donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Taleem Ke Sath Urdu Ke Istemal Ke Liye Sanjida Koshish Zaruri


تعلیم کے ساتھ اردو کے استعمال کے لئے سنجیدہ کوشش ضروری


٭ڈاکٹر مشتاق احمد

موبائل:9431414586 


کسی بھی زبان کی ترقی کے لئے یہ لازمی ہے کہ اس زبان کی تعلیم کا معقول انتظام ہو اور اس کے استعمال کے لئے بھی ماحول سازگار ہو، کیوںکہ زبان کے فروغ کا انحصار صرف تعلیم پر ہی نہیں ہے بلکہ اسے عوامی سطح پر مقبولیت ضروری ہے اور اس کے لئے اسے اظہار کا وسیلہ بنایا جانا چاہے۔بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے ، اس لحاظ سے اس کی تعلیم کے انتظامات کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ جبکہ زبان کو مقبول بنانے میں اردو آبادی ہی کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ جہاں تک پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک میں اردو تعلیم کے نظم کا سوال ہے تو اس معاملے میں حکومت کی کوتاہ دستی عیاں ہے کہ اب تک صد فیصد پرائمری سطح کے اسکولوں میں بھی اردو کی تعلیم کا نظم مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ اسی طرح ثانوی درجے کے اسکولوں میں بھی اردو اساتذہ کی کمیوں کی شکایتیں ملتی رہتی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں بھی سیکڑوں ایسے کالج ہیں کہ جہاں اردو کی پوسٹیں ہی منظور نہیں ہیں، لہٰذا وہاں اردو کی تعلیم کا فقدان ہے۔ واضح ہوکہ بہار میں اس وقت 10یونیورسیٹیوں کے تحت 225 سرکاری کالجز ہیں جبکہ اس سے زیادہ نجی ملحقہ کالج بھی ہیں۔ سرکاری کالجوں میں اردو اساتذہ کی بحالی اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب وہاں اردو کی پوسٹ منظور ہوں۔ مثال کے طور پر بہار کی للت نارائن متھلا یونیورسٹی ، دربھنگہ میں 43سرکاری کالج ہیں جن میں 9ایسے کالج ہیں جہاں اردو اساتذہ کی پوسٹیں منظور نہیں ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان کالجوں میں اردو طلبا داخلہ تو لیتے ہیں لیکن وہ چاہ کر بھی اردو مضمون نہیں رکھ پاتے ہیں۔ حال ہی میں موتیہاری میں مہاتما گاندھی سینٹرل یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا ہے۔ گزشتہ دنوں اس کا افتتاح بھی ہوا لیکن اس یونیورسٹی میں بھی اردو کی پوسٹیں منظور نہیں کی گئی ہیں۔ مقامی سطح پر اس کے لئے تحریک بھی شروع ہوئی ہے اور مختلف تنظیموں کی طرف سے حکومت کو عرضداشتیں بھیجی گئی ہیں کہ اس سینٹرل یونیورسٹی میں اردو تعلیم کا نظم کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس نومولود یونیورسٹی مرکزی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے۔ اس لئے جب تک مرکزی حکومت پر دبائو نہیں ہوگا اس وقت تک اردو کے لئے پوسٹ منظور ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے بہار کے جملہ ممبران پارلیامنٹ جب تک اس مسئلہ کو حکومت تک نہیں پہنچائیںگے بالخصوص مرکزی وزیر تعلیم تک بات نہیں پہنچے گی اس وقت تک شاید یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکے گا۔ کیوں کہ ابھی معاملہ تشکیلی دور میں ہے اور یونیورسٹی میں کئی شعبے کا وجود میں آنا باقی ہے اس لئے اردو کے لئے بھی راستہ ہموار ہوسکتا ہے ورنہ بعد میں نئے شعبے بالخصوص اردو کے شعبے کا کھلنا کار محال ہوجائے گا۔جس طرح بہار کے سیکڑوں کالجوں میں اردو کے اساتذہ کی بحالی کا مطالبہ تو آئے دن ہوتا رہتا ہے لیکن اس کے لئے جو سرکاری سطح پر لائحہ عمل تیار ہونا چاہئے وہ نہیں ہوپاتا ہے۔ اس کی وجہ سے آج تک ان کالجوں میں اردو کی تعلیم کا راستہ نہیں کھل سکا۔ 

بہرکیف! اپنی طرف سے اردو آبادی کی تحریک چلتی رہنی چاہئے کہ جمہوریت میں بغیر مطالبے کے کسی مسئلہ کا حل ممکن نہیں۔ لیکن ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ اردو رسم الخط کو عام کرنے یا پھر اس زبان کو رابطے کی زبان بنائیں رکھنے میں حکومت سے کہیں زیادہ اردو آبادی کی ذمہ داری ہے۔ مگر افسوس کہ اردو رسم الخط کو عام کرنے کی روش دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے اور وسیلہ اظہار کے طور پر بھی اس کا استعمال کم ہوتا جارہا ہے۔ ہم اپنی مجلسوں میں اردو میں گفتگو کرنا کسر شان سمجھنے لگے ہیں اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی اور ہندی کے استعمال کو اپنی دانشوری سمجھنے لگے ہیں۔ ہم حکومت سے تو یہ مطالبہ ضرور کرتے ہیں کہ سرکاری دفاتر کے بورڈ اردو میں لکھے جائیں لیکن ہمارے اردو طبقے کی دکانوں کے سائن بورڈوں سے اردو غائب رہتی ہے۔ اب تو شادی ودیگر تقاریب کے کارڈ سے بھی اردو عنقا ہورہی ہے۔ ایسی صورت میں اردو تعلیم تو متاثر ہوگی ہی کیوںکہ جب تک وسیلہ اظہار کی زبان اردو نہیں ہوگی اس وقت تک اردو تعلیم کی اہمیت مسلم نہیں ہوسکتی ۔ پھر اردو رسم الخط سے بیزاری بھی اردو تعلیم کی راہوں کو دشوار کررہی ہے۔ نئی نسل جو نجی اسکولوں میں پڑھ رہی ہے وہ اردو کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے تو اس میں ہم گارجینوں کا ہی قصور ہے۔ اگر انگریزی میڈیم اسکولوں میں اردو تعلیم کا نظام نہیںہے تو جس طرح ہم اپنے بچوں کو سائنس وحساب کا ٹیوشن دیتے ہیں اسی طرح اردو کیلئے بھی اردو اساتذہ کی خدمات لی جاسکتی ہیں۔ لیکن اس کی طرف ہماری توجہ کم ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج نئی نسل اردو سے کٹتی جارہی ہے۔

غرض یہ کہ ایک طرف حکوت جانے انجانے اردو تعلیم کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے تو دوسری طرف اردو آبادی بھی اس زبان کے فروغ کے جو تقاضے ہیں اسے پورا کرنے میں ناکام ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب اردو آبادی ہی سرکاری دفاتر میں اردو کی درخواستیں نہیں دیںگی تو پھر سرکاری محکموں میں اردو کا چلن کیسے عام ہوگا۔ اسی طرح اگر اردو آبادی روزمرہ میں اردو کا استعمال نہیں کرے گی تو اس کے دائرہ کا تو محدود ہونا فطری عمل ہے۔ اس لئے اگر واقعی اردو آبادی یہ چاہتی ہیں کہ اس کے تہذیب وثقافت کی شناخت زندہ رہے تو اس کے لئے اردو آبادی کو اس کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال کے تئیں بھی سنجیدہ ہونا ہوگا۔ اردو کے ایک نامور شاعر میجر بلبیر سنگھ کی ایک بات مجھے ہمیشہ یاد آتی رہتی ہے کہ وہ اکثر کہتے ہیں کہ اردو کے بارے میں گفتگو کرنے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اردو میں گفتگو کی جائے۔ظاہر ہے یہ جملہ لسانی فروغ کے لئے نسخہ کیمیا کی حیثیت رکھتا ہے۔ حال ہی میں اردو ڈائرکٹر ایٹ محکمہ راج بھاشا حکومت بہار کے ڈائریکٹر امتیاز کریمی نے یہ اعلان کیا ہے کہ ان کا شعبہ دیگر سرکاری محکموںکے اردو خطوط کے تراجم کا کام کرے گی۔ اب اردو آبادی کا یہ فریضہ ہے کہ وہ سرکاری محکموں میں اردو میں درخواستیں دیں تاکہ اردو زبان کی ترقی کا راستہ ہموار ہوسکے۔ اگر واقعی اردو آبادی اپنی زبان اور رسم الخط کو زندہ رکھنا چاہتی ہے تو اسے صرف حکومت پر منحصر نہیں رہنا چاہئے بلکہ اس کے لئے خود کو  بھی جہد مسلسل کا علمبردار بنانا چاہئے۔ کیوں کہ ہمارے ملک کی ایک کلاسیکی زبان سنسکرت اگر آج ملک میں ہی ناآشنا بن گئی ہے تو اس کی وجہ اس زبان کے بولنے والوں کا اس زبان سے کٹ جانا ہے ورنہ حکومت کی جانب سے تو سنسکرت کے فروغ کیلئے سرکاری خزانے پانی کی طرح بہائے جارہے ہیں، جبکہ اردو کے معاملے میں تو نقشہ ہی الٹ ہے۔ 

اب جبکہ اردو کا دائرہ ایک خاص طبقے تک سمٹ کر رہ گیا ہے بلکہ صاف طور پر یہ کہنا چاہئے کہ خاص علاقے کے مسلم طبقے تک محدود ہوگیا ہے تو مسلم معاشرے میں اردو تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کے لسانی تشخص کیلئے کوشش ہونی چاہئے اور سرکاری مراعات کے ساتھ اپنی جیب خاص سے بھی اس کے لئے کچھ کرنے کا مزاج بنانا چاہئے۔ کیوں کہ اردو ہماری مذہبی زبان نہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے مذہب کی بہت سی وراثت کی محافظ ضرو ر ہے۔

**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1033