donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ashfaqur Rahman Sharar
Title :
   Kya Bharat Hindu Nation Ke Safar Par Gaamzan Hai


کیا بھارت ہندو نیشن کے سفر پر گامزن ہے؟   

 

 اشفاق الرحمن شررؔ  مئوناتھ بھنجن، یو۔پی۔


    بھارت ہمیشہ سے ہندو اکثریتی ملک رہا ہے پھر بھی یہاں سات صدی سے زیادہ تک مسلمانوں نے مسلسل حکومت کی ہے۔ مسلم حکمرانوں کی سب سے خاص بات رہی کہ کبھی انھوں نے بھارت کو مسلم ملک بنانے کی کوشش نہیں کی جیسا کہ اس زمانے میں عام روایت تھی کہ جب بھی کوئی بادشاہ کسی ملک یا ریاست پر فتح پاتا تھا تو پہلے کے بادشاہ کی نشانیاں اور تہذیب کو ختم کر دیتا تھا۔ مسلم حکمرانوں پر الزام ضرور ہے کہ انھوں نے طاقت کے بل پر لوگوں کا مذہب تبدیل کرایا لیکن یہ الزام جھوٹا ہی نہیں احمقانہ بھی ہے کیوں کہ اگر مسلم حکمراں چاہتے تو چند سالوں میں ہی دنیا سے ہندووں کا نام و نشان ختم ہو جاتا کیوں کہ ہندو صرف بھارت میں ہی بستے تھے اور آج بھی  دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوں بھارت سے ہی گئے ہیں۔ لیکن مسلم حکمرانوں نے یہاں کے اکثریتی طبقہ کی تہذیب کی حفاظت کی اور ضرورت پڑنے پر ان کی ترویج کے لئے مالی مدد بھی کی۔ اس کی خاص وجہ تھی کہ اسلام کبھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کو زبردستی مسلمان بنایا جائے۔ جیسے ہی انگریزوں کے ناپاک قدم یہاں پہونچے تو ایک ایک کر کے مسلم ریاستیں ختم ہوگئیں اور پورا برصغیر برٹش حکومت کے قبضہ میں چلا گیا۔ چونکہ انگریزوں نے مسلمانوں سے ہی حکومت چھینی تھی اس لئے سب سے پہلے مسلمانوں نے ہی بغاوت کی اور تحریک آذادی شروع کی لیکن سخت گیر ہندووں نے اس ملک کو ہندو ملک بنانے کی کوشش شروع کردی۔ جب ملک کی مختلف ریاستیں مسلمانوں کے قبضہ میں تھیں تو ان کے اندر ہمت نہیں ہوئی کہ جنگ کر کے مسلمانوں سے ریاستیں لے سکیں لیکن جب برٹش حکومت میں مسلمان بغاوت کردیئے اور انگریزی حکومت کی بنیادیں ہلنے لگیں تو سخت گیر ہندووں نے اپنی نئی کوشش شروع کردی کہ برٹش حکومت سے آزادی کے بعد اکثریت کی بنیاد پر بھارت ہندو ملک بن جائے۔انگریزوں سے براہ راست مقابلہ کرنے کی ہمت تو تھی نہیں لیکن مسلمانوں سے مقابلہ ضرور کرتے رہے وہ بھی اس لئے کہ مسلمان اقتدار میں نہیں تھے اور برٹش حکومت کے سامنے کمزور تھے۔مسلمانوں نے برٹش حکومت کے خلاف منظم اور مستحکم تحریک چلانے کی غرض سے 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل کیا جس کے بینر تلے پورے ملک میں تحریک آزادی چلنے لگی جب اس تحریک سے برٹش حکومت متاثر ہونے لگی تو سخت گیر ہندووں کو محسوس ہوا کہ ملک میں ایک بار پھر سے مسلمان قابض ہو جائیں گے تو انھوں نے 1909 میں مسلم لیگ کے مقابلہ میں ہندو مہاسبھا کی تشکیل کیا ۔ ہندو مہا سبھا کے قائم کرنے والوں میں لالہ لاجپت رائے، لال چند، شدی لال اہم تھے اس تنظیم کا کام صرف مسلمانوں کی مخالفت کرنا تھا خواہ اس کے لئے تحریک آزادی میں رخنہ اندازی ہی کیوں نہ کرنی پڑی ہو۔ ہندو ملک کے متحرک اور سخت گیر ہندووں میں ونایک دامودر ساورکر اور کیشو بلرام ہیڈگیوارکا نام اہم ہے۔ وی ڈی ساورکر 28؍ مئی 1883 کو  مہاراشٹر کے ناسک ضلع میں بھاگور نامی مقام پر ایک برہمن کے گھر پیدا ہوا۔ ساور کر بچپن سے ہی سخت گیر تھا اور جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی اس کے ہندوازم نظریہ میں شدت آتی گئی۔ تعلیم کرنے کے دوران ہی اس نے ہندووں کو متحد کرنے اور ہندوازم کے فروغ کے لئے انڈیا ہائوس، بھارت ابھینو سوسائٹی، فری انڈیا سوسائٹی وغیرہ کئی تنظیمیں بھی بنائی جس کی بدولت بھارت کو ہندو ملک بنانے کے اپنی کوشش میں مصروف تھا۔ ساورکر ذہین تھا اسلئے اس نے جلد ہی اپنا اثر بھی قائم کرلیا وہ ہندوازم کی سیاست تو کرتا ہی تھا وکیل، شاعر اور مصنف بھی تھا اس لئے اپنے خیلات کو عام کرنے میں اسے کسی طرح کی دشواری نہیں تھی۔ ساور کر 1910 تا 1921 جیل رہا اس دوران اس نے ہندو ملک کی تشکیل پر مکمل ریسرچ ورک کیا جو ہندو نیشنلزم کے نام سے جاناجاتا ہے۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد ہندو مہا سبھا کا صدر بن گیا ااور باقاعدہ طور پر ہندو نیشن کی تبلیغ و کوششیں تیز کردی۔

    ادھر مسلمانوں نے تحریک آزادی کو مزید تیز کردیا تھا علمائے کرام بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے اسی دوران 1919 میں معروف عالم دین شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مولانا حسین احمد مدنی، مولانا احمد سعید دہلوی، مولانااحمد علی لاہوری، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مفتی حمد نعیم لدھیانوی، مولانا بشیر احمد، مولانا گل بادشاہ، مولانا عبدالباری فرنگی محلی کو ساتھ لیکر جمعیت العلمائے ہند نام سے علماء کی ایک تنظیم بنی جس کا واحد مقصد تھا مسلمانوں میں انگیریزی حکومت کے خلاف بیداری پیدا کرنا، تحریک آزادی میں عام مسلمانوں کی رہنمائی کرنا۔ پہلے تو صرف علماء ہی اس تنظیم کے رکن تھے لیکن جلد ہی یہ دنیا کی سب سے بڑی تنظیم بن گئی اور اس نے اپنی زمین اتنی مطبوط کرلی کہ کانگریس کو بھی محسوس ہوگیا کہ جمعیت العلماء کے تعاون کے بغیر آزادی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اب مسلم لیگاور جمعیت العلمائے ہند نے مل کر برٹش حکومت کی ناک میں دم کردیا تو سخت گیر ہندووں کی بے چینی پھر بڑھ گئی اور جمعیت کے جواب میں کیشو بلرام ہیڈگیوار نے 1925 میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کی تشکیل کیا۔ مسلمان تو انگریزوں کے خلاف بغاوت کرتے رہے اپنی پوری قوت تحریک آزادی میں لگاتے رہے تاکہ اس ملک کا وقار حاصل ہو اور ملک کے ہر باشندے انگریزوں کے ظلم سے امن پائیں لیکن سخت گیر ہندو مسلمانوں کے مقابل بار بار آتے رہے اور ہمیشہ ہی مسلمانوں کے خلاف سازش اور بھارت کو ہندو ملک بنانے میں مصروف رہے۔ جب ہندو مہاسبھا اور آرایس ایس تحریک آزادی کی تنظیم مسلم لیگ اور جمعیت العلمائے ہند کے خلاف تھیں تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ تحریک آزادی میںان کا کیا رول رہا ہوگا۔ مسلم لیگ، جمعیت العلمائے ہند نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ مل کر برٹش حکومت کے خلاف زوردار ملک گیر تحریک چلائی تو مجبور ہوکر انگریز بھارت چھوڑنے کو راضی ہو گئے۔ کانگریس اور برٹش حکومت کے درمیان معاہدہ ہوگیا تو سخت گیر ہندووں کی بے چینی بڑھ گئی۔ ادھر پہلے سے ہی مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کے درمیان سخت اختلافات تھے جو ملک کی تقسیم کا باعث بنے۔ ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس ملک کو ہندو نیشن بنانا چاہتے تھے جب کہ مسلمان ہر کسی کو ساتھ لیکر آزاد ملک کے خواب سجائے ہوئے تھے۔ ہندو مہا سبھا اور آرایس ایس اپنی ضد پر قائم رہے نتیجہ کے طور پر آزادی ملنے کے ساتھ ہی مذہب کے نام پر اس ملک کے دو حصے ہوگئے۔ بلکہ انگریزوں نے تو 15؍ اگست 1947 کو حکومت چھوڑا جب کہ 14؍ اگست کو ہی ملک تقسیم ہوچکا تھا۔ تقسیم کے بعد بھی محب ہند مسلمانوں نے پاکستان جانے کے بجائے جمہوری ملک میں رہنے کو ترجیح دیئے۔ بھارت جمہوری ملک تو بن گیا لیکن آرایس ایس اپنی سازشوں میں مصروف رہی یہاں تک کہ جمہوریت کے سب سے بڑے حامی مہاتما گاندھی جن کو بابائے قوم کا خطاب ملا تھا آر ایس ایس کے سرکردہ رکن ناتھورام گوڈسے نے 31 جنوری 1948 کو قتل کردیا۔ اس کے علاوہ بھی آر ایس ایس کے ارکان ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے جس کے سبب اس تنظیم پر براہ راست سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن اس کے ارکان نے جن سنگھ کے نام سے سیاسی جماعت بنا لی جو آج بھی بی جے پی کے نام سے موجود ہے۔ اس جماعت کا ریموٹ ہمیشہ سے ہی آرایس ایس کے ہاتھ میں ہے۔ حقیقت میں جسم آرایس ایس کا ہے جو بی جے پی کے لباس میں ملبوس ہے۔جس کا مقصدبھارت کی جمہوریت اور بے مثال تہذیب کو ختم کر کے ہندو تہذیب قائم کرنا ہے اور وہ بہت حد تک کامیابی طرف گامزن بھی ہیں۔ مرکز میں بی جے پی مظبوط حکومت قائم ہے اور ایک ایک کر کے ریاستی حکومتیں بھی ان کے قبضہ میں آرہی ہیںاور جہاں تک ممکن ہوپارہاہے ملک پر زبردستی ہندوازم تھوپ رہے ہیں۔ جس طرح سے حالات بدل رہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت ہندو ملک کے سفر پر رواں دواں ہے۔ ابھی بی جے پی مجبوری ہے کہ پارلیمنٹ کے بالائی اجلاس یعنی راجیہ سبھامیں اکثریت نہیں ہے اور کوئی قانون نہیں بنا سکتے۔ لیکن جس طرح ریاستوں میں ان کی حکومتیں بنتی جارہی ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جلد ہی ان کی یہ مجبوری بھی ختم ہوجائے گی۔ملک کی سب سے بڑی آبادی والی ریاست اترپردیش میں مضبوط ترین حکومت قائم ہونے کے دوسرے ہی روز سے جب کہ ابھی وزراء کو قلمدان تقسیم ہونے باقی تھے جس تیزی کے ساتھ حالات بدل رہے ہیں اس سے ہندوملک کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 872