donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ghatreef Shahbaz Nadvi
Title :
   Shaam Ka Buhran - Aur AAlmi Sardmehri

 

شام کا بحران :اور عالمی سرد مہری 
 
ڈاکٹرغطریف شہباز ندوی٭
 
بہت پہلے اسٹالن نے کہاتھاکہ اعداد و شمار ہی توہیں!مارچ 2011 میں جب سیر یا (شام) میں عوامی انقلاب پھوٹ پڑا تو نہ توعوام کو یہ خیال رہا ہوگا کہ ان پر مسلط کالی رات کے اندھیرے چھٹنے میں اتنازیادہ وقت لگے گا اور یہ پرامن جدوجہداتنے شدید ریاستی تشدد کا شکار ہوجائے گی اور نہ دنیا کو اندازہ رہاہوگا کہ سیریا کی آمریت اتنی بے رحمی ، اتنی شدت، اتنی ڈھٹائی اور سفاکی سے عوامی انقلاب کا راستہ روکے گی۔ جس کی بھینٹ اب تک 60ہزار سے زیادہ جانیں چڑھ چکی ہیں۔ جن میں معصوم بچے ، نوخیز جوانیاں، دوشیزائیں اور خواتین سب شامل ہیں ۔ 2جنوری کو جب نئے سال منانے کی ہڑدنگ کے بعد دنیا بھر میں پہلا ورکنگ ڈے تھا حقوق انسانی کی اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر ناوی پلائی نے سیریا میں خانہ جنگی کا نشانہ بننے والوں کی نہایت افسوسناک اور تاریک تصویر کھینچی۔ انھوں نے کہا کہ” 22مہینے سے جاری انقلاب میں 60ہزار سریائی ہلاک ہوچکے ہیں“۔ ناوی پلائی نے نہ صرف سیریائی حکومت پر تنقید کی بلکہ عالمی برادری کے رول کو بھی احمقانہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا”عالمی برادری اور خاص طو رپر سلامتی کونسل کے سیریا میں خوں ریزی کو روکنے کے لیے ٹھوس قدم اٹھانے میں ناکام رہنے پر ہم سب شرمندہ ہیں۔ سیریا جل رہا ہے اور ہم چین کی بانسری بجارہے ہیں“۔
 
شام میں امن ایک خواب بن چکاہے ۔ہرطرف بارودوآہن کی بارش ہے ،دھواںہے ،آگ ہے، خون ہے اورلاشیں ہیں۔ ہر گھرمیں ماتم برپا ہے۔کسی کے عزیز کو قبرمیں دفن کیاجاچکاہے،کسی کوغائب کردیاگیاہے اورکوئی زخمی اورمعذورہے اورکسی کی عصمت لٹ چکی ہے ۔ ہر فرد خوف وہراس میں مبتلاہے ۔ہرطرف بھوک وافلاس اورموت کے ساےے ہیں۔سیریائی اپوزیشن کے مطابق مارچ 2011سے نومبر2012تک 42394 افرادہلاک ہوچکے ہیںجن میں بچے اور عورتیں بھی بڑی تعدادمیں شامل ہیں۔چارسوسے زیادہ غیرملکی مارے گئے ہیں جن میں 333فلسطینی ہیں۔ حمص،ریف، دمشق، درعا، ادلب، حلب، حماة دیرالزور قبرستان بن گئے ہیں۔اس خانہ جنگی کے نتیجہ میں 20لاکھ سے زیادہ افراداندرون ملک نقل مکانی کرچکے جبکہ کئی لاکھ وہ ہیں جوترکی ،اردن ،مصر،لبنان اورعراق جیسے ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔ملک میں ادویات اورسامان خوردونوش کی شدیدقلت ہوچکی ہے ۔ حکومت کی وفادارفوج اورا نقلا بیوںکے مابین حمص اور حلب لڑائی کا مرکز ثقل بنے ہوئے ہیں جبکہ اس آگ کے شعلے دارا لحکومت دمشق اوراس کے مضافات میں بھی پھیل چکے ہیں ۔ 
 
دنیا میں اب تک اسرائیل ہی کی واحد مثال تھی جہاں اقوام متحدہ اور دوسرے تمام بڑے ادارے ناکام ثابت ہوتے رہے ہیں کیوں کہ اسرائیل پر امریکہ کی آشیرباد کی وجہ سے کسی کا کوئی اثر ہی نہیں پڑتا اور سلامتی کونسل میں امریکہ بلا استثنیٰ ہمیشہ ہی اس کے حق میں ویٹوکرتا آیا ہے۔ مگر اب سیریا بھی اس کی صف میں شامل ہوگیا ہے کہ 22مہینوں کے دوران یوروپی یونین، جنرل اسمبلی اور دوسرے عالمی اداروں نے کڑے سے کڑے قدم سیریا کی آمریت کے خلاف اٹھائے۔ بشارالاسد پر اقتصادی پابندیاں عاید کیں مگر سلامتی کونسل میں سیریا کو روس اور چین کی مسلسل حمایت حاصل ہے، بطور خاص روس کی جس کے سیریا میں بڑے پیمانہ پر تجارتی و معاشی مفادات ہیں۔
 
یو این او کی اس رپورٹ کے مطابق اگست 2012 سے اب تک ماہوار 5000 سیریائی قتل ہوتے آرہے ہیں جو یومیہ 170موتوں کا اوسط بنتا ہے۔ جب کہ ساٹھ لاکھ لوگ بے خانماں برباد ہوگئے ہیں جن میں چار ملین نفوس انسانی بنیادوں پر فوری مدد کے ضرورت مند ہیں۔ یاد رہے کہ ان میں چار لاکھ سے زائد فلسطینی بھی ہیں۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ پر دنیا بھر میںسخت غم و غصہ کا اظہار کیا گیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ غم و غصہ اور رنج کا یہ اظہار زیادہ تر زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھتا۔ اس کو خونِ مسلم کی ارزانی کہہ لیجئے کہ دنیا اس کی عادی ہوچکی ہے۔ کنیڈا کے ایک اسکالر مظفراقبال اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے اگریہ کہتے ہیں کہ عالم اسلام کو او آئی سی کے کفن دفن کا انتظام کرنا چاہئے تو کیا غلط کہتے ہیں! عراق میں دس لاکھ مرے تو کسی پر کیا فرق پڑا؟ بہت پہلے اسٹالن نے کہا تھا کہ یہ اعدادوشمار ہی تو ہیں!!قطر،سعودی عرب اورکویت وغیرہ بڑھ چڑھ کرریلیف ورک کرتے اورانسانی امداددیتے ہیںمگریہ امدادشام کے بحران کا کوئی حل تونہیں۔بش جونئیر نے جس طرح اپنے آپ کوبش سینئر کا صحیح جانشیں ثابت کیا اسی طرح بشارالاسد بھی اپنے سفاک باپ حافظ الاسد کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جتنے لوگوں کو وہ مار چکے ہیں اور جتنے مرد، عورتوں اور بچوں کو انھوں نے موت کی نیند سلادیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حافظ الاسد کے صحیح وارث ہیں۔ قرون وسطیٰ میں چنگیز خاں کے جانشین ملکوںاورشہروں کو برباد کر کے انسانی کھونپڑیوں کے مینار بنایاکرتے تھے اور جس سپہ سالار کا بنایا ہوا مینار اونچا نکلتا فوج میں اس کا بڑا نام ہوتا تھاٹھیک ےہی صورت حال بشارا لاسد کے جنرلوں اور وفادار افسروں کی ہے جو معصوم عوام کے خون کی ہولی کھیلنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ عرب لیگ کی ناکام امن کوششوں ، ترکی اور عرب ممالک کی دھمکیاں ، مغرب کی اقتصادی پابندیاں، کو فی عنان کا امن مشن اب تک سب ناکام رہے ہیں اور اب عرب لیگ اور اقوام متحدہ کا مشترکہ سفیرِ امن غریب لخدر براہیمی قاہرہ دمشق، قطر اور دوسرے عرب دارالحکومتوں کے مابین چکر لگارہا ہے، لیکن کہیں سے امید کی کوئی کرن روشن نہیں ہورہی ہے۔ ایک اور عجیب بات جو دیکھنے میں آئی ہے کہ عراق پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے دوسرے حملے کے وقت جس کے لیے ان کو ساری دنیا سے WMD کا جھوٹ بولنا پڑا تھا۔ پورے مغرب میں ، فرانس کے پیرس ،برطانیہ کے لندن، اور امریکہ کے نیویارک اور واشنگٹن میں لاکھوں اور ملینوںافراد نے امریکی دادا گیری اور بش کے جنگ بازٹولے کے خلاف احتجاج کیے تھے۔ مگر آج شام کے کیس میں ان امن پسندوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور خاص طور پر بایاں محاذ کے لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ سب منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ کیا یہ خوف انہیں ستارہا ہے کہ اسدکے خاتمہ کے بعد اسلام پسند اقتدار میں آجائیں گے؟ یا اس وجہ سے وہ کوئی حرکت نہیں دکھارہے ہیں کہ بشارالاسد اور اس کے خاندان کا جھکاؤ ہمیشہ کمیونسٹ روس کی طرف رہا ہے؟ ایران غیرمشروط طور پر شام کی جابر حکومت کا ساتھ دے رہا ہے۔ حزب اللہ کے اتحاد اسلام کے نعرے اور دعوے ہوائی ثابت ہوچکے ہیں۔ جو ہر طرح ظالم اور سفاک علوی اقتدار کا ساتھ محض مذہبی تعصب کی بنیاد پر دے رہی ہے۔ دنیا کے سنی مسلمانوں میں ان کے گماشتوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو میڈیا کے ذریعہ اور دیگر دوسرے ذرائع کے واسطہ لوگوں کو یہ باور کرانے میں لگے ہوئے ہیں کہ مسئلہ صرف اتناہے کہ ”مغرب ایک اور مسلم اور عرب ملک (شام )کو نشانہ بنانے کی سازش کررہا ہے۔“ حالانکہ یہ کہنا دوسال سے سیریا کے عام لوگ جو قربانیاں دے رہے ہیں، جنہوں نے اپنے انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے سر سے کفن باندھ رکھے ہیں ان کی اور ان کی عظیم جدوجہد کی توہین ہے۔ ہمیں نہ مغرب سے کوئی ہمدردی ہے نہ امریکہ کے سامراجی ارادوں کے بارے میں کوئی خوش فہمی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں دنیا مغرب کے طے کردہ اصولوں پر ہی چل رہی ہے۔ اس لیے مغرب کی موافقت یا مخالفت دونوں ہی دوسرے مسائل کی طرح سیریا کے اس بحران میں بھی فیصلہ کن ہیں۔ لہٰذا جب تک امریکہ یا ناٹو سیریا میں فوجی مداخلت نہیں کرتا بشارالاسد اوران کا ٹولہ میدان چھوڑ کر بھاگنے والے نہیں۔دوعشرے قبل بشارالاسد نے قوم سے خطاب کرکے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی اس کی اس تقریر کو سرکاری وسائل کے ذریعہ دنیا بھر میں نشر کروایا گیا اور کرایہ کے ٹٹوؤں کو بلاکر ان کے حق میں نعرے لگوائے تاکہ یہ تاثر دیا جاسکے سب کچھ ٹھیک ہے۔ اور چندشورش پسندوں نے امن و امان کو غارت کردیا ہے۔ لیکن بشارالاسد کی اس پیش کش کو اپوزیشن نے یکسر مسترد کردیا کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی اس طرح کی دعوت دے چکاہے ، جس کا فائدہ کبھی کچھ نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ مغرب اوراس کا قائدامریکہ کا رویہ ڈھل مل کیوںہے اورکیوںوہ سیریامیںلیبیاوالاکردارنہیں دہراسکا۔اس بارے میں الجزیرہ ٹی وی کے ایک مباحثہ میں اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے امریکی وزار ت خارجہ کے ترجمان بی جی کراو ¿لی کا کہناتھاکہ لیبیاکے کیس میں عرب لیگ، یو این او اور لیبیاکے انقلابیوںنے باضاببطہ فوجی مداخلت کی درخواست کی تھی ،جبکہ سیریاکے معاملہ میں ایسانہیں ہے ۔شامی حزب اختلاف بیرونی فوجی مداخلت کے حق میں نہیں ،عرب لیگ اس سوا ل پر منقسم ہے، اور یو این او میں سلامتی کونسل کی ہرقردادکوروس ویٹو کردیتا ہے۔ اسی مباحثہ میں شامی حزب اختلاف سے وابستہ صحافی غسان ابراہیم نے ایک دل چسپ بات روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف کے حوالہ سے نقل کی جنہوںنے میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے روسی موقف کی ترجمانی میں کہاتھاکہ عالمی برادری درحقیقت عملًاکچھ کرناہی نہیں چاہتی اورگویاوہ منتظررہتی ہے ا وردل سے چاہتی ہے (اگرچہ زبان پر کچھ اورہی ہو) کہ روس ویٹوکرے اوروہ شام کے خلاف کسی عملی اقدام سے بچ جائیں ۔لاوروف کا یہ بیان اپنے آپ میں بہت کچھ کہ دیتاہے اوراسے مزیدکسی تشریح کی ضرورت نہیں۔۔غسان ابراہیم کے مطابق یہ دراصل اسرائیل ہے جوامریکی موقف کوطے کرتاہے ۔کیوکہ اسرائیل کے لےے سیریاکا موجودہ اسدنظام بالکل بے ضررہے ۔جس نے بغیرایک گولی چلائے گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کودے دی تھیںاوراس نظام کے سقوط کے بعدکے منظرنامہ سے اسرائیل کوخدشات ہیں ،اس لےے بغیراسرائیل کے مستقبل کی سلامتی کی ضمانت کے امریکہ سیریامیں کچھ اور کرنے سے رہا۔ بہت حدتک اس تجزیہ میں دم معلوم ہوتاہے ۔دوسری طرف شامی اپوزیشن بھی متحدنہیں ۔21جنوری 2013استبول ترکی میں شامی حزب اختلاف کا ایک اہم اجلاس ہوناتھا جس میں وہ اپنی جلاوطن آزادحکومت تشکیل دیتے ۔شام کے منحرف سابق وزیراعظم ریاض حجاب کواس عبوری حکومت کا سربراہ بنانے کی تجویز پر غورچل رہاتھامگریہ اجلاس منعقد نہیں ہوسکا۔یاد رہے کہ شامی قومی اتحادکے سربراہ معاذ الخطیب ہیں اوراس محاذکے علاوہ بھی کئی دوسرے محاذ سرگرم ہیں۔جن میں جبہة الانصاریاالنصرة نے کچھ انتقامی کارروائیاں بھی کی ہیں۔ جس کی وجہ سے بشارالاسدحکومت کے حوصلے بلند ہیں اوردنیاکی چوطرفہ مذمت کے باوجودوہ اقتدارچھوڑنے کے لےے تیارنہیں۔لہذاسیریاکے بحران کاکوئی سیاسی اور پرامن حل نکلتادکھائی نہیں دیتا۔اب ساری امیدالجیش السیریائی الحر(آزادسیریائی فوج ) سے ہے جس میں کرنل ریاض الاسعد کی قیادت میں تقریباً 25000 افرادہیں، جوفی الحال سرکاری فوج کے مقابلہ میں کسی برترپوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ اُس کے پاس بمبارجہاز اور ہوائی بیسیز (Bases)نہیں۔عرب لیگ اورترکی اگراسی کومضبوط بنائیں تووہ کمزوری کی حالت سے نکل کرعوام کواسدکے ظالمانہ اقتدارسے آزادی دلاسکتی ہے۔
 
٭ڈائرکٹرفاو ¿نڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز C-303/3شاہین باغ جامعہ نگرنئی دہلی 
ای میل : mohammad.ghitreef@gmail.com
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 701