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے بالکل بھی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوئی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ''اس وقت مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کے پاس دو ہی انتخاب رہ گئے ہیں: وہ مکمل طور پر ہتھیار ڈال دیں یا مزاحمت کریں۔اس وقت ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں ،یہ مزاحمت ہی ہے''۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ''مجھے فلسطینی دوستوں سے ہمدردی ہے کیونکہ اسرائیل جب کبھی دنیا کی اس کھلی جیل (غزہ کی پٹی) میں رہنے والے بے گناہ لوگوں کے خلاف جارحانہ حملے کرتا ہے تو وہ ہرمرتبہ اپنے دوستوں اور خاندانوں سے محروم ہوجاتے ہیں''۔امریکی میڈیا کی فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کی متعصبانہ کوریج کا یہ عالم ہے کہ ایک مقبول امریکی چینل اے بی سی نیوز نے اپنی16 جولائی کی نشریات میں جنگی طیاروں کی بمباری سے بے گھر ہونے والے فلسطینی خاندان کو اسرائیلی بنا دیا تھا اور پھر سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد اس کو اس فاش غلطی پر معذرت کرنا پڑی تھی۔


    دنیا کے کئی ممالک میں اس کے خلاف لوگ سڑکوں پر اتر رہے ہیں۔ جہاں کچھ اسلامی ممالک میں لوگ حکومت اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں وہیں ہندوستانی مسلمان بھی (علما نہیں)سڑکوں پر ہیں۔ کئی تنظیموں نے اسرائیل کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ یونانیٹڈ مسلم فرنٹ کے چیئرمین شاہد علی نے اسرائیل کے خلاف مظاہر ہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اپنی جارحیت سے باز نہیں آرہا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم ممالک خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ فلطسین میں جس طرح جان و مال کا نقصان اور مکانوں کو بم کے ذریعہ زمین دوز کیا جارہا ہے اس سے اسرائیل کی وحشیانہ اور بہیمانہ سونچ کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کی مسلم تنظیموں کے رویہ پر افسوس کے اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہلی میں ہزاروں کی تعداد میں مسلم تنظیمیں ہیں لیکن سڑکوں پر اس کا کوئی پتہ نہیں چلتا ۔نہ وہ  ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کے سلسلے میں سڑکوں پر اترتے ہیں اور نہ ہی دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف سڑکوں پر اترتے ہیں۔ سی پی آئی کے نوجوان لیڈر عمیق جامعی نے بھی اسرائیلی سفارتخانہ کے باہر طلبا اور دیگر گروپوں کے ساتھ  اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہرہ کیا اور انہوں نے کہا ہے کہ ہندوستانی عوام ہمیشہ فلسطینی کاز کے لئے سرگرم عمل رہے ہیں۔لیکن اس حکومت سے بہت امید نہیں ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی اسرائیل کے خلا ف مظاہرہ کیا۔ صرف اسرائیل کے خلاف مظاہرہ کرنے کے کوئی بات نہیں بنے گی جب تک مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ، ایران اور دیگر خلیجی ممالک کے خلاف مظاہرہ نہ کیا جائے۔ ان تمام تنظیوں کو چاہئے کہ وہ ان ممالک کے خلاف بھی مظاہرہ کریں جو اسرائیل کے لئے معاون ثابت ہورہے ہیں۔ کوئی بھی بڑی مسلم تنظیم سعودی عرب یا امریکہ کے خلاف مظاہرہ کرنے کی ہمت نہیں کرسکتیں کیوں کہ انہیں ٹکڑا انہیں ممالک سے فراہم ہوتا ہے اور اپنے چند روزہ عیاشی کے لئے وہ مسلمانوں کوکسی بھی غار میں دھکیلنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔


یہ اچھی بات ہے کہ سعودی نوجوانوں نے ٹوئٹر کے ذریعہ اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھانا شروع کردیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق سعودی نوجوانوں نے ٹوئٹر کے ذریعے غزہ کے ان مظلوم باشندوںسے براہ راست رابطے بھی کرنا شروع کر دیے ہیں جن کے پاس ابھی بھی انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے اور وہ غزہ سے غافل دنیا کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان نوجوانوں کی کاوش ٹوئٹر کے توسط سے سامنے آنے والے غزہ کے اندر کے واقعات پر مبنی ہے۔ ان میں سے اکثر ''ٹویٹس'' عین اسی وقت سعودی نوجوانوں کے ذریعے آگے منتقل ہو جاتے ہیں۔ان میں اسرائیلی بمباری سے ہونے والی شہادتوں، مکانات اور مساجد کی تباہی کے علاوہ بمباری کے اندوہناک مناظر فورا عرب دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ جن کی بدولت دنیا بھر کے لوگوں کے قلب و ذہن کو 8 جولائی سے جاری اسرائیلی بمباری کی تباہ کاریوں سے آگاہ ہو رہے ہیں۔ہر عمر اور طبقے کے سعودی شہری سوشل میڈیا پر غزہ کے حوالے سے اسی طرح کی سرگرمیاں عربی یا انگلش میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے ٹویٹس اہل غزہ کے لیے دعاوں، حوصلے اور ہمدردی کا باعث ہیں۔ان ٹویٹس کے ذریعے اہل غزہ کے دکھوں، زخموں، بچوں پر ہونے والے مظالم کے احوال کے علاوہ ان موضوعات پر مبنی تصاویر عام طور پر ایک دوسرے کو ٹویٹ کی جاتی ہیں۔شروع میں ان ٹویٹس پر اسرائیل سے متعلق کارٹون وغیرہ آتے تھے لیکن اب جوں جوں غزہ میں ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں۔ ان ٹویٹس میں ہلاکتوں اور تباہیوں کا ذکر زیادہ ملنے لگا ہے۔پوری دنیا میں مسلمان اس وقت جس بے بسی ، بے کسی ، مجبور و لاچاری کا شکار ہیں اس طرح کی لاچاری اور ہلاکوں اور چنگیزی کے دورمیں بھی نہیں رہی ہوگی۔ مسلمانوں کو اپنے احساس کمتری سے باہر آکر اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنی ہوگی ورنہ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے ساتھ فلسطین جیسا رویہ اپنائے جانے لگے کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ متحد ہوکر وہ اسرائیلی مفادات کے خلاف کام کریں جب تک امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچے گا اس وقت تک مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ جاری رہے گا۔


ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔ 10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 110025
9810372335 
abidanwaruni@gmail.com

*********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 411