donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Md. Abdul Rasheed Junaid
Title :
   Musalman Apne Mulk Ke Wafadar Hain Ghaddar Nahi

مسلمان اپنے ملک کے وفادار ہیں غدار نہیں۰۰۰


ڈاکٹر محمد عبدالرشید جنید

09949481933


ہندوستانی مسلمانوں کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ملک میں پرسکون زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ملک میں آزادی کے بعد سے مسلمانوں کو جس طرح تعلیمی، معاشی سطح پر پسماندہ کرنے کی کوششیں کی گئیں اس کا علم ہونے کے بعد بھی اگر مسلمان اپنی اور دوسرے ناخواندہ و غریب مسلمانوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی کوشش نہ کریں گے تو پھر اس ملک کے تعصب پرست بھگوا جماعتوں کے قائدین مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیں گے اور پھر مسلمانوں نے جس طرح آزادی ہند کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں پھر سے ایک مرتبہ اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے احتجاج وغیرہ کا سہارا لینا پڑے گا۔ ملک کا ہر تعلیم یافتہ اور معاشی اعتبار سے مستحکم مسلمان اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے مستقبل کے لائحہ عمل کو ترتیب دیں گے تو اس ملک میں صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے درمیان بھائی چارگی کا ماحول بنے گا۔ جس طرح ہندوتوا بھگوا طاقتیں فرقہ پرستی کے ذریعہ ہندو مسلم اتحاد کو ختم کرکے ملک میں انتشار پیدا کرنا چاہ رہے ہیں ان کی یہ کوششیں ناکام بنانے کے لئے ہم مسلمانوں کو ان کی متعصب تقاریر، بیان بازی کے خلاف آواز اٹھانے کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں ان کے متعصب بیانات کی وجہ سے اپنے آپ کو دوسرے درجے کا شہری سمجھنے کی ضرورت ہے۔اس ملک کا قانون ہر ہندوستانی کو برابر کا درجہ دیا ہے اور یہاں کے تمام مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذہب پر قائم رہ کر مذہب کی تبلیغ کرسکتے ہیں ۔ لیکن مذہب کی تبلیغ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کے کسی دوسرے مذاہب کے خلاف زہر افشانی کریں جس طرح کہ آج ہندوتوا بھگوا قائدین مسلمانوں کے خلاف غیر ذمہ دارانہ اور نفرت انگیزبیانات د ے کر ملک کے مختلف حصوں میں شرانگیزی پھیلانے کی کوششیں کررہے ہیں ۔ مسلمان بھی دیگر ابنائے وطن کے ساتھ ملک کے تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کریںاور روزگار کے مواقع حاصل کرنے کے لئے سرکاری نوکریوں کی تلاش میں بھی رہیں کیونکہ اگر ایک مسلمان قابل اور محنتی ہو تو اسے برابر کسی نہ کسی ادارے یا محکمہ میں سرکاری نوکری حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ تعصب پرست عہدیدار ہر محکمہ اور ادارے میں موجود ہونگے لیکن جب مسلمان اپنی تعلیم ، قابلیت ، ادب و اخلاق اور جہد مسلسل کے ذریعہ رجوع ہونگے تو مجبوراً یہ متعصب عہدیدار مسلمانوں کو نوکری دیں گے۔ اور اگر ہمیں سرکاری نوکریاں نہ ملتی ہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ ہر شخص کا رزق اللہ رب العزت دستِ قدرت میں ہے یہاں یہیں تو کہیں اور بہتر سے بہتر جگہ مسلمانوں روزگار کے مواقع دستیاب ہونگے۔ آج ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی اورمعاشی حالت بہتر اور مستحکم ہونے میں خلیجی ممالک کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اور ان ممالک میں مسلمانوں نے جو خدمات انجام دیں ہے اور دے رہے ہیں ان کی محنت کی کمائی سے آج ہمارے ملک میں ترقی و خوشحالی پائی جاتی ہے۔ آزادی ہند کے بعد سے مسلمانوں کی تعلیمی حالت پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمان تعلیمی میدان میں دیگر ابنائے وطن کے ساتھ انتہائی کم درجہ پر پہنچ گئے تھے۔ سرکاری مدارس ہونے کے باوجود مسلمان والدین اور سرپرست بچوں کو تعلیم دلانے کے بجائے معاشی پسماندگی اور غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو محنت مزدوری کرنے پر مجبور کرتے رہے۔ جب مسلمان تعلیم سے محروم ہوگئے تو پھر سرکاری نوکریاں حاصل کرنا ان کے لئے محال ہوگیا۔ اس طرح مسلمان تعلیمی اور معاشی سطح پرپسماندگی کا شکار ہوگئے ۔ اکثریتی طبقہ کے جو لوگ تعلیمی اور معاشی سطح پر انتہائی پسماندہ تھے انہیں حکومت کی جانب سے دی گئیں مراعات نے ترقی کی راہ پر گامزن کردیا اور آزادی کے چھ دہائیوں میں سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے تعلیم حاصل کرکے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوگئے تو مسلمان انتہائی پسماندگی کی طرف پہنچ گئے۔ خیر اس کے باوجود خلیجی ممالک میں روزگار کے مواقع دستیاب ہونے کی وجہ سے محنت مزدوری کرکے مسلم نوجوانوں نے اپنی زندگیوں کو فراموش کرکے اپنے عزیز و اقارب ، والدین ، بھائی بہنوں اور بیوی بچوں کے لئے وقف کردی۔ انہوں نے دھوپ کی شدت و تمازت کو برداشت کیا ، ٹھٹھرا دینے والی شدید سردیوں کو سہہ لئے اور اپنی بھوک و پیاس کو مؤخر کرکے محنت و مزدوری کی ۔ ان کی یہ جان لیوا محنت و مزدوری کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کے مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں خوشحالی پائی جاتی ہے۔ بے شک ہندوستان آزادی سے قبل سونے کی چڑیا کے نام سے جانا جاتا تھا اور اس سونے کی چڑیا کی پہنچان عالمی سطح پر مسلم حکمرانوں کی دین ہے جنہوں نے اس ملک میں صرف حکمرانی ہی نہیں کی بلکہ اس ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں نمایاں رول ادا کیا۔ کم و بیش ایک ہزار سال تک مسلم حکمرانوں نے اس ملک پر حکومت کی اورایسی ایسی تاریخی یادگاریں چھوڑیں کہ آج بھی سیاحت کے ذریعہ ان تاریخی عمارتوں کی وجہ سے ملک کو سالانہ کروڑوں روپیے کی آمدنی ہوتی ہے۔ اسی طرح ملک کے کئی حصوں بڑی بڑی اہم تاریخی عمارتوں میں سرکاری دفاتر و اہم ادارے کام کررہے ہیں ان تاریخی عمارتوں کی وجہ سے آزادی کے بعد نئی ہندوستانی مرکزی و ریاستی حکومتوں کو سرکاری عمارتوں کی تعمیر کیلئے بجٹ کی بچت ہوئی ۔ اس طرح مسلم حکمرانوں نے اس ملک کو اپنا سمجھ کرسونے کی چڑیا بنایا تھا، جسے انگریزوں نے لوٹ لیا اور پھر جب ملک آزاد ہوا تو غیر مسلموں نے مسلمانوں کی جائیدادیں بھی لوٹیں ، انکی خواتین و بچیوں کی عصمتوں کو بھی پامال کیا اور نوجوانوں و مردوں کا قتل عام بھی کیا۔ یہ آزادی ہند کے بعد کی تاریخ ہے جس میں لاکھوں مسلمانوں کا مختلف موقعوں پر فسادات کے ذریعہ خون بہایا گیا اور انہیں تعلیمی و معاشی طورپر پسماندہ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ یوں تو آزادی ہند کے بعد سے دینی تعلیمی ادارے مسلم بچوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ دینی مدارس کے علاوہ  چند صاحب ثروت اور تعلیم یافتہ باشعور طبقہ پسماندہ اور ناخواندہ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور معاشی پسماندگی کو دور کرنے کی غرض سے آہستہ آہستہ تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا ۔ ان افراد کوحکومتی اداروں میں متعصب عہدیداروں کی جانب سے ستایا گیا انہیں مختلف بہانوں اور طریقوں سے مسلمانوں کیلئے تعلیمی ادارے قائم کرنے سے روکنے کی کوششیں کی گئیں لیکن ان میں بعض ایسے غیر مسلم عہدیدار بھی تھے جنہوں نے ان مسلم صاحب ثروت و باشعور افراد کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے اور ملک کے ہر فرد کو خوشحال زندگی فراہم کرنے کے لئے مواقع فراہم کئے۔ ایک طرف ہندوستانی مسلمانوں کو خلیجی ممالک سے اپنے اُن نوجوانوں کی کمائی سے معاشی خوشحالی میسر آنے لگی تو دوسری جانب ملک کے ایسے افراد جنہو ں نے قوم کا درد رکھتے تھے ان سے تعلیمی و معاشی استحکام حاصل ہوا اور الحمد للہ ہورہا ہے۔ آج ملک و بیرون ملک تعلیم یافتہ مسلم نوجوان و افراد دیگر ابنائے وطن کے ساتھ ملک کے ملک کی ترقی و خوشحالی میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔ ویسے ہماری ہندوستانی مرکزی و ریاستی حکومتوں کی جانب سے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی ترقی کے لئے لاکھوں روپیے کا سالانہ بجٹ مختص کرتی ہیں لیکن اس میں سے خرچ شائد بہت ہی کم ہوتا ہے کیونکہ ہمارے اپنے مسلم قائدین بھی ایسے نہیں ہیں جو حکومت کی ان اسکیمات سے تمام مسلمانوں کو آگاہ کریں ۔ آج مرکزمیں بی جے پی حکومت قائم ہے ۔ نریندر مودی وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہونے کے بعد یہ اعلان کرچکے ہیں کہ اس ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی تمام ہندوستانیوں کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔ مرکزاور چار ریاستوں میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد ہندوتوا فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوچکے تھے لیکن دہلی انتخابات میں بی جے پی کو بًری طرح شکست نے انہیں سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کردیا۔ ہندوتوا دہشت گرد اپنی زبانوں کے ذریعہ ایسے نفرت انگیز بیانات دے رہے تھے کہ ملک کی پُر امن فضا مکدر ہوجائے۔ کبھی تبدیلِ مذہب تو کبھی ملک کو ہندو راشٹرا بنانے کا خواب۔ یہی نہیں بلکہ یوگی ادتیہ ناتھ نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ملک کی تمام مساجد میں گنیش مورتیاں رکھی جائیں جس پر شاہی امام پنجاب مولانا حبیب الرحمن لدھیانی نے کہا کہ دفعہ 25کے تحت ہر آدمی کو اپنے مذہب پر چلنے کا حق حاصل ہے اور اس کا یہ بیان سراسر ہندوستانی قانون کے خلاف ہے۔ انہو ںنے کہا کہ مسلمان اس ملک میں کرایا دار نہیں بلکہ حصہ دار ہیں اور مسلمانوں نے اس ملک کی آزادی کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیںاس طرح ہم وفادار ہیں غدار نہیں۔ مولانا نے کہا کہ ایسے لوگوں کا داخلہ پارلیمنٹ میں بھی نہ ہونا چائیے کیونکہ ایسے ہی لوگ ملک کو ٹکرے کروانا چاہتے ہیں۔ خیر ہندوتوا بھگوا دہشت گردوں کی جانب سے گذشتہ سات ماہ سے مسلمانوں کے خلاف مختلف بیان بازی ہوتی رہی لیکن گذشتہ دنوں دارالحکومت دہلی میں عیسائی چرچوں پر حملے ہونے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی زبان کھولی اور کہا کہ ملک میں مذہبی تشدد برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوںنے مزیدکہا کہ ’’میری حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ سب کو پوری مذہبی آزادی ہوگی اور بغیر دبائو کے ہر ایک کو کوئی بھی مذہب اختیار کرنے کی آزادی ہوگی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اکثریتی فرقہ ہو کہ اقلیتی فرقہ کسی کو بھی مذہب کی بنیاد پر تشدد کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ہندوستانی مسلمان آزادی ہند کے بعد بہت کچھ برداشت کرتے آئے ہیں ، آزادی کے بعد سے بھی مسلمانوں اپنے اس وطن عزیز کے لئے بہت سی قربانیاں دیں ہیں اور دے رہے ہیں ۔ دوسرے ممالک میں کام کرنے والے ہندوستانیوں سے جب انکے حالات معلوم کئے جاتے ہیں اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ خیر مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ بھگوا دہشت گردوں کے بیانات کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اپنی اور اپنی اولاد کی تعلیمی و معاشی ترقی و خوشحالی کے لئے دیگر ابنائے وطن کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلیں ۔ ماضی کی تلخ یادوں کو ضرور یاد رکھیں اور جہد مسلسل کے تحت اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے بھرپور کوشش کریں کیونکہ ہم اس ملک کے اُسی طرح شہری ہیں جس طرح دیگر ابنائے وطن، اور ہر شہری کا حق ہے کہ وہ اپنے جائز حقوق کے حصول  کے لئے سب کے برابر اہمیت رکھتا ہے۔

(یو این این)

****************************
 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 671