donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mozaffar Hussain Ghazali
Title :
   Baligh Hoti Jamhuriyat


بالغ ہوتی جمہوریت


ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

drmhghazail@gmail.com


بھارت کے رائے دہندگان نے حالیہ انتخابات میں ثابت کردیا ہے کہ وہ جمہوریت اور آزادی کو سمجھنے لگے ہیں  یا یہ کہا جائے کہ وہ بیدار ہو چکے ہیں انہوں نے اپنے ووٹ کی قیمت اور اہمیت کا اندازہ ہونے لگا ہے ۔ عوام کو اپنی پسند کی سرکار منتخب کرنے کی تکنیک سمجھ آگئی ہے ۔ایسا لگ رہا ہے کہ ووٹرز کے جاگنے جگانے کا دور شروع ہو چکا ہے یہ جمہوریت کے لئے مثبت اور خوش آئند پہلو ہے  ۔ انتخابی عمل میں عوام کی شرکت کے اضافہ سے جمہوریت کو مضبوطی و تقویت حاصل ہوگی ۔

 ایک وقت تھا جب 55فیصد سے زیادہ رائے دہندگی خبر بن جاتی تھی یہ ووٹ حاصل کرنے کے لئے سام ، دام ، دنڈ ، بھید سارے طریقے اپنائے جاتے تھے ۔ لالچ دینا ، شراب و مرغا فراہم کرنا ، ڈرانا ، دھمکانا ، بوتھ قبضانہ فرضی ووٹنگ کرانا ، غریب ، مزدور اور کمزور طبقات کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر پولنگ بوتھ تک لانا اور یہاں تک آنے کے لئے مفت کی سواری کا انتظام کرنا وغیرہ عام بات رہی ہے ۔ ووٹ دینے کیلئے صبح سے لمبی لمبی قطاروں میں یہی کمزور طبقات ، چھوٹے کسان ، دکاندار یا معمولی کاروبار کرنے والے  کھڑے دکھائے دیتے ۔ ایسا لگتا مانو جمہوریت کو بچانے کی ذمہ داری انہیں نے اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھی ہے ۔نو جوان اور بڑھے لکھے لوگ عام طور پر ووٹ دینے کو جھنجھٹ سمجھ کر اس سے دور رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے تھے ۔ ملک میں بہت کم موقع ایسے آئے ہیں جب عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت کو اپنی مرضی سے سوچ سمجھ کر آزادی کے ساتھ استعمال کیا ہو ۔زیادہ تر تو مثبت منفی پروپیگنڈے یا چناوی ماحو ل سے متاثر ہوکر روایتی طور پر ووٹ کئے جاتے رہے ہیں ۔جبکہ جیت کا مزہ وہ اٹھاتے جنہیں ووٹ کرنے میں کوئی دلچسپی نہ ہوتی ۔

ملک میں کئی چھوٹی بڑی عوامی تحریکیں چلیں ان میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے کئی تحریکوں ںکی باز گشت تو آج تک سنائی دیتی ہے۔ ڈاکٹر لوہیا ، جے پی اور راج نارائن کو انہیں تحریکوں کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے لیکن یہ کوشیشں رائے دہندگی میں قابل ذکر اضافہ نہ کر سکیں ۔البتہ ان تحریکوں نے جمہوریت میں آندولن کی اہمیت سے عوام کو رو برو کرایا ۔سرکاری پالسیوں  پر تنقید کرنا اور ان کی مخالفت کے طریقہ سکھائے (Right To Speek) بولنے ، سننے اور لکھنے کی آزادی کا مطلب سمجھایا ۔جدید ٹکنالوجی کے ساتھ ایسے ذرائع وجود میں آئے جنہوں نے عوامی تحریکوں کے انقاب کی شکل اختیار کرنے کے راستوں کو محدود اور تنگ کرنے کا کام کیا پہلے عوام کسی غلط قانون ، پالیسی ، ظلم و زیادتی یا اپنے حق حقوق کی پامالی کو روکنے کے لئے سڑک پر اتر آتے تھے یہ عوامی غصہ تحریتک کی شکل اختیار کر لیتا تھا اور حکومت پر اتنا دبائو بن جاتا تھا کہ اسے قانون یا رویہ میں تبدیلی کرنی بڑتی تھی ۔ اب عوام اپنے غصہ کو فیس بک ، ٹیوٹر یا اپنا بلاگ بنا کر نکال لیتے ہیں ۔ٹیلی ویژن چینلز کا پرائم ٹائم بھی اچھا پلیٹ فارم ہے فلمیں ایسے موضو عات سے دور رہتی ہیں جن سے عوامی تحریکوں کو تقویت ملتی ہو ۔اور اخبارات وہ پروستے ہیں جو ان کے مالک چاہتے ہیں ۔ اس سے عوامی آندولنوں کی گنجائش کم ہوئی ہے ۔شایداسی لئے تمام سرکاریں ان ذرائع کو انعامات سے نوازتی رہی ہیں ۔

انا تحریک کے مقصد سے آپ کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اسے عوامی آندولن بنانے میں شوشل ، الیکٹرونک ، پرنٹ میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ نے اہم رول ادا کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میڈیا اگر اپنا کردار صحیح طور پر نبھائے تو دیش میں مثبت تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں کیونکہ اسی میڈیا کی بدولت انا تحریک میں سماج کے ہر طبقہ کے لوگ شامل ہوئے اور حالات نے عوام کو گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا اس تحریک کی وجہ سے جو عوامی بیداری شروع ہوئی اس کا نتیجہ 2013کے دہلی انتخابات میں حق رائے دہندگی میں اضافہ کی شکل میں سامنے آیا ۔ انا تحریک سے نکلی عام آدمی پارٹی جس نے پہلی مرتبہ انتخاب میں حصہ لیا تھا اس بڑھے ہوئے ووٹ فیصد کی وجہ سے 28سیٹیں لینے میں کامیاب رہی تھی اسی اضافی ووٹ فیصد کی وجہ سے 2014کے پارلیمانی انتخاب میں مودی کی سربراہی والی بی جے پی نے 282سیٹیں حاص کرکے سب کو چونکادیا تھا ۔

یہ پہلا موقع نہیں جب کسی پارٹی نے اتنی زبردست کامیابی حاصل کی ہو جیسی کہ دہلی انتخاب2015 میں عام آدمی پارٹی نے حاصل کی ۔اس سے قبل آل اسم اسٹوڈینٹ یونین سے طلباء لیڈر کے طور ابھرے پرفل کمار مہنت  اپنی پارٹی  اسم گن پریشد بنا کر دو بار آسام کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں ۔اسی طرح سکم سنگرام پریشد کے نربہادر بھنڈاری نے 1989میں اسمبلی کی سبھی 32سیٹیں جیت کر ریکارڈ قائم کیا تھا ۔لیکن بعد میں یہ دونوں حضرات اپنے مقبولیت قائم نہ رکھ سکیں ۔مہنت کی آسام اسمبلی میں آج محض دس سیٹیں ہیں  لوک سبھا میں ان کی نمائندگی ختم ہو چکی ہے اور راجیہ سبھا میں وہ صرف ایک سیٹ قائم رکھ سکیں ہیں ۔ بھینڈاری کا حشر بھی کچھ اسی طرح رہا ان کی پارٹی ٹوٹ گئی انہیں اسمبلی میں اعتماد ووٹ (Vote of confidence)بھی گنوانا پڑا ۔ 2009کی سکم اسمبلی کا حال 1989جیسا ہی تھا اس بار کی اسمبلی کے تمام ممبران سکم ڈیموکریٹ فرنٹ سے تعلق رکھتے تھے پون چاملنگ ان کے لیڈر تھے ۔ بیس برسوں سے وہ گنگٹوک (سکم ) میں اقتدار پر بنے ہوئے ہیں تب سے اب تک پوری ایک نسل بدل چکی ہے کبھی  انہوں نے بھنڈاری کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا وہ عوام کی امیدیں اور بھروسہ قائم رکھنے میں کامیاب رہے بھنڈاری اور چاملنگ کی شخصیت اور ان کا کام کرنے کا طریقہ آزاد بھارت کے سیاسی رہنمائوں کے لئے ان کہی مثال ہے ۔

مودی کی سربراہی میں ایک کے بعد ایک کامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی کی دو سال قبل وجود میں آئی عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں شکست فاش کو رائے دہندگان کی  بے چینی ، امیدوں اور کتھی کرنی کے تضا د سے جوڑ کر دیکھا جانا چاہئے  نا کہ دو رہنمائوں ( مودی ۔ کجریوال) کی ہار جیت کے طور پر ۔70سیٹوں والی اسمبلی میں عام آدمی پارٹی کو 67سیٹیں دینے کا کمال اسی عوام نے کیا ہے ۔ بی جے پی کو حاشیہ پر دھکیلنے اور کانگریس کو  باہر کا ارستہ دکھانے کا فیصلہ بھی عوام کا ہے ۔2014کے پارلیمانی انتخاب میں 66.38فیصد ووٹ ڈال کر عوام نے سب کی ترقی کے لئے مودی کو اکثریت دی تھی ۔ در اصل عوام جوڑ توڑ (Collationa ) کی سرکاروں ، گھٹالوں اور غیر ذمہ دارنہ راویوں سے عاجز آچکی تھے ۔18میں سے 14اسمبلیوں کے نتجے بتاتے ہیں کہ عوام نے گھٹ بندھن کے خلاف کسی ایک پارٹی کو اکثرت سے نوازہ ہے تاکہ وہ اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنا کر عوام کی امیدوں اور ضرورتوں کو پورا کر سکے ۔ مودی کو اکثریت دینے کے پیچھے بھی یہی منشا ء کار فرما تھی ۔ لیکن اقتدار میں آتے ہی وکاس پر ہندو تو کا ایجنڈہ حاوی ہو گیا ۔ امریکی صدر اوبامہ کو کہنا پڑا کہ مذہبی منافرت  بھارت کے اتحاد و سالمیت کے لئے نقصاندہ ہے سرکار کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے ۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اپنی تازہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ مودی کی حالیہ سرکار آنے کے بعد مذہبی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ بی جے پی رہنمائوں کے اس رویہ سے مایوس عوام نے دہلی انتخاب 2015 میں اپنی مرضی 70فیصد ووٹ ڈال کر ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جو پارٹی یا دل عوام کی خواہش کا احترام نہیں کرتا اسے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے ۔عوام خاموشی سے انتظار کرتے رہتے ہیں اور وقت آنے پر اپنی مرضی ظاہر کرتے ہیں ۔ بہار میں نتیش کمارمغربی بنگال میں ممتا بنرجی ، کرناٹک میں یدو رپا کی جگہ کانگریس کو موقع ملنا یو پی میں بی ایس پی پھرسماج وادی کی سرکار بننا ، پارلیمنٹ انتخاب میں 80میں سے 73سیٹیں بی جے پی کا لے جانا جبکہ اسمبلی میں اس کی حالت گئی گزری ہے تامل ناڈو  میں کرونا ندھی سے جے لیتا کو اقتدار ملنا غرض مہنت سے منموہن سنگھ تک اس کی تمام مثالیں موجود ہیں ۔ جے للتا اور مانجھی کا اپنے عہدہ سے استعفیٰ دینے کے پیچھے بھی ووٹروں کی ناراضگی مول نہ لینے کا دخل ہے ۔

عوام کو کسی پارٹی کو اکثریت دینا ، ووٹ فیصد  میں اضافہ ہونا اور سیاسی پارٹیوں کا رائے دہندگان کا احترام کرنا ،جمہوریت کے بالغ ہونے کی نشانی ہے ۔اس میں سیاسی لیڈران کیلئے بھی سبق ہے کہ وہ اقتدار سنبھالتے ہی عوام کی امیدوں کے مطابق ان کی فلاح و بہبود کے کاموں میں جٹ جائیں ۔ عوام کے مسائل کو سمجھیں اور  ان کا حل تلاش کریں جس کو جتنی بڑی اکثریت اس کو عوام کو مطمئن کرنے کی اتنی بڑی ذمہ داری ۔ جو اس بات کو سمجھ جاتے ہیں وہ عوام کے دلوں پر راج کرتے ہیں ہمارے سیاسی نظام میں با وجود اصلاحات کی گنجائش کے یہ خامی رہ گئی کہ اگر کوئی چنا ہوا شخص کام نہ کرے تو اسے واپس بلایا جا سکے ۔ چنائو میں حصہ لینے والوں کی اہلیت مقرر ہو ۔ سماج کے لئے ان کی جواب دہی طے ہو تاکہ وہ زیادہ ذمہ داری سے عوام کی خواہشوں اور امیدوں پر کھرے اتر سکیں ۔ ان کی کتھنی کرنی میں فرق نہ ہو ۔ موجودہ نظام کے مطابق اگر کسی کو غلطی یا کسی بہکاوے میں آکر چن لیا گیا تو اسے بدلنے کا پانچ سال سے پہلے موقع نہیں ملتا ۔ اور عوا م کو پچھتانا پڑتا ہے ۔

آپ جانتے ہیں جو سیاسی جماعت 35فیصد ووٹ حاصل کرکے سرکار بناتی ہے وہ 35فیصد کی ہی نمائندگی کریگی اس کے لئے 100فیصد لوگوں کو مطمئن کرنا ممکن نہیں ۔ ایسی صورت میں محروموں کی تعداد میں اضافہ ہونا فطری ہے کئی ریاستوں کے ووٹنگ فیصد میں ہوئی بڑھتری ( تریپور ہ 84فیصد ناگالینڈ 78.82فیصد لکشدیپ 86.61فیصد)کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے لہ اب عوام آزادی اور جمہوریت کی اہمیت کو محسوس کرنے لگے ہیں اس کی حفاظت کے لئے حق رائے دہندگی کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔ ہر عمر اور طبقہ کے لوگوں میں ووٹ کرنے کیلئے بیداری آرہی ہے ووٹنگ کی دشواریوںکو بھی دور کرنے کی جانب سوچا جا رہا ہے چیف الیکشن کمشنر کا آن لائن ووٹنگ شروع کرنے کا بیان اس طرح اشارہ کرتا ہے عوام کی بیداری ہی حکمرانوں میں جواب دہی کا احساس پیدا کریگی ۔ جمہوریت تو اس دن بالغ ہوگی جب ہر شخص دبائو کے بغیر اپنے ووٹ کا استعمال کریگا ۔ اس دن آزادی کو ہم اپنی آنکھ سے دیکھیں گے ۔

( یو این این )

*********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 613