donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Musalmano Ke Liye Inzemam Nahi Balke Ishterak Ki Seyasat Zaruri


 مسلمانوں کیلئے انضمام نہیںبلکہ اشتراک کی سیاست ضروری!


٭ڈاکٹر مشتاق احمد

موبائل: 9431414586


ہندوستان کی جن ریاستوں میں مسلمانوں کی آبادی سیاسی اعتبار سے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے ان میں بہار بھی شامل ہے۔ جموں وکشمیر کو چھوڑ دیں تو اتر پردیش ،  مغربی بنگال اور آسام کے بعد بہار میں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت مرکزی سیاست کو متاثر کرنے والی رہی ہے، لیکن حالیہ دہائی میں یہاں نہ صرف مسلمانوں کے سیاسی وقار میں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ مسلم مسائل کو ان ریاستوں میں کچھ اس طرح نظر انداز کیا جانے لگا ہے کہ جیسے مسلمان یہاں کی سیاست میں صفر ہوکر رہ گئے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان ریاستوں میں کوئی بھی حکومت مسلمانوں کے ووٹوں کی بدولت ہی تشکیل پاتی ہے۔1990 سے قبل بہار کے مسلم ووٹرس کانگریس سے جڑے ہوئے تھے لیکن جب لالو پرساد یادو کی قیادت میں غیر کانگریسی حکومت قائم ہوئی تو یہاں کے مسلم ووٹرس لالو پرساد یادو کی سیاسی جماعت کبھی جنتا دل تو کبھی راشٹریہ جنتادل کے ساتھ ہوکر رہ گئی، بلکہ قومی سطح پر یہ بات تسلیم کی جانے لگی کہ بہار میں’مائی ‘ فارمولہ یعنی مسلم اور یادو کے اتحاد کی حکومت ہے۔ مگر پندرہ سالہ لالو پرساد یادو - رابڑی حکومت میں مسلمانوں کو یہاں کیا کچھ ملا وہ اظہر من الشمش ہے۔ 2005 کے بعد نتیش کمار کی قیادت میں جنتادل متحدہ و بھاجپا اتحاد کی حکومت تشکیل پائی۔ ظاہر ہے کہ بھاجپا اتحاد میں نتیش کمار کا رویہ وہی رہا جو ایک اتحادی حکومت کے قائد کا رہتا ہے۔ اب ایک بار پھر لالو پرساد یادو اور نتیش کمار ایک سیاسی پلیٹ فارم پر آگئے ہیں، اگرچہ اب بھی راشٹریہ جنتادل اور جنتادل متحدہ کا انضمام نہیں ہوا ہے بلکہ کانگریس کے ساتھ ان دونوں پارٹیوں کا سیاسی اتحاد عمل میں آیا ہے اور نتیش کمار کی قیادت میں حکومت تشکیل پائی ہے۔ اب جب کہ لالو پرساد یادو اور نتیش کمار کی قیادت میں بہار کی سیاست پچیس سالہ سفر طے کرچکی ہے تو مسلم طبقہ میں اس بات پر بحث ومباحثہ شروع ہوگیا ہے کہ آخر ایک چوتھائی صدی کی غیر کانگریسی حکومت میں مسلمانوں کو کیا کچھ ملا، مثلاً انہیں سیاسی حصہ داری ملی؟ ان کے معاشی واقتصادی اور تعلیمی حالات میں تبدیلیاں آئیں؟ مسلم نوجوانوں کو روزگار کے سیکٹر میں حصہ ملا؟ غرض کہ سماجی انصاف کے تعلق سے بھی کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں پایا جو مثالی ہو۔ بہار کی پچیس سالہ حکومت میں مسلمانوں کے بہترے ایسے دیرینہ مسائل جوں کے توں رہ گئے۔ کسی ایک طبقہ  کی فلاح وبہبود کے تعلق سے یہ احتسابی جائزہ جائز بھی ہے کہ جمہوریت میں احتساب ضروری ہے۔ مگر افسوس ہے کہ حکمراں جماعت اب بھی مسلمانوں کے دیرینہ مسائل کے تئیں اتنی سنجیدہ نہیں ہے جتنا کہ ہونا چاہئے۔ کیوں کہ مرکز میں اس وقت جو حکومت ہے وہ تو ظاہری طور پر سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات ضرور کررہی ہے لیکن حقیقتاً باطنی طور پر مسلمانوں کے مسائل میں ان کی کوئی دلچسپی محض اس لئے نہیں کہ وہ یہ سمجھتی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان آج بھی غیر بھاجپا سیاسی جماعت کے ساتھ ہیں اور اس میں قدرے سچائی بھی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جمہوریت میں کسی بھی حکومت کو کسی طرح کے ازم کے نظریے سے کام نہیں کرنا چاہئے مگر حقیقت تو یہی ہے کہ ہر ایک سیاسی جماعت اپنے مفاد کے نظریے سے کام کرتی ہے۔ جہاں تک قومی سطح پر یا پھر کسی ریاستی سطح پر مسلمانوں کے مسائل کو نظر انداز کرنے کا سوال ہے یا پھر مسلمانوں کے سیاسی وجود کو تسلیم نہیں کرنے کا مسئلہ ہے تو میری نگاہ میں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو انضمام کی سیاست چھوڑکر اشتراک کی سیاست کرنی چاہئے۔ جہاں کہیں بھی مسلمانوں نے کسی دوسری سیاسی جماعت میں انضمام سے پرہیز کیا ہے اور اشتراک کو اولیت دی ہے، وہاں ان کے مسائل نہ صرف حل ہوئے ہیں بلکہ ان کا سیاسی وجود بھی مستحکم ہوا ہے۔ جموں وکشمیر کو چھوڑ دیجئے کہ وہاں کوئی بھی سیاسی جماعت مسلمانوں کے سیاسی وجود کی منکر نہیں ہوسکتی کیوںکہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔لیکن دوسری ریاستوں میں جہاں کہیں مسلمانوں نے اشتراک کی حکمت عملی اپنائی ہے وہاں مسلمانوں کا سیاسی وقار بلند ہوا ہے۔ اس کی ایک تاریخی مثال کیرل ہے، جہاں آزادی کے بعد مسلم لیگ نے یہ ثابت کردیا کہ وہ اشتراکیت کی حکمت عملی کے ذریعہ مسلمانوں کے مسائل کو حل کرائے گی۔ واضح ہوکہ آزادی کے بعد ہندوستان میں مسلم لیگ کے تئیں برادر وطن کا نظریہ کیا تھا اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود کیرل کے مسلمانوں نے مسلم لیگ کی صورت میں اپنے سیاسی وقار کو بلند رکھا اور اپنے مطالبوں کے بنیاد پر کسی بھی حکومت میں اشتراکیت قبول کی۔ کبھی بھی کیرل کے مسلمان کسی سیاسی پارٹی میں ضم ہونا قبول نہیں کیا نتیجتاً آج پورے ملک میں کیرل کا مسلمان زندگی کے تمام تر شعبہ میں نسبتاً زیادہ مستحکم حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح آندھرا پردیش اور اب تلنگانا میں حیدرآباد کے مسلمانوں نے بھی یہ ثابت کیا کہ مسلمان اشتراک کی سیاست کے ذریعہ ہی اپنے مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔ وہاں کی سیاسی جماعت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین یعنی اویسی کی پارٹی نے اشتراک کی سیاست کے ذریعہ پوری ریاست میں مسلمانوں کے سیاسی وجود کو استحکام بخشا ہے۔ لیکن اتر پردیش، مغربی بنگال، آسام اور بہار میں ہمیشہ مسلمانوں نے انضمام کی سیاسی پالیسی کو اپنی گرہ سے باندھے رکھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان ریاستوں میں کبھی بھی کوئی مسلم لیڈر ابھر کر سامنے نہیں آسکا کہ جو مسلمانوں کی وکالت کرسکے۔ المیہ تو یہ ہے کہ کانگریس کے زمانے میں مسلمانوں کا لیڈر بہار میں ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا تھے تو بعد کے دنوں میں لالو پرساد اور پھر نتیش کمار ہوئے۔ اسی طرح اتر پردیش میں ملائم سنگھ کو مولانا ملائم سنگھ سے خطاب کیا جانے لگا۔ ظاہر ہے کہ جب کسی طبقہ کا کوئی لیڈر ہی نہیں ہوگا تو پھر جمہوریت میں اس کی آواز تو صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہی رہے گی۔ 

اگر آج بہار میں مسلمان انضمام کی سیاسی پالیسی کو چھوڑ کر اشتراکیت کی حکمت عملی اپنانے لگیں تو خواہ کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو وہ مسلمانوں کو حاثیے پر نہیں رکھ سکتی۔ مگر المیہ یہ ہے کہ بہار یا اتر پردیش کے مسلمانوں نے کبھی اس نکتہ پر غور ہی نہیں کیا کہ ہم انضمام کی سیاسی گلی سے نکل کر اشتراک کی سیاست کی آزاد فضا تیار کریں۔ بہار میں سیمانچل کے مسلمان اگر چاہتے تو وہ اشتراک کی سیاست کی شروعات کرسکتے تھے۔ آج اگر ان کے اپنے قائد ہوتے تو ان کے بہت سارے دیرینہ مسائل کب کے حل ہوگئے ہوتے۔ اسی طرح دوسرے علاقے میں بھی جہاں مسلمانوں کی آبادی فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے وہاں وہ اپنی لیڈرشپ پیدا کرسکتی ہے۔اگر بہار، اترپردیش، آسام اور مغربی بنگال میں اشتراک کی سیاسی فضا قائم ہو تو پھر ان ریاستوں میں مسلمانوں کے مسائل کو اس طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس طرح اب تک کیا جاتا رہا ہے۔سیمانچل میں اخترالایمان نے اشتراک کی سیاست کی پہل کی ہے، اگرچہ وہ حالیہ اسمبلی انتخاب میں ناکام رہے ہیں لیکن وہ دن دور نہیں کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوںگے کہ اب مسلمانوں کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ مبینہ سیکولر پارٹیاں کس کس طرح ان کا سیاسی استحصال کررہی ہیں۔ صرف فرقہ پرستی اور فساد کے خوف سے مسلمان اگر انضمام کی سیاست کو فروغ دیتے رہیں گے تو ایک دن ان کا وجود ہی ختم ہوکر رہ جائے گا۔ یوں تو آج بھی بس ظاہری طور پر مسلمان کے سیاسی وجود کا اعتراف کیا جارہا ہے مگر باطن میں مسلمانوں کے سیاسی وجود کے تئیں منفی نظریے کو فروغ دیا جارہا ہے جو ایک جمہوری نظام حکومت میں ایک خاص طبقے کے لئے بہت ہی مضر ہے،  اس پر غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں میں اس مفروضے کو بھی رد کرتا ہوں کہ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان اپنی کوئی الگ سیاسی جماعت بناکر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ مذکورہ آسام، کیرل اور حیدرآباد میں مسلمانوں نے ایک سیاسی جماعت کے ذریعہ اپنے وجود کا پرچم بلند کیا ہے۔ اس لئے ہمیں اس خوف سے بھی باہر نکل کر اور سیکولر ذہن کے لوگوں کے ساتھ متحد ہوکر ایک سیاسی پلیٹ فارم تیار کرنا چاہئے کہ وقت کا تقاضہ یہی ہے۔    

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 530