donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Farsuda Hai Phanda Tera, Zeerak Hai Murghe Tez Tar


فرسودہ ہے پھندہ ترا، زیرک ہے مرغِ تیز تر

 

ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

 ای میل: rm.meezan@gmail.com

Mob.-09431414586


ہندوستان میں مسلمانوں کی معاشی ، تعلیمی اور سیاسی صورتِ حال کی حقیقت سچّر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد اظہر من الشمس ہے اور رنگ ناتھ مشرا کی کمیشن کی سفارش نے بھی سچر کمیٹی کی رپورٹ پر مہر ثبت کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اگر واقعی ملک کے مسلمانوں کی مکمل زندگی کو بدلنے کا ارادہ حکومت کرتی ہے تو اسے کون کون سے اقدام اٹھانے ہوں گے۔اگر چہ اب تک مذکورہ دونوں رپورٹوں کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ہے اور مسلمانوں کی بدتر حالت کو بدلنے کا خاکہ اب تک کاغذ پر ہی محدود ہے۔لیکن ان دونوں رپورٹوں پر جس طرح سیاست ہو رہی ہے اس سے تو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ حکومت سیاست کی شطرنجی بساط پر ابھی صرف اور صرف چالیں چل رہی ہیں ورنہ مرکز کی یوپی اے حکومت جس نے اپنے پہلے دور میں سچر کمیٹی کی رپورٹ تیار کروائی اور آزادی کے بعد ملک میں رہنے والے مسلم اقلیت طبقے کی جو حقیقت ہے اس کو آئینہ دکھانے کا کام کیا ،پھر رنگ ناتھ کمیشن کی سفارش پر بھی غور وخوض کا سلسلہ شروع ہوا ۔ لیکن کیا ہوا؟ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ہاں ان رپورٹوں کے بعد نہ صرف سیاسی جماعت بلکہ مسلمانوں کے نام نہاد رہنما بھی ان رپورٹوں کی آگ میں اپنی سیاسی روٹی سینکنے لگے ہیںاور اس کے گواہ اخباروں کے صفحات ہیں کہ آئے دن ان رپورٹوں کے حوالے سے سیاسی خبریں آتی رہتی ہیں لیکن ان کا تعلق حقیقت سے نہ ہوکر محض شہرت کا حصول ہوتا ہے۔ دراصل ہم مسلمانوں نے اب تک اپنے مطالبوں کو منوانے کا طریقۂ کار طئے ہی نہیں کیا ہے۔کسی جمہوری ملک میں صرف اخباری بیان یا تین تیرہ بن کر اپنی سیاست چمکانے کی روش سے کسی حکومت پر کوئی دبائو نہیں بنتا ۔ بالخصوص میڈیا جس کے قبضے میں ہے۔لیکن اگر مسلمان بھی اتحاد کے ساتھ کسی مسئلے کے حل کے لئے جمہوری طریقے کو اختیار کریں تو وہ دن دور نہیں کہ ان کے مسائل بھی حل ہوں گے۔ماضی میں ایک بار ہم نے اپنی طاقت کا ثبوت بھی پیش کیا ہے کہ شاہ بانو والے معاملے میں حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔لیکن سچائی یہ ہے کہ ادھر دو دہائیوں سے مسلمان سیاسی پلیٹ فارم پر تین تیرہ بنے ہوئے ہیں اور ہر کوئی اپنی ڈفلی آپ بجا رہا ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ سنجیدہ سے سنجیدہ مسائل پر غیر سنجیدگی سے بیان بازی ہونے لگی ہے۔ ہر ایک شخص شہرت کے کشکول میں سمندر کا مطالبہ لئے پھر رہا ہے۔نتیجہ ہے کہ ہماری آواز صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہے۔ورنہ ملک میں ہماری آبادی کا جو تناسب ہے کسی طرح بھی اقلیت کہلانے کی حقدار نہیں ہے ۔لیکن چونکہ ہم طرح طرح کے ازم کے شکار ہیں اور اپنے کسی بھی مسئلے پر ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوتے ۔ اس حقیقت سے حکومت واقف ہے اس لئے ہمارے کسی بھی مسئلے پر اس سنجیدگی سے غور نہیں کیا جاتا جس کے وہ متقاضی ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے لئے کمیشن تو بنتی ہے لیکن اس کی رپورٹ کاغذوں تک محدود رہتی ہے۔ہمارے لئے تشکیل شدہ کمیشنوں کا ایک سلسلہ ہے خواہ وہ لسانی مسئلے کے حل کے لئے گجرال کمیٹی کی رپورٹ ہو کہ فرقہ وارانہ فسادات کے لئے تشکیل شدہ سری کرشنا کمیٹی کی رپورٹ ، گودھرا واقعہ کی جانچ کمیشن ہو کہ بھاگلپور رائٹ کے لئے بنائے گئے کمیشن۔ سب کا حشر سامنے ہے۔ سچر کمیٹی اور رنگ ناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ بھی سادے کاغذ کو سیاہ کرنے کے عمل تک محدود ہے اور ہم ہیں کہ اس کمیٹی کی رپورٹوں پر امید لگائے بیٹھے ہوئے ہیں۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس ملک میں اگر ہماری حالت بدلنے کا کوئی ایک نسخہ ہے تو وہ نسخہ ٔ  کمییا’’اقرا‘‘ ہے۔اگر ہم نے اس نسخے پر عمل کیا ہوتا تو شاید اس ملک میں آج ہماری وہ صورت نہیں ہوتی جو سچر کمیٹی نے پیش کی ہے ۔ان دنوں تعلیمی بیداری مہم چلائی جا رہی ہے یہ اچھی بات ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ ہماری یہ تحریک بھی سیاسی حربے بنتے جا رہے ہیں۔ ایک خاص جماعت آج کسی تحریک کے نام پر جلسہ کرتی ہے تو کل دوسری سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے بیٹھ کر تعلیم جیسے سنجیدہ مسئلے پر غیر سنجیدگی سے بیان بازی کا موقع تلاش کرتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دنیا کی تاریخ میں اس قوم کا کبھی بھلا نہیں ہوا جس نے خود کو گفتار کا غازی بنا یا ہے۔ کسی قوم کی تقدیر اس کے کردارو اعمال سے بدلتی ہے ۔لیکن المیہ یہ کہ آج ہمارے کردار واعمال میں جو تضاد ہے وہ جگ ظاہرہے۔کبھی ہمارے مذہبی رہنما ہماری نہ صرف دینی سوجھ بوجھ بڑھانے کا کام کیا کرتے تھے بلکہ سیاسی شعور بڑھانے میں بھی معاون ہوتے تھے۔لیکن آج ہر ایک سیاسی پارٹی کا ایک مذہبی ماڈل ہے جو کبھی اس پارٹی میں تو کبھی اُس پارٹی میں اپنی جگہ بناتے رہتے ہیں۔حالیہ دہائی میں ہمارے مذہبی رہنمائوں نے خود کو سیاست کی چوکھٹ پر جس طرح جھکایا ہے شاید اس سے نہ صرف ان کی شناخت مسخ ہوئی ہے بلکہ ہماری جماعت کو خسارۂ عظیم پہنچا ہے ۔اس مسئلے پر بھی سرجوڑ کر سوچنے کی ضرورت ہے ساتھ ہی ساتھ آنے والے دنوں میں مسلمانوں کویہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ایک ہیں۔جس دن کسی حکومت کو یہ احساس ہو جائے گا کہ اب مسلمان متحد ہیں ، ذات کے خانوں میں تقسیم نہیں ہیں ،کسی ازم کے شکار نہیں ہیں تو شاید اسی دن ہمارے مسئلے کا حل نکلتا دکھائی دے گا۔بقول علامہ اقبال    ؎

    ممکن نہیں اس باغ میں کوشش ہو بار آور تری    
فرسودہ ہے پھندہ ترا، زیرک ہے مرغِ تیز تر


٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 500