donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Saleem Khan
Title :
   Gajender Se Jagender Tak : Qalbe InsaN Se Khoda Banne Ki Khwahish Na Gayi

گجیندر سے جگیندر تک ۰۰۰۰

قلب انساں سے خدا بننے کی خواہش نہ گئی


ڈاکٹر سلیم خان


اتر پردیش کے شاہجہاں پور میں جگیندر سنگھ نامی صحافی کودن دہاڑے زندہ جلا دیا گیا لیکن فلمی اداکاروں کی مانند ہر گھنٹے میں دو مرتبہ اپنے کپڑے بدلنے والے قومی ذرائع ابلاغ میں سے کسی ایک کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ واردات کے فوراً بعداس خبر کو اپنی ویب سائٹ پر شاہ سرخی بناتا۔ خبروں کیچینل پر  شام کواسے  بحث کا مرکزی موضوع بنایا جاتا۔ اخبار کے پہلے ص?فحے پر ان کی تصویر اور خبر شائع ہوتی۔   اپنی ہی برداری کے فرد پر  ہونے والے اس حملے کے خلاف کوئی احتجاج تو درکنار میڈیا والوں نے اسے عام ا?دمی پارٹی کے جلسہ عام میں  خودکشی کرنے والے گجیندر سنگھ جتنی بھی اہمیت بھی نہیں دی۔جگیندر سنگھ کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک پر قومی میڈیا کا ردعمل سلمان خان کی گرفتاری اور ضمانت کو لے کر پیدا کئے جانے والے ہیجان کے مقابلے عشرِ عشیر بھی نہیں تھا۔ بے شمارمضامین، قیاس آرائیاں ، تبصرے، فلمی و غیر فلمی ہستیوں کی جانب سے اس کی حمایت و ستائش اور تصاویر کا جو طوفان بدتمیزی ایک مجرم کی گرفتاری کو لے کر برپا کیا گیا تھا ایسی کوئی گرم جوشی یکم جون کو  ذرائع ابلاغ میں نظر نہیں ا?ئی تھی۔ میڈیا کی یہ عیاری وسرد مہری  اس شعر کی مصداق تھی کہ

ہیں اس کی آستیں میں ابھی لاکھ شعبدے             جلْ دے نہ جائے وقت کا عیار دیکھنا

جگیندر سنگھ کا معاملہ پرسب سے پہلے  سوشیل میڈیا میں غم و غصہ کا اظہار ہوا اس کے بعد نیویارک کی صحافتی آزادی کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی بین الاقومی تنظیم سی پی جی(کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ)اور امنیسٹی  انٹر نیشنل جیسی حقوق انسانی کی تنظیموں صدائے احتجاج بلند کی اور اس  کے بعد ہی سیاسی و انتظامی گلیارے میں ہلچل مچی۔ ورما کے چار ساتھی اور مقامی پولس افسر سری پرکاش رائے  اور چار پولس والوں کے خلاف شکایت درج ہوئی  اور انہیں معطل کردیا گیا لیکن وزیر موصوف اس مضمون کے لکھے جانے تک فرار ہے۔ اس دوران ذرائع ابلاغ میں  راوی چین لکھتا رہا۔ نامہ نگارتومرکی گرفتاری، بنگلا دیش کی یاترا اور میامنار کی فوجی کارروائی کی  جھوٹی سچی حکایات و تصاویرنشر کرتے رہے۔ اسے اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ :

•    جگیندر سنگھ کون تھا؟
•    اس  کا قصور کیا تھا؟
•    اسے کس بات کی یہ سزادی گئی؟
•    اس کو سزا دینے والا کون تھا ؟
•    کس کے ایمائ￿  پر اسے اپنی جان گنوانی پڑی؟

جگیندر کی موت کے تیرہویں دن اچانک ایک آتش فشاں پھٹ پڑا اور ساری  دنیامندرجہ بالا  سوالات کا جواب سے واقف ہو گئی۔  لیکن وہ بنیادی سوال کہ کیاجگیندر کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا ملے گی؟ اس کا جواب کوئی نہیں جانتا۔ قیاس کی بنیاد پر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ سیاسی نظام میں اس کے امکانات مفقود ہیں۔ جگیندر ایک مقامی اخبار کیلئے کام کرتا تھا اور شاہجہاں پور سماچار کے نام سے ایک ای اخبار بھی نکالا کرتا تھا۔ گزشتہ دنوں اس نے مقامی رہنما رام مورتی ورما پر سنگین الزامات اپنے فیس بک صیفحہ پر لگائے۔ ورما پر جبراً زمینوں پر قبضہ اوروہ  آنگن واڑی میں کام کرنے والی ملازمہ کی اپنے غنڈوں کے ساتھ اجتماعی عصمت دری میں ملوث ہونے کا الزام  بھی ہے۔ ان انکشافات کے سبب جگیندر پر ورما کے ساتھیوں نے ۸۲ اپریل کو حملہ کردیا جس  کی شکایت درج کرانے کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود اس کے خلاف ایک فرضی مقدمہ درج ہو گیا۔  ۲۲مئی کو جگیندر سنگھ نے اپنے فیس بک پیج پر جو کچھ  لکھا تھا وہ اس کی حالتِ زار کا عکاس و ترجمان ہے۔ انہوں نے لکھا تھا:

’’رام مورتی سنگھ ورما میرا قتل کرواسکتے ہیں۔اس وقت سیاستداں، غنڈے اور پولس سب میرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ سچ لکھنا زندگی پر بھاری پڑ رہا ہے۔ رام مورتی ورما کے کچھ کارناموں کا انکشاف کیا تو حملہ کرادیا۔ ان کے لوگوں کے خلاف رپورٹ درج کرائی تو ان کے ایک ساتھی امیت نے میرے خلاف لوٹ، اغوا اور قتل کی کوشش کی شکایت درج کروادی۔۲۸ اپریل کے حملے میں میرے پیر کاپنجہ ٹوٹا تھااور پلاسٹر چڑھا ہواتھا۔  اب پولس کو کون سمجھائے کہ پیر ٹوٹا آدمی اغوائ￿  تو دور  مارپیٹ بھی کیسے کرسکتا ہے۔  اب پولس میرے گھر کی ایسے نگرانی کررہی ہے جیسے میں کہیں سے ڈکیتی ڈال کریا قتل کرکے بھاگ ا?یا ہوں۔ ڈی جی پی ، داخلہ سکریٹری اور ڈی ا?ئی جی بریلی سب سے ملا اور میرے خلاف درج شکایت کے جانچ کامطالبہ کیا مگر ایسا لگتا ہے کہ سپا  (سماجوادی پارٹی)سر کار میں سارے افسر وزیر کے دباو میں ہیں۔باوثوق ذرائع سے اطلاع مل رہی ہے کہ ریاستی وزیر ورما میرے قتل کی سازش رچارہے ہیں اور جلد ہی کچھ غلط ہونے والا ہے‘‘۔

جگیندر نے جس اندیشے کا اظہار کیا تھا  وہ ۹ دن بعد یکم جون کو حقیقت بن گیا ۔نذرِ آتش کردئیے جانے کے ایک ہفتہ بعد ۸ جون کو  لکھنوکے کنگ جارج ہسپتال میں انہوں نے دم توڑ دیا۔ پولس کا بیان ہے کہ جب وہ گرفتار کرنے کیلئیجگیندر کے گھر گئی تو اس نیاز خود اپنے آپ کو آگ میں جھونک دیا۔ کیا کوئی نڈر صحافی جو اعلیٰ سرکاری افسران سے بذاتِ خود ملاقات کرچکا ہو پولس کی گرفتاری کے خوف سے خودسوزی پر آمادہ ہوسکتا ہے؟ موت سے قبل مجسٹریٹ کے سامنے جگیندر سنگھ نے جو ویڈیو بیان دیا ہے اب وہ ذرائع ابلاغ میں ا?چکا ہے۔ اس ویڈیو میں زخموں سے چور تڑپتے لرزتیجگیندر کو دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔موت سے قبل اپنے آخری بیان میں  جگیندر نیکہا  تھاکہ کوتوال سری  پرکاش رائے  چارپانچ  پولس والوں کے ساتھ دیوار پھاند کر ان کے گھر میں گھس آیااور اس پر پٹرول ڈال کر اسے آگ لگا دی۔ جگیندر یہ  دہکتا ہوا سوال چھوڑ کر اس دارِ فانی سے کوچ کرگیا کہ مجھے گرفتار کرنا تھا تو گرفتار کرلیتے مارا کیوں اور جلایا کیوں؟‘‘ جگیندر کی حالت زار ان اشعار کی مصداق ہے?

آگ بھڑک کر بجھ بھی چکی پر اب بھی دھواں سا اٹھتا ہے

            امیدیں  دم توڑ  چکی ہیں لیکن  حسرت باقی  ہے

بات کسی  کے  جوروستم  کی  صاف  نہ کہنی تھی  ہم  کو

            اب تک ان کے شیشہ  دل پر بارِ کدورت باقی ہے

اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد ہی قومی ذرائع ابلاغ کا ضمیر بیدار ہوا جبکہ اس اندو ہناک واردات کو ۱۳ دن گزر چکے ہیں۔ یہ ایک ایسی ویڈیو ہے کہ جسے دیکھ کر پتھر بھی پگھل جائے لیکن تاحال یعنی جگیندر کی موت کے پانچ دن بعد تک  اترپردیش کے سنگدل وزیراعلیٰ اکھلیش یادو کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ وزیراعلیٰ بیرونی دبائومیں تو ہیں لیکن ان کا ضمیر ہنوز موت کی نیند سورہا ہے اور وہ اپنے وزیرورما کو برخواست کرنے سے کترا رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ملزم ورما کا تو ابھی تک بال بیکا نہیں ہوا لیکن ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے والے سماجوادی پارٹی کے سابق رکن اسمبلی دیویندر سنگھ کو پارٹی سے معطل کردیا گیا۔ اسے کہتے ہیں مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ  جس پر کارروائی ہونی چاہئے ا سے بچایا جارہا ہے اور جس کو انعام دیا جانا چاہئے اسے سزا دی جارہی ہے۔ حکومت اترپردیش پران واقعات الٹا اثر ہورہا ہے سنا ہے شاہجہاں پور سے ڈھائی سے کلومیٹر دور شراوستی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران آئی بی این کے نامہ نگارسنتوش کمار وشواکرما نے یوپی کے سب سیطاقتور وزیرشیوپال یادو  سے سوال کرلیا کہ کیاان کے بھتیجے وزیراعلیٰ کا سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود سرکاری اشتہار پر اپنی تصویر چھپوانا درست ہے؟ اس سوال پر شیوپال اس قدر ناراض ہوئے کہ ڈی ایم کے ذریعہ سنتوش پر کارروائی کی سفارش کروادی۔

 رام مورتی ورما کی بہ نسبت  شیوپال یادو بہت زیادہ بارسوخ سیاستداں ہیں۔ اس لئے اگر سنتوش وشواکرما کے ساتھ بھی خدانخواستہ کوئی اونچ نیچ ہو جائے تو یہ نخوت  سماجوادی پارٹی  کو بہت مہنگی پڑے گی۔ اس دوران باندہ ضلع سے بھی ایک شخص کو گھر میں گھس کر مارنے کی خبر ملی ہے جس کو حملہ آوروں نے گھر میں ہی جلادیا۔ اس قتل کا سبب متوفی کے گھر والیسماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی وشمبھر یادو کی رنجش بتاتے ہیں۔ سماجوادی پارٹی ایک اور بڑے رہنما رام گوپال یادو سے جب اس بابت استفسار کیا گیا تو آنجہانی جگنیدر کیلئے ایک ہمدردی کا بول ان زبان سے نہیں پھوٹا مگر اپنے ساتھی  ورما کے بچاو میں وہ  بولے صرف ایف ا?ئی ا?ر کے درج ہو جانے سے کیا ہوتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ جگیندر کے خلاف بھی تو صرف ایف آئی آر ہی درج ہوئی تھی  ایسے میں کوتوال پانچ جوانوں کے ساتھ ان کے گھر پر کیوں جا دھمکا اور انہیں ایسے اندوہناک انجام سے دوچار کیوں کیا؟  اقتدار کا نشہ اچھے اچھوں کوکبرو غرور کا شکار کرکے ان کا دماغ خراب کر دیتا ہے بقول شاعر?

قلب انساں سے خدا بننے کی خواہش نہ گئی

  گرچہ واقف ہے کہ اس جرم کی تعزیر بھی ہے

 جب بھی اقتدار کے حامل سیاستداں زبان حال یا قال سے خدائی کی دعویٰ کرتے ہیں مشیت کی تعزیر کا کوڑا ان پر برستا ہے لیکن افسوس کہ کوئی اس سے سبق نہیں سیکھتا۔ سماجوادی پارٹی کے سابق رکن پارلیمان متھلیش کمارجب مگر مچھ کے ا?نسو بہانے کی خاطر جگیندر سنگھ کے پسماندگان سے ملنے کیلئے گئیتو انہوں نے جو کچھ کہا وہ اقتدار کی نفسیات ترجمان ہے۔ جگیندرکے بیٹے راہل کے مطابق سابق وزیر نے فرمایا ’’ یہ خیال سے دل نکال دو کہ مقدمہ دائر کردینے سے وزیر گرفتار ہو جائیگا۔ وہ تواسی وقت گرفتار ہوگا جب پولس اسے قصور وار پائے گی(گویا ایسا تو کبھی نہیں ہوگا)۔ کوئی وزیر بھلا اس طرح کا طریقہ? کار کیوں اختیار کرے گا وہ بھی پولس کی مدد سے۔ اگر پولس واقعی تمہارے والد کوجلانا چاہتی توتمہارے گھر کے بجائے تھانے کے اندر یہ کرسکتی تھی‘‘۔

راہل نے یہ بھی بتایا کہ سابق وزیر نے کہا’’تمہارا باپ بلیک میلر تھا جو ماضی میں  میرے خلاف بھی لکھ چکا ہے اور اب وزیر کے خلاف کے خلاف غیر ضروری باتیں لکھ رہا تھا۔ بہتر یہی ہے کہ تم جذبات میں آنے کے بجائے ذمہ داری کے ساتھ کام کرو اور اپنے خاندان کے مفاد کا خیال کرو‘‘۔اس طرح کے واقعات عوام الناس پر یقیناً اثر انداز ہوتے ہیں۔  اس حرکت کا جو نتیجہ نکلنا تھا سو نکلا  وہاں موجود لوگوں نیمتھلیش کمار کو دھتکار کر بھگا دیاآخر  منافقت اور غنڈہ گردی  کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ راہل نے اخبارنویسوں کو بتایا اگر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ میرا باپ بلیک میلر تھا یا نہیں تو ہمارے گھر کو دیکھے۔ ہم اپنے دادا کے گھر میں رہتے ہیں جہاں نہ ٹی وی ہے اور نہ انورٹر۔ یہ جاننے کیلئے  کہ انہوں نے بلیک میلنگ سے کتنا روپیہ کمایاہے آپ لوگ ان کا بنک اکاوٗنٹ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ راہل کا بیان خون کے آنسو رلاتا ہے۔

  اس طرح کی ظلم و زیادتی کے خلاف عوام کے ردعمل کا ظاہر ہونا  ا?نا فطری ہے وہ اپنے غم و غصہ کا اظہار کرکے رہتے ہیں۔  حیرت کی بات یہ ہے بی جے پی والے ابھی تک جگیندر کے گھر نہیں پہنچے ورنہ اس طرح کی صورتحال کا فائدہ اٹھانے میں وہ پیش پیش ہوتیہیں۔ہمیں اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ اچھے بھلے لوگ بھارتیہ جنتا پارٹی جیسی فرقہ پرست جماعت کو کیوں کامیاب کردیتے ہیں؟  اس میں بی جے پی کا کوئی کارنامہ نہیں ہوتا بلکہ فسطائی قوتیں اس طرح کے حالات کا فائدہ اٹھا کر عوام کو اپنا ہمنوا بنا لیتی ہیں۔ جگیندر کے دو بیٹے اور بیوی اس وقت گھر میں موجود تھے   جب ان کو زندہ جلانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ بے دست و پا کردئیے گئے تھیوہ اس واردات  کا چشم دید گواہ ہیں۔   

اس سلسلے میں الہ باد ہائی کورٹ کے اندر ایک  عوامی مفاد کا ایک قضیہ(پی آئی ایل) داخل کیاگیا ہے  جس میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ اس معاملے کی غیر جانبدار تفتیش کروائی جائے۔ چونکہ اس میں ریاستی حکومت کا وزیرملوث ہے نیز پولس ریاستی حکومت کے تحت ہے ، وہ خود اپنے افسران  اور اپنی حکومت کے خلاف مبنی بر انصاف تفتیش نہیں کرسکتی اس لئے مرکزی تفتیشی ایجنسی کو یہ ذمہ داری سونپی جائے۔ ویسے سی بی آئی بھی چونکہ متحارب جماعت کی آلہ کار ہے اس لئے اس سے بھی انصاف کی توقع مشکل ہے۔ اس طرح ہردو صورت میں جانبداری تو ہوگی لیکن متاثرین کیلئے سی بی آئی تفتیش میں عافیت ہے اس لئے ہیکہ حبِّ علی میں نہ سہی تو  بغض ِ معاویہ میں حقائق سامنے آجائیں گے۔ پی آئی ایل میں پسماندگان کیلئے خاطر خواہ معاوضہ کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

قومی سیاست میں جو انحطاط فی الحال دکھائی دیتا ہے اس کا آغاز اس وقت ہوا جب سیاستدانوں نے اپنے مخالفین کی آواز دبانے کیلئے جرائم پیشہ افراد کا استعمال شروع کیا۔ انتظامیہ ایسے مجرمین کا تحفظ کرتا تھا۔ آگے چل کر وہ جرائم پیشہ لوگ  سیاست میں ا?گئے۔ پولس والوں سے ان کے تعلقات پہلے ہی استوار ہوچکے تھے اس لئے انہوں نے اپنے مخالفین کے خلاف پولس کا استعمال شروع کردیا۔ اس کا سب سے مو ثر اوربھیانک استعمال گجرات کے اندر ہوا۔ فساد کے دوران پولس نے بلوائیوں کی مدد کی اور کبھی کبھار ان کے شانہ بشانہ لوٹ مار میں بھی شریک ہوگئی۔ اس کے بعد پولس کے استعمال سے سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگایا گیا۔ پھر آگے چل کر بلڈرس کے اشارے پرسہراب الدین کا انکاو?نٹر کر دیا گیا۔ اس  جرم کے چشم دیدگواہ پرجا پتی کا کانٹا نکالنے کیلئے بھی پولس کا استعمال ہوااور عشرت جہاں کے معاملے میں ساری حدود و قیود کو پھلانگ دیا گیا۔  یہی وہ گجرات ماڈل ہے جس میں کئی اعلیٰ پولس افسران اور سیاستدانوں جیل کی ہوا کھانی پڑی۔

انتخابی سیاست کا یہ چمتکار ہے اس نے گزشتہ انتخاب اسی ماڈل کے راجہ جنک کو ملک کی باگ ڈور سونپ دی۔ اس کے بعد ایک ایک کرکے ملزم چھوٹنے لگے۔ ان کی ملازمت بحال ہونے لگی بلکہ ترقی بھی ہونے لگی۔  امیت شاہ جس کو گجرات سے تڑی پار کردیا گیا تھا وہ برسرِ اقتدار پارٹی کا صدر بنا دیا گیا۔ جس تفتیشی ایجنسی نے اس پر سنگین الزمامت عائد کئے تھیاس نے اپنا بیان بدل دیا اور اسے عدالتِ عالیہ نے کلین چٹ دے دی۔  مودی جی  مقبولیت دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کا ایک ثبوت سابق فوجیوں کے ملک گیرمظاہرے ہیں جن کی ابتدائ۱۴ جون کو ہو چکی ہے اور کل سے وہ بھوک ہڑتال کررہے ہیں۔ اس لئے کہ حکومت بنگلا دیش کی آزادی میں فوجیوں کے کردار کو سراہتی ہے۔ میامنار کے حملے کا کریڈٹ بھی لیتی ہے لیکن ایک عہدہ ایک پنشن کا مسئلہ حل نہیں کرتی بلکہ صرف وعدے کرتی ہے۔

 اس طرح کی بے عملی کی سزا مودی سرکار کو ضرور ملے گی اور اس کا قوی امکان ہے کہ آئندہ انتخاب میں پھر ایک بار کسی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہ  ہو۔  اس صورت میں  یہ بھی ہوسکتا ہے کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی  کی حمایت سے جنتا پریوار کے ملائم سنگھ یادو وزیراعظم بن جائیں۔ اگر یہ کرشمہ ہوجاتا ہے تو ممکن ہے وہ مودی جی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وہ رام مورتی ورما کو سماجوادی پارٹی کا صدر بنادیں۔ اسی کے ساتھ ان کے خلاف الزامات کا پٹارہ بند کردیا جائے اور عشرت جہاں و سہراب الدین کی مانند جگندر سنگھ کو بھی بھلا دیا جائے۔اس کے بعد  جس طرح فی الحال فسطائیت  اورہندوتوا کا ڈنکا بج رہا ہے سیکولرزم و سوشلزم  کی شہنائی بجادی جائے؟   ایسی صورتحال پر عنایت علی خان صاحب کا یہ شعر یاد آتا ہے۔

خزاں چمن سے چلی بھی گئی تو کیا ہوگا 

 پھر اک فریبِ بہاراں کا سلسلہ ہوگا

(یو این این)

**********************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 386