donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Khwaja Ikram
Title :
   Babri Masjid Banam Ram Janam Bhumi

 

 بابری مسجد بنام رام جنم بھومی
 
 
   ڈاکٹر خواجہ اکرام 
 
ہندستان میں فرقہ پرست عناصر نے ایک بار پھر سر ابھارنا شروع کیا ہے ۔فرقہ پرستوں کو بابری مسجد کے بہانے سیاست کی بالائیوں تک پہنچنے کا موقع ملا تو اس کو انھوں نے اپنی سیاست کے لیے ناگزیر سمجھ لیا اور جب بھی ان کو اپنی سیاسی ساکھ گرتی نظر آتی ہے تو وہ اسی طرح کے فرقہ پرست پر مبنی مسائل کا سہار الیتے ہیں۔ ابھی کچھ برسوں سے ہندستان میں فرقہ پرست عناصر مرکزی حکومت سے دور ہیں ۔اس لیے وہ طرح طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں وہ مرکزمیں دوبارہ اقتدار میں آسکیں ۔ہندستان کی کچھ ریاستوں میں ایسی ہی فرقہ پرست پارٹیوں جیسے بی جے پی اور شیو سینا کی حکومت ہے ، اب وہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ کسی طرح فرقہ پرستی زندہ رہے تاکہ ان کی حکومت چلتی رہے ۔اسی کی ایک کڑی یہ ہےکہ شیو سینا کے سر براہ بال ٹھاکرے نے تمام شیو سینکوں سے یہ کہا ہےکہ وہ اپنے تیر اور کامن تیار رکھیں کیونکہ بابری مسجد کا فیصلہ آنے والا ہے ۔ چونکہ حکومت ان کشمیریوں کو کچھ نہیں کہتی جو پاکستان کی حمایت کرتے ہیں ، تو ایسی حکومت سے ہمیں خود ہی نپٹنا ہے۔ 
 
رہی بات بابری مسجد کی تو یہ سب جانتے ہیں کہ یہ مفروضے کی بنیاد پر رام کی جائے پیدائش قرار دی گئی ہے اور مفروضے کو اس کو ہو ا دینے میں ایسے ہندستان کی روح کے مخالفین فرقہ پرستوں نے ہندستان میں نفرت کا زہر گھولا ہے۔اس سلسلے میں بِکاؤ صحافیوں کا بھی اچھا خاصہ رول رہا ہے ۔۸۰ کی دہائی میں ہندستان میں کئی ایسے سنگین واقعات ہوئے جن کی وجہ سے ملک میں امن و آشتی کی صدیوں پُرانی روایت منٹوں میں تباہ وبرباد ہوگئی ۔ ان میں ایک بابری مسجد کا معاملہ ہے ۔بابری مسجد کے حوالے سے یہ المیہ رہا کہ تمام اخبارات نے ہمیشہ متضاد خبریں شائع کیں اور بعض اخبارات نے تو محض ایک پارٹی کے منشور کے مطابق خبروں کی سرخیاں لگائیں۔اب دیکھیے کہ بابری مسجد کے وجود کو صحافت نے کس طرح ختم کرنے کی کوشش کی ۔ پہلے تو ’بابری مسجد‘ لکھا جاتا تھامگر اس کے ساتھ ایک دُم چھلا لگا دیا گیا اور بابری مسجد کی جگہ’بابری مسجد رام جنم بھومی ‘اور پھر اس کے بعد ’رام جنم بھومی بابری مسجد‘اور بعض صحافتی اداروں نے تو محض’ رام جنم بھومی ‘ہی لکھناشروع کردیا ہے لیکن اس راہ کے گرگ ِ جہاں دیدہ صحافیوں نے احتیاط برتتے ہوئے وِوادِت مندر(متنازعہ مندر) لکھا اور بھی سنبھل کر لکھنے والوں نے وِوادِت ڈھانچہ( متنازعہ عمارت) لکھنا شروع کر دیا ہے۔ اس دانستہ کوشش کا مطلب یہ ہے کہ آنے والی نسلیں ان تاریخی اور تہذیبی حوالوں سے بے خبر رہیں۔ 
 
ہندستان کئی ایسے بڑے صحافتی ادارے ہیں جو اِن کےاشاروں پر ناچنے والے ہیں ۔یہ ادارے اقتصادی فائدے کے حصول کے لیے صحافتی اصول وضوابط سے بھی گریز کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ 
اب جب ساٹھ سال کے بعد بابری مسجد کے مقدمے کی سماعت اس منزل میں پہنچی ہے کہ کوئی فیصلہ سنایا جائے تو ایک بار پھر منفی قوتوں نے اسے روکنے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔24 ستمبر کو آنے والا فیصلہ اس وقت سے سرخیوں میں رہا جب سے ججوں نے اس کی ممکنہ تاریخ کا اعلان کیا۔لیکن کہیں نہ کہیں لوگوں میں خدشات جنم لے رہے تھے کہ کئی بار کی طرح اس بار بھی ہائی کورٹ کی جانب سے کوئی فیصلہ نہیں آنے والا ہےاور ایسا ہی ہوا۔پہلا خدشہ یہ تھا کہ بینچ کے جج 30 تاریخ کو سبکدوش ہونے والے ہیں اور ہندستانی کورٹ لاء کے مطابق اگر پوری شنوائی میں کوئی جج نہیں ہوتا تو اسے فیصلہ سنانےکا کوئی حق نہیں ہے۔ماضی میں ایسا ہی ہوا تھا کہ بینچ کے ایک جج کے سبکدوش ہونے کی وجہ دوبارہ نئے جج کو پوری کاروائی نئے سرے سے شروع کرنی پڑی ۔اس بار بھی اگر ایساہوتا ہے کہ 30 ستمبر تک اگر فیصلہ نہیں آیا تو اس بینچ میں شامل ہونے والے جج کو دوبارہ تمام کاروائی نئے سرے سے کرنی پڑے گی۔اس طرح یہ فیصلہ پھر کئی برسوں تک التویٰ میں رہے گا۔اسی لیے پہلے تو ہائی کورٹ میں ہی آپسی صلح و صفائی کے لیے وقت مانگنے کیاپیل دائر کی گئی ،جسے ہائی کورٹ نے خارج کر دیالیکن سپریم کورٹ نے ایک دوسری عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے اسے منظور کر لیا اور اب اس کی دوسری سماعت 28 ستمبر کو ہونی ہے ۔ اس کے بعد یہ طے ہوگا کہ ہائی کورٹ فیصلہ سنائے ی انہیں سنائے۔ 
 
اب اس قضیےکے اس پہلو پر غور کریں کہ آج سے کوئی پانچ دس برس پہلے تک بے جی پی اور دیگر ہندو نواز پارٹیاں یہ کہتے نہیں تھکتی تھیں کہ کورٹ کے فیصلہ آنے دیا جائے اس کے بعد ہی ہم بابری مسجدکی جگہ رام مندر کی تعمیر کریں گے ۔لیکن اب انھیں کے پیٹ میں درد ہونا شروع ہو گیا ہے اور وہ مختلف پلیٹ فارم سے یہ کہہ رہے ہیں کہ کورٹ کا فیصلہ کچھ بھی پارلیمنٹ کو چاہیے کہ پارلیمنٹ سے اس معاملے کو طے کیا جائے اور رام مندر بنانے کی راہ ہموار کی جائے۔وہ کھلے عام یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر فیصلہ رام مندر کے حق میں آتا ہے تب تو قابل قبول ہے اور اگر مسجد کے حق میں آتا ہے تو ہم اسے کسی قیمت پر نہیں مانیں گے۔سوال یہ ہے کہ کورٹ اور پارلیمنٹ کی بار بار داہئی دینے والوں کو اچانک کیا ہوگا ؟ کیا انھیں اس بات کا ڈر ہے کہ سچائی سامنے آجائے گی اور مسجد کو شہید کرنے والوں کا چہرہ بے نقاب ہوجائے گا۔حقیقت یہی ہے کہ انھیں اندر سے ایک ڈر ستا رہا ہے کہ کہیں فیصلہ مسجد کے حق میں نہ آجائے ۔ اور پھر ان کی سیاست کا خاتمہ ہوجائے اور ہندستان کیعوام کے علاوہ ساری دنیا یہ سمجھ جائے گی ہندستان میں مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے والوں نے عوام کو دھوکہ دیا ہے ۔لیکن ایسی سیاست کرنے والے بے غیرت اور شرم و حیا سے دور لوگوں کو کیا کہیے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ چِت بھیمیری پٹ بھی میری۔ 
رہی بات مرکزی حکومت کی ،جس کے اقتدار پر گانگریس اپنے حامیوں کے ساتھ حکومت چلا رہی ہے وہ بھی نہیں چاہتی کہ اس کے دور حکومت میں کوئی ایسا معاملہ کھڑ اہوجائے کہاس کے لیے وبال جان بن جائے ۔ یہ وہی کانگریس ہے جس نے بابری مسجد کوشہید کرایا ۔ اسی کانگریس نے بابری مسجد میں مورتیوں کی پوجا کی اجازت دی اور اسی کانگریس نے بابری مسجد کی شہادت کے کہا تھہ کہ جس جگہ پر مسجد تھی وہیں مسجد تعمیر کی جائے گی ۔ لیکن آج تک کانگریس کے کسی رہنما نے اس وعدے کے بارے کوئی بات نہیں کہی اور نہ کوئی اس بات کو یاد دلاتا ہے ۔ بابری مسجد کی شہادت کے وقت جو مسلم ممبران پارلیمنٹ تھے انھوں نے بھی بے غیرتی کا مظاہرہ کیا تھا اور اپنی پارٹی سے وفا داری نبھاتے ہوئے مسلم مسائل سے روگردانی کی تھی ۔آج بھی ایسے بے غیرت لوگ موجود ہیں جو زبان کھولتے ہوئے بھی کترارتے ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ 28 تاریخ کو سپریم کورٹ کیا فیصلہ سناتا ہے ۔ کیونکہ ابھی بھی فیصلہ ملتوی کرنے کے کئی بہانے موجود ہیں اور ان میں سے سب سے اہم بہانا کومن ویلتھ گیم کا ہے کہ اگر ایسے وقت میں فیصلہ سنایا گیا اور کہیں فرقہ وارانہ فسادات ہوگئے تو کیا ہوگا ۔اس لیے اغلب گمان یہ ہے اس ماہ میں بھی فیصلہ نہیں آنے کوہے اور تاخیر کر کے نئی نسل تک اس بات کو لے جانےکی کوشش کی جارہی ہے تاکہ مزاحمت کم ہو اور مناسب وقت پر فیصلہ سنا کر وہاں رام مندر کی تعمیر کر دی جائے۔ 
www.khwajaekramonline.com
++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 646