donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Md. Abdul Rasheed Junaid
Title :
   Modi Ki Khamoshi Kiyon Tooti

مودی کی خاموشی کیوں ٹوٹی۰۰۰؟


ڈاکٹر محمد عبدالرشید جنید

09949481933


ہندوتوا تعصب پرستوں کی زبان کو شائد لگام دینے کا وقت آگیاہے ، وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوتوا فرقہ پرست عناصر نے کبھی تبدیلی مذہب کا نعرہ لگایا تو کبھی لَو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ یہی نہیں بلکہ جبراً تبدیلی مذہب کے تحت دیہاتی مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو مذہب اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی یا ان میں خوف و ہراس پیدا کرکے مذہب تبدیل کرایا گیا۔ ملک کو ہندو راشٹرا بنانے کا ان کا خواب تو خواب ہی رہے گا کیونکہ دہلی انتخابات کے بعد شائد اب ہندوتوا فرقہ پرستوں کی زبانوں کو تالا لگانے کی ضرورت ہے۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن کی جانب سے تبدیلی مذہب اور گھر واپسی سے مطالق بیان دینے کے بے اصرار اور ہنگامہ آراہی کے باوجود وزیر اعظم نے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی۔ گذشتہ دنوں دہلی میں عیسائیوں گرجا گھروں پر حملوںکے بعد ایک پروگرامن کے دوران نریندر مودی نے اپنی خاموشی کو ختم کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں مذہبی تشدد برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوںنے کہا کہ ’’میری حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ سب کو پوری مذہبی آزادی ہوگی اور بغیر دبائو کے ہر ایک کو کوئی بھی مذہب اختیار کرنے کی آزادی ہوگی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اکثریتی فرقہ ہو کہ اقلیتی فرقہ کسی کو بھی مذہب کی بنیاد پر تشدد کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسے عناصر کو سخت کارروائی کے لئے تیار رہنے کا عندیہ دیا ہے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ملک میں گذشتہ سال مرکزمیں بی جے پی حکومت کی بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد سے ہندوتوا فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور اس کے بعد ہونے والے مختلف ریاستوں کے اسمبلی انتخابات سے قبل ہندوتوا فرقہ پرستوں کی زبانیں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے نہیں تھکتی۔ویسے ملک میں ہر فرد کو اظہار آزادی کا حق ہے لیکن اظہار آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ ملک کے عوام کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی ختم کرکے ایک دوسرے کے خلاف دشمنی کے بیج بوئے جائیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی نے آخر کار دہلی سے بی جے پی کی ناکامی کے دروازے کھول دیئے ۔ بھگوا تعصب پرست ، مسلم دشمن عناصر کی جانب سے لگاتار غیرذمہ دارانہ بیانات و تقاریر سے ملک میں امن و آمان کی فضا خراب ہورہی تھی ۔ وزیر اعظم کو گذشتہ سال راجیہ سبھا میں جبراً تبدیلی مذہب کے سلسلہ میں بیان دینے کے لئے اپوزیشن نے بے حد اصرار کیا اور ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے تقریباً ایک ہفتہ تک راجیہ سبھا کی کارروائی کو متاثر کیا اس کے باوجود وزیر اعظم نے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی۔ گذشتہ دنوں دہلی میں ہندوتوا عناصرکی جانب سے عیسائی گرجا گھروں کو نقصان پہنچانے کی خبریں بھی منظر عام پر آرہی تھیں ۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے گذشتہ دنوں اپنے ایک بیان میں ہندوئوں کو متحد ہوکر ملک بھر میں آر ایس ایس کی شاخیں قائم کرنے اور ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے بیانات آئے ہیں۔ نریندر مودی کو امریکی صدر نے یوم جمہوریہ کے موقع پر ملک میں امن و سلامتی کے لئے تمام مذاہب کے ساتھ رواداری قائم رکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا اور امریکی صدر کا ہندوستانی وزیر اعظم کو اس قسم کا مشورہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ملک میں جس طرح فرقہ پرست ہندوتوا دہشت گرد غیر دمہ دارانہ بیانات دے کر ملک کو ہندو راشٹربنانے کا جو خواب دیکھ رہے ہیں اس سے ملک میں انتشار پیدا ہوگا اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے سپنے جو وزیر اعظم دیکھ رہے ہیں وہ ادھورے رہ جائیں گے۔ کسی بھی ملک کی سلامتی اور امن و آمان کی بحالی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب یہاں کی اقلیت اور اکثریت کے درمیان بھائی چارگی کی فضاء قائم ہو۔ ایک اچھے کامیاب اور تجربہ کار سیاسی قائد و رہنما کے لئے ضروری ہے کہ وہ ملک کے ہر فرد کو اسکا جائز حق حاصل کرنے کے انتظامات کریں اور عوام کی تعلیم، صحت ،روزگار کیلئے مؤثر انتظامات کریں۔


ساکشی مہاراج نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ بی جے پی کو کامیابی دلاسکتے ہیں اور ہرا بھی سکتے ہیںان کے اس بیان پر بھگوا جماعتوں کی جانب سے کسی قسم کا ردّعمل کا اظہار نہیں کیا گیا البتہ دہلی انتخابات میں بُری طرح شکست ہونے کے بعد ساکشی مہاراج کے ہوش ٹھکانے آگئے اور یہ کہنے پر مجبور پر ہوگئے کہ دہلی اسمبلی انتخابات میں ناکامی کے لئے وہ ذمہ دار ہیں۔ جبراً تبدیلی مذہب کا معاملہ ہو کہ گھر واپسی اس کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ ملک میں اب ہمارا راج ہے اور ہم جو چاہے کرسکتے ہیں ، جس قسم کے چاہے بیانات دے سکتے ہیں ۔ لوگ سبھا انتخابات میں بھاری کامیابی کے بعد چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی نے بھگوا قائدین کے تکبر میں اضافہ کردیا اور غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے والوں کو دہلی کے سیکولر عوام نے ان کی راہ دکھادی اور وزیراعظم کو بھی اب ان بھگوا دہشت گردوں کی زبانوں کو لگام لگانے کے لئے اپنا منہ کھولنا پڑا۔ اگر وزیر اعظم دہلی انتخابات سے قبل ہی ان دہشت گردوں کی زبانوں کو بند کرتے تو شائد آج دہلی میں بی جے پی کی کامیابی تو نہیں کم از کم چند نشستوں میں اضافہ ہوسکتا تھا۔ کانگریس نے جس طرح سیکولر لبادہ میں فرقہ پرستی کو جنم ہی نہیں دیا بلکہ آزادی ہند کے بعد سے اسی جماعت کی حکمرانی میں ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جس میں لاکھوں مسلمان ہلاک ہوئے ان کی معیشت کو بُری طرح نقصان پہنچایا گیا۔ مسلمانوں کے ساتھ آزادی ہند کے بعد سے کانگریس نے جس طرح تعصب پرستی کی ہے اس کا اندازہ سچر کمیشن وغیرہ کی رپورٹس کے منظرعام پر آنے کے بعد ہوگیا ہے۔ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات اور بم دھماکوں کے بعد مسلم نوجوانوں کو مختلف الزامات کے تحت گرفتار کیا جانا اور پھر کئی سال تک انہیں جیلوں میں بند رکھنا یہ سب کانگریس کے دور حکومت میں ہی ہوا جس کا خمیازہ آج کانگریس کو بھگتنا پڑرہا ہے ۔ لوک سبھا انتخابات میں سخت ناکامی کے بعد پانچ ریاستوں خصوصاً دہلی میں جہاں پر پندرہ سال تک کانگریس نے حکومت کی، اسے یہیں پر ایسی ناکامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا جس کا وہم و گمان کسی کے دل و دماغ میں بھی نہ تھا۔اتنی بُری طرح ہار نے کانگریس کو مسلمانوں پر کئے جانے ظلم و زیادتی کی یادیں تازہ کردی ہونگی اگر واقعی کانگریسی قائدین اپنا محاسبہ کریں اور اپنی غلطیوں اور زیادتیوں کا احساس کرتے ہوئے کھلے عام مسلمانوں سے معافی مانگے اور ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بحالی کے لئے مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگنے سے گریز کریں تاکہ ملک میں امن و آمان کی بحالی قائم رہے ۔ وزیر اعظم کی خاموشی توڑنے میں کانگریس کی بُری طرح ہار بھی ہوسکتی ہے کیونکہ نریندر مودی ایک سمجھدار شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں ، انہیں احساس ہوا ہوگا کہ اگر ہندوتوا تعصب پرستوں کی زبانوں کو بند نہیں کیا گیا تومستقبل میں بی جے پی کو بھی اسی طرح ہندوستان کے سیکولر عوام مسترد کردیں گے۔

(یو این این)

********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 593