donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ashhar Hashmi
Title :
   Mulk Me Nau Maheene Ke Ander Secularism Ki Wapsi


ملک میں نو مہینے کے اندر سیکولرزم کی واپسی

اوباما کے ریمارک اور انتخابی نتائج کے بعد تبدیلی


اشہر ہاشمی


نئی دہلی میں یوم جمہوریہ کے اگلے دن 27جنوری کو ایک عوامی خطاب میں اور پھر ایک ہفتے کے اندر واشنگٹن ڈی سی میں بھی ایک بین الاقوامی اجتماع میں ہندوستان میں مذہبی رواداری کے فقدان یا خاتمہ پر امریکہ کے صدر بارک اوباما کی تشویش کے بعد دہلی اسمبلی کے انتخابات میںبی جے پی کے تقریبا کے مکمل صفایا نے مودی توا اور ہندوتوا دونوں کی پیش قدمی روک دی ہے۔ مودی ہندوستان کو اب تک نہرووین لائن پر چلنے والی سوشلسٹ سیکولر قوم سے بدل کر ایک ایسی پہچان دینے میں عجلت کا مظاہرہ کررہے تھے جو ہندو پہچان زیادہ ہوتی ہندوستانی کم۔ دہلی اسمبلی کا الیکشن ہونے تک ایسا لگ رہا تھا کہ ہندوستان کا سیاسی اور سماجی ماحول اپنا پرانا کردار بدل کر ایک نئے جارحانہ مزاج کے ساتھ سامنے آرہا اپریل مئی 2014سے 10فروری2015کے بیچ صرف نو مہینے کی دوری ہے اور ان نو مہینوں میں نریندر مودی نے بطور حکمران اور سنگھی تنظیموں نے بطور معاون ہندوستانی سماج کے ساتھ جو کھلواڑ کیا اسے اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ بین الاقوامی برداری میں باضابطہ تنقید ہونے لگی ہے۔ اوباما ہی نہیں بلکہ دوسرے لوگ بھی مودی کی کارکردگی پر اعتراض کررہے ہیں۔ کانگریس یا سی پی ایم یا کسی بھی قومی یا علاقائی ہندوستانی سیاسی پارٹی کا مودی کے خلاف بولنا سیاسی بدنیتی پر محمول قرار دیا جاسکتا ہے لیکن بین الاقوامی برادری میں اٹھنے والی آواز ایسے مسترد نہیں کی جاسکتی۔ اوباما نے عالمی لیڈر ہونے کے ناطے الزام تراشی کی بجائے چیزوں کو سمجھنے سمجھانے کے انداز میں اپنی بات پیش کی۔ دہلی کے عوام نے بیلٹ کے ذریعہ اپنی رائے سنادی ۔ یہ بیرونی اور داخلی دونوں رائے یہ ہے کہ ہندوستان ایک سوشلسٹ سیکولر جمہوری ملک رہے گا۔ اس کا کردار بدلنے کی کوشش نہ ہندوستانیوں کو قبول ہے نہ ہندوستان کے باہر ترقی پسند عوام کو۔ ذمہ دار حکومتوں کو اور عالمی لیڈروں کو۔ دہلی میں نئی حکومت کے بنتے ہی آر ایس ایس اور اس کی دیگر ہمشیر ، ذیلی اور محاظی تنظمیں سماج میںاپنی جگہ تلاش کرنے کی جارحانہ روش اختیار کرگئی تھیں ۔ دہلی پولیس ہیڈکوارٹر سے صرف پانچ سو میٹر کی دوری پر آئی ٹی او پل گؤ رکشا کے نام پر کام کرنے والی ایک تنظیم نے جو کھلی غنڈہ گردی کی تھی۔ اس پر پولیس کی خاموشی اور میڈیا میں اس کی بالکل الگ خبر نگاری یہ بتانے کیلئے کافی تھی کہ ہندوستان سنگھ کے دباؤ میں آچکا ہے۔ اس رات تقریبا تین کلو میٹر لمبے آئی ٹی او پل پر سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیوں کو روک کر جانوروں کے بیوپاریوں کے ٹرک گؤرکشا کے نام پر لوٹے گئے اور درجنوں کی تعداد میں ان ٹرکوں کے ڈرائیور ،خلاصی،قلی اور دیگر لوگ بے دردی سے کھلی سڑک پر ہزاروں لوگوں کے سامنے زدوکوب کئے گئے۔ یہی حوصلہ بڑھا تو آئی ٹی او سے تین کلو میٹر کی دوری پر کچھ دنوں کے بعد ترلوک پوری میں فرقہ وارانہ فساد ہوا۔ یہ سلسلہ چلتار ہا۔ حکومت کے لیڈر ہونے کے ناطے نریندر مودی نے پراسرار چپی سادھ لی۔ شمالی ہند فساد کی لپیٹ میں رہا میرٹھ، مظفر نگر کے علاوہ بھی کئی پرامن علاقے فرقہ وارانہ کشیدگی جھیلتے رہے۔ ہندوتوا کا نعرہ عوامی نعرہ ہوگیا ۔ جو باتیں بند کمرے میں کی جاتی تھیں وہ کھلے بازار میں ہونے لگیں، لو جہاد کا نعرہ بلند ہوا، مسلمان اور عیسائی لڑکیوں کو عشق کے جال میں پھانس کر بہو بنا کر گھر لانے اور بیٹیوں کا تحفظ کرنے کی کوشش شروع ہوئی، گوڈسے کو محب وطن قرار دیا گیا۔ اور اس کا مندر بنانے کی بات بھی سامنے آگئی، گیتا کوقومی کتاب کا درجہ دینے کا مطالبہ ہوا۔ ہندوستان کے آئین سے لو سیکولر اور سوشلسٹ نکال کر 42ویں ترمیم سے پہلے کی تمہید سرکاری اشتہارات میں چھاپی گئی۔ آئین سے ہندوستان کی سیکولر سوشلسٹ پہچان مٹانے کا مطالبہ ہوا، نہرو سے وابستہ یادیں بھلانے کی کوشش کی گئی۔ پلاننگ کمیشن توڑ کر پالیسی کمیشن بنایا گیا۔ JNNRUMکے نام سے جواہر لال نہرو کا نام نکال کر اٹل بہاری واجپئی کا نام جوڑنے کی تجویز سامنے آئی، گھر واپسی کے نام پر جبری تبدیل مذہب کو ہندوستانی معاشرے کا سب سے اہم کام بنا دیاگیا گویا ہر وہ چیز جو ہندوستان کے سیکولر تشخص سے ٹکراتی تھی یا اس کے سوشلسٹ مزاج کی عکاسی کرتی تھی اس ہر چیز کو نیست ونابود کرنے کی کوششیں سرکاری اور سنگھی دونوں سطحوں پر شروع کی گئیں۔ دہلی میں عیسائیوں کی عبادت گاہوں پر حملے شروع کئے گئے اور نو مہینے میں مودی سرکار میں چھ بار عیسائی عبادت گاہوں اور اسکولوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ پورا منظرنامہ ایسا تیار ہورہا تھا جیسے ہندوستان اکیسویں صدی میں آگے بڑھنے کی جگہ اٹھارویں صدی میں واپس جانے کو تیار ہے۔ اس صورتحال نے سیکولر طاقتوں کو یا جانی پہچانی سیکولر طاقتوں کو بے بس کردیا تھا۔ اگر کیجری وال اور عام آدمی پارٹی دہلی کے عوام سے فردا فردا مل کر ہندوستانی سماج کے زیادہ اہم اور توجہ طلب اجزاء کی نشاندہی نہیں کرتے تو یہ سرکاری سطح پر مودی توا اور سنگھی سطح پر ہندوتوا کا ایجنڈا ہندوستان کو ایک ایسی وحشی قوم میں تبدیل کردیتا جس میں اقلیت کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ اقلیت دشمنی بھی ان مذاہب کے خلاف ہی محدود ہی تھی جن مذاہب کی بنیاد آسمانی کتابوں پر ہے جیسے کہ اسلام اور عیسائیت۔ اقلیت میں تو بودھ بھی، جین بھی، اور سکھ بھی، لیکن ہندوتوا کی مار کیلئے جو عقائد چنے گئے وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے تھے مسلمانوں کی طرف سے بولنے کی سکت یا توفیق سعودی عرب سمیت کسی بیرونی ملک کو نہیں لیکن عیسائیت کے خلاف مظالم پر بولنے کیلئے امریکہ کھڑا ہوگیا۔ صدر اوباما کی سرزنش کے ساتھ ہی دہلی اسمبلی کے الیکشن میں ووٹروں نے بی جے پی ، اس کی قیادت ، اس کا ایجنڈا اور کسی کے اب تک کے کام کاج کو یکسر مسترد کردیا۔ دس فروری کے بعد سماج سے مکالمے کا حکومت کا لہجہ اور اس کی لفظیات دونوں پر فرق پڑا ہے۔ لٹل اینجل اسکولر پر حملے کے چند گھنٹے کے اندر وزیر اعظم نے پولیس کمشنر بی ایس بسسی کو طلب کرکے کڑی وارننگ دی کہ وہ مجرموں کے خلاف فورا کارروائی کریں۔ وشو ہندو پریشد نے سنگھیوں کو مشورہ دیا کہ وہ مودی کے کام کاج میں مشکلات پیدا کرنے سے گریز کریں۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے دہلی پولیس سے کہا کہ وہ نئی عام آدمی پارٹی کے ساتھ بھر پور تعاون کریں اور شہر میں لاء اینڈ آرڈر برقرار رکھنے میں ارند سرکار کی حمایت کریں۔ گویا حکمرانی کا کام کاج اب شروع ہوا ہے۔ اس سے پہلے جارحیت کو بڑھاوا دینے کا کام سرکاری اور سنگھی ،سیاسی اور سماجی دونوں سطح پر ہورہا تھا۔ کیجری وال کے ساتھ ہندوستان میں سیکولر زم کی واپسی ہوئی ہے۔ اور ہندو جارحیت پسند کو مسترد کرنے کا اعلان ہوا ہے۔ اگر مودی سرکار بین الاقوامی رائے اور عوامی رائے کا احترام کرتی ہے تو اسے اب تک کے تمام منفی فیصلوں پر نظر ثانی کرکے ہندوستان کو واپس اسی سوشلسٹ سیکولر ڈگر پر لانا چاہئے جس پر چل کر اس نے اقوام عالم میں اپنے لئے اعتبار کی جگہ نکالی تھی۔

(یو این این)

****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 562