donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ansar Aziz Nadvi
Title :
   Aligarh Muslim University Ka Aqliati Kirdar Aur Hamari Hukumaten

علی گڑھ  مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار اور ہماری حکومتیں


سیدھی بات:انصارعزیزندوی 

ُPh:9620364858

aazaan32@gmail.com


ناظرین! یہ بات مسلم ہے کہ حکومتیںبدلتی ہیں، کرسیاں وہی رہتی ہیں مگر چہرے بدل جاتے ہیں، اور جب چہرے بدلتے ہیں، سوچ بھی بدلتی ہے، اور جب سوچ بدلتی ہے تو زبان بھی چلتی ہے اور جب مافی ضمیر زبان پرآتی ہے تو لوگوں کی نیت کا اندازہ لگ جاتا ہے کہ آخر بولنے والا کیا چاہتاہے۔ ایسے ہی حالات کچھ ان دنوں ہمارے ساتھ ہیں، ادھر ایک سال کے عرصے میں دیکھ لیجئے کہ مسلمانانِ ہند نے کیسے کیسے مصائب کو جھیلا او راُن سے وابستہ مسائل کیسے میڈیا میں اُچھالے گئے  اور نیتا لوگ اس کا مزہ لیتے رہے ،گوماس،سوریہ نمسکار، مدارس، علماء جیسے موضوعات کو چھیڑنے کے بعد اب ہماری حکومت ایک اور مسئلہ لے کر سامنے آگئی ہے، اس مسئلہ کو دیکھنے کے بعد اب یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ سب کا ساتھ اور  سب کا وکاس صرف نعرہ ہے اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں، اور پھر مدارس میں موڈرن تعلیم کو لا کر مسلمانوں کی پسماندگی کو دور کرنے کی جو باتیںکہی جاتی رہی ہیں یا کہی جارہی ہیں وہ سب دکھاوے کے سوا کچھ بھی نہیں، سیکولر ملک کی وہ حکومت جو خود کو سیکولر ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے ،اس طرح اپنے فیصلوں کے ذریعہ سیکولرزم  جیسے خوبصورت پرندے کے ایک ایک پر کو نوچنے کی کوشش کرے گی اس کا اندازہ نہیں تھا۔ جی ہاں دوستو! میں بات کررہاہوں ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جس کے اقلیتی کردار کو حکومت ختم کرکے مسلمانوں سے اُن کا حق چھین لینا چاہتی ہے ۔دراصل ہم میں سے کئی لوگوں کو پتہ نہیں ہے کہ آخریہ  اقلیتی کردار ہے کیا؟ اور کیوں اتنا شورمچا ہوا ہے۔ میں آگے بڑھنے سے پہلے ضروری سمجھ رہا ہوں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے بعد آگے بڑھوں تاکہ آپ کو ہندوستانی آئین اور دستور کے حساب سے اقلیتی کردار کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ ناظرین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ یونیورسٹی ملک کی دو واحد ایسی یونیورسٹیاں ہیں جنہیں اقلیتی تعلیمی ادارہ تسلیم کیا گیا تھا،یہاں مختلف کورسز میں قریب پچاس فیصد کوٹا مسلمانوں کے لئے متعین کئے جانے کا نظام رائج ہے یعنی مسلمانوں کا حق ہے۔ تاریخ کے پنوں کو کھنگالیں تو محسوس ہوگا کہ بیسویں صد کے اوائل سے ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ یونیورسٹی ہمارے ملک میں تعلیمی شعبے میں بہت ہی  اہم کردار اد اکیا ہے ،ان اداروں کو قائم کرنے والے بھی مسلمان ہی تھے، لیکن گذرتے ایام کے ساتھ یہ تعلیمی ادارے یونیورسٹیز کی شکل لینا شروع کیا ۔علی گڑھ یونیورسٹی کی تاریخ اور اس کی بناء کی بات کریں تو آپ کو سرسید احمد خاں کا چہرہ سامنے لانا ہوگا ، جن کے احسانات اس قوم پر کئی سارے ہیں اسی میں سے ایک علی گڑھ یونیورسٹی ہے ،  اپنے قوم کے نوجوانوں کی روشن مستقبل کے لئے دینی و دنیوی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے کئی لوگوں کے اختلافات اور علماء کے فتوئوں کے باوجود انہوں نے اس میدان میں آگے بڑھا، جدو جہد کی۔سرسید احمد خاں نے 1875ء میں محمد اینگلو اورینٹل کالج کے نام سے اس کا آغاز کیا تھا،داغ بیل ڈالنے کے پینتالیس سال بعد یعنی 1920 میں اسے یونیورسٹی کا درجہ ملا، اورینٹل کالج سے یونیورسٹی کے اس پینتالیس سالہ سفرمیں اس تعلیمی ادارے کو، کیسے کیسے دن دیکھنے پڑے اور کیا کیا سہنا پڑا اس کا اندازہ آپ کو اس کی مکمل تاریخ پڑھنے کے بعد ہی ہوگا، اسی کا نام آج علی گڑھ یونیورسٹی ہے ۔ تاریخ میں  درج ہے کہ سرسید احمد خان کے مسلسل جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ آٹھ جنوری 1877کو لارڈ لٹن کے ہاتھوں اس کا سنگِ بنیاد رکھا گیا اور اس وقت سرسید احمد خان نے کہا تھا کہ آج ہم ایسا بیج بور ہے ہیں جس کے پیڑ کی شاخیں مستقبل میں برگد کے پیڑ کی طرح خود اپنی جڑیں جمالیں گی اور وہ ایک عظیم الشان شکل اختیار کریں گی، اور واقعی ایسا ہوا، آج یہاں کے فارغین پتہ نہیں دنیا کے کس کس کونے میں اپنے فیض کو عام کررہے ہیں، اور پھر 20نومبر 2010میں مغربی بنگال کے مرشد  آباد میں علی گڑھ یونیورسٹی کی شاخ کا افتتاح اُس وقت کے وزیرِ مالیات اور حالیہ عزت مآب صدر جمہوریہ جناب پرنب مکھرجی کے ہاتھوں رکھا گیا تھا۔دراصل علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کو لے کر اُس زمانے میں آپسی جو ان بن رہی سو رہی ، مگر گذرتے ایام کے ساتھ وہ باتیں بھی بھولی بسری ہوگئی ،مگر سر سید احمد خاں صاحب نے جو خواب اُس وقت دیکھا تھا وہ مسلمانوں کی پسماندگی کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا ارادہ کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ’’ان کی تعلیمی پالیسی میں تعلیمی ادارہ کا اقامتی کردار کافی اہم ہے، کیوں کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب باعمل نسل تیار کرنا چاہتے تھے جس میں وہ کامیاب بھی رہے‘‘ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغین نے آج پوری دنیا میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے، ان کے کارناموں کی تاریخ کو تاریخ نے اپنے پنوں میں جگہ دی ہے، اس کی کامیابی رازوں میں ایک راز یہ بھی تھا کہ سر سید احمدخاں صاحب تعلیم کے ساتھ کسی دوسری تحریک کو پسند نہیں کرتے تھے، اُس وقت کے انگریزجو مسلمانوں کو اول نمبر دشمن سمجھتے تھے اور پھر  مسلمانوں کی ہر طرح سے جاسوسی میں لگے ہوئے تھے، اس خطرے کو بھانپتے ہوئے کہ کہیں انگریزوں کی جانب سے مسلم نوجوانوں کو تکالیف کا سامنا نہ کرنا پڑے ، وہ طلباء کو  ہمیشہ سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیتے رہے۔’’خود پنڈت جواہر لعل نہرو اس کے گواہ ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ، سر سید تعلیم میں کسی قسم کی دخل اندازی پسند نہیں کرتے تھے، ان کی اولین ترجیح تعلیم تھی اور یہی صحیح ہے۔

قارئین! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملکِ ہند میں سرکاری و غیر سرکاری ملکیت کی قریب ساڑے سات سو یونیورسٹیز مختلف ریاستوں اور شہروں میں واقع ہیں ان میں طلباء کی فیصد نکالی جائے قریب  توپچانو ے فیصد طلباء ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں، پورے ہندوستان میں جامعہ ملیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی صرف ایسے مسلم ادارے ہیں جہاں مسلمان طلبہ کی تعداد چالیس فیصد ہوا کرتی ہے۔ اور یہاں ان کو رزرویشن کا کوٹا مختص ہے، اب حکومت یہ چاہ رہی ہے کہ ہے اس حق کو بھی مسلمانوں سے چھین لیا جائے، یہی وجہ ہے کہ یہ تعلیمی ادارے کئی عشروں سے سخت گیر ہندو تنظیموں کے نظروں میں کھٹکتی رہی ہیں اور الگ الگ انداز میں اس کو بدنام کرنے اور اس کے اقلیتی کردار پر قدغن لگانے کی کوشش کرتے رہے ہیں، حالیہ مرکزی حکومت کا سپریم کورٹ میں یہ کہنا کہ وہ ان کو اقلیتی ادارے نہیں مانتی یہ اُسی کی جانب اشارہ کررہی ہے کہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ایک ایک کرکے مسلمانوں سے ان کا حق چھین لیا جارہاہے، اُردو اخبارات اور دیگر زبانوں کے اخبارات میں بھی اب یہ مسئلہ طول پکڑتا جارہاہے اور تبصرہ نگار اس پر کھلم کھلا مخالفت کررہے ہیں ،اور پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ العلماء اور علی گڑھ یونیورسٹی سے جڑی تنظیموں کے علاوہ  دیگرتنظیمیں بھی حکومت کے اس رویہ سے بے زار ہیں اور تحریک چلانے کی بات کررہے ہیں، ناظرین ! اس موقع پر میں ضروری سمجھ رہاہوں کہ آپ کے سامنے اقلیتی تعلیم کے سلسلہ میں ہندوستان کے آئین میں جو قوانین درج ہیں ا س کو بھی آپ کے سامنے رکھوں !آئیے ایک نظر اس پر بھی کرلیتے ہیں: آئین میں درج دفعات کے مطابق : ایک چاپٹر جس کا عنوان ہے، اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ :نمبر 29بار ایک میں درج ہے کہ ملکِ ہند کے کسی بھی علاقے یا کسی بھی حصے کے واسیوں کو چاہے وہ کسی بھی طبقے سے وابستہ ہوں، جن کی اپنی الگ زبان ، رسم الخط یا الگ ثقافت ہو اس کو محفوط رکھنے کا اُن کو پورا حق ہے۔ نمبر ۲۔ وہ تعلیمی ادارے جس حکومت چلاتی ہو یا یا پھر امدادی ادارے ہوں تو ،مذہب ، نسل ، ذات ، زبان یا ان میں سے کسی کو بھی وجہ بنا کر داخلے سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح نمبر تھڑی بار ون کے مطابق اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب یا زبان کی بنا پر اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرے اور اس کا انتظام کرے۔ نمبر میں حکومت اپنی امداد اس وجہ سے نہیں روک سکتی کہ وہ کسی اقلیتی طبقہ کے زیرِ انتظام ہے چاہے وہ مذہب کی بنا پر ہو یا زبان کی بنا پر۔یہ تھے وہ قوانین جو اقلیتی اداروں کو لے کر ہمارے ملک ِ ہند کے آئین میں ہے اور یہ سال 2013 تک ترمیم شدہ بھارت کا آئین نمبر ۵۳ میں درج ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ اچانک کیوں لے رہی ہے ، دراصل یہ اچانک لیا ہوا فیصلہ نہیں ہے ، ا سے قبل یونیورسٹی کی تاریخ میں اقلیتی کردار کو لے کر عدالتوں میں فیصلے ہوئے ہیں، 1981میں بھی پارلیمنٹ میں جو ایکٹ منظور کیا گیا تھا، اس کو الہ آباد کے ہائی کورٹ کے ایک نفری بنچ نے کالعد م قرار دیا تھا یعنی اقلیتی ادارہ ماننے سے انکار کیا تھا، مگر جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں داخل ہوا توسپریم کورٹ نے الہ آباد کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعد م قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ کے ایکٹ کو نافذ کرنے کا حکم دیا اور پھر اس طرح اس کا اقلیتی کردار بدستور جاری رہا، مگر اب جب حکومت بدل گئی ہے تو اس حکومت نے اُس وقت جو پارلیمنٹ نے ایکٹ جاری کیا تھا اس کی مخالفت کردی اور پھر اس کے اقلیتی کردار کو ماننے سے انکار کردیا ، جس کی وجہ سے اب ایک بار پھر مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ سے مسلمانوں کا حق چھین لئے جانے کی تیاری ہے ۔ یہاں مسلمان حکومت سے زائد حق نہیں مانگ رہاہے بلکہ جو حق دیا گیا تھا اُس حق کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا جارہاہے ، مگر سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کی بات کرنے والی حکومت ، مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں سائنس دیکھنے کا خواب دیکھنے والی حکومت کے اس دوہرے رویہ پر اگر مسلمان تشویش کا اظہار نہ کریں اور اس پر سوال کھڑے نہ کرے تو پھر کیا کیا جائے ۔ اب اس کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی وجہ جو بتائی جارہی ہے وہ بھی عقل میں آنے والی نہیں ، اُن کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت یونیورسٹی چلائی جارہی ہے اور اس کے اخراجات کا پورا بار حکومت پر ہے،جب آئین میں صاف صاف درج ہے کہ حکومت اقلیتی ادارے کا بار سنبھالے گی تو بھلا بتائیے جب پورے ہندوستان میں کئی ایسے یونیورسٹی کے اخراجات حکومت سنبھال رہی ہے تو صرف ان یونیورسٹیز کے اخراجات ہی کیوں نظر آرہے ہیں، اور پھرحکومت ہندوستان کے ہر طبقے ،زبان اور مذہب کے افراد کے ٹیکس سے چلتے ہیں، عوام کا ہی پیسہ ہوتا ہے ،ا س میں اقلیتی طبقے بھی آتے ہیں جو ٹیکس ادا کرتے ہیں، عوام کا پیسہ آپ عوام کو لوٹا رہے ہیں تو اس میں اخراجات کا ڈھونگ رچانا کیا معنیٰ رکھتا ہے ۔ ایک سیکولر ملک کی حکومت کا یہ رویہ واقعی تشویش میں مبتلا کردینے والا ہے ، یہی وجہ ہے کہ مرکزی حکومت کو لوگ اب اقلیت دشمن قرار دینے میں جٹے ہیں ، دیگر وہ پارٹیاں جو خود کو سیکولر کہتی ہیں وہ اس مسئلہ کو پوری طرح اُچھال کر مرکزی حکومت کو نشانے پر لی ہوئی ہے ، جب کہ یہ بات پوری طرح واضح ہے بلکہ مرکزی حکومت کو بھی پتہ ہے کہ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی، اس کا نظم اور تمام تر ذمہداریوں کو بحسن و خوبی نبھایا اور پھر اقلیتی ادارہ ہونے کے تمام شرائط ا س میں پائے جاتے ہیں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ایک بار پھر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور مسلمانوں کا حق اُن کو واپس کردے۔ 

قارئین!ہندوستان کی آزادی سے پہلے مسلمانوں ایک الگ تصویر تھی اور آزادی کے بعد اس میں کئی ساری تبدیلیاں دیکھی گئی اور آئی بھی، اس کے سوچ و فکر میں اور اس کے طرزِ زندگی  تبدلیاں دیکھنے کو ملی ۔ آزادی سے پہلے یہ قوم جذبہ شہادت سے اتنی سرشار تھی کہ، بڑی بڑی تکلیفوں مشکلوں اور صعوبتوں کو جھیل کر انگریزوں سے لوہالیا، انگریزوں کے خلاف مسلمانوںکی قربانیوں کی داستان آج بھی تاریخ میں خون سے رنگی ہوئی ہے۔ تحریک ریشمی رومال، تحریک خلافت ، جلیانہ والا باغ میں سینوں کو بارود کے سامنے بلا خوف و خطر پیش کرنے والی یہ قوم تمام تر دشواریوں کے باوجود ذہنی و فکری طور پر آزاد تھی ، آزادی کے بعد مسلمانوں کی حالات کو بہتر بنانے روشن مستقبل اور دنیا سے آنکھ ملا کر بات کرنے کے لئے تعلیم کی جو اہمیت اُس وقت کے علماء و دانشوران میںدیکھنے کو ملی اس کا انداز ہ نہیں لگایا جاسکتا،آزا دی کے وقت انگریزوں کی جانب سے لگائی گئی فرقہ واریت کی آگ نے تو مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا، ایسے حالات میں جہاں قدم قدم پر عصبیت کا شکار ہونا پڑرہاہو، مشکلوں ،اندھیروں  اورآندھیوں سے جہاںمقابلہ آرائی رہی  ہو تو ،جمہوریت کے اس گلشن میں اس گلشن کو خونِ جگر سے سینچنے والے دفاعی پوزیشن میں آگئے تھے ۔مسلمانوں کی قربانیاں جو روزِ روشن کی طرح عیاں تھی اُن کو چلا چلا کر ہم وطنوں کے سامنے رکھنے کی ضرورت پڑی کے اس ملک کے لئے ہمارا بھی خون بہا ہے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ خون تو ہمارا ہی بہا ہے ، اُسی عصبیت کا نتیجہ اور ہمارے اقدامی نہیں بلکہ دفاعی پوزیشن کا نتیجہ ہے کہ آج ہم سے ہمارے حقوق چھین لئے جانے کی بات کھلم کھلا کوئی حکومت کرتی ہے ، اور ہم کچھ نہیں کرسکتے ،مسجد کے درودیوار کو توڑ کر مورتیاں رکھ دی جاتی ہیں،مگر ہم بے بس ہیں، یہ صرف اس لئے کہ ہم نے ابتداء سے ہی دفاعی پوزیشن پر آگئے تھے۔آپ دیکھئے ہمارے حالات کو،آزادی کے بعد سے لے کر اب تک ، ہر سیاسی پارٹی نے اس بے بس قوم کا استحصال کیا۔  ابھی کچھ دن پہلے یوپی کے کشی نگرمیں کیا ہوا، اقلیتوں کو پوری طرح ہراساں کیا جارہاہے ، مجلس مشاورت نے یہاں کا دورہ کرنے کے بعد یہاں کی دل دہلادینے والی رپورٹ شائع کی کہ ضلع بھر میں مسلم اقلیت کو مختلف طریقے سے ڈرایا، دھمکایا اورپریشان کیا جارہا ہے۔  مساجد کی تعمیر، توسیع اورمرمت کے کاموں میں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے۔مسلم لڑکیوںکو اغواکرکے ان کی ہندئوں سے جبری شادی کرائی جارہی ہے۔ شکایت ملی ہے کہ یہ سب کچھ بھاجپا ایم پی، آدتیہ ناتھ کی ہندویووا واہنی اوردیگر جنگجو گروہوں کی شہ پرہورہا ہے۔ مقامی پولیس ان کے دبائو میں ہے۔ مظلوموںکے بجائے ظالموں کی مددگار بن جاتی ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی گاؤوں میں لڑکیوں کواغواکر لیجانے اور ان عصمت دری کے کیس سامنے آئے ہیں۔ان میں بعض کی عمر12؍ سال کے آس پاس ہے۔ اکثر اغوا لڑکیوںکا کچھ اتا پتا نہیں چلتا ۔ بعض کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کسی ہندو کے گھر میں ہیں۔جو لڑکیاں کسی طرح ان کے چنگل سے نکل کراپنے گھر واپس آنے میں کامیاب ہوگئیں ان سے معلوم ہوا کہ ان کویا تو بہلا پھسلا کر بھگا لیجایا گیا تھا یا جبراً اٹھا لیجایا گیا تھا۔ ان کوکسی دوردراز مندر میں لیجا کر جبری شدھی کرن کرایا گیا اور پھرکسی غیرمسلم سے ان کی مرضی کے بغیر شادی کردی گئی۔جولڑکیاں کسی طرح اپنے گھرلوٹ آئیں ان کوبھی ڈرایا دھمکایا جارہا ہے اور دوبارہ اغوا کی کوشش ہورہی ہے۔ جن چند لڑکیوں پولیس میں شکایات درج کرانے کی ہمت کی، ان کوبھی ڈرایا ،دھمکایا جارہا ہے۔ ان کے ورثا یا خود ان کے خلاف ایس سی، ایس ٹی اورغنڈہ ایکٹ کے تحت جھوٹے کیس درج کراکے مجبورکیا جاتا ہے کہ وہ اغوا اورعصمت دری کی وارداتوں کی شکایت واپس لے لیں۔ شکایت کی گئی کہ پولیس کا رویہ جانبدارانہ ہے اوروہ بھی دبائو بناتی ہے۔ابھی مدھیہ پردیش کے ایک گائوں سے تعلق رکھنے والے معمر جوڑے کو ٹرین میں گئو رکشا کے نام پربنے ہوے شدت پسندوںکے کمانڈودستہ نے مارپیٹ کی۔ ان کا بیگ چھین لیا۔اس میں گائے کا گوشت ہونے کا شور مچایا۔ پولیس نے دوخاطیوں کو پکڑلیا تو اس دستے کے سرغنہ سریندرسنگھ راج پروہت نے ہردا کے ایس پی کو فون پر دھمکایا کہ اگر کسی ہندوکو گرفتار کیا گیا تو وہ سنہ 2013کی طرح پھر فساد کرادیگا۔اس کی دھمکی کا ٹیپ عام ہوگیا ہے۔  ۔ واقعہ کی تفصیل اخبارات میں آچکی ہے۔ تو ناظرین! آئے دن مسلم مخالف کارروائیوں اور حکومت کے فیصلوں کی وجہ سے اقلیتی طبقہ خو د کو غیر محفوظ تصور کررہاہے ، اور حکومت کے تئیں غم و غصہ دیکھنے میں آرہاہے ، مسلم یونیورسٹی ابتداسے ہی عصبیت رکھنے والوں کو کھٹک رہی ہے ۔ نیز آگ پر گھی ڈالنے والے بالخصوص وزارت تعلیم جو اپنے ابتداء دنوں سے ہی مسلم قوم سے ناراض نظر آرہی ہیں، اُن سے درخواست ہے کہ اپنی ناراضی کا صلہ مسلمانوں سے اُن کا حق چھین کر نہ دیں،  ہمیں اُمید ہے کہ وزیر اعظم صاحب ’’سب کاساتھ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ جو لگایا گیا ہے ا ُس میں  تمام اقلیتوںکو جیسے ،مسلم ،جین، عیسائی، بُدھ وغیرہ سب کے لئے ہو۔آئین ملک کے آرٹیکل 29,30  کے تحت مسلم یونیورسٹیز کو ان کا حق دیں گے۔

(یو این این)

 

**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 419