donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ashraf Ali Bastavi
Title :
   Aalmi Yaume Urdu Yaume Ehtesab Bhi


عالمی یوم اردو یوم احتساب بھی ہے


 

اشر ف علی بستوی، نئی دہلی 


    گزشتہ کچھ برسوں سے ہندستان میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے یوم پیدائش کو اردو حلقے ’’عالمی یوم اردو‘‘ کے طورپر مناتے ہیں۔ سابقہ روایات کے مطابق اس بار بھی دہلی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں محبان اردو نے قومی سمیناروں اور مذاکروں کا اہتمام کیا نیز اس موقع پر اردو زبان کے ماضی، حال اور مستقبل پر مدلل بحثیں کی گئیں اور ہندستان میں اردو زبان کی ترقی میں پیش آنے والی عملی دشواریوں کے سدباب کے لئے راہیں تلاش کرنے کی تدابیر وضع کرنے کے عزائم کے ساتھ یہ مجالس اختتام پذیر ہوئیں۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ایسے مواقع پر ہندستان میں اردو کی ترقی میں پیش آنے والی عملی دشواریوں پر سنجیدگی سے غورو خوض کرنے کے بجائے جشن کے ماحول میں جذباتی تقریریں خوب کی جاتی ہیں اور کہاجاتاہے کہ اردو ایک زندہ زبان ہے، اردو مر نہیں سکتی جب تک اردو والے ایسی محفلیں منعقد کرتے رہیں گے اردو زندہ رہے گی۔ جب کہ کڑوی سچائی یہ ہے کہ اردو کے وہ حلقے جو یونیورسٹیوں اور اردو کے اداروں سے وابستہ ہیں، وہ بھی اب اپنی نئی نسل کو اردو میں اِس خوف سے اردو نہیں پڑھاتے کہ اب یہ روزگار کی زبان نہیں رہ گئی ہے۔ وہ خود تو اردو زبان کے پروفیسر، ادیب، شاعر،افسانہ نگار بن کر اردو زبان کے ذریعے ہی روزگار پاکر بہتر زندگی گزارتے ہیں لیکن اپنی نسلوں کو اس سے دور رکھتے ہیں۔ ان کا یہ خوف بڑی حدتک حق بجانب قرار دیاجاسکتا ہے کیوں کہ ملک کے حالات اردو زبان کے تعلق سے کچھ اسی طرح کے ہیں۔ بعض ریاستوں میںاسکول کا بہتر نظم ہونے کی وجہ سے اردو میڈیم میں تعلیم کا نظم ہے وہاں اردو میڈیم اپنانا مسئلہ نہیں ہے لیکن دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ کی حالت تشویش ناک ہے۔ اترپردیش میں اردو میڈیم اسکولوں کا تصور ہی ختم ہوگیا ہے جب کہ دہلی میں جو کچھ ہے اس کی صورت حال انتہائی خراب ہے۔ 

آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل کردہ اطلاعات کے مطابق این ڈی ایم سی کے نویگ ایجوکیشنل سوسائٹی کے تحت دہلی کے اردو میڈیم اسکولوں میں 1996 سے اردو کا ایک بھی ٹیچر بحال نہیں کیاگیا ہے۔ اس سوسائٹی کے تحت دہلی میں گیارہ سرکاری اسکول چل رہے ہیں، جن میں تین پرائمری ، ایک مڈل اور سات سینئرسکینڈری اسکول ہیں۔ 

یہ تو رہا اسکولوں کاحال،دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم روزمرہ کی زندگی میں اردو زبان کو کتنا برتتے ہیں، اس پراردو کی ترقی کا انحصار بڑی حدتک ہے اس بات کا بھی محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے کام کاج کی زبان کیا ہے؟ پروگراموں کے پوسٹر اور بینربناتے وقت ہم اردو کو کتنی جگہ دیتے ہیں، وہ مسلم ادارے جنھوںنے باقاعدہ اپنے کام کاج کی زبان اردو طے کررکھی ہے، کیا وہ صحیح معنوں میں اس پر عمل کرتے ہیں۔ عام طورپر دیکھاجاتاہے کہ پروگراموں میں پریس نوٹ، اردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں ترجیحی بنیادوں پر تقسیم کیے جاتے ہیں، یہ حالات اردو زبان سے ہماری حقیقی دوستی پر سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ 

 اب ذرا ایک نظر اس سال کے یوم اردو کی تقریب کے احوال پر ڈال لیں۔ اردو کے پرستاروں نے شاعر مشرق علامہ اقبال کے یوم پیدائش یو م اردو کے موقع پر غالب اکیڈمی میں پروقار تقریب کا اہتمام کیا جس میں کثیر تعداد میں اردو دوستوں نے شرکت کی۔ پروگرام بحسن خوبی رواں دواں تھا کہ اسی درمیان ایک اردو دوست ، اردو اکیڈمی کی خدمات کا ذکر خیر سن کر انتہائی جذباتی ہو گئے اور اکیڈمی کے خلاف بولنا شروع کیا، خیر مجلس کے سنجیدہ افراد کی بر وقت مداخلت سے معاملہ فوری طور پر سنبھل تو گیا لیکن جب باری اردو اکیڈمی دہلی کے وائس چیر مین کی آئی تو پھر کیا تھا پروفیسر اختر الواسع صاحب نے ان کی جم کر خبر لی۔ پروگرام کے مہمان خصوصی پروفیسر اختر الواسع کی پر سوز، پرمغز اور پر خلوص تقریر میں ہندستان میں اردو کے روشن مستقبل کے لیے کوشاں متفکر حلقوں کو خود احتسابی کی دعوت کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کی ترغیب شامل تھی۔پروفیسر صاحب نے موقع کا خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندستان کے اردو دوستوں کا کچا چٹھا سب سامنے رکھ دیا جو اردو زبان کے تئیں لوگوں کی بے حسی، لاپروائی، سست روی پر آنسوبہا رہے تھے۔ اردو کے چاہنے والوں کی یہ مجلس اردو کو دل سے چمٹائے رکھنے کی ہزار قسمیں کھاتے ہوئے عملی اقدامات کے بلند دعوئوں اور عزائم کے ساتھ چکن بریانی پر اختتام پزیر ہوئی۔ اس وعدے کے ساتھ کہ آئندہ برس پھر ملیں گے کچھ اور نئے عزائم اور شکوے شکایات کے ساتھ۔ یہ تو رہی یوم اردو کی روداد۔ اب ا ردو کے فروغ  کے تعلق سے کچھ باتیں ،قابل غور بات یہ ہے کہ جب تک اردو زبان میں روزگارکے مواقع نہیں پیدا کیے جائیں گے نئی نسل کو کسی بھی صورت میں اس زبان سے عملی طور پر وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری اداروں میں روزگار کے مواقع پیدا کرانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ نجی اداروں میں روزگار کے مواقع پیدا کرانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نجی اداروں میں یہ کام  زیادہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم کثیر ملکی نجی کمپنیوں کو اپنے طرز عمل سے یہ باور کرا سکیں کہ ایک بڑا حلقہ ایسے صارفین کا ہے جو اردو زبان کا استعمال کرتے ہیں تو ایسی صورت میں اردو صارفین تک اپنی گرفت مضبوط بنانے کے لیے یہ لوگ دیگر علاقائی زبانوں کنڑ،تیلگو،ملیالم ،مراٹھی کی طرح اپنے پروڈکٹ فروخت کرنے کے لیے اردو داں پروفیشنلس کو موقع فراہم کریں گے۔ کال سینٹر اور ٹیلی مارکیٹینگ کے اس دور میں بڑی تعدادمیں لوگوں کو اردو زبان کی بنیاد پر نوکری مل سکے گی۔ 

*****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 449