donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abida Rahmani
Title :
   Do Tahzibon Ki Jang : Barqeni Ba Muqabla Bikni


دو تھذیبوں کی جنگ 


 برقینی بمقابلہ بکنی 


از 

عابدہ رحمانی

 

فرانس کے ساحل پر مسلمان عورتوں کا بھی جی للچایا کہ وہ ساحل سمندر پر پانی سے لطف اندوز ہوں اسکے لئے وہ خاص طور پر تیار کردہ پیراکی کے ستر پوش لباس میں کیا آئیں کہ اس ننگے دھڑنگے معاشرے کو یہ ایک ثقافتی خطرہ محسوس ہوا انہوں نے پولیس کو بلا ڈالا ۔ ایک تصویر میں پولیس آفیسر زبردستی مسلمان عورت سے یہ لباس اتر وا رہا ہے ۔وائے مغربی معاشرت ۔وائے تیری یہ بے حجابانہ قدریں ۔۔

گرمی میں پانی میں جانے کو سب کا دل للچاتا ہے اور جب ساحل پر پہنچ گئے تو پانی سے دور رہنا محال ہے ۔مغربی دنیا میں اسوقت بے حجابی معراج پر ہوتی ہے مختصر ترین لباس پیراکی پہنے ہوئے خواتین جسم کے مخصوص پوشیدہ رکھنے والے اعضاء کو برائے نام ڈھانپ کر پورا جسم دکھانے میں کوئی عار نہیں سمجھتیں ۔ بلکہ حقیقتا شرم و حیا کے الفاظ انکی لغت سے خارج ہو چکے ہیں اور ساحل پر اس طرح سے جانا انکی تہذیب و ثقافت بن چکا ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ یہاں بھی اس حد تک برہنگی نہیں تھی بلکہ پچاس کی دہائی میں ساحل پر مختصر لباس ممنوع تھا ابھی نیویارک ٹائمز نے اس تا ریخ پر روشنی ڈالی ہے جب پولیس آفیسر ایک عورت کو بکنی پہننے پر اٹلی کے ساحل پر متنبہ کر رہا ہے اور جرمانہ  عائد کر رہاہے اس زمانے میں ایک نسبتا مناسب پیراکی کا لباس پہنا جاتا تھا ۔ ستر سال پہلے بکنی کی ایجاد ہوئی اور مغربی خواتین میں یہ عریاں لباس بے حد مقبول ہوا ۔بجائے اسکے کہ وہ اس بے حیا بے لباسی پر معترض ہوتیں انہوں نے اسکو ہاتھوں ہاتھ لیا ۔

اب مسلمان عورت کے اس باپردہ پیراکی کے لباس کو برقینی کا نام دیا گیا ہے ۔یہ برقعہ اور بکنی کا مجموعہ ہے ۔اسکا کپڑا پانی جذب نہیں کرتا اور پورے جسم کو مناسب طریقے سے ڈھانپ دیتا ہے اب فرانس چند دہشت گردی کے واقعات کے بعد اسلامی اثرات سے اسقدر خوفزدہ ہے کہ اسکی پابندی پہلے نقاب اور اور اب برقینی پر ہوئی جب دنیا بھر میں یہ بات کی گئی کہ لباس کا انتخاب عورت کا حق ہونا چاہئے چاہے تو وہ برہنگی اختیار کرے اور چاہے تو ڈھک کے رہےتو اسکے بعد یہ اعلان آیا تو ہے کہ برقینی پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اب تمام مرد اسقدر معصوم تو نہیں ہیں ان سارے لباسوں کے پیچھے بڑے بڑے ڈریس ڈیزائنر کا دماغ اور سرمایہ ہے ۔چاہے وہ بکنی ہے یا برقینی ۔۔

یہ لباس دو تہذیبوں کی علامت ہیں ۔ادیان تو میں نہیں کہونگی اسلئے کہ عیسائیت اور دیگر مذاہب میں تقریباً اتنی ہی ستر پوشی ہے جتنی اسلام میں ہے ۔۔ عیسائی نن یا بنیاد پرست یہودیوں کا لباس کافی ساتر ہے ۔

اب مسلمان خواتین سے ہوسکتا ہے ہمارے کٹر لوگ کہیں گے ،" گھر بیٹھو کیا ضروری ہے کہ ساحل پر جاؤ" 

ہمارے کراچی کے ساحلوں پر لطف اندوز ہونیوالے جم غفیر میں پچاس فی صد خواتین ہوتی ہیں ۔بیشتر شلوار قمیص میں ، برقعے والیاں بھی لیکن بکنی میں کوئی نہیں ہوتی ۔اور نہ ہی کوئی ایسی شدید غلطی کرنیکی جرات کرسکتا  ہے سنا ہے انکے لئے کوئی الگ خفیہ انتظام ہے ۔لیکن یہ محض کانوں سنی ہے ۔۔اب کیا فرانس کے ساحل پر برقینی پہننے والوں کا کوئی الگ انتظام نہیں ہوسکتا ؟ بورڈ لگا دیا جائے ،"

صرف برقینی۔" 

ہمارے زیادہ لباس سے یہا ں اکثر لوگ کافی پریشان ہو جاتے ہیں ۔ایک مرتبہ ایک ملازمت میں مینیجر مجھے لباس کی پابندی کا بتانے لگی ۔لیکن فورا ہی اسے خیال آیا ،کہنے لگی یہ مسئلہ تو کم لباس پہننے والوں کے ساتھ ہوتا ہے تم لوگ تو کچھ زیادہ ہی لباس پہنتے ہو ۔"

اسی طرح پچھلے دنوں ایک خاتون مجھ سے کہنے لگی ،" اتنی گرمی میں تم لوگ  پورے کپڑے کیسے پہن لیتے ہو ؟ میں نے وضاحت کی کہ ہمارے گرمی کے کپڑے ہلکے، نرم اور سوتی ہوتے ہیں ۔ اسکے مزید سوالات پر میں نے اسے وضاحت کی کہ اگر ہم تن تنہا ہوں پھر بھی پورے کپڑے پہنتے ہیں اسلئے کہ ہمیں عادت ہے۔ اور شاید یہی کم کپڑے پہننا انکی کی عادت ہے۔  

یہاں کینیڈا میں ابھی شخصی آزادی بحال ہے اور یہاں کے ساحلوں پر کسی کو فرق نہیں پڑتا کہ بکنی پہنو، برقینی یا برقعہ پہنو ۔ اللہ تعالی نظر بد سے بچائے حالات بدلنے میں کیا دیر لگتی ہے 

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 424