donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Me Sharab Bandi Ke Liye Naya Qanoon


بہار میں شراب بندی کے لئے نیا قانون


٭ڈاکٹر مشتاق احمد


موبائل: 9431414586


بہار کی نتیش کمار حکومت نے ریاست میں شراب بندی کا اعلان تو بہت پہلے کرچکی تھی لیکن اس کے لئے ایک ایسے سخت قانون کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی جس سے شراب بندی کو مکمل طور پر عملی صورت دی جاسکے۔ اس لئے اسمبلی کے رواں اجلاس میں وزیر اعلی نتیش کمار نے اس بل کو پیش کرکے قانونی حیثیت دینے کی پہل کی ہے۔ اگرچہ ریاست میں شراب بندی کے لئے اس نئے بل برائے قانون کو حزب اختلاف من وعن قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور حکومت کی اتحادی جماعت راشٹریہ جنتا دل کے قومی صدر لالو پرساد یادو نے بھی اس بل میں چند ترمیمات کی وکالت کی ہے۔ لالو پرساد یادو ریاست میں شراب بندی کے حق میں تو ہیں لیکن تار اور کھجور کے درخت سے نکلنے والی تاڑی پر پابندی کے خلاف ہیں۔ سابق وزیر اعلی جیتن رام مانجھی بھی اس نئے شراب بندی قانون کی مخالفت محض اس لئے کررہے ہیں کہ وہ تاڑی کی فروخت کو جاری رکھنے کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تاڑی کے کاروبار پر پابندی سے دلت طبقے کو روزگار کا مسئلہ درپیش ہوگا کیوں کہ اس تجارت میں دلت طبقے کے لوگ ہی شامل ہیں۔ شاید لالو پرساد کا نشانہ بھی دلت طبقہ ہی ہے اس لئے وہ تاڑی پر پابندی کے حق میں نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلی نتیش کمار اب اس معاملے میں قدرے نرم پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت بہار کے محکمہ آبکاری کے کابینہ وزیر جلیل مستان جو کل تک اس نئے قانون میں کسی قسم کی تبدیلی کو تیار نہیں تھے، اب وہ بھی یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ ریاست میں تاڑی کے کاروبار پر کسی طرح کی پابندی نہیں ہوگی، البتہ حکومت اس پر بھی کڑی نظر رکھے گی اور ’نیرا‘ کے نام سے تاڑی کی فروخت کو قانونی حیثیت دی جائے گی۔ واضح ہوکہ بہار قانون ساز اسمبلی اور بہار قانون ساز کائونسل کا مشترکہ اجلاس 29 جولائی سے شروع ہوا ہے اور یہ اجلاس قلیل مدتی ہے، اس لئے حکومت نے اجلاس کے پہلے ہی دن شراب بندی کے لئے مجوزہ بل کو پیش کرنے میں پہل کی۔ اس نئے قانون میں نہ صرف شراب پینے والوں کے لئے سخت سزا کا اہتمام کیا گیا ہے بلکہ کسی بھی طرح کی نشے والی مصنوعات کی فروخت میں بالواستہ یا بلاواستہ ملوث ہونے کے ثبوت ملنے پر ان لوگوں کے لئے بھی سخت سزا کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مثلاً اگر کسی گھرانے کا ایک فرد شراب نوشی میں ملوث ہے اور وہ اپنے گھر میں شراب یا دیگر نشہ آور اشیا رکھتا ہے تو اس خاندان کے سرپرست کو بھی دس سال کی سزا ہوسکتی ہے۔ اسی طرح اس نئے قانون میں یہ بھی گنجائش رکھی گئی ہے کہ پولس کو اگر یہ شبہ ہے کہ کسی کے گھر میں شراب یا دیگر نشہ آور اشیا ہے تو وہ بغیر کسی اطلاع کے گھر کی تلاشی کرسکتی ہے۔ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ اس قانون سے ریاست کی پولس بے لگام ہوسکتی ہے اور وہ کسی بھی مہذب وشریف شہری کو بھی کسی بغض وعناد کی بنیاد پر پریشان کرسکتی ہے۔اس لئے ریاست کی دیگر سیاسی جماعت اس قانون کو کالا قانون قرار دے رہی ہے اور حکومت سے مطالبہ کررہی ہے کہ اس پر دوبارہ نظر ثانی کرے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایوان میں بحث ومباحثہ کے بعد کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ ویسے اس بل کو قانونی حیثیت اسی وقت مل سکتی ہے جب بہار کے گورنر موصوف کی جانب سے اس پر مہر لگا دی جائے گی۔ اس لئے اندیشہ ہے کہ یہ نیا شراب بندی بل باآسانی قانونی حیثیت حاصل نہیں کرسکتا ہے۔ کیوں کہ حزب اختلاف کے ساتھ حکومت کی معاون واتحادی جماعت کے کئی ممبران اسمبلی و کائونسل نے بھی اس بل کے خلاف اپنی آواز بلند کی ہے۔ راشٹریہ جنتا دل سپریمو لالو پرساد یادو کے صاحبزادے بہار کے نائب وزیر اعلی تیجسوی پرساد یادو نے بھی اشارہ دیا ہے کہ اس بل کی منظوری کے لئے جنتا دل متحدہ ، راشٹریہ جنتادل اور کانگریس کا مشترکہ اجلاس بلایا جاسکتا ہے۔ جنتادل متحدہ کے بھی کئی سینئر ممبران اسمبلی نے دبی زبان میں ہی سہی اس بل میں ترمیم کی گنجائش نکالنے کی وکالت کی ہے۔


 بہرکیف نتیش کمار کی جانب سے اب تک اس سلسلے میں کوئی اشارہ نہیں ملا ہے اور وہ اب تک ریاست میں سخت سے سخت شراب بندی قانون کے نفاذ کے حق میں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست میں شراب بندی کی وجہ سے بہت سی سماجی برائیوں پر قد غن لگا ہے، بالخصوص عورتوں کے ساتھ مردوں کے نازیبا سلوک میں کمی واقع ہوئی ہے اور دیہی علاقے میں جو چھوٹے بڑے جھگڑے ہوا کرتے تھے اس میں کمی آئی ہے۔ کیوں کہ شراب کے نشے میں اکثر دیہی علاقوں میں آپسی مار پیٹ اور تنازعے ہواکرتے تھے۔ معاشی طور پر کمزور دلت اور مزدور طبقے کے حالات میں بھی اصلاح ہوئی ہے کہ یہ طبقہ کثرت سے شراب نوشی میں ملوث تھا۔ اب جبکہ ریاست میں مکمل شراب بندی کا اعلان ہوا ہے تو یہ خبریں مل رہی ہیں کہ ان کمزور طبقوں کی مالی حالت بہتر ہوئی ہے۔ ریاست میں عورتوں کی سرگرم تنظیم ’جیویکا‘ کے سروے سے بھی یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ شراب بندی کے بعد عورتوں پر ہونے والے تشدد کے واقعات میںکمی آئی ہے اور خاندانی تصادم کی رفتار بھی کم ہوئی ہے۔ 

واضح ہوکہ اب تک حکومت نے ملکی اور غیر ملکی شراب پر ہی پابندی لگائی تھی جبکہ اس نئے بل میں تمام تر نشہ آور اشیا پر پابندی لگانے کی تجویز ہے، مثلاً اب کوئی بھی شخص گانجہ، بھانگ، چرس، افیم ودیگر نشیلی اشیا کا استعمال نہیں کرسکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں اب کوئی بھی شخص اپنے گھروں میں اسپرٹ بھی نہیں رکھ سکتا ہے کہ اس سے ملکی شراب بنائی جاتی ہے۔ البتہ میڈیکل ضروریات کے تحت سرکاری منظوری کے بعد ہی کوئی بھی تاجر اسپرٹ کا کاروبار کرسکتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی شخص کی کبھی بھی میڈیکل جانچ کرائی جاسکتی ہے اور اگر اس جانچ رپورٹ میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس شخص نے کسی طرح کی نشیلی اشیا کا استعمال کیا ہے تو اسے دس سال تک کی سزا مل سکتی ہے۔ بہار میں بھانگ اور گانجہ کا چلن بھی عام ہے کہ پڑوس کے ملک نیپال سے اس کی تجارت باآسانی کی جاتی رہی ہے۔ اس لئے حکومت بہار نے ایکسائز محکمہ کو مزید فعال بنانے اور سرحد پر پولس کی تعیناتی میں اضافے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ بہار کی پڑوسی ریاستوں مثلاً اتر پردیش، جھارکھنڈ، مغربی بنگال اور نیپال میں شراب پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ایسی صورت میں تو سخت سے سخت قانون بنانے کی تو ضرورت ہے مگر پولس کو جو آزادانہ اختیارات دیے گئے ہیں اس سے انسانی حقوق کے پامال ہونے کا بھی خطرہ لاحق ہے ۔ اس لئے حکومت کو اس مسئلے پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں اگر اتفاق رائے سے یہ نیا قانون سامنے آتا ہے تو ممکن ہے کہ ریاست میں شراب خوری ودیگر نشہ خوری کے چلن پر نکیل کسا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ شراب بندی بہرحال بہت ساری سماجی برائیوں کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے۔

***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 550