donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abid Anwar
Title :
   V. K. Singh Ki BJP Mei.n Shamuliyat


وی کے سنگھ کی بی جے پی میں شمولیت

پہنچی وہیں پہ خاک جہاںکی خمیر تھی


تیشہ فکر  عابد انور 


    نریندرمودی کو وزیر اعظم کے عہدہ پر بٹھانے کیلئے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی (آر ایس ایس)کی کس طرح بڑے پیمانے پر تیاری چل رہی ہے اس کا اندازہ گزشتہ تین روز میںپیش آنے والے واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔ آر ایس ایس کوئی بھی موقع اور کوئی بھی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑنا چاہتا جس سے نریندرمودی کی فتح کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی ہوجائے۔ ویسے ہندوستان کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جہاں آر ایس ایس کے نظریات کے حامل افراد کی کوئی کمی ہو ۔فوج، پولیس، خفیہ محکمہ اور انتظامی محکمہ تو اس کاگڑھ ہے۔ 1925کے قیام کے بعد آر ایس ایس نے انگریزوںکے لئے مخبری اور ان کاکام آسان کرکے کس طرح حب الوطنی کا ثبوت دیا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس کا سیاسی بازو اس وقت سب سے بڑی قوم پرست پارٹی ہے۔آزاد ہندوستان میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ اسی تنظیم کے رکن ناتھورام گوڈسے نے بابائے قوم مہاتمام گاندھی کوقتل کرکے انجام دیا۔ گاہے بگاہے یہ تنظیم اور اس کے کارندے ملک میں اس طرح کاماحول پیدا کرتے اور حب الوطنی کا پیمانہ بناتے رہتے ہیںجس میں مسلمانوںکو جانی، مالی، معاشرتی اور اقتصادی طور پر نقصان پہنچانا بھی حب الوطنی کے زمرے میں آتا ہے۔ 1998اور 1999کے لوک سبھا انتخابات پر نظر ڈالیں جس میں اس طرح کاماحول بنایاگیا تھا کہ جو بی جے پی کے ساتھ ہے وہ وہ دیش بھکت ہے اور جو اس کے خلاف ہے وہ ملک سے محبت نہیں کرتا۔ یہ سلسلہ 2004تک چلا تھا جب انڈیا شائننگ (چمکتا ہندوستان) پر رات دن ٹی وی چینلوں، اخبارات میں اشتہارات اور شاہراہوںکے ہر بڑے چوراہے پر بڑے بڑے ہورڈنگ لگے ہوئے تھے جس میں بی جے پی نے ہندوستان کے تمام مسائل حل کردئے تھے، غربت ختم کردی تھی،ہر طرف سونے کی چڑیا چہچہا رہی تھی ۔امبانی برادران ملک کے سب سے بڑے امیر آدمی کے طور پر ابھرے تھے۔ ایک معمولی ٹیچر کابیٹا سیاست داں بنتے ہی ارب پتی ہوچکا تھا۔ اسپیکٹرم کے بندر بانٹ میں پرائیویٹ ٹیلی کام کمپنی ’کرلو دنیا مٹھی میں‘ نعرے کے ساتھ حکومت کو اربوں روپے کا چونا لگاچکی تھی۔ غریبوں کی غربت میں اور مالداروںکی امارت میںبے تحاشہ اضافہ ہوچکا تھا ۔ یہ تھا بی جے پی کا انڈیاشائننگ جس کا جواب ملک کے عوام نے نہایت خاموشی کے ساتھ بی جے پی کو شکست دے کر دیا تھا۔ 1998اور 1999کے حالات کے مقابلے میں اس وقت قوم پرستی کا ڈنکا زیادہ زور سے پیٹا جارہاہے۔ اتنے خواب دکھائے جارہے ہیںکہ اس کے بعددکھانے کیلئے کوئی خواب نہیں بچے گا۔ عوام سے پل جھپکتے ہی تمام مسائل کے حل کی امیددلائی جارہی ہے۔نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے کیلئے بے تاب رام دیو ہندوئوں کو یہ کہکر طلسماتی دنیامیںلے جارہے ہیںکہ نریندرمودی کے وزیر اعظم بنتے ہی کالا دھن ملک میںواپس آجائے گا اور ہندوستان کے ہر شہری کو دس سے پندرہ لاکھ روپے مل جائیں گے اور وہ اس کیلئے گھر گھر جارہے ہیں۔دیومالائی عقیدے کے حامل لوگوںکو اور کیا چاہئے۔ ہندوستانی عوام وعدے کی بنیاد پر ہی فرقہ پرستی کاحصہ بنتے آرہے ہیں۔ اسی طرح سابق آرمی چیف، سابق آئی بی سربراہ، سابق داخلہ سکریٹری نہ جانے کتنے سابق افسران بالواسطہ یا بلاواسطہ بی جے پی کادامن تھامے ہوئے ہیں اور اپنے عہدے پررہتے ہوئے بی جے پی کیلئے کام کر تے رہے ہیں۔اب انا ہزارے کے کور ممبر نہ صرف بی جے پی کیلئے کام کر رہے ہیںبلکہ بی جے پی میںشامل ہوچکے ہیں۔ اناتحریک کے آغاز میں یہ لکھا تھا کہ ہندوستان میں جتنی بھی سماجی، سیاسی یا دیگر تحریکیں چلی وہ تمام بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کیلئے چلی تھیں اور ان تمام تحریکات کے بعد فسطائی طاقتوں کو عروج حاصل ہوا تھا۔ 2009میں بی جے پی کی ذلت آمیز شکست کے بعد اس نے یہ طے کرلیا تھا کہ تحریک، تشدد، نفرت اوراشتعال انگیزی کے بغیر اقتدار میں پہچنے کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔ 2009کے بعد فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اس میںبی جے پی کے مقامی لیڈروں کا نمایاں کردار ادا رہا ہے۔یہ بات رپورٹ میں عیاں ہے۔ دام،ڈنڈ، بھید کے تحت آر ایس ایس نے بی جے پی میں اپنے تمام کنبوںکو اکٹھاکرنے کی کوشش شروع کردی ہے اور ادت راج، رام ولاس پاسوان اور سابق فوجی سربراہ  وی کے سنگھ سمیت کئی سابق فوجی افسران کی بی جے پی میں شمولیت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔


    سابق فوجی سربراہ وی کے سنگھ بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں ۔بی جے پی صدر راج ناتھ سنگھ کی موجودگی میں انہوں نے پارٹی کی باضابطہ طور پر رکنیت حاصل کی ۔ ان کے ساتھ کئی اور سابق فوجی افسر بی جے پی میں شامل ہوئے ۔وی کے سنگھ کافی وقت سے بی جے پی میں شامل ہونے کا اشارہ دے رہے تھے ۔ وہ اپنی نئے کردار میں ملک کی خدمت کرتے رہنا چاہتے ہیں وہ مئی 2012 میں فوج کے سربراہ کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے ۔ لیکن ان کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ان کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں کافی تنازعہ ہوا اور معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا تھا ۔ان کی اس حرکت سے ہندوستانی فوج کی پوری دنیامیں شبیہ خراب ہوئی تھی۔ سوال یہ تھاکہ وی کے سنگھ کو آخری وقت عمر کی تصحیح کی یاد کیوں آئی تھی۔ غلطی کسی ایک جگہ ہوسکتی ہے لیکن ہر جگہ نہیں۔ جو محب وطن ہوگا وہ ہندوستانی فوج کی بدنامی کا باعث نہیں بنے گا اور نہ ہی دنیا کو یہ پیغام دے گا کہ ہندوستانی فوج میں نظم و ضبط کا فقدان ہے۔ اس معاملے میںسپریم کورٹ نے سا بق آرمی چیف جنرل (ر ) وی کے سنگھ کو نوٹس جاری کر یہ بتانے کے لئے کہا تھا کہ عمر تنازع کے مسئلے پر عدالت عظمی کے فیصلے پر سوال اٹھانے کے لئے کیوں نہیں ان کے خلاف عدالتی توہین کی کارروائی شروع کی جائے ۔ خصوصی بنچ نے جنرل وی کے سنگھ کے بیان پر از خود نوٹس لیتے ہوئے نوٹس جاری کیا تھا۔ یہ بیان 22 ستمبر کو ایک اخبار میں چھپا تھا ۔اس کے بعد جنرل وی کے سنگھ نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی تھی۔جنرل وی کے سنگھ نے اپنے حلف نامے میں کہا تھا کہ ان کا سپریم کورٹ اور ججوں کی توہین کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور وہ پورے تنازع کیلئے بغیر کسی شرط کے معافی مانگتے ہیں۔ہندوستانی آئین میں جنرل وی کے سنگھ کا کتنا اعتماد ہے اس کا اندازہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہیں پر بس نہیں کیا انہوں نے جموں وکشمیر کے وزرائے اور ممبران اسمبلی کے سلسلے میں متنازع بیان دیتے ہوئے ان لوگوں کو فنڈنگ کرنے کی بات عوامی طور پر کہی۔ سابق آرمی چیف نے کہا تھا کہ 1947 سے ہی فوج کے خفیہ فنڈ سے ریاست کے وزراء کو پیسہ دیا جا جا رہا ہے۔اس متنازعہ بیان کے بعد جموں وکشمیر کے اسپیکر نے نوٹس جاری کرکے اسمبلی میں حاضر ہونے کو کہا لیکن وہ قانون کو انگوٹھا دکھاتے ہوئے اب تک وہاںحاضر نہیںہوئے ہیں۔ ۔حکمراں نیشنل کانفرنس اور اپوزیشن پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ( پی ڈی پی ) نے اسمبلی میں سابق فوجی سربراہ کو طلب کئے جانے کی مانگ کو لے کر ہنگامہ کیا تھا۔جنرل وی کے سنگھ پر فوج کو بغاوت کیلئے اکسانے کا بھی الزام ہے۔ انہوںنے اس سلسلے میں وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کو قانونی نوٹس بھیج کر دھمکی دی ہے کہ کچھ لوگوں کے خلاف ان کی شکایات پر کارروائی کرنے میں ' ناکام ' رہنے پر وہ انہیں عدالت میں گھسیٹ سکتے ہیں ۔ وزیر داخلہ کو اپنے وکیل وشوجیت سنگھ کے ذریعہ بھیجے گئے نوٹس میں جنرل وی کے سنگھ نے کہا ، ' اتنے سنگین معاملے میں ، جس کا ہندوستان کی قومی سلامتی پر براہ راست تعلق تھا، پر کوئی کارروائی نہ کرکے ذمہ داری میں غفلت برتنے پر آپ کے خلاف عدالتی مداخلت کا مطالبہ کیوں نہیں کیاجانا چاہئے ۔سابق فوجی سربراہ نے بتایا کہ انہوں نے ان کے اوپر سال 2012 میں فوجی بغاوت کی کوشش کا الزام لگانے والے کچھ میڈیا رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے شنڈے سے کچھ لوگوں کے خلاف غداری ، وطن اور سرکاری پرائیویسی قانون کی خلاف ورزی کے جرائم کے بارے میں شکایت کی تھی اور ان سے معاملے کی تفتیش کرنے کی مانگ کی تھی ۔


    بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد وی کے سنگھ نے کہا ، " مجھے یقین ہے کہ ہم پارٹی کو مضبوط بنائیں گے اور آگے بڑھا سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کے بیانات سے لگتا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو قومی سلامتی پر کافی توجہ دیں گے ۔ مرکزی حکومت پر الزام لگاتے ہوئے سنگھ نے کہا کہ اس حکومت نے قومی سلامتی پر اتنا دھیان نہیں دیا جتنا دینا چاہئے تھا ۔انہوں نے کہا ، " ایک ہندوستانی پیداوار سسٹم ہونا چاہئے تھا ۔ ہمیں کسی پر انحصار نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ آج ہمارا پرائیویٹ سیکٹر اتنا مضبوط ہے لیکن ہم ان کا استعمال نہیں کر رہے ہیں ۔ یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کیونکہ ایک ہتھیار لابی اسے آگے نہیں بڑھنے دے رہی ہے ۔انہوںنے چین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ، " چین اپنے زیادہ تر ہتھیار خود بنا رہا ہے لیکن ہم نہیں کر رہے ہیں ۔ہندوستان میں ہتھیار صنعت کی وجہ سے کچھ لوگوں کو فائدہ ملتا ہے اس لئے وہ اسے آگے بڑھنے نہیں دے رہے ہیں ۔ وی کے سنگھ انا ہزارے کے ساتھ پورے ملک کا دورہ کرچکے ہیں۔ جب انہوںنے ٹیم انا کو جوائن کیا تھا اس کے بعد انا ہزارے کی مقبولیت میںکمی آنے لگی تھی۔ ان کے بارے جو خدشات تھے وہ درست ثابت ہوئے ہیں۔ 


    اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک کا نوجوان نریندرمودی کو پسندکرنے لگا ہے ۔کیوںکہ ہندوستان میں اندھوں کے درمیان آئینے کی تجارت اور گنجوں کے درمیان کنگھوں کی تجارت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اس لئے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس میں ہندی میڈیا اور انگریزی میڈیا کا بڑا کردار ہے۔پیسے کا کیا کردار ہے نریندر مودی کی مہم سے بھی اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ابھی حال میں امریکی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ امریکہ میں کئے گئے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں تقریبا 63 فیصد ہندوستانی ووٹر اپوزیشن پارٹی بی جے پی کے حق میں ہیں ، جبکہ صرف 20 فیصد سے بھی کم لوگ حکمراں کانگریس کے حق میں ہیں ۔ساتھ ہی سروے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم کے عہدے کے لئے بی جے پی کے امیدوار نریندر مودی کانگریس کے امیدوار راہل گاندھی سے کہیں زیادہ مقبول ہیں۔ پی ای ڈبلیو ریسرچ نے کہا ہے ، ' ہندوستانی پارلیمانی انتخابات میں کچھ ہی ہفتے بچے ہیں ۔نگریس کے برعکس تقریبا 63 فیصد ووٹر ہندو قوم پرست پارٹی یعنی اپوزیشن پارٹی بی جے پی کو اگلی حکومت کی کمان سونپنا چاہتے ہیں ۔اس سروے میں یہ کہا گیا ہے کہ 63 فیصد ووٹر بی جے پی کے حق میں اور 19 فیصد کانگریس کے حق میں ، لیکن دونوں پارٹیوں کو ملنے والی سیٹوں کے بارے میں سروے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ یہ سروے 7 دسمبر 2013 سے 12 جنوری 2014 کے درمیان کیا گیا ہے اور اس میں مختلف ریاستوں میں جا کر 2464 لوگوں سے آمنے سامنے بات کی گئی ۔سروے کے مطابق ، صرف 29 فیصد ہندوستانی ملک میں موجودہ حالات سے مطمئن ہیں ، جبکہ 70 فیصد لوگوں میں بے چینی ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ دیگر جماعتوں کو صرف 12 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے ۔سروے میں بی جے پی کو دیہی علاقوں میں 64 فیصد اور شہری علاقوں میں 60 فیصد کی حمایت حاصل ہونے کی بات کہی گئی ہے۔جھوٹ اور پروپیگنڈہ کا کتنا اثر ہوتا ہے اس سروے سے اندازہ لگایا جاسکتاہے جو نریندرمودی میڈیا کے سہارے کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ نریندر مودی کی ایک خاص بات جو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ بہت اچھے سیلس مین ہیں۔ خواب فروخت کرنے میںماہر ہیں۔ جہاں جاتے ہیں وہیں کی باتیں کرتے ہیں۔ اس کااندازہ مختلف جگہوں اور مختلف موقعوںپرکئے گئے تقریروں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انہوںنے گزشتہ دنوں تاجر برادری سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں قانون بہت زیادہ ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت تاجروں کو چور سمجھتی ہے۔نہوں نے تاجر برادری سے کہا کہ وہ عالمی چیلنجوں سے فرار کی بجائے ان کا سامنا کریں۔ساتھ ہی ایسے غیر ضروری قوانین کو ہٹانے کا وعدہ کیا جو احساس دیتے ہیں کہ تمام چور ہیں۔نریندر مودی نے تاجروں کی اس فکر کو صحیح بتایا کہ ملک میں بہت زیادہ اور بہت پیچیدہ قوانین ہیں۔ ' قوانین کا ایک نیٹ ورک ہے ۔آپ ہمیں طاقت دیجئے کہ ( اقتدار میں آنے پر ) ہم ہر ہفتے ایک قانون کو رد کر سکیں ۔ اروند کیجریوال تک نے ایک انٹرویو میں یہ تسلیم کیا کہ گزشتہ کچھ دنوں سے میں نریندر مودی اور راہل گاندھی دونوں کے تقریر سن رہا ہوں اور ان سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مودی راہل سے کہیں اچھے سیلسمن ہیں ۔
    مودی کی تقریروں اور انداز بیان ، خواب بیچنے ،وعدے کرنے، تمام مسائل کا حل چٹکیوںمیںکرنے کے دعوے سے ان بنگالی بابائوں کا اشتہار یاد آتا ہے جس میں اعلان کیا جاتا ہے کہ شرطیہ علاج اور فائدہ ورنہ پیسے واپس۔ یا سڑک کنارے خیمہ کے پاس بجتا ریکارڈ یاد آ جاتا ہے جس میں بدہضمی، نزلہ، زکام سے لے کر نامردی وغیرہ تک کاشرطیہ علاج کی ضمانت دی جاتی ہے ۔مودی وہی کررہے ہیں۔ آسام گئے تو آسام کی قصیدہ خوانی، بنگال گئے تو بنگال کی کہانی خواہ وہ جھوٹی یا سچی، بالکل گنگا گئے گگارام ، جمنا گئے جمناداس کی طرح باتیں کرکے رائے دہندگان کو لبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاجروںکی محفل میںیہاں تک کہہ دیا کہ تاجر فوج سے زیادہ محنت کرتے ہیں۔ یہاں ان کو عظیم اور بہترین بتانا ان کی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔یہی مودی جب فوج کے درمیان جائیں گے تو کہیں گے ، ' ایک فوجی سے عظیم کون ہوسکتا ہے ؟ وہ اپنے گھر  خاندان بچے کو چھوڑ کر سرحد پر ملک کی سرحدوں کی حفاظت 
کرتا ہے ۔مطلب یہ کہ جہاںجائیںگے ان کی تعریف کریں گے ۔اقتدار کا لالچ انسان سے کیا کیا نہیں کرواتا۔ یہی حال نریندرمودی کا ہے۔ نریندر مودی جہاں تاریخ کو غلط طور پر (ناواقفیت کی بنا پر)پیش کرتے ہیں۔ نریندر مودی کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ اگلے وزیر اعظم وہی ہیں اس لئے پرا عتماد لہجے میںتاجروںکے درمیان کہتے ہیں صرف ساٹھ دن رہ گئے ہیں اس کے بعد ہمیںگڈھے بھرنے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے اور نریندرمودی کی لہر چل رہی ہے جیسا کہ میڈیا اور سروے میںدعوی کیا جارہاہے تو ہندوستان کیلئے نیک فال نہیں ہے۔ ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت کو اس سے بڑا خطرہ کوئی نہیں ہوسکتا ۔یہ فیصلہ کرنا ہندوستانی عوام کا کام ہے کہ یہ ملک سیکولر رہے گا فسطائیت کے غار میں چلاجائے گا۔ 


ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔25
9810372335
abidanwaruni@gmail.com

     

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 573