donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Arif Aziz, Bhopal
Title :
   Hindustan Me Jamhuriyat Ki Gadi Patri Se Na Utre


ہندوستان میں جمہوریت کی گاڑی پٹری سے نہ اُترے


عارف عزیز

(بھوپال)

 

 ٭    جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ عوام کے ہاتھوں میںہوتا ہے اور ان کو وسیع تر اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن اِن اختیارات کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کا بوجھ کافی بڑھ جاتا ہے ۔ عام طور سے غلط فہمی یا ناواقفیت کے باعث یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عوام کے منتخبہ نمائندے یا سیاسی جماعتیں ہی اُن کی رہنما ہوتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوری طرز حکومت میں رہنمائی کی ساری ذمہ داری عوام کے سپرد ہوجاتی ہے جو الیکشن کے ذریعہ اپنی رائے کا برملا اظہار کرکے نہ صرف عوامی نمائندگان کو منتخب کرتے ہیں بلکہ خون خرابہ اور درباری سازشوں کے بغیر اقتدار کی منتقلی کا کام بھی بآسانی انجام دے دیتے ہیں جیسا کہ ابھی ابھی ہوا۔


    لہذا الیکشن کو جمہوریت کی مضبوطی اور اُس پر اعتماد رکھنے والوں کی کسوٹی بھی کہاجائے تو غلط نہ ہوگا۔ جس کا ماحول جمہوری ہندوستان میں دھیرے دھیرے سرمایہ کی طاقت اور تشدد کے عمل دخل سے بگڑتا جارہا ہے اور اس طرح جمہوریت کی صحت کے تمام تر دعوئوں کے باوجود ملک میں جمہوریت کمزور ہورہی ہے۔

    جمہوریت ایک واضح اور ٹھوس نظریہ ہے اِس میں نہ کسی قسم کا ابہام ہے اور نہ ہی اِس میں کسی اور نظریہ کی ملاوٹ کی گنجائش ہے لیکن بدقسمتی سے اس نظریہ پر اقتدار اور اُس کے حصول کی ہوس کا جذبہ حاوی ہوتا جارہا ہے۔ جن لوگوں نے الیکشن یا اس کے عمل کو جمہوریت کے استحکام کے بجائے صرف اقتدار حاصل کرنے کا زینہ سمجھ لیا ہے یا جن سیاسی پارٹیوں کی پوری توجہ چنائو کو تجارت بنانے پر مرکوز ہوکر رہ گئی ہے۔ آج ہندوستان کی جمہوریت کے وہی سب سے بڑے دشمن ہیں ان کے ذریعہ جمہوریت کی آبیاری کا کام انجام نہیں پارہا بلکہ اس کو نقصان پہونچایاجارہا ہے اور یہ صرف اس لئے ہورہا ہے کہ موجودہ نظام میں اسمبلی یا پارلیمنٹ کے ممبر کو ہی جمہوری نظام کا محافظ سمجھا جانے لگا ہے اور اس نظام کو انگلیوں پر نچانے کا اختیار بھی ان کو ہی دے دیاگیا ہے جو عوام کے ووٹوں سے چن کر قانون ساز اداروں میں جاتے ضرور ہیں مگر عوامی مفاد کو ہی سب سے پہلے فراموش کردیتے ہیں۔    

    اگر ہندوستان کے عوام کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ اُن کی مرضی ومنشاء کے بغیر ملک کا کاروبار حکومت نہیں چل سکتا یا ایک بار اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے واپس بلانے کا اختیار بھی انہیں مل جائے تو دیش کے بیشتر مسائل آج ہی سلجھ سکتے ہیں، ملک سے بدعنوانی تشدد، فرقہ واریت، اور دیگر ناانصافیوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اگر عوامی نمائندوں پر عوام کے احتساب کا خوف غالب آجائے گا۔

    جس طرح ایک غافل اور نااہل حکمراں اقتدار سے محروم ہوجاتا ہے اُسی طرح اگر عوام غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے رہیں تو جمہوریت کی گاڑی ایک دن پٹری سے اُترجاتی ہے لہذا ہندوستان کے ہر شہری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نمائندوں پر نظر رکھے ان کو آزادنہ چھوڑے بلکہ فرض کی ادائیگی اور وعدوں کو پورا کرنے کے لئے تقاضا کرتا رہے اور اُن میں ہرگز یہ احساس نہ پیدا ہونے دے کہ وہ عوام کے رہنما ہیں بلکہ اُن کو اس حقیقت سے آشنا کرتا رہے کہ عوام ہی اُن کے رہنما ہیں۔

    کسی شئے کا صحیح اور بہتر استعمال ہی اس کی کامیابی کی دلیل ہوا کرتا ہے اِس لئے جمہوریت کی بقائ، یا کامیابی اور اس کی خوبیوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ ہم اپنے نمائندوں کا صحیح اور بہتر مصرف سمجھیں ان کو وہی کام کرنے پر مجبور کریں جو ان کے فرائض میں شامل ہیں اور جن سے ملک اور عوام کو فائدہ پہونچ سکتا ہے اسی طرح ہم جمہوریت کی آبیاری اور ملک وقوم کی ترقی کا کام انجام دے سکتے ہیں لہذا آزادی کے ۶۷ سال پورے ہونے پر ہندوستانی عوام کو اس بات کا عہد کرنا چاہئے کہ وہ یہ کام انجام دیں گے۔

(یو این این)

**************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 484